Home » مسئلۂ فلسطین اور مذہبی قیادت کا کردار
تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد

مسئلۂ فلسطین اور مذہبی قیادت کا کردار

مسئلۂ فلسطین بنیادی طور پر ایک سیاسی اور جغرافیائی تنازع تھا، جو وقت کے ساتھ مسلمانوں کے لیے ایک مذہبی اور جذباتی وابستگی کی بنیاد بن چکا ہے۔ اس تناظر میں، مذہبی قیادت نے گذشتہ کئی دہائیوں سے اس مسئلے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے اسے ایک خاص زاویے سے پیش کرنے کا رجحان پیدا کیا۔ اس بیانیے نے سیاسی تنازعات کو مذہبی تناظر میں ڈھال دیا، جس کے نتیجے میں مسلم دنیا کو خوں ریزی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات جیسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
اس بیانیے کے اثرات نے عالمی طاقتوں کے ساتھ مسلم دنیا کے تعلقات کو بھی خراب کیا اور ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ کا تاثر پیدا کیا۔ نتیجتاً، عالمی طاقتوں نے مسلمان مذہبی قیادت پر اعتماد کرنے سے گریز کیا اور انھیں عالمی امن کے لیے ایک ممکنہ خطرہ سمجھا۔ مزید برآں، وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کے پاس جو کچھ تھا، وہ غیر موثر حکمت عملیوں اور جذباتی بیانیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یہ صورت حال درحقیقت مذہبی قیادت کے بیانیے کی مکمل ناکامی کی عکاس ہے۔
اس لیے یہ ضروری ہے کہ مذہبی قیادت کے رویوں کا ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے۔ ان رویوں کی بنیاد تین بنیادی نکات کی غلط تفہیم پر ہے، جو نہ صرف فلسطینی جدوجہد، بلکہ مسلم دنیا کے مجموعی تشخص کو بھی ہر پہلو سے متاثر کر چکے ہیں۔
یہ تینوں رویے درج ذیل ہیں۔
1۔ سیاسی تنازعات کو مذہبی تناظر میں دیکھنا:
مسلم مذہبی قیادت نے فلسطین کے مسئلے کو خالص مذہبی فریم ورک میں پیش کیا، جس نے اسے ایک مذہبی جنگ بنا دیا۔

2۔ آئیڈیلزم کی بنیاد پر عالمی طاقتوں سے معاملہ کرنا:
عالمی سیاست کی عملی حقیقتوں کو نظرانداز کیا گیا اور مسئلۂ فلسطین کو تاریخ اور خالص انصاف کے اصولوں کی بنیاد پر پیش کیا گیا۔

3۔ عظمت رفتہ کی بازیافت اور زوال کا انکار:
اسلامی خلافت کے احیا اور عالمی طاقت بننے کے خواب کے زیر اثر، زمینی حقائق کو مکمل نظر انداز کیا گیا ۔

‘سیاسی تنازعات کو مذہبی جدوجہد کے طور پر پیش کرنا’

مذہبی قیادت نے فلسطینی تنازع کو ہمیشہ ایک مقدس جدوجہد کے طور پر پیش کیا ہے، جہاں یروشلم اور مسجد اقصیٰ کی مذہبی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے عوامی حمایت حاصل کی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تاریخی معاہدے اور اسلامی تاریخ کے دیگر حوالوں کو استعمال کرتے ہوئے مسئلے کو ایک مذہبی فرض کے طور پر پیش کیا گیا، جس نے عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اس بیانیے کا سب سے اہم منفی پہلو یہ رہا ہے کہ اس نے تنازع کی دیگر اہم جہتوں، جیسے انسانی حقوق اور سماجی انصاف کو نظرانداز کردیا۔ خالصتاً مذہبی بیانیے نے اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے بیانیے میں ڈھالنے کی سیاسی قیادت کی کوششوں کو ہر مرحلے پر نقصان پہنچایا۔ معروف مورخ برنارڈ لیوس کے مطابق، سیاسی تنازعات کو مذہبی دائرۂ کار میں محدود کر دینے سے یہ تنازع ایک عالمی انسانی مسئلے کے بجاےعلاقائی مذہبی تصادم کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
مزید برآں، مذہبی بیانیہ ہیومن ازم کے پس منظر میں وجود پذیر ہونے والی مغربی تہذیب کی کسی حمایت سے یکسر محرومی ہے۔
ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ فلسطینی کاز کو ایک انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر پیش کرنے سے مختلف ثقافتوں اور قوموں کو اس مسئلے کے ساتھ جوڑنے کے مواقع بڑھ سکتے تھے، لیکن مذہبی رنگ دینے کی وجہ سے یہ مسئلہ بین الاقوامی برادری کے ایک بڑے حصے کے لیے غیر متعلقہ بن گیا۔
اسی سلسلے میں کیرن آرمسٹرانگ کا موقف بھی ایک گہرے نفسیاتی اور سماجی زاویے کو پیش کرتا ہے، جہاں وہ مذہب کو تنازعات کے پس منظر میں دیکھتی ہیں۔ ان کے مطابق، جب کوئی تنازع مذہبی حیثیت اختیار کر لیتا ہے تو یہ مسئلے کو غیر معمولی شدت اور پیچیدگی عطا کرتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی تنازعات میں دونوں فریق اپنے موقف کو ’’حق و باطل‘‘ کی جنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ سوچ سمجھوتے اور مصالحت کی گنجایش کو ختم کر دیتی ہے اور تنازعات کو طول دینے کے ساتھ مزید خراب کر دیتی ہے۔
ارض فلسطین کے تاریخی پس منظر کو دیکھتے ہوئے، یہ بات واضح ہے کہ اس زمین سے مسلمانوں کے تعلق کی طرح یہود کا تعلق بھی نہایت قدیم اور گہرا ہے۔ تاہم، اسرائیل کا قیام کسی مذہبی فتح کا نتیجہ نہیں، بلکہ عالمی فاتحین کے فیصلوں کا نتیجہ تھا۔ غور کیا جائے تو دنیا کے بیش تر ممالک کی سرحدیں انصاف یا تاریخ کے اصولوں پر نہیں، بلکہ سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر طے کی گئی ہیں۔ ارض فلسطین میں یہود کو آباد کرنے کا فیصلہ بھی ان عالمی قوتوں نے کیا، جو اس خطے پر حکمران تھیں۔ اس فیصلے کو عالمی برادری نے قبول کیا اور یوں یہ معاملہ سیاسی حقیقت بن گیا۔
اس تنازع کے دو بنیادی فریق تھے:ایک طرف فلسطین کی مذہبی قیادت اور دوسری طرف عالمی سیاسی قوتیں اور ان کے پس منظر میں موجود عالمی برادری۔ بدقسمتی سے فلسطین کی مذہبی قیادت ان فریقوں کی صحیح پہچان کرنے میں ناکام رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس دشمن کو شکست دینے کا خواب دیکھا گیا، وہ کوئی ایک ملک یا سرحد میں محدود فریق نہیں، بلکہ ایک وسیع عالمی نظام اور طاقت ہے، جو دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے۔
یہ صورت حال اس بات کو اجاگر کرتی ہے کہ تنازعات کو مذہبی رنگ دینے کے بجاے عملی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے۔ کیونکہ سیاسی تنازعات میں مذہب کا عمل دخل نہ صرف مصالحت اور افہام و تفہیم کو مشکل بنا دیتا ہے، بلکہ مسائل کو مزید پیچیدہ اور لاینحل بنا دیتا ہے.

‘آئیڈیلزم کی بنیاد پر عالمی طاقتوں سے معاملہ کرنا’

فلسطینی قیادت کا دوسرا اہم مسئلہ یہ رہا ہے کہ انھوں نے عالمی طاقتوں کے ساتھ غیر حقیقت پسندانہ اور مثالی بنیادوں پر توقعات وابستہ کر لیں۔ مذہبی قیادت اور فلسطینی رہنماؤں نے انصاف، اخلاقیات اور تاریخی حقوق کی بنیاد پر اپنے موقف کو پیش کیا، جو اصولی طور پر درست ہونے کے باوجود بین الاقوامی سیاست کی حقیقتوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
بین الاقوامی تعلقات میں طاقت اور مفادات کا بنیادی کردار ہوتا ہے، جو محض اخلاقی دلائل سے متاثر نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر 1948 ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی دنیا، خاص طور پر امریکہ اور یورپ کی حمایت حاصل کی، جنھوں نے اسے ایک اسٹریٹیجک اتحادی کے طور پر دیکھا۔یہ مشرق وسطیٰ میں مغربی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے ریاست کے ذریعے سےخطے پر اثر و رسوخ بڑھانے کی ایک حکمت عملی تھی۔
اس کے برعکس، فلسطینی قیادت نے سفارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کے بجاے اصولی دلائل پر انحصار کیا۔ نوم چومسکی نے اس طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی قیادت کو عالمی طاقتوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے،جب کہ یہ معاملہ محض نا انصافی کے الزامات تک محدود رہا، جسے عالمی فاتحین نے کبھی درخود اعتنا نہ سمجھا۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ فلسطینی قیادت عالمی سیاست میں طاقت کے توازن کو سمجھنے میں مکمل ناکام نظر آئی، جس کی وجہ سے وہ دیگر طاقت ور ریاستوں، جیسے چین، روس اور غیر مغربی ممالک کی مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ ممتاز فلسطینی اسکالر رشید خالدی نے اپنے مقالات میں اس اہم نکتے پر روشنی ڈالی ہے کہ فلسطینی قیادت کو جنوبی افریقہ کی آزادی کی تحریک سے سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ جنوبی افریقہ کی قیادت نے عالمی سفارتی تعلقات کی پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے اپنے مقصد کے لیے عالمی حمایت کو متحرک کیا اور متوازن سفارتی حکمت عملی اپنائی۔خالدی اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ فلسطینی تحریک نے اپنی کوششوں کو زیادہ تر مغربی دنیا کے ردعمل اور امداد پر مرکوز رکھا، جب کہ دیگر عالمی قوتوں کو اپنے موقف کے لیے قائل کرنے کی کوشش کم کی گئی۔ یہ ایک ایسی کمی تھی، جس نے فلسطینی تحریک کو سفارتی میدان میں بالکل محدود کر دیا۔
اگر فلسطینی قیادت عالمی طاقتوں کی متنوع حمایت کو بہتر طریقے سے منظم کرتی تو یہ ممکن تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے ایک مضبوط اور موثر سفارتی محاذ بنا سکتی۔ ایسے ممالک جو نوآبادیاتی مظالم سے گزرے ہیں، جیسے چین اور افریقی ممالک، فلسطینی کاز کے لیے زیادہ قابل بھروسا اتحادی ثابت ہو سکتے تھے، لیکن ان تعلقات کو مضبوط بنانے کے بجاے مذہبی قیادت نے مسلح جدوجہد کے ذریعے سے تبدیلی کا خواب دیکھا، جس کی وجہ سے فلسطینی قیادت کی جدوجہد عالمی سطح پر اتنی موثر نہ ہو سکی، جتنی کہ جنوبی افریقہ کی تحریک تھی۔

‘عظمتِ رفتہ کی بازیافت اور زوال کا انکار’

1948ء، 1967ء اور 1973 ء کی جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست نے یہ واضح کر دیا تھا کہ موجودہ مزاحمتی حکمت عملیوں کے ذریعے سے طاقت کے توازن کو بدلنا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود، فلسطینی مذہبی قیادت نے مسلح جدوجہد کو اپنی بنیادی حکمت عملی کے طور پر برقرار رکھا، حالاں کہ زمینی حقائق مسلسل یہ دکھا رہے تھے کہ طاقت کا توازن ہمیشہ اسرائیل کے حق میں رہا ہے۔ اس مزاحمت نے نہ صرف فلسطینی عوام کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا، بلکہ اسرائیل کو اپنے اقدامات کا جواز فراہم کرنے کا موقع بھی دیا۔
اسی دوران میں اسرائیل نے سائنسی ترقی میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی، دفاع اور زراعت جیسے شعبوں میں۔ اسرائیل کی معیشت ’’اسٹارٹ اپ نیشن‘‘ کے طور پر دنیا میں اپنی جگہ بنا چکی ہے، جو اس کی تکنیکی برتری اور مضبوط معیشت کا ثبوت ہے۔ معروف فلسفی یووال نوح حراری کے مطابق، آج کی جنگوں اور طاقت کے توازن کا تعین ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی ترقی سے ہوتا ہے اور ان شعبوں میں مسلم دنیا کی موجودہ کارکردگی کا دیگر اقوام سے کوئی موازنہ ممکن نہیں۔
فلسطینی مذہبی قیادت نے طویل عرصے تک یہ خواب دیکھا کہ اگر تمام مسلم ممالک متحد ہو جائیں تو وہ اسرائیل کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ یہ قیادت فلسطینی عوام کو اس بات کا یقین دلاتی رہی کہ امت مسلمہ کی مشترکہ طاقت اسرائیل کو اسی طرح شکست دے سکتی ہے، جیسے ماضی میں مسلمانوں نے کئی اقوام کو شکست دی، لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ مسلم دنیا نہ صرف عالمی سیاست میں کم زور ہے، بلکہ اقتصادی، سائنسی اور عسکری شعبوں میں بھی مغربی دنیا اور اسرائیل کے مقابلے میں کہیں پیچھے ہے۔ اس خواب کی بنیاد پر عمل کرنا نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ثابت ہوا، بلکہ اس نے مسلمانوں کو ان کی موجودہ حیثیت اور حقیقی مسائل کو سمجھنے سے بھی محروم رکھا۔
آج اسرائیل کی فی کس جی ڈی پی کئی مسلم ممالک سے زیادہ ہے اور اس کی معیشت بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی ہے۔ دوسری جانب مسلم دنیا مجموعی طور پر عالمی معیشت میں محدود کردار ادا کرتی ہے اور بڑی طاقتوں پر انحصار کرتی ہے، جو اسرائیل کی حمایت میں اپنا موقف مضبوطی سے برقرار رکھتی ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے مذہبی قیادت نے عوام میں یہ تاثر قائم رکھا کہ مسلح جدوجہد ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے، حالاں کہ موجودہ حالات میں فلسطینی کاز کی کامیابی کے لیے طاقت کے عالمی توازن کو تسلیم کرنا اور سائنسی و معاشی ترقی کے ذریعے سے اپنے وسائل کو مضبوط بنانا زیادہ ضروری تھا۔
مزید برآں، فلسطینی قیادت کی مسلح جدوجہد نے اسرائیل کو اپنے مقاصد کے لیے ایک نیا جواز فراہم کر دیا۔ اسرائیل نے اپنی بقا کے نام پر نہ صرف سرحدوں کی توسیع کا خواب دیکھا، بلکہ اس کے لیے عالمی حمایت بھی حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں نے موجودہ عالمی نظام کو تشکیل دیا اور ان طاقتوں نے اسرائیل کی بقا کو اپنی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل کیا۔ نتیجتاً، ان طاقتوں نے فلسطینی مزاحمت کے ہر راستے کو روکنے کے لیے مکمل وسائل بروے کار لائے، جس سے فلسطینی عوام مزید مشکلات کا شکار ہوئے۔اورفلسطینی مذہبی قیادت کا جذباتی بیانیہ اور عظمت رفتہ کی بازیافت کا خواب نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ثابت ہوا، بلکہ اس نے فلسطینی عوام کو عالمی حقائق کے مطابق موثر حکمت عملی اپنانے سے بھی روکا۔

ہمارے نزدیک مسئلۂ فلسطین کا المیہ صرف زمین اور اقتدار کی جنگ نہیں، بلکہ نسلوں کی بقا اور اس کے خوابوں کی تباہی کی کہانی ہے۔ مذہبی قیادت کے ان رویوں نے اسے اس نہج پر پہنچا دیا ہے، جہاں اب دو قومی ریاستی حل بھی ایک خواب بن چکا ہے۔ اسرائیل کے تمام توسیع پسندانہ اقدامات کو فلسطینی قیادت نے خود اپنی غیر حقیقت پسندانہ حکمت عملیوں کے ذریعے سے ایک عالمی جواز فراہم کیا۔ حماس کے حالیہ اقدامات نے اس صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف فلسطین کو ایک شدید اور تباہ کن حملے کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ اسرائیل نے اس کی عملی حیثیت کو تقریباً مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔
ایران، لبنان اور شام جیسے روایتی حمایتی ممالک نے بھی عملی طور پر مذہبی قیادت سے اپنی حمایت واپس لے لی ہے، جس نے فلسطینیوں کو مزید تنہا کر دیا ہے۔ یہ نسل کشی ایک الم ناک حقیقت ہے، جس کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ مسلمان جو کچھ حاصل کر چکے تھے، اسے اپنی غلط تدابیر،عظمت کے زعم اور غیر موثر مسلح جدوجہد کی بھینٹ چڑھا بیٹھے۔
اب شاید دو ریاستی حل کا خواب بھی اپنی معنویت کھو چکا ہے اور امن کے امکانات ایک یک ریاستی حل میں سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ جذباتی نعروں اور غیر حقیقت پسندانہ خوابوں کو ترک کر کے ایک ایسی حکمت عملی اپنائی جائے، جو فلسطینی عوام کی بقا، عزت اور مستقبل کو محفوظ کر سکے۔ یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، بلکہ انسانیت کی ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ عقل و تدبر کے ذریعے سے ایک نیا راستہ تلاش کیا جائے، ورنہ تاریخ کے صفحات پر فلسطینی قوم کی جدوجہد ایک اور الم ناک داستان کے طور پر رقم ہو جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
1. Said, E. W. (1979). The question of Palestine. New York, NY: Vintage Books.
2. Lewis, B. (2003). The crisis of Islam: Holy war and unholy terror. New York, NY: Modern Library.
3. Chomsky, N. (1999). Fateful triangle: The United States, Israel, and the Palestinians (Updated ed.). Boston, MA: South End Press.
4. Khalidi, R. (2006). The iron cage: The story of the Palestinian struggle for statehood. Boston, MA: Beacon Press.
5. Harari, Y. N. (2014). Sapiens: A brief history of humankind. London, England: Harvill Secker.
ــــــــــــــــــــ

محمد حسن الیاس

محمد حسن الیاس علوم اسلامیہ کے ایک فاضل محقق ہیں۔انھوں نے درس نظامی کی روائتی تعلیم کے ساتھ جامعۃ المدینۃ العالمیۃ سے عربی ادب کی اختصاصی تعلیم حاصل کی۔معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور علمی معاون ہونے کے ساتھ ان کے ادارے میں تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں