عامر خاکوانی صاحب کے منتخب کالموں اور بلاگز پر مشتمل کتاب “وازوان” ان کی تیسری کتاب ہے۔ اس کو جہلم بک کارنر نے شائع کیا ہے۔ وازوان کے بارے میں خاکوانی صاحب نے بتایا کہ یہ ایک کشمیری شاہی دسترخوان ہے جس میں مختلف ذائقوں کی ڈشز شامل ہوتی ہیں۔ چونکہ خاکوانی صاحب کی تحریروں مختلف موضوعات پر ہیں تو اس مناسبت سے انہوں نے یہ نام رکھا۔ کتاب کا یہ نام رکھنے کی ایک وجہ منفرد صوتی ترنم بھی ہے۔ خاکوانی صاحب نے اس کتاب کا انتساب اپنی شریک حیات محترمہ سعدیہ مسعود کے نام کیا ہے۔ اس سے پہلے اپنی دو کتابیں وہ اپنے والد اور والدہ سے منسوب کیں۔ یقیناً خاکوانی صاحب نے اس بار انتخاب انتساب میں عقل مندی کا مظاہرہ کیا ورنہ خدشہ تھا کہ یہ کتاب اشاعت کے مراحل ہی پار نہ کر پاتی۔
خاکوانی صاحب کی اس کتاب میں موضوعات کے حوالے سے کافی ورائٹی پائی جاتی ہے۔ جس میں عسکریت پسندی ، عربی ادب ، تصوف ، مذہب،سماجیات، سیاست ،زندگی کے مختلف رنگوں ، کتابوں ، کھیل اور فلم کی دنیا جیسے موضوعات پر تحریریں شامل ہیں۔ خاکوانی صاحب نے کتاب کے شروع میں خود موضوعات کا نشاندھی کی ہے اور موضوع سے متعلقہ تحریروں کے عنوان لکھے ہیں۔ خاکوانی صاحب نے اپنی دی گئی ترتیب کے مطابق کتابوں کے حوالے سے الگ تحریروں کا ذکر کیا ہے مگر جب ہم ان کے دیگر موضوعات پر تحریریں دیکھیں تو اس میں بھی بیشتر حصہ کتابوں کے متعلق ہے۔ یہ چیز میرے لئے کافی معاون ثابت ہوئی کہ کتاب کے اوپر تبصرے کرنے کے خاکوانی صاحب کے انداز سے سیکھنے کو کافی کچھ ہے۔
پہلا کالم ‘جن کا زمانہ چلا گیا’ میں عالمگیر ، محمد علی شہکی ، علی حیدر ، سجاد علی سمیت کئی ایسے فنکاروں کا ذکر کیا جو عرصہ ہوا سکرین سے غائب ہو گئے. خاکوانی صاحب نے زیادہ تر ستر اور اسی کے دھائی کے فنکاروں کا ذکر کیا ہے جن کو نوے کی دہائی میں ہم نے بھی دیکھا، بلکہ علی حیدر اور سجاد علی تو پھر بھی کام کرتے رہے۔ ان سمیت کئی ایسے چہرے ماضی قریب میں بھی تھے جو جلوہ سکرین پر چھائے مگر اچانک غائب ہو گئے۔ سیمی زیدی ، شارقہ فاطمہ، آمنہ حق ،۔علی افضل ، ذیشان سکندر وغیرہ یہ بھی ستانوے اٹھانوے میں مقبول نام تھے۔
ان کے پردہ سکرین سے غائب ہونے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے کہ ڈھلتی عمر ایک بڑا فیکٹر ہے جس کی طرف خاکوانی صاحب نے اشارہ کیا۔ پھر کچھ لوگ مذہب کی طرف راغب ہوئے تو انہوں نے اپنا کیرئیر تبدیل کر لیا، جنید جمشید اس تبدیلی کا سب سے موثر چہرہ تھے۔ علی افضل ، سارہ چوہدری سمیت کئی لوگوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اس کالم کو پڑھتے ہوئے انسان ماضی کی دلکش یادوں میں کھو جاتا ہے اور کئی چہرے آپ کے سامنے آتے ہیں جن سے آپ کی بچپن اور لڑکپن کی یادیں ہوتی ہیں۔
شوبز کے علاوہ بھی کئی شخصیات ہوتی ہیں جو ایک زمانے میں سکرین کی زینت ہوتی ہیں مگر وقت گزرنے کی دیر ہوتی ہے کہ وہ لوگ بوجھ بن جاتے ہیں۔ مشرف دور میں طارق عظیم ، محمد علی دورانی ، نیلوفر بختیار سمیت کتنے چہرے ہیں جو گوشہ گمنامی میں چلے گئے۔ بس یہ بات سمجھ آتی ہے کہ میدان کبھی خالی نہیں ہوتا کوئی چھوڑ کر جاتا ہے یا چھوڑ دیا جاتا ہے تو اس کی جگہ کوئی اور لے لیتا ہے۔
ایک کالم ‘صرف ایک گھنٹہ’ کے نام سے بڑا پراثر اور ہلا دینے والا ہے۔ جس کا موضوع یہ ہے کہ ہماری زندگی کی ترجیحات میں رب العزت کہاں کھڑا ہے۔ ہم اپنے دن کا کتنا وقت اس کو دیتے ہیں۔ اس کالم میں رب تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے بارے میں سنجیدہ دعوت فکر ہے۔ یہ آج کے انسان کا بنیادی مسئلہ ہے کہ اس کی زندگی میں خالق کی قدر کس درجے کی ہے۔ بطور مسلمان ہمارے لیے تو ویسے بھی خالق حقیقی کی معرفت ایک ایسی دولت ہے جس کا حصول خود خالق کو مطلوب ہے۔ ہمارا والدین کی خدمت کرنا، اپنے بچوں کو توجہ دینا، ہمسایوں کا خیال رکھنا اور کتنے ایسے کام ہیں جو خالق کی خوشنودی کا باعث ہیں،ہم اپنے رب کی خوشنودی کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہے؟ اور دن کا کتنا وقت اس کے لیے نکالتے ہیں؟ ان سوالوں کے اوپر غور کرنے کے لیے اس تحریر میں دعوت فکر ہے۔
خدا کی بندگی کے حوالے سے ایک تحریر ‘پانچواں چولہا’ کے نام سے بھی ہے جس میں ‘چار چولہوں ‘ یعنی فیملی ، کام ، دوست اور صحت کے بارے میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اس پانچویں چولہے کا ذکر کیا ہے جس کے جلنے سے باقی چار چولہوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس کو بڑھنے میں یہ مدد دیتا ہے۔ ہم خداوند متعال کے بندے ہیں اور اس کی بندگی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ چار چولہوں والا کالم بھی اہم ہے جس میں بتایا ہے کہ زندگی میں توازن کو قائم رکھنے کے لیے کیسے چاروں کا خیال رکھنا پڑتا ہے کیونکہ کسی شعبے میں آگے بڑھنا ہو تو پھر باقی چولہوں کو قربان کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ ایک تیز رفتار سے آگے بڑھے۔ کئی بڑے لوگ جو کسی شعبے میں کامیاب ہوتے ہیں کی صحت یا فیملی لائف میں مسائل کیوں آتے ہیں، اس تحریر میں اس کا ذکر ہے۔اس میں کئی شخصیات کا ذکر بھی خاکوانی صاحب نے کیا۔ جیسے کہ سید ابوالاعلی مودودی جنہوں نے بھرپور زندگی گزاری۔ تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے امور بھی ان کی مصروفیات کا حصہ تھے ان مصروفیات کے باعث ان کو یہ یاد بھی نہیں رہتا تھا کہ ان کے بچے کس جماعت میں پڑھ رہے ہیں ۔ گھریلو امور کی ذمہ داری بیگم مودودی کے ذمے تھی۔ ایسے ہی ایک مثال مولانا احمد رضا خان بریلوی کے بارے میں بھی ملتی ہے کہ ان کے بچوں کی شادی کے انتظام اور معاملات ان کے بھائی مولانا حسن رضا بریلوی نے دیکھے، اس میں ان کا کردار بہت محدود تھا۔ عمران خان کی دو طلاقوں کی وجہ بھی کچھ ایسی ہے۔اس طرح اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں
خاکوانی صاحب کو تصوف سے خصوصی دلچسپی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ سید سرفراز شاہ صاحب ہیں۔ جن سے خاکوانی صاحب کا خصوصی تعلق ہے۔ ان سے ملاقات کے احوال پر کالم ہے اور اس کے ساتھ ان کی مجالس میں ہوئی گفتگو جس پر سلسلہ فقیر کی کتابیں بھی ہیں کا ذکر ہے۔ ایک کتاب قاسم علی شاہ صاحب نے سید سرفراز شاہ صاحب کی مجالس سے ‘چالیس علمی نشستیں ‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ اس کا خصوصی ذکر ہے۔
ایک کالم تصوف کے اوپر اعتراضات پر سید سرفراز شاہ صاحب کی نشست پر ہے۔سرفراز شاہ صاحب کے بارے میں خاکوانی صاحب نے بتایا ہے کہ وہ وظائف کو حوصلہ افزائی نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ اسلام میں ترجیح کوشش اور جدوجہد کو حاصل ہے۔ دعا کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے ۔ یہ بہت عمدہ بات ہے، اس میں ایک بڑے اعتراض جو کہ اہل تصوف پر کیا جاتا ہے کا جواب ہے جو کہتے ہیں کہ تصوف بے عملی کی طرف راغب کرتا ہے۔
خاکوانی صاحب رمضان المبارک کے حوالے سے اپنی تحریریں لکھتے ہیں جس کو رمضان ریزولوشن کہتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی کالم شامل ہے۔جس میں قرآن مجید کی مختلف تفاسیر اور احادیث و سیرت کی کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ رمضان المبارک میں عبادات کی خصوصی تاکید ہے تو اس بارے میں ایک تحریر جو آخری عشرے بالخصوص طاق راتوں کے حوالے سے اعمال کے بارے میں محمد سلیم صاحب کی ایک تحریر کو شامل کیا ہے۔یہ عمدہ تحریر ہے اور اس میں ذکر کردہ اعمال کو بجا لانا مشکل نہیں۔ یہ تحریر ابھی حالیہ رمضان میں بھی خاکوانی صاحب نے اپنی وال پر شئیر کی تھی۔
فلمیں بالخصوص ہالی ووڈ فلمیں کے بارے میں بھی خاکوانی صاحب کے پانچ سے چھے کالمز کی سیریز ہے۔ جس میں ٹاپ ہالی ووڈ فلموں کا ذکر ہے ۔ اس کے ساتھ ادکاروں اور ہدایت کاروں کے لحاظ سے ٹاپ فلمز کون سی ہیں۔ ریٹنگ کے حوالے سے IMDB اور Rotten tomatoes کا ذکر کیا ہے۔ ان میں IMDb زیادہ معتبر ہے کیونکہ اس میں فلم کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لینے کے بعد ریٹنگ کی جاتی ہے۔ لازمی نہیں کہ ہائی ریٹنگ کی سب فلمز پسند آئیں، مجھے خود اس بارے میں کچھ فلموں کی ریٹنگ پر عدم اطمینان ہے جیسے کہ ایک میوزک سے متعلق فلم whiplash کی بہت ریٹنگ ہے مگر مجھے کوئی خاص نہیں لگی۔ ایسے ایک تھرل فلم Gone Girl کی ہائی ریٹنگ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کالمز میں ہالی ووڈ کی بڑی تعداد میں اچھی فلمیں خاکوانی صاحب نے ذکر کر دی ہیں جو دیکھنے والے کا اچھا ٹیسٹ ڈویلپ کر دیتی ہیں. اتفاق کی بات ہے کہ خاکوانی صاحب کی بتائی ہوئی بیشتر فلمیں میں نے دیکھی ہوئی ہیں۔چند ایک جو نہیں دیکھیں ان کو دیکھنے کا ارادہ ہے۔
حال ہی میں جب ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے شور مچا تو خاکوانی صاحب نے بھی اس پر قلم اٹھایا۔ دو تحریریں اس ایشو کو سمجھنے کے لیے ہیں۔ کیونکہ یہ قانونی معاملہ تھا تو خاکوانی صاحب نے ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کی تحریروں کا ذکر کیا جنہوں نے اس قانون کے نقائص پر لکھا۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے خاکوانی صاحب کا بنیادی اختلاف یا نکتہ میڈیکل ٹیسٹ پر ہے۔ انہوں نے اس بارے میں غلط فہمی پھیلانے والے عناصر کا بھی جواب دیا ہے جو میڈیکل ٹیسٹ کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔
خاکوانی صاحب نے تسلیم کیا کہ خواجہ سراؤں کے ساتھ ہمارے ملک میں خصوصی امتیاز برتا جاتا ہے۔ ان کے مسائل پر کبھی کسی نے غور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کو اپنی جنس کو لیکر جو مشکلات پیش آتی ہے وہ بالکل درست ہیں ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اس بارے میں افتخار چودھری نے پہلی بار قدم اٹھایا جس سے ان کے مسائل ہائی لائٹ ہونا شروع ہوئے۔ خاکوانی صاحب نے بتایا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ پر تنقید کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے خلاف ہیں۔
عامر خاکوانی صاحب کا عسکری تنظیموں کی بابت گہرا مطالعہ ہے۔ وہ ان کے اندرونی اسٹرکچر کے بارے میں بھی کافی کچھ لکھتے رہتے ہیں۔ اس کتاب عسکریت پسندی کے حوالے سے بھی کالمز ہیں جن میں بنیادی طور پر دو موضوعات کو کور کیا گیا ہے۔ ایک ڈینئل پرل کے قتل اور اس پہلے پرل کی صحافیانہ سرگرمیاں، اس کی دوست اسراء نعمانی اور بیوی میرن پرل نے اس کے اغواء اور قتل کے بارے میں کیا کہا۔ پاکستانی صحافی کامران خان کے منفی رول پر پرل کی بیوی کی تنقید اور دیگر امور پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سے پہلے عمر سعید شیخ کی تاریخ بتائی کہ کیسے انگلستان کی فضاء میں جوان ہونے والا یہ شخص عسکریت پسندی کی طرف آیا۔ عمر سعید شیخ کا بھارتی جیل میں رہنا اور پھر وہاں سے ڈرامائی طریقے سے رہا ہونا۔ اس کے بعد اس نے ڈئنیل پرل کو کیسے اپنے چنگل میں پھنسایا۔ ڈینئل پرل کو اس نے اغواء تو کیا مگر قتل میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ یہ نیٹ ورک کس ہوشیاری سے چلایا گیا مگر ایک بے احتیاطی سے یہ لوگ پکڑے گئے ۔ اس سارے ایپی سوڈ میں پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کا کردار متاثرین کے حق میں رہا۔ عمر سعید شیخ کی شخصیت کے کئی حیرت انگیز پہلؤ سامنے آتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ سیریز ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں عمر سعید شیخ کے ساتھ کش میری مجا ہد ین سجاد افغانی، الیاس کشمیری، قاری سیف اللہ اختر، مولانا فضل الرحمان خلیل اور مسعود اظہر اور ان کی تنظیم کے بارے میں بھی سرسری گفتگو ہے۔
عسکریت پسندی کے بارے میں دوسرا موضوع ایبٹ آباد آپریشن ہے جس میں ال قا عدہ چیف کو مارا گیا۔ یہ دراصل امریکی صحافی سٹیو کول کی کتاب ‘ڈائریکٹوریٹ ایس’ کے مندرجات کا جائزہ ہے۔ اس میں ا سامہ بن لا دن کے خلاف کیے گئے آپریشن پر تفصیلات دی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اس کے کمپاونڈ سے ملنے والی دستاویزات اور سی ڈیز کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کا پاکستانی ایجنسیوں سے کوئی لنک نہیں تھا۔ اس کے ساتھ اس آپریشن سے پہلے ریمنڈ ڈیوس والے معاملے پر بھی سٹیو کول نے گفتگو کی ہے اور اس کے مطابق جنرل کیانی اور جنرل پاشا کا کردار ایک اور شکل میں سامنے آتا ہے کہ اپنے ملک کی خاطر کیسے انہوں نے امریکی دباؤ کا سامنا کیا۔ ریمنڈ ڈیوس کے بدلے پاکستان سے سی آئی اے اور بلیک واٹر کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا۔ تین کالموں میں اس کتاب کے مندرجات پر خاکوانی صاحب نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
خاکوانی صاحب پاکستان کے ان گنے چنے صحافیوں میں سے ہیں جو عسکری تنظیموں کی ورکنگ اور ان کے کردار و تاریخ سے واقف ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ اپنی اگلی کتاب میں خصوصی طور پر اس موضوع پر توجہ دیں اور اس ہی موضوع پر اپنی تحریروں کو جمع کرکے اور ان کو ترتیب دیکر شائع کریں۔
شخصیات کے ذکر میں ایک کالم عاصمہ جہانگیر کے بارے میں ہے جو ان کی موت پر لکھا گیا۔ جس میں عاصمہ جہانگیر کی بھرپور زندگی جس کو انہوں نے اپنی شرائط پر جیا کا ذکر کیا اور اخری دم تک وہ ایسے ہی تھیں۔ ان کے لیے ‘گھوڑے کی پشت پر موت’ کے نام سے درست عنوان تجویز کیا۔ خاکوانی صاحب نظریاتی طور پر مذہب پسند ہیں اور ان کا عاصمہ جہانگیر سے فکری اختلاف کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ جب عاصمہ کی موت ہوئی تو خاکوانی صاحب سیاسی لحاظ سے اسٹبلشمنٹ کے لیے مثبت رائے رکھنے والے تھے۔ اس لحاظ سے ان میں فکری بعد مزید بڑھ جاتا ہے۔ لیکن خاکوانی صاحب نے فکری اختلاف کو برقرار رکھتے ہوئے متوازن انداز میں عاصمہ جہانگیر کا ذکر کیا ہے۔
حیدر فاروق مودودی صاحب کا بھی ذکر ایک کالم ہے۔ گو کہ یہ کالم حیدر فاروق مودودی کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ مگر اس میں حیدر فاروق مودودی کی ایک الگ تصویر سامنے آتی ہے۔خاکوانی صاحب نے ان کے اخلاق اور وضع داری کی تعریف کی ہے۔ اپنے والد کی فکر سے لاتعلقی اور نقد کے باعث ان کی شخصیت تنازعات کا شکار نظر آتی ہے مگر خاکوانی صاحب نے اپنی ملاقات کے احوال رقم کر کے ان کی شخصیت کے دوسرے پہلؤ سے متعارف کروایا ہے۔
حیدر فاروق مودودی نے جماعت اسلامی کے انتخابات جس میں منور حسن دوسری بار امیر نہ بن سکے اور سراج الحق سے ہار گئے پر سوال اٹھائے کہ اس میں پانچ ہزار ووٹ غائب ہو گئے تھے تو اس پر یہ کالم لکھا اور ذمہ داران کا موقف لیا جس میں حیدر فاروق کے الزامات کا جواب دیا گیا۔
ایک کالم ڈاکٹر عبد القدیر خان کے بارے میں ہے کہ ان کو پاکستان کے دو حکمرانوں پرویز مشرف اور میاں نواز شریف سے شدید گلہ تھا۔ مشرف نے تو ان کو نظر بند کیا اور پھر وعدے کے مطابق عمل نہیں کیا جبکہ میاں صاحب بغیر کسی وجہ سے نذیر ناجی کے ذریعے ان کی کردار کشی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ ایٹمی پروگرام میں ان کا کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ ان کے مقابلے میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی پروجیکشن کی گئی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ اس پروگرام کے اصل خالق مند صاحب ہیں۔
جب ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب نظر بند ہوئے تو ان کی رہائی کے لیے نوائے وقت نے بھرپور مہم چلائی مگر جب بعد میں ڈاکٹر صاحب نے جنگ میں کالم لکھنے کا فیصلہ کیا تو یہ بات مجید نظامی کے لیے برہمی کا باعث بنی جس کا انہوں نے کھل کر اظہار کیا، ان کی شکایت عارف نظامی نے ڈاکٹر صاحب تک پہنچائی تو انہوں نے بتایا کہ جنگ اخبار نے انہیں دو لاکھ کی پیشکش کی ہے اگر نوائے وقت انہیں ڈیڑھ لاکھ بھی دے تو وہ اپنے خرچے محدود کر کے ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کالم نویسی کا فیصلہ اپنا چولہا جلانے کے لئے کیا۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ ان کے مخالفین کی طرف سے ان پر مال ہتھیانے کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈاکٹر صاحب کی رہائی کی مہم کے لیے نوائے وقت نے جو اشتہار چھاپے وہ مفت نہیں تھے بلکہ اس کے پیچھے ان کا ایک مداح تھا جس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔
کتب بینی خاکوانی صاحب کا ایک اور شوق ہے۔ خاکوانی صاحب فقط کتابیں پڑھتے نہیں بلکہ ان کو موضوع تحریر بھی بناتے ہیں۔ مختلف کتابوں کے حوالے سے خاکوانی صاحب کے کالمز بھی شامل ہیں ۔ جن میں خصوصی طور پر تین ناولوں کا ذکر قدرے تفصیل سے ہے ایک لیو ٹالسٹائی کا “جنگ اور امن” دوسرا دستوفیسوکی کا ‘کراما زوف برادران ‘ اور تیسرا ماریو پوذو کا ‘گاڈ فادر’، ان تینوں ناولوں پر خاکوانی صاحب نے خصوصی گفتگو کی ہے۔ اس کے علاوہ ستار طاہر صاحب کی دنیا سو عظیم کتابیں خاکوانی صاحب کی پسندیدہ کتابوں میں سے ہے۔ یہ کتاب میں نے بھی خاکوانی صاحب کے تبصرے کے بعد خریدی تھی۔ واقعی اس کتاب میں عظیم کلیکشن ہے اور ستار طاہر صاحب کی یہ کتاب، کتابوں پر تبصرہ نگاری کے حوالے سے بھی گائیڈ بک ہے۔
ایک کالم ترک مصنف احمد امیت کے ناول پر ہے جس کا اردو ترجمہ’باب اسرار’ کے نام سے شائع ہوا ہے اس بارے میں ہے۔ یہ ناول بھی خاکوانی صاحب کے کالم کے بعد میں نے خریدا تھا۔
اس کتاب میں خاکوانی صاحب نے سیاسی کالمز بھی لکھے ہیں مگر وہ بھی دراصل کتابوں کے مندرجات کا جائزہ ہی ہیں۔ جیسے سفارت کار کرامت غوری کی کتاب سے آصف زرداری کی الجزائر میں عیاشیاں ، دورہ کویت پر بینظیر بھٹو کا اپنے شوہر کی حرکتوں پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑنا، دورہ کویت میں مولانا فضل الرحمان کی سرگرمیاں جس نے کرامت غوری صاحب کو مشکلات میں ڈالا، ترک زلزلے میں میاں صاحب کا انقرہ کے کبابوں پر ہاتھ صاف کرنے سمیت دلچسپ باتوں کو کالم کا حصہ بنایا ہے۔ نیز حج کے دوران نوابزادہ نصر اللہ خان کے انوکھے مطالبات سمیت ان کے بارے میں ایک دو ایسی باتیں ہیں جس سے ان کی شخصیت کا تاثر کچھ اور ابھر کر آتا ہے جیسا ہم سمجھتے ہیں۔
کرامت اللہ غوری کو بینظیر بھٹو کی ساتھی ناہید خان کے بارے میں لکھا ہے کہ ناہید خان کا رویہ انتہائی جارحانہ ہوتا تھا۔ وہ بینظیر بھٹو اور باقی دنیا کے بیچ میں دیوار چین بنی ہوئی تھیں ۔ آصف زرداری ان کی جارحانہ روش سے خوش نہیں تھے اس لیے جیسے ہی بینظیر بھٹو قتل ہوئیں اور پارٹی کمان زرداری کے پاس آئی تو انہوں نے ناہید خان کو پارٹی امور سے الگ کر دیا
سیاسی کالمز کی ایک اور سیریز سابق بیوروکریٹ طارق محمود کی کتاب ‘دام خیال’ کے بارے میں ہے جس میں انہوں نے اپنی تجربات شئیر کیے ہیں۔ ان میں جنرل ٹکا خان جب وہ بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں گورنر پنجاب تھے کے ساتھ اپنے گزرے واقعات کو ذکر کیا اور جب اسمبلی ٹوٹی تو لیگی کارکنان نے گورنر ہاؤس آ کر جشن منایا جا میں حیران کن طور پر مفکر و مصنف سراج منیر بھی شامل تھے۔ سراج منیر صاحب کا یہ روپ مصنف کی طرح میرے لئے بھی نیا تھا۔ سوچتا ہوں کہ نواز شریف کی پروجیکشن یا پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا کس قدر وسیع پیمانے پر ہوا کہ سراج منیر جیسا زرخیز اور قابلِ ذکر ذہن بھی اس کی لو میں آ گیا۔
اس کے علاوہ شاہ محمود قریشی کے والد سجاد حسین قریشی کے ساتھ اپنے واقعات و احوال جو طارق محمود نے قلمبند کیے ہیں ایک کالم اس پر بھی ہے۔ یہ کافی دلچسپ کالم ہے جس میں مخدوم سجاد حسین قریشی کی شخصیت کو جاننے کے ساتھ ان کے اندر پائی جانے والی لوک دانش (folk wisdom) اور حاضر جوابی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ سابق بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ کی کتاب کے بارے میں بھی کچھ کالمز ہیں ۔ جن میں جنرل ضیاء الحق کے اقوام متحدہ میں تقریر سے پہلے تلاوت کے بارے میں انہوں نے لکھا یہ درست ہے حالانکہ پاکستان کے کئی صحافی اور تجزیہ نگار اس کو حقیقت نہیں مانتے۔ جبکہ نٹور سنگھ اس موقع پر موجود تھے۔ نٹور سنگھ بھٹو کی پھانسی کے وقت پاکستان میں تعینات تھے۔ ان کی بعد میں نصرت بھٹو نے بتایا کہ بھٹو صاحب کو علامتی پھانسی لگی وہ اس سے پہلے کچھ افسران جو ان سے کچھ دستاویزات پر دستخط کرانا چاہتے سے ہاتھا پائی میں سر پر چوٹ لگنے سے انتقال کر گئے تھے ۔
دو کالمز عرفان جاوید کی کتاب ‘عجائب خانہ’ کے حوالے سے ہیں۔ جس میں سائنس دانوں اور انجنئیروں کی ایجادات کے بارے میں ہے کہ ان کو اس کا پہلا خیال کیسے آیا۔ یہ دونوں کالمز معلومات سے بھرپور ہیں اور جس میں مختلف ایجادات کی ابتدائی شکل اور استعمال کے بارے میں پتہ چلتا ہے اور اب وہ کس لیے استعمال ہوتی ہیں وہ بھی۔ جیسے کہ ٹوئٹر معاشرتی رابطوں کے لیے بنایا گیا جس کا مقصد فقط ایس ایم ایس بھیجنا اور وصول کرنا تھا۔ جی پی ایس ابتداء میں فوجی استعمال کے لیے بنایا گیا بعد میں اس کا تجارتی استعمال بڑھ گیا۔
ایک کالم دارلشکوہ کے اوپر ہے، جس کا ہمارے لبرلز رونا روتے ہیں کہ وہ اورنگزیب کے مقابل ہارا۔ دارلشکوہ اور اورنگزیب اب علامتیں بن چکی ہیں جس میں دائیں اور بائیں بازو والے اپنے نظریات اور مباحثوں میں کا حصہ بناتے ہیں ۔ دارلشکوہ کی شخصیت کے بارے میں خاکوانی صاحب نے لکھا ہے کہ وہ بادشاہت کے قابل نہیں تھا، جبکہ اس کا بھائی اورنگزیب اس سے بہت زیادہ قابل تھا۔ سو بقائے اصل کے قانون کے تحت اورنگزیب کو جیتنا تھا اور وہ جیت گیا جبکہ دارلشکوہ کو ہارنا ہی تھا۔
ایک اور کالم ان چند مفروضوں کے متعلق ہے جو کہ غلط ثابت ہوئے جیسے کہ ‘روزانہ ایک سیب ڈاکٹر کو بھگائے گا’, دماغ کا فقط دس فیصد حصہ استعمال ہوتا ہے ‘, آئن سٹائن ریاضی میں نکما تھا’, درست بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ریاضی میں غیر معمولی رہا اسے فرانسیسی اچھی نہیں آتی تھی۔ ایک اور مفروضہ کے دیوار چین چاند سے نظر آتی ہے یہ بھی غلط ہے۔ اس طرح کے اور کچھ مفروضوں کے بارے میں بتایا ہے کہ جن کی کوئی حقیقت نہیں۔
ایک کالم خاکوانی صاحب نے اس موضوع پر لکھا کہ کیا بھٹو کو امریکہ نے ہٹایا۔ یہ کالم دراصل خاکوانی صاحب نے آپریشن رجیم چینج کے بعد لکھا جب عمران خان نے سائفر کی بنیاد پر اس آپریشن میں امریکی ہاتھ کا الزام لگایا ۔ خاکوانی صاحب عمران خان کی حکومت اور بھٹو کی حکومت ہٹانے میں امریکی کردار کو تسلیم نہیں کرتے ۔ بالخصوص یہاں بھٹو صاحب کے بارے میں بات ہوئی ہے کہ ان کے خلاف قومی اتحاد کی ایک جنوئن اور لوکل تحریک چلی تھی۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی بڑی تحریکوں میں سے ہے ۔ اس میں بے شمار لوگوں نے قربانیاں دیں اور بھٹو صاحب کی اپنی حماقتوں نے بھی یہ دن دکھائے، انہوں نے مذاکرات کو طول دیا اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لمبے بیرونی دورے پر چلے گئے۔ پھر جب مارشل لاء لگا تو اس وقت امریکہ میں جمی کارٹر صدر تھے۔۔انہوں نے جنرل ضیاء الحق سے تعاون نہیں کی، وہ تو افغان جنگ اور بعد میں بننے والی ریگن حکومت کی وجہ سے ضیاء الحق کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم ہوئے۔ اس بارے میں ہنری کسنجر کی دھمکی کے بارے میں بھی لکھا کہ اس کا ثبوت ابھی تک موجود نہیں اگر یہ دھمکی دی بھی گئی تو بھٹو صاحب کی جب حکومت گئی تو اس ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت تھی جبکہ کسنجر ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔
خاکوانی صاحب کی باتوں میں وزن ہے مگر امریکی کردار کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ پھر عمران خان کی حکومت کے خلاف سائفر ایک حقیقت ہے، ممکن ہے کہ عمران خان نے اور بھٹو کی بابت پیپلز پارٹی نے مبالغہ آرائی سے کام لیا ہو لیکن امریکہ رجیم چینج آپریشن کرتا رہتا ہے۔ عمران خان کی حکومت میں تو اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جس سے بیرونی مداخلت کا پتہ چلتا ہے بلکہ کہا بھی گیا کہ مداخلت تھی سازش نہ تھی۔ اس بارے میں خاکوانی صاحب کی رائے سے میرا اختلاف برقرار ہے۔ ممکن ہے اس میں میری جانبداری کا بھی دخل ہو مگر میں اس آپریشن رجیم چینج پر امریکی کردار سے شاکی ہوں۔ ہاں عمران خان کے دعوی میں مبالغہ آرائی سے انکار نہیں۔
اس کتاب میں سب سے پسندیدہ مجھے چار کالمز کی وہ سیریز لگی جو خاکوانی صاحب نے محمود شکری آلوسی کی کتاب بلوغ الارباب کے حوالے سے لکھے۔ اس کا اردو ترجمہ پیر محمد حسن نے کیا اور اس کو اُردو سائنس بورڈ نے چار جلدوں میں شائع کیا ہے۔ یہ قدیم عرب کی تہذیب ، تمدن،معاشرت اور حکایات کو سمجھنے کے لیے عمدہ کتاب ہے جو اپنے اندر مختلف پہلو سموئے ہوئے ہیں ۔ اس کتاب میں قدیم عرب دانش کے بارے میں خاکوانی صاحب نے کئی شخصیات کا ذکر کیا۔۔جن میں ایک حاتم طائی ہیں۔ اس کے ساتھ سیدنا عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جو سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد تھی کی جود و سخا اور فیاضی کے بارے میں کالم لکھا۔ اس کے ساتھ سیدنا سعید بن العاص رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی سخاوت کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔
عرب خطباء اور فصحا کی حکمت بھری باتوں پر بھی ایک کالم ہے۔ اس میں فصیح عرب اکثم بن صیفی التمیمی کے کلام میں سے یہ باتیں قابلِ ذکر ہیں
“جو شخص عورتوں سے مشورہ کرے گا اسے ضرور کوئی نہ کوئی راہ بتانے والا مل جائے گا۔
جو صرف اپنی رائے پر عمل کرتا ہے ، وہ ایسے مقامات پر کھڑا ہوتا ہے جہاں سے وہ پھسلتا ہی رہے
جو دوسروں کی بات سنے گا اس کی بات بھی سنی جائے گی
لالچ کی بجلیوں کے نیچے لوگوں کی قتل گاہیں ہیں
اگر تو مصائب کے مواقع پر غور کرے گا تو دیکھے گا یہ شرفاءکی خواب گاہیں ہیں
لوگوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا ہی ہدایت کا راستہ ہے”
مشہور عرب سپہ سالار یزید بن مہلب اپنے خطبوں میں اکثم بن صیفی التمیمی کا طرزِ عمل اختیار کرتے۔ یزید بن مہلب کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصحتیں بھی قابل غور ہیں
“بیٹا تمہارے باپ کے کچھ کارنامے ہیں انہیں خراب نہ کرنا کیونکہ انسان کے لئے یہ بات بڑا عیب سمجھی جاتی ہے کہ وہ اپنے باپ کی کھڑی کی ہوئی عمارت کو گرا دے
لوگوں کو مارنے سے پرہیز کرو کیونکہ یہ ایک باقی رہ جانے والی عار ایسا کینہ ہے جس کے بدلے کا مطالبہ کیا جاتا ہے
کسی کو نا اہلی اور خیانت کے سوا کسی اور بنا پر معزول نہ کرنا۔ کسی شخص کو منتخب کرتے ہوئے اس لیے نہ رک جانا کہ تم سے پہلے کوئی شخص اسے منتخب کر چکا ہے کیونکہ تمہیں تو لوگوں کو ان کی ذاتی فضیلت کی بنا پر منتخب کرنا ہے”
اور بھی عرب دانش کے موتی ہیں مگر آخر میں عمرو بن کلثوم التغلبی جو جاہلی شاعر اور خطیب تھا کی باتیں نقل کروں گا
“رشتے داری کے تعلقات قائم رکھا کرو تمہارے گھر آباد رہیں گے
پناہ گیر کی عزت کرو وہ تمہاری اعلیٰ تعریف کرے گا۔
عورتوں کی جگہ کو مردوں سے دور رکھو کیونکہ اس سے غیر محرموں کو دیکھنے سے نگاہیں باز رہتی ہیں اور مرد زیادہ پاکدامن سکتا ہے
جو شخص غصہ کے وقت سوچتا نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں
وہ شخص بھی برا ہے جسے کسی برائی سے روکا جائے اور وہ باز نہ آئے
کسی سے محبت کرنے میں حد سے زیادہ نہ بڑھ جایا کرو”
خاکوانی صاحب کی عرب دانش کے حوالے سے یہ پوری سیریز پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جس میں حکمت بھری باتیں اور نصیحتیں ہیں۔
خاکوانی صاحب نے ایک کالم قدرت اللہ شہاب کے دفاع میں بھی لکھا ہے۔ ہمارے لبرل دانشور شہاب کو اکثر نشانہ بناتے رہتے ہیں ۔ خاکوانی صاحب نے ان الزامات کا ذکر کر کے ہر ایک کا غلط ہونا ثابت کیا مثلاً شہاب کا سرکاری مراعات لینا، حالانکہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی بہت مشکل میں گزاری ، ان پر الزام لگا کہ وہ فاطمہ جناح کے خلاف ایوب خان کی کمپین چلانے والے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتخابات سے دو سال پہلے ہی ہالینڈ سفیر لگ چکے تھے۔
نیز قدرت اللہ شہاب کے متعلق بائیس حقائق کو خاکوانی صاحب سامنے لائے ہیں۔ بطور قدرت اللہ شہاب کا مداح ہونے کے خاکوانی صاحب کا یہ کالم بہت سی باتیں واضح کرتے ہوئے باعث اطمینان بھی ہے۔
ایسی کتابوں کے ہر کالم کا ذکر ممکن نہیں رہتا پھر بھی میں نے کوشش کی ہے کہ کتاب کے زیادہ سے زیادہ کالمز اور ان کی ایک دو باتوں کا ذکر کر دوں تاکہ پڑھنے والے کی دلچسپی برقرار رہے۔
واقعی نام کی مناسبت سے اس کتاب میں موضوعات کی ورائٹی پائی جاتی ہے اور ایک وقت میں انسان کو کئی موضوعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ خاکوانی صاحب نے کتاب کے موضوع کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ یہ کتاب خاکوانی صاحب نے کمال شفقت کرتے ہوئے بطور تحفہ دی تھی۔ امید ہے اس تحفہ پر میرا یہ شکریہ قبول فرمائیں گے
کمنت کیجے