Home » اقبال: عرب مفکرین اور ادباء کی نظر میں
شخصیات وافکار

اقبال: عرب مفکرین اور ادباء کی نظر میں

ابو الحسین آزاد

اقبال کا کلام اور ان کی نثرترجمہ ہو کر عرب دنیا میں پہنچے تو اسے جس وسیع پیمانے پر سراہا گیا اور عرب فکری و ادبی حلقوں میں اس “کافرِ ہندی” کو جو مقبولیت و پذیرائی آج تک ملی ہوئی ہے اس کی کوئی دوسری نظیر ڈھونڈنا بہت مشکل ہوگا۔جس قوم کے پاس زہیر بن ابی سلمی، شافعی، متنبی اور شوقی جیسے حکیم شعرا موجود تھے اس نے بھی اگر اپنے بچوں کو اسکولوں میں “شکوہ، جوابِ شکوہ” یاد کروائی ہے تو یقینا یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ انھیں اقبال کے ہاں کوئی  بہت ہی عظیم متاعِ گم گشتہ ملی ہے۔

ذیل میں چندممتاز عربی ادیبوں اور مفکرین کے اُن اقوال کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے جن میں انھوں نے اقبال کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ جو احباب عربی زبان و ادب سے کچھ شغف رکھتے ہیں ان کے لیے تو ان شخصیات کے نام اجنبی نہ ہوں گے لیکن باقی احباب کے لیے عرض ہے کہ متنوع اور گاہے باہم متناقض افکار و نظریات کے حامل یہ عبقری ادیب اور نابغۂ روزگار مفکرین وہ ہیں جنھوں نے عربی فکر و ادب کے جمود میں تازگی و زندگی کا صور پھونکا اور پچھلی ڈیڑھ صدیوں میں مراکش سے عراق تک قلم کے چراغ جلائے اور قرطاس کے خیمے نصب کر کے عرب قارئین کو علم وحکمت کی تازہ روشنیوں اور دبیز سایوں کی لذت بخشی۔یہ لوگ جدید عربی ادب کا سب سے بڑا حوالہ ہیں۔ ذرا دیکھیے یہ  ایک “برہمن زادے” کو کن لفظوں میں یاد کرتے  ہیں:

“میں نے اقبال جیسی شاعری نہیں دیکھی۔ زندگی سے روشناس کرانے والی، اس کی طرف دعوت دینے والی، انسان کو عظمت عطا کرنے والی ، اس کائنات میں اس کے مقام و مرتبے کا پرچار کرنے والی اور لوگوں کے دلوں میں امید، ہمت اور جرات پھونکنے والی ۔” (عبد الوہاب عزام)

“اقبال عظمت کا وہ پیرایہ ہے جس کا  موجودہ زمانے میں اور ہر زمانے میں مشرق طلب گار رہا ہے۔کیوں کہ یہ نہ وہ دنیوی عظمت ہے جو  محض مادی ہو اور نہ ایسی اخروی عظمت ہے جو دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔اقبال دنیا و آخرت کے دو  کناروں کے  مابین عمل کا نقیب ہے ۔ وہ دونوں جہانوں کا بہترین نگران ہے۔”(عباس محمود عقاد)

” دو اسلامی شاعر ایسے ہیں جنھوں نے اسلامی ادب کی عظمت کو  چوٹی کی بلندی عطا کی اور اس اسلامی ادبی عظمت کو سارے زمانے پر نافذ کیا۔ ایک پاکستان اور ہندوستان کا شاعر اقبال اور دوسرا شاعرِ عرب ابو العلاء معری”(طہ حسین)

“یہ شخص عالم اسلام اور ساری دنیا میں ایک نئے فلسفے کے ساتھ ظہور پذیر ہوا، جسے اس نے شاعری میں ڈھالا۔ جس  نےجذبات اور قلوب کوجھنجھوڑ  کے رکھ دیا اور دنیا کے متعدد عظیم لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ وہ اس مسلمان کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگے جو  ہندوستان میں پیدا ہوا تھا، وہیں پلا بڑھا اور پھر لوگوں کے سامنے ایک ایسے دلنشیں شعری فلسفے کا اعلان کیا جو ہندی فلسفے سے ادنی سی بھی مماثلت نہیں رکھتا۔” (محمد حسین ہیکل)

“اگر حسان رسول کے شاعر تھے تو اقبال رسالت کا شاعر ہے۔ عصبیت کی بنیاد پر  داعیِ اعظم کی عظمت کا پرچار کرنے والے اور عقیدے کے بَل پر دعوتِ عظمیٰ کی عظمت کا پرچار کرنے والےمیں بہت فرق ہے۔ صوفی شعرا میں ایسے بہت ہیں جنھوں نے ذکر کی مجالس کو فضائلِ اسلام اور شمائل نبوت سے عطر بیز کیا  لیکن شریعت شناسی، حقیقت دانی، کتاب اللہ میں فلسفیانہ تدبر، کلامِ رسول پر عالمانہ نظر، قوتِ تمیز کے ساتھ مشرق کے قدیم اور مغرب کے جدید کو جمع کرنے، سلامتِ فہم اور صحتِ حکم و رائے میں ان میں سے کوئی بھی اقبال کے پائے کو نہیں پہنچتا۔” (احمد حسن زیات)

“میں اور محمد اقبال معنی میں تقریباً  متفق ہیں بلکہ بعض دفعہ تو الفاظ میں بھی توافق کر لیتے ہیں۔” (سید قطب شہید)

“اقبال نےشاعری کو محض فلسفہ نہیں بنانا چاہا کہ اسے پھولوں کے چمن، بادِ نسیم کے جھونکوں اور نجوم و افلاک کی کمین گاہوں سے اٹھا کرمناظرے کی مجلسوں اور سفسطے کے مندروں میں لے آئیں اور لاحاصل غیبی امور کے پیچھے لگا دیں۔۔۔۔ بلکہ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ شاعری فکری رنگوں، صادق تفکرات، وجود کے حقائق اور موجودات کی حقیقت کے ساتھ  ملاپ کرے،بادِ نسیم سے سرگوشیاں کرے، عقلوں کو صیقل کرے ، حریت اور مزاحمت کی دستاویزیں رقم کرے اور انسانیت اور تمدن کے مقدمات کے تصفیےکرے۔ اقبال تخیل کو شرابِ حقائق کے ساتھ ملانے  اور عقل اور جذبے کی آمیزش کے نقیب ہیں۔” (استاذ نجیب کیلانی)

“اقبال سے پہلے کسی بھی شاعر نے عربوں اور اسلام کی عظمتوں  سے اتنا شغف نہیں برتا جتنا اقبال نے برتا۔ وہی ہیں جنھوں  نے اپنے معاصرین اور اپنے بعد آنے والوں کے سامنےاس دروازے کے دونوں پٹ کھول دیے۔

انھوں نے عربوں کی عظمت  اور قوموں کی ترقی میں اسلام کے اثرات کے بارے  میں بات کی۔خالص عربی قضیوں کو چھیڑا جیسے مسئلۂ فلسطین ، صقلیہ اور قرطبہ میں عربوں کے کارناموں کو قلم بند کیا، عربوں کے تفرقے پر نوحہ خوانی کی اور اپنے دواوین میں اکثر وبیشتر انھیں مخاطب کیا۔” (شیخ صادی شعلان)

“آپ حضرتِ اقبال کو پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ کانٹ کے فلسفے کو پیش کرتے ہیں  تو پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اس کا گہرا مطالعہ کر رکھا ہے۔ وہ غزالی کی بات کرتے ہیں تو ماہر محقق بن کر، جرمن شعرا جیسا کہ گوئٹے کو پیش کرتے ہیں تو ایسا تجزیہ کرتے ہیں جو نگاہِ شوق کو دعوت دیتا ہے اور معتزلہ اور صوفیا  کے متعلق بات کرتے ہیں تو ان کی گہرائیوں میں اتر چکے ہوتےہیں اور ان کی اندرونی خیالات تک کو چھانٹ چکے ہوتے ہیں پھر ان کی تعلیمات کو ایسا دلچسپ، شیریں اور لذیذ بنا کر پیش کرتے ہیں جیسے ایک یورپی(محقق) اپنے قومی فلسفے کو پیش کرتا ہے۔” (احمد امین)

“میں نےکوئی ایسا شاعر نہیں دیکھا جو مسلمان کے لیے ایسی عالی اور مثالی صورت کا تصور کرے جیسی اقبال اپنی شاعر میں متعدد مقامات پر کھینچتا ہے۔ وہ کبھی کبھی مسلمان کی تصویر کشی یوں کرتا ہے کہ گویا وہ اپنی رقت میں پانی کی طرح ہےاور شدت میں لوہے کی طرح، مشکلات کا ٹھٹھا اڑاتا ہے، جہانِ خاکی سے بلند ہے، آسمانوں میں سفر کرتا ہے اور ملائکہ کے جلو میں چلتا ہے۔” (ڈاکٹر احمد شرباصی)

جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیرت میں ڈالا وہ یہ ہے کہ اقبال نے یہ کہتے ہوئے پیرس کی مسجد میں داخل ہونے سے انکار کردیا کہ:”یہ مسجد دمشق کی تباہی کی بہت ہی ہلکی قیمت ہے۔”

[ يہ بت کدہ انھی غارت گروں کی ہے تعمير

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ويرانہ]

اگر یہ شخص صریح حقیقت   میں زندگی نہ گزار رہا ہوتا اور ہم پر نازل ہونے والے عظیم مصائب کی دائمی اور غیر منقطع یاد میں  نہ رہتا تو   ہرگز اسے یہ خیال نہ آتا۔ہم میں سے اور ہماری قوم میں سے کتنے ہی غافلوں اور نسیان زدوں کے سامنے مواقع آتے ہیں کہ وہ اس طرح کے کلمات کے ذریعے اپنی اور اپنے دین کی تاریخ کی فضا میں سانس لیں لیکن پھر وہ آپ کو ذلت، گراوٹ، غلامی اور خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں کی آرائشوں سے بنے ہوئےان فتنوں میں پڑے دکھائی دیتے ہیں جو کہ اللہ کو سخت ناپسند ہوتے ہیں۔” (علامہ محمود محمد شاکر)

اقبال نے اُن دکھوں کے ہمراہ زندگی گزاری جن میں دنیا بھر کے انسان اور خصوصیت سے مسلمان لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔وہ سرمایہ داری کی مشکلات کو جانتے تھے، ظلم کی مشکلات کو جانتے تھے، اقتصادی مشکلات کو جانتےتھے، سیاسی مشکلات کو جانتے تھے اور غلامی اور جبر و استبداد کی مشکلات کو جانتے تھے۔ وہ ان سب باتوں کو جانتے تھے۔لیکن محمد اقبال نے اس سب پر اضافہ یہ کیا ہے کہ انھوں نے اس چابی کو دریافت کر لیا جسے اگر مسلمان استعمال کریں اور مسائل کے قفل میں گھمائیں تو وہ تمام اقتصادی مسائل سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ وہ ذلت اور غلامی سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ وہ تفرقے اور انتشار سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔(اس دریافت سے) اقبال کا کرب دگنا ہوگیا۔ وہ ہمیشہ یہی آواز لگاتے رہے:

اے لوگو! تمھارے وہ تمام مسائل جن سے تم کراہ رہے ہو ان کا حل میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہے وہ چابی ، تمھارا کام صرف اتنا ہے کہ اسے پہچان لو اور اسے مشکلات کے مقابلے میں استعمال کرو۔

یہی وہ مفہوم ہےجو اقبال کے اشعار میں تکرار کے ساتھ وارد ہوتا ہے اور وہ اپنے گردش و پیش کے لوگوں کو اس کی ندا لگاتے ہیں۔ اور آج بھی ان کے چھوڑے ہوئے تمام آثار اسی کی ندا لگا رہے ہیں اور وہ تمام اشعار جو کہ ان کے اشکوں سے نہیں بلکہ دل کے لہو سے تر ہیں۔

لیکن وہ اس بات پر بھی متنبہ کیا کرتے تھے کہ ہم اپنے گردو پیش میں جتنی مشکلات دیکھ رہے ہیں یہ سب دراصل ایک ہی بنیادی مسئلے کی فروع ہیں۔اور وہ ہے ہمارا  اپنی ذات کا فقدان۔ ہماری حقیقی ذات کا شرق و غرب میں کہیں بھی کھوج نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اسےہم صرف اور صرف اپنے سینے کے اندر کھوج سکتے ہیں۔ ہم اپنی حقیقت کو پہچان کر ہی اس کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ (ڈاکٹر سعید رمضان بوطی)

“اقبال ایک عظیم مومن شاعر” (ڈاکٹر سلمان عودۃ)

“محمد اقبال  لوگوں کے سامنے اسلام کی عالمگیریت کو بیان کرتے ہیں۔ یہ فلسفی عظیم ترین عالمی شعرا میں سے ایک ہے۔اگر آپ عالمی شعرا کو گنیں گے تویہ ان میں سے ایک ہوں گے۔” (ڈاکٹر عائض القرنی)

“میری پسلیاں یہیں ٹھہری ہوئی ہیں لیکن دل سفر کر رہا ہے اور ان دونوں کے درمیان صبح صادق کی طرح ایک شاعر بہتا ہے۔۔۔میری آنکھیں جسے دیکھتی تھیں بہت تیز نظروں سے دیکھتی تھیں، لیکن اقبال! میں آپ کی بارگاہ میں آیا ہوں تو نگاہیں جھکی ہوئی ہیں۔” (شامی شاعر انس دغیم)

“[اقبال ] بلند نظری، محبت اور ایمان کے شاعرہیں۔ ایک عقیدہ، دعوت اور پیغام رکھتے ہیں اور مغرب کی مادی تہذیب کے  سب سے بڑے ناقداور باغی ہیں۔ وہ اسلام کی عظمت رفتہ اورمسلمانوں کے اقبالِ گزشتہ کے لئےسب سے زیادہ فکرمند، تنگ نظر قومیت وو طنیت کے سب سے بڑے مخالف اور انسانیت و اسلامیت کےعظیم داعی ہیں ۔”(سید ابو الحسن علی ندوی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابوالحسین آزاد صاحب جامعہ دارالعلوم کراچی کے فاضل ہیں ۔آج کل مختلف عربی کتب کے تراجم کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں