متکلمین کے عقلی منہج پر ایک دیرینہ اعتراض یہ بھی ہے کہ انہوں نے نتیجے پہلے سے فکس کررکھے ہیں اور پھر یہ ان نتیجوں کی دلیلیں لاتے ہیں جبکہ فلسفی نتائج سے آزادانہ عقلی غور و فکر کرتے ہیں اور دلیل جس اصول پر لے جائے یہ وہاں چلے جاتے ہیں۔ متکلمین کے عقلی منھج کو فلاسفہ کے منھج سے الگ بتانے کے لئے اس شبہے کو اس جہت سے بھی پیش کیا جاتا ہے کہ انبیا کو وحی کے ذریعے حقائق بتا دئیے جاتے ہیں جنہیں سامنے رکھ کر وہ لوگوں کو ذات باری پر ایمان کے دلائل دیتے تھے، یہی طریقہ متکلمین نے اختیار کیا، یعنی ان کے نتیجے پہلے سے فکس تھے۔
- پہلی بات یہ کہ فلسفی بھی یہ کرتا ہے، اس کے ھاں بھی ارد گرد کے ماحول و افکار وغیرہ سے کچھ نتائج جمع ہوجاتے ہیں جنہیں وہ یوں آرٹیکولیٹ کردیتا ہے جیسے یہ نتائج کسی خالی الذھن انسان کے دماغ میں بعض اصولوں سے اس ترتیب سے حاصل ہوئے ہوں۔ کانٹ کو ہی دیکھ لیجئے اسی طرح مارکس کو، الغرض سب کا یہی طریقہ ہے۔ کانٹ کے بارے میں تو مشہور ہے کہ علیت پر وہ ھیوم کی بات سے پریشان ہوا تھا کہ اس کے بعد تو میتھمیٹکس و فزکس کی قطعیت سے بھی ھاتھ دھونا پڑے گا، لہذا اس نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح نیوٹن کی فزکس کا دفاع کرنے کے لئے علمی فریم ورک تیار کیا جائے۔ اگر اس کے باوجود بھی کانٹ نتائج سے بے پرواہ رہ کر آزادانہ غور و فکر کرنے والا کہلا سکتا ہے تو پھر متکلم کیوں نہیں؟
- دوسری بات یہ کہ متکلمین کے ہاں نہ صرف یہ کہ ایک ہی نتیجے کے دلائل میں اختلاف ہوجایا کرتا ہے بلکہ نتائج میں بھی اختلافات ہوتے ہیں اور یہ بات ہر اس شخص پر واضح ہے جس نے کلام کی کتب کا مطالعہ کیا ہو۔ نتائج میں اختلافات کی مثالیں تو عام ہیں جیسے توحید کے اقرار یا شکر منعم کا بذریعہ عقل شرعی وجوب، تکلیف مالا یطاق، اسی طرح قدم عالم کی بحث میں اختلاف۔ اسی طرح ایک ہی نتیجے کو بھی مختلف متکلمین بعض اوقات الگ الگ طریقے سے اخذ کرتے ہیں۔
- تیسری بات یہ کہ اصولی و قطعی مسائل آفاقی نوعیت کے ہیں اور وقت، افراد و معاشرتی حالات وغیرہ بدلنے سے ان میں تبدیلی نہیں آیا کرتی۔ یہ عالم یا تو حادث ہے اور یا قدیم ہے، اس میں بس دو ہی آراء تاقیامت ممکن ہیں جن میں سے ایک ہی بات قطعی طور پر درست ہے۔ حادث کے لئے محدث درکار ہے، یہ بدیہی بات آدم علیہ السلام کے دور کے انسان سے لے کر آج تک ہر انسان پر واضح ہے اور سب اس کا اقرار کرتے ہیں، ماسوا چند سوفسطائیوں وغیرہ کے۔ عالم پر مؤثر یہ محدث یا موجب ہوگا اور یا مختار، اس کے سوا کوئی تیسرا امکان نہ پہلے تھا اور نہ آج کا انسان سوچ سکا ہے۔ پھر جن عقلا کے نزدیک وہ مؤثر مختار ہے وہ اس کی بعض لازمی صفات پر بھی اصرار کریں گے کہ مثلا وہ مرید، قدیر و علیم ہوگا۔ اس نوع کے مسائل پر اگر متکلمین یک زبان ہیں، ان کے دلائل لاتے ہیں اور مخالفین کو غلط کہنے کو ضروری سمجھتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انہوں نے پہلے بیٹھ کر نتیجے فکس کرنے کا گٹھ جوڑ کیا اور پھر طے کیا کہ چلو اب دلیلیں لاتے ہیں بلکہ اس کی وجہ ان اصولی مسائل کی نوعیت ہے۔ جو بھی شخص دلائل سے اس نتیجے کو مستحکم سمجھے گا کہ عالم حادث ہے، وہ قطعی طور پر اسے رد کرے گا جو عالم کو قدیم کہے کیونکہ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ درست نہیں ہوسکتیں۔ پھر جس کے علمی فریم میں عالم کا حدوث دلیل عقلی سے قطعی طور پر ثابت ہوسکتا ہے وہ اس علمی فریم والے کی تردید کرے گا جو یہ کہے کہ یہ ادراک ممکن نہیں وغیرہ۔ اگر کوئی آزادنہ غور و فکر کے نام پر کسی کھائی میں جاگرے تو بھلا یہ بھی کوئی لائق تعریف کام ہوا اور ہم یہ کہیں گے کہ آزادنہ غور و فکر اصل میں وہ کرتا ہے جو کھائی میں گرا ہو؟ اسی طرح اگر کوئی فلسفی اپنے تئیں آزادنہ غور و فکر کے نام پر مثلاً یہ کہتا رہے کہ ذات باری کے وجود و صفات پر عقل سے کوئی دلیل ممکن نہیں تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ جو اس کی تردید کررہا ہے اس نے نتیجہ فکس کیا ہوا ہے؟ یہ اعتراض تو پہلے شخص پر بھی کیا جاسکتا ہے کہ مثلا اس شخص نے پہلے یہ طے کرلیا تھا کہ میں مذھب کو اجتماعی نظم سے خارج کرنے کی دلیل وضع کروں گا، اس لئے اس نے ایک طرف مذھبی اعتقادات کو علم و عقل کے دائرے سے خارج قرار دینے کی دلیل بنائی اور دوسری طرف اخلاقی قضایا کی بنیاد حکم باری سے کاٹ دی۔
- چوتھی بات یہ کہ انبیا کی جہت سے یہ شبہ قیاس مع الفارق ہے اور اس کی وجہ اس حقیقت کو نہ پہچاننا ہے کہ انبیا پر جو حقائق بذریعہ وحی ظاہر کئے جاتے ہیں، انبیا کے حق میں وہ علم ضروری و بدیہی کی قسم سے ہوجاتے ہیں۔ پس اس استدلال سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوا کہ انبیا فلاسفہ کی طرح نہیں تھے اور یہ بات متعلقہ گفتگو میں غیر متعلق ہے کیونکہ موازنہ انبیا و فلاسفہ کا نہیں ہے۔ لیکن انبیا ان حقائق کو الفاظ میں ڈھال کر خطاب کی صورت جن غیر انبیا کے سامنے پیش کرتے ہیں، ان غیر انبیا کے لئے وہ بدیہی حقائق نہیں ہوتے اور نہ ہی ان الفاظ کی سماعت سے یہ غیر انبیا انبیا کے منصب پر فائز ہوجاتے ہیں بلکہ ان کے لئے ان کی تصدیق استدلالی ہوتی ہے۔ غیر نبی کے حق میں اس استدلال کی نوعیت یوں ہے کہ آخر وہ کونسے علمیاتی اصول ہیں جن کے ذریعے اس بات کی تصدیق ممکن ہے جس کا دعوی یہ مدعی نبوت کررہا ہے؟ چنانچہ انبیا ذات باری و صفات کے دلائل کو اس استدلالی علم کی جہت سے پیش کرتے تھے۔ لہذا غیر نبی یا متکلم کے حق میں عقلی استدلال کی نوعیت مسئلہ یہاں یوں بنی کہ ایک شخص نے دعوی نبوت کرکے کہا کہ میری بات نہ مانی تو تمہیں ابدی عذاب کا خطرہ ہے۔ متکلم نے غور و فکر کیا کہ کیا یہ شخص اپنے دعوے میں سچا ہے؟ کیا اس کی تصدیق ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو کن اصولوں پر؟ بہرحال یہ شخص ایک ایسی بات کررہا ہے جس میں مجھے اس طور پر دلچسپی ہونی چاھئے کہ اگر یہ سچا ہے تو مجھے ایک ایسی شے کا خطرہ ہے جو میں بدھتاً ناپسند کرتا ہوں ۔۔۔ یعنی عقاب۔ ہم نہیں جانتے کہ آخر اس استدلالی علم کے منھج میں اور فلسفی کے منھج میں کیا فرق ہے۔
الغرض متکلمین پر کیا جانے والا درج بالا اعتراض و تبصرہ بے معنی ہے، اس قسم کی باتیں دراصل فلسفیوں نے اپنے عقلی غور و فکر کو “آزادانہ و نتائج سے بے پرواہ اصولوں کی کھوج” قرار دے کر اہل مذھب پر رعب جھاڑنے کے لئے وضع کررکھی ہیں۔
علم کلام کے منھج پر ایک اعتراض اس جہت سے کیا جاتا ہے کہ متکلم اختلاف کرنے والے پر بالاخر کفر کا فتوی لگاتا ہے جبکہ فلسفی ایسا نہیں کرتا، معلوم ہوا کہ متکلم نے نتیجہ پہلے سے فکس کیا ہوا ہے نیز وہ ڈاگمیٹک ہوتا ہے۔
یہ اعتراض بھی بے معنی ہے جو متکلم کی بحث کی نوعیت سے بے خبری سے پیدا ہوتا ہے۔ بات یوں ہے کہ ایک شخص لوگوں کے سامنے یہ دعوی کرتا ہے کہ “خدا نے مجھے تمہاری طرف اپنی ھدایت پہنچانے کے لئے نمائندہ بنا کر بھیجا ہے، خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو تمہیں مرنے کے بعد کی زندگی میں ابدی عقاب کا خطرہ ہے اور اگر میری طاعت کی تو ثواب و انعام ملے گا”۔ ہم نے غور و فکر کیا کہ کیا یہ شخص اپنے اس دعوے میں سچا ہوسکتا ہے کہ یہ خدا کا نمائندہ ہے؟ کیا واقعی کوئی ایسا خدا موجود ہے جو کسی کو اپنا نمائندہ بنا سکے اور اس سے کلام کرسکے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ لوگوں کو خاص قسم کے اعمال پر خاص قسم کا ثواب و عقاب دے سکے؟ کیا کوئی ایسی دلیل ہوسکتی ہے جس سے اس شخص کے دعوے کی سچائی کا تعین ہوسکے؟ کیا اس کے حق میں کوئی ایسی دلیل موجود ہے جس سے اس کا دعوی سچ ثابت ہوتا ہے؟ اگر یہ سب امور دلیل سے ثابت ہوجائیں کہ خدا یہ سب کرسکتا اور اس نے اس شخص کی سچائی کی دلیل ظاہر کردی، تو اب اس دلیل اور میری فطرت (کہ میں عقاب و اذیت کو ناپسند کرتا ہوں) کا یہ تقاضا ہے کہ اس کے دعوے کی تصدیق کی جائے۔ مدعی نبوت کی تصدیق کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ یہ شخص اپنے اس دعوے میں سچا ہے کہ اگر اس کی تکذیب کی گئی تو عند الله ابدی عقاب کا خطرہ لاحق ہے۔ جب ہم اس نتیجے تک پہنچ گئے تو اب غور کیجئے کہ کفر کا حکم جاری کرنے کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ جو شخص اس نتیجے کو نہیں مان رہا اور اس مدعی نبوت کی تکذیب کررہا ہے وہ ابدی عقاب کا مستحق ہے؟ مجھے نہیں معلوم کہ آخر اس پورے معاملے میں ایسی کونسی بات ہے جو نتیجے فکس کرنے یا ڈاگمیٹک ہونے پر محمول کی جاسکے، متکلم عین متعلقہ دعوے جس کی جانچ زیر بحث تھی اور متعلقہ دلیل سے برآمد ہونے والے نتیجے کو فالو کرتے ہوئے مخالف پر دلیل سے برآمد ہونے والا ایک ھم آھنگ حکم جاری کرتا ہے۔ اگر متکلم اپنے دعوے (کہ فلاں شخص اپنے دعوے نبوت میں سچا ہے اور اس کی تکذیب کرنے والے کو ابدی عقاب کا خطرہ ہے) کی تکذیب کرنے والے پر یہ حکم جاری نہ کرے تو دراصل وہ خود اپنے ہی دعوے کو جھٹلا دے گا۔
رہ گئی یہ بحث کہ کسی معین شخص کا دعوی واقعی ایسی تکذیب کے ہم معنی ہے جس سے اس کی تکفیر ہوسکے تو اسے اصول تکفیر کی بحث کہتے ہیں، لیکن اس کا ناقد کے اعتراض سے کوئی تعلق نہیں۔
کمنت کیجے