ڈاکٹر وقاص احمد
1_قوت حافظ ، قوت تمیز اور ذہن کا خالی خانہ :
قوت تمیز اور قوت حافظہ کے بغیر گفتگو کا ہونا محال ہے ۔یہاں میری طرف سے ان مقدمات میں یہ بات اضافہ ہے کہ قوت حافظہ اور قوت تمیز ذہن کا حصہ یا ذہن کی ساخت کا حصہ ہیں جبکہ ذہن میں بوقت پیدائش ایک اہم خانہ جو خالی ہے،موجود ہوتا ہے۔
قوت حافظہ کی حفظ شدہ چیزیں اور قوت تمیز کی تمیز شدہ چیزیں ذہن کے اسی خالی خانہ میں سٹور ہوتی ہیں۔یہ آپس میں مکس ہوتی ہیں یا نہیں ؟ تو اس کا انتہائی سادہ سا جواب یہ ہے کہ قوت حافظ اور قوت تمیز اس قدر صلاحیت رکھتی ہے کہ بیک وقت اور الگ الگ وقت میں خارجی اشیاء اور ذہن کے اس سٹور شدہ اشیاء میں فرق کر سکتی ہے اور مزید اشیاء و معلومات کو جمع بھی کر سکتی ہے۔
یوں مقدمات گفتگو علامہ ابن حزم نے یہاں دو بیان کیے ہیں ۔
1_قوت تمیز
اور
2_ قوت حافظہ
جبکہ تمیز شدہ اشیاء اور حفظ شدہ اشیاء کے لیے ذہن میں خالی خانے کا موجود ہونا میری طرف سے اضافہ ہے ۔
تینوں فطری اور جبلی طور پر انسان کے پاس موجود ہوتی ہیں جبکہ ذخیرہ شدہ معلومات و علم فطری و جبلی نہیں بلکہ اکتسابی اور تجربی طور ہوتے ہیں اور قوت تمیز کی وجہ سے ہی علم و معلومات میں منقسم ہوتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ یہ قوت تمیز ہی ہے جو علم کو علم مفید / نافع اور غیر نافع کے تناظر میں بھی پیش کرتی ہے۔
کوئی شک نہیں کہ ان تینوں کے بغیر گفتگو کر لینا مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے ، وجہ اس کی یہ ہے کہ قوت تمیز کے بغیر تمام اشیاء تمام اشیاء نہیں بلکہ ایک ہی چیز ہوتی اور یہ ایک چیز اچھائی برائی ، نیکی بدی ، خیر و شر ، خوبصورت بدصورت ، رنگین ، دلکش الغرض تمام خصوصیات سے خالی بے کیف ہوتی ۔ جبکہ قوت تمیز موجود بھی ہوتی اور قوت حفظ نہ ہوتی تو قوت تمیز ،تمیز کرنے کے قابل نہ ہوتی ۔ وجہ اس کی یہ ہوتی کہ قوت حفظ کے بغیر ذہن میں کوئی چیز حفظ ہو ہی نہیں سکتی تھی اور جب حفظ نہ ہوتی تو لمحہ موجود میں تو وہ چیز ہوتی جبکہ اگلے ہی لمحے نہ ہوتی اور یوں اسی چیز کا جب دوبارہ نظارہ ہوتا تو ذہن میں موجود نہ ہونے کی وجہ سے ماضی اور حال کی اس چیز میں تفریق اور تمیز نہ رہتی ۔
علامہ ابن حزم کی بیان کردہ یہ دونوں قوتیں ذہن میں ایک ایسے خانے کے بغیر ناقص رہتیں جو کہ ان کا ظرف مکان ہو۔ اس لیے یہاں ذہن میں ایک ایسے خالی خانے کا اضافہ کیا گیا ہے جو کہ ان دونوں کے علم و معلومات کو سٹور بھی کر سکے اور سٹور کی گئی چیزوں کو تمیز کے لحاظ سے سٹور بھی رکھ سکے ۔اس کے علاوہ قوت تمیز کو نئی اور پرانی اشیاء کے مابین بھی تمیز کی اجازت دے سکے ۔
1_امام ابن حزم حیوان مطلق اور حیوان ناطق کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
سب سے پہلی امتیازی چیز جو نفس میں پیدا ہوتی ہے جس سے حیوان ناطق حیوان مطلق سے جدا ہوتا ہے ۔ان اشیاء کا فہم ہے جن کا ادراک حواس خمسہ سے ہوتا ہے۔
یوں فہم وہ چیز ہے جو دو قسم کے حیوانات کو جدا کرتا ہے۔
1_حیوان مطلق
2_حیوان ناطق
ظاہر ہے فہم بغیر قوت تمیز کے تمام وجودوں کو ایک وجود بنا کر پیش کرے گا اور جب چیز ایک ہو گی یا وجود ایک ہو گا تو ایک ہی وجود بارے بغیر صفات و جوہر کے بات کرنا محال ہو گی اور اگر قوت حافظہ کو بھی نکال لیا جائے تو وجود کا ذہن میں کہیں نام و نشان نہ ہو گا اور انسان اس پر گفتگو کرنے سے قاصر ہو گا ۔
یوں ابن حزم نے قوت حافظہ اور قوت تمیز کے ساتھ ساتھ فہم جو ادراک اور ادراک جو حواس خمسہ پر مشتمل ہے پانچ چیزوں کا ذکر کیا ہے یعنی
قوت حافظہ
قوت تمیز
فہم
ادراک
حواس خمسہ
مزید حاسہ سادسہ ہے جو کہ یہ ہے کہ ادراک نفس کو بدیہات کا علم ہونا مثلا یہ جاننا کہ
_جزو کل سے کم یا چھوٹا ہوتا ہے۔اگر چہ کل کی حدود معین کرنے سے انسان بے خبر ہوتا ہے۔
ظاہر ہے جزو کو کل سے زیادہ اور بڑا ماننا ،غلط نتائج کا سبب ہو گا ۔ اس لیے گفتگو کے مقدمات میں اس بات کا شامل ہونا ضروری ہے کہ جزو کل سے کم یا چھوٹا ہے۔اگرچہ ایسا ممکن ہے کہ کوئی سرے سے جز کا قائل ہی نہ ہو اور ہر جز کو کل ہی سمجھتا ہو ۔اور جزئیات سے جو کل عام لوگ بناتے ہیں وہ اس کا قائل ہی نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کل کا ہی قائل نہ ہو اور ہر جز کو کل سمجھتا ہو ۔ جب یہ بھی لکھی جا رہی ہے کہ کل کا قائل نہ ہو ہر جز کو کل سمجھتا ہو تو اس سے مراد وہ کل نہیں ہے جس کے عام لوگ قائل ہیں بلکہ اس سے مراد جز کا ہی نام کل ہے ۔ تو یقین کریں کہ ایسا شخص نارمل انسانوں میں شامل نہیں ہوتا ۔اس لیے ایسے شخص سے بھی گفتگو کرنا محال ہوتا ہے۔ اس لیے ابن حزم کا یہ اصول کہ جزو کل سے کم یا چھوٹا ہے مان لینے سے یا اس بات پر ایمان رکھنے سے ہی گفتگو ممکن ہو سکتی ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ
یہ جاننا کہ دو متضاد چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔
یہ جاننا کہ جسم واحد دو مکانوں میں نہیں ہو سکتا۔
یہ جاننا کہ دو جسم مکان واحد میں نہیں ہو سکتے ۔اور مکان وہی ہے جس میں ایک جسم سمائے۔
طول و قصر کا علم ہونا۔
احاط کا علم ہو۔
یہ جاننا کہ غیب کا علم کسی کے پاس نہیں ہے۔
امتیاز حق و باطل۔
وقوع زمانی کا علم ہونا مراد کوئی چیز بھی کسی نہ کسی زمانے میں ہو گی۔
ہیئت و طبائع اشیاء کا علم ہونا۔
فعل بغیر فاعل کے نہیں ہوتا۔
خبر کے صدق و کذب کا علم رکھتا ہو وغیرہ۔
یہ تمام چیزیں درحقیقت قوت تمیز کے لیے ہیں ۔ان کے بغیر قوت تمیز کام کرنا چھوڑ دے گی ۔نتیجہ یہ نکلے گا ۔زمان و مکان ،ہیئت و طبائع ،فعل و فاعل ، صدق و کذب، حق و باطل،طول و قصر وغیرہ میں فرق و تمیز کرنے سے انسان قاصر رہے گا ۔
علامہ کے نزدیک ان مندرجہ بالا چیزوں کا علم دلائل سے نہیں ہو گا ۔جب کہ ان امور پر وہ ہی شک کرے گا جس کی عقل پر کوئی آفت آ گئی ہو اور اس کی قوت تمیز فاسد ہو گی ہو ۔یوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ ابن حزم شاید ایسے انسان کو گفتگو کے قابل بھی نہیں سمجھتے کہ جس کی مندرجہ بالا باتوں میں عقل کام نہیں کرتی ۔ یوں یہاں ایک عام انسان کے لیے بھی یہ رہنمائی موجود ہے کہ ہر ایرے غیرے کو گفتگو کی دعوت نہیں دینی چاہیے بلکہ پرکھ لیں کہ انسان گفتگو کے قابل بھی ہے یا نہیں ؟یقننا پرکھ بھی وہی سکے گا جس کی قوت تمیز درست ہو گی۔
درحقیقت یہ ایسے مقدمات ہیں کہ ان کو مان لینے سے ہی انسان استدلال کرنے اور گفتگو کرنے پر قادر ہوتا ہے۔یوں یہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان پر شک سے بندہ نہ ان کا قائل ہوتا ہے اور نہ ان کا منکر بلکہ درمیان میں کہیں گھوم رہا ہوتا ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گفتگو کا آغاز کچھ چیزوں کو مان لینے سے ہی ممکن ہوتا ہے۔ یوں یہاں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ماننا علم اور گفتگو کی بنیاد میں شامل ہے جبکہ نہ ماننا علم سے ہاتھ دھونا ہے ۔جیسےکہ کوئی انسان کہے کہ میں علم کو نہیں مانتا ، میں خود کو نہیں مانتا ، میں کائنات کو نہیں مانتا ۔ ظاہر ہے خود کو نہ ماننے سے اپنی ذات کے علم سے جائے گا جبکہ کائنات کو نہ ماننے سے کائنات کے علم سے جائے گا اور علم کو نہ ماننے سے علم سے ہی جائے گا ۔
انتہائی مختصر جہاں مقدمات گفتگو ابن حزم نے بیان کیے ہیں وہ علم اور گفتگو کی بنیاد میں ماننا کی بحث کو بھی اخذ کیا جا سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وقاص احمد پی ایچ ڈی اسلامک سٹڈیز ہیں۔آپ وائٹل گروپ آف کالجز گوجرانوالہ میں شعبہ اسلامیات اور اردو کے ہیڈ ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی گوجرانوالہ کیمپس میں وزٹنگ اے پی ہیں ۔
کمنت کیجے