محمد دین جوہر
(۱)
ہم عصر تعلیم پر گفتگو کا اولین تناظر سیاسی ہے [یہاں ’سیاسی‘ سے مراد طاقت اور اس کے متعلقات ہیں]، کیونکہ تعلیم عامہ یا سرکاری تعلیم یا public instruction کا تصور، منصوبہ اور اس کی پوری قانون سازی اصلاً جدید استعماری ریاست کی بنا کردہ ہے۔ تعلیم عامہ جدید ریاست اور سرمائے کی شرائط پر ایک بہت ہی طاقتور تاریخی مؤثر کے طور پر برصغیر کے معاشرے میں داخل ہوئی، اور انسان کی مکمل نئی تشکیل کے منصوبے کو آگے بڑھایا اور بتدریج معاشرے کی بھی ایک نئی تشکیل کی۔ اس علمی اور تاریخی حقیقت نے نہ صرف تعلیم کے ہر سابقہ تصور اور عمل کو بدل دیا ہے بلکہ ان کے لیے کوئی گنجائش بھی باقی نہیں رہنے دی۔ آقائے سرسید کی تحریروں کے سوا، گزشتہ دو سو سالہ ہمہ قسم علمی روایت میں کوئی ایسا متن میری نظر سے نہیں گزرا جو اس اہم ترین مسئلے کو زیربحث لایا ہو۔ ہمارے ہاں تعلیم پر ہر گفتگو کچھ گھسے پٹے اخلاقی سخن ریزوں اور مواعظ سے شروع ہو کر انہیں پر ختم ہو جاتی ہے، اور عملاً ہم تعلیم عامہ کے تصورات اور اعمال کو آج تک نہ سمجھ سکے ہیں اور نہ ان سے نکلنے کی کوئی استعداد پیدا کر پائے ہیں۔ تعلیم عامہ کی آفاقی موجودگی کی صورت حال میں مذہبی تعلیم کا سوال نہ اٹھایا جا سکتا ہے نہ اس کا کوئی جواب ممکن ہے جب تک اصل مسئلے کو نہ چھوا جائے۔ تعلیم عامہ کے استعماری منبع، اس کے تصور و عمل اور جدید ریاست کی قانون سازی کو جائز علمی بنیادوں پر زیربحث لا کر ابھی تک وہ سیاسی اور سماجی space ہی پیدا نہیں کی جا سکی جہاں اسلامی تعلیم واقع ہو سکے۔ اس لیے جسے مذہبی یا اسلامی تعلیم کہا جاتا ہے وہ اصلاً استعمار کی بناکردہ تعلیم عامہ کا پست چربہ ہی ہے، اور کچھ نہیں ہے۔
برصغیر میں تعلیم عامہ استعمار کے ظہور کے ساتھ شروع ہوئی اور اول و آخر یہ ایک سیاسی تصور ہے اور اسے مذہبی اور اخلاقی تناظر میں زیربحث لانا بالکل ہی نادانی کی بات ہے۔ مجھے اس امر سے سو فیصد اتفاق ہے کہ استعمار کی بناکردہ تعلیم عامہ ہماری کوئی بھی دینی اور تہذیبی ضرورت پوری نہیں کرتی لیکن دینی تعلیم کے لیے کچھ علمی اور نظری کام پہلے کرنے ضروری ہیں۔
گزارش ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے دوران برطانوی پارلیمنٹ نے چارٹر ایکٹ ۱۸۱۳ء کے ذریعے کمپنی کو پابند کیا کہ وہ ایک لاکھ پاؤنڈ ہر سال مقامی ہندوستانیوں کی تعلیم پر خرچ کرے گی۔ اس ایکٹ سے تعلیم عامہ کی سرکاری کمیٹی میں وہ تاریخی بحث شروع ہوئی جس کا فیصلہ لارڈ میکالے کے آنے پر ہوا۔ اس بحث میں کئی امور شامل تھے لیکن اہم تین تھے: (۱) تعلیم کی نوعیت، یعنی اس کا مشرقی یا مغربی ہونا؛ (۲) ذریعہ تعلیم کے لیے زبان منتخب کرنے کا فیصلہ؛ اور (۳) معلم کی حیثیت کا تعین۔ یہ تینوں اہم فیصلے لارڈ میکالے کے آنے پر ہوئے۔ یعنی تعلیم عامہ کو استعماری طاقت کی ترجیحات اور شرائط پر مکمل مغربی اور لبرل بنانے کا فیصلہ ہوا، جبکہ دراصل یہ تعلیم کا استعماری منصوبہ تھا۔ اس فیصلے سے مشرقی علوم کا بھی یک قلم خاتمہ ہو گیا اور وہ اپنی سابقہ تہذیبی شناخت کے ساتھ کہیں بھی باقی نہیں رہ سکے، اور مذہبی تجدد کا آغاز ہوا۔ مقامی زبانوں کو یک قلم ڈھا دیا گیا اور معلم کا سرکاری ملازم کے طور پر نیا جنم ہوا۔
(۲)
تعلیم کا اصول آزادی اور حریت ہے جبکہ تعلیم عامہ کا اصول جبر ہے۔ اسے شروع میں جبری تعلیم ہی کہا جاتا تھا، لیکن بعد میں ’لازمی‘ کا لفظ متعارف کرا کے اس ذرا نرم کر دیا گیا۔ تعلیم سے تعلیم عامہ میں تبدیلی برصغیر کے معاشرے میں ایک گہرے انتقال کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس میں بنیادی نکتہ یہ ہے تعلیم عامہ جدید ریاست کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے اور اس کا کام بھی ہے۔ ماقبل معاشرے میں تعلیم حکمرانوں کی ذمہ داری تو تھی لیکن ان کا کام نہیں تھا۔ ماقبل جدیدیت ہمارے روایتی معاشروں میں تعلیم ہمیشہ معلم اور فقہا کا کام رہا ہے، اور جو چندے اور فیس سے پاک حکمرانوں کی سرپرستی میں بروئے عمل لائی جاتی تھی۔ تعلیم عامہ میں جدید ریاست اپنے پورے اختیار اور جبر کے ساتھ ایک معلم کی جگہ لے لیتی ہے اور استاد کو سرکاری ملازم بنا کر اپنے ایجنڈے پر کاربند ہوتی ہے۔ تعلیم عامہ کی موجودگی میں قدر کی بنیاد پر قائم ہونے والی معاشرت باقی نہیں رہ سکتی اور معاشرے کی تشکیل طاقت اور سرمائے کی شرائط پر منتقل ہو جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ کبھی بھی صنعتی نہیں رہا، اس لیے یہ کہنا کہ صنعتی پیداواری عمل انسانی رشتوں کو بہت ریڈیکل سطح پر تبدیل کر دیتا ہے اگرچہ بصیرت کی بات ہے، لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں انسانی رشتوں کی نئی تشکیل میں تعلیم عامہ کی حیثیت مرکزی رہی ہے۔
طویل استعماری اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے پاکستانی تعلیم عامہ مکمل طور پر اہلکار اور دکاندار کے قبضے میں جا چکی ہے، اور استاد سارے تعلیمی عمل سے eliminate ہو گیا ہے۔ اب صرف ’نظام‘ باقی رہ گیا ہے اور اس کے جو فوائد پوری قوم کو پہنچ رہے ہیں وہ سب پر ظاہر ہیں۔ جدید ریاست کے پیدا کردہ ثقافتی، معاشی اور قانونی مؤثرات نے معلم اور استاد کو سرکاری ملازم، ٹیچر، سہولت کار (facilitator) کی وجودیات سے گزار کر ایک ورکر بنا دیا ہے جو جدید ریاست اور سرمائے کی پیدا کردہ مارکیٹ میں کام کرتا ہے۔ یہ معروف ہے کہ ورکر محض ایک معاشی ایجنسی کے طور پر کام کرتا ہے جہاں اخلاقیات، علم اور تہذیب کا کوئی گزر نہیں ہوتا۔ معلم تعلیم، علم اور تہذیب کی انسانی ایجنسی معلم میں ظاہر ہوتی ہے جو معاشرہ اس سے محروم ہو جائے اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔
سنگل نیشنل کریکیولم اور جس طریقے سے اسے نافذ کیا جا رہا ہے، وہ ہماری قومی تعلیم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے۔ اس کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ محض سیاسی اور ریاستی طاقت کی deployment ہے، اور اس سے تعلیم کے امکان ہی کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ چونکہ تعلیم عامہ کا ریاستی اور سیاسی تصور کسی بھی علمی اور نظری تناظر میں کبھی زیربحث ہی نہیں لایا جا سکا، اس لیے گفتگو اور پالیسی ”نصاب“ سے آگے بڑھ ہی نہیں سکی، اور پاکستان کی پوری تعلیمی تاریخ بستے کو لوریاں دیتے گزر گئی ہے۔ بستے پر سیاسی مولوی اور جدید ریاست کا جھگڑا بھی بہت شدید ہے، اور اکثر یہ لوری چیخ و پکار میں بھی بدل جاتی ہے۔ اہلکار کی بے پایاں طاقت اپنا راستہ بناتی ہے اور وہ دکاندار سے جو بستہ بنواتی ہے وہ صرف معاشی مفادات تک محدود ہوتا ہے۔ جس قوم کی تعلیم اہلکار اور دکاندار کے قبضے میں چلی جائے بھلا اس کا بھی کوئی مستقبل ہو سکتا ہے؟ اور جس تعلیمی عمل سے استاد کا تعلیمی اور تہذیبی ایجنسی کے طور پر خاتمہ ہو چکا ہو، اس سے خیر کا کون سا پہلو برآمد ہو سکتا ہے؟
قومی تعلیم کی افسوسناک صورت حال کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ استعماری ورثے میں ملنے والی تعلیم عامہ کو کسی بامعنی قومی اور تہذیبی تناظر میں کبھی زیربحث ہی نہیں لایا جا سکا، اور معاملہ بستے سے آگے نہیں جا سکا۔ بستہ اہلکار کے لیے طاقت کا اظہار ہے اور دکاندار کے لیے منافعے کا وسیلہ، جبکہ تعلیم انسانی ایجنسی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ تعلیم کی انسانی ایجنسی معلم ہے اور اس کی بازیافت ہی سے ہم کسی بامعنی مستقبل کی طرف پیشرفت کر سکتے ہیں۔
کمنت کیجے