زید حسن
6۔مسلکِ حس اور منہجِ تحقیق
بعض لوگوں جیسے لطفی جمعہ وغیرہ نے غزالی کے امتیازات میں انہیں باقاعدہ مسلکِ حسیات اور منھجِ ِ تشکیک کا ان معنی میں موجد بنانے کی کوشش کی ہے جن معنی میں ہیوم اور ڈیکارٹ تھے ۔لطفی جمعہ لکھتے ہیں :
“والغريب في أمر هذا الفيلسوف أنه سلك سبيل الفلسفة الحسية قبل (دافيد هيوم) الإنجليزي بستة أو سبعة قرون، وإذا علمنا أن دافيد هيوم كان له أعظم فضل في تنمية فكر(عمانوائيل قانت) الألماني الذي أقر في كتابه بأن هيوم هو الذي أيقظه من غفلته، لعلمنا مقدار عقل الفيلسوف الغزالي بالنسبة لهؤلاء المحدثين الأمجاد من أهل أوروبا، فإن الغزالي فتش عن العلوم فوجد نفسه عاطلًا من علم موصوف بهذه الصفة إلا في الحسيات والضروريات۔”
ترجمہ : اس فلسفی کے متعلق عجیب بات یہ ہے کہ اس نے انگریز مفکر ڈیوڈ ہیوم سےچھ سات صدی قبل حسیت کے مسلک کو پیش کیا جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ڈیوڈ ہیوم کو کانٹ کے ذہن کو ترقی دینے کے اعتبار سے ایک خاص مرتبہ حاصل ہے ۔جیسا کہ خود کانٹ نے اپنی کتاب میں اقرار کیا ہے کہ ہیوم ہی وہ شخص ہے جس نے مجھے خوابِ غفلت سے جگایا ۔تو ہم یورپ کے ان جدید فلاسفہ کے مقابل میں غزالی کی عقلی وسعت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کیونکہ غزالی نے تمام علوم کی تحقیق کی اور اپنے نفس کو اس علم سے عاری پایا جو اس وصف سے موصوف ہو سوائے حسیات اور ضروریات کے ۔
لیکن ہماری رائے میں اس قسم کے بیانات کی اصل دو مفکرین میں سطحی مشابہت کا پیش خیمہ ہے ۔ ورنہ حقیقتا غزالی کا نہ تو تشکیکی منھج من کل الوجوہ وہ تھا جو ڈیکارٹ نے پیش کیا اور نہ ہی حسیات پر غزالی کا اعتماد ہیوم کے اعتماد کے مثل تھا ۔ اول مسئلہ میں غزالی اور ڈیکارٹ میں زیادہ سے زیادہ مماثلت صرف روحانی بحران اور تشکیک واقع ہونے کی ہے جبکہ ثانی میں غزالی حسیات پر اعتماد کر کے اسے بطور حتمی اور ایسے ذریعہء علم کے ہرگز نہیں اپنا لیتے جس سے آگے کو ئی ذریعہ ء علم حقیقت تک رسائی کا باقی نہ رہے ۔ ثانیا جس مقام یعنی اپنی روحانی بحران کی روداد میں جہاں غزالی حسیات اور بدیہیات پر اعتماد کی بات کرتے ہیں اس سے اگلی ہی سطح پر اس کا انکار کرتے نظر آتے ہیں اور پہلے سے زیادہ شک کی طرف قدم بڑھا دیتے ہیں لہذا ایسی سطحی مشابہتوں کے ہوتے ہوئے غزالی کو من و عن ان مسالک کا نمائندہ قرار دے دینا درست فکر نہیں ہے ۔
7۔اقدارکا ازسرِ نو جائزہ
تمام اقدار کا بناء تعصب از سرِ نو جائزہ غزالی کی زندگی کا سب سے اہم امتیاز ہے ۔غزالی نے فی زمانہ رائج علوم ، فنون ، مذاہب اور تصورات کی جانچ پرکھ پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ انکی بنیادوں کو بھی حقیقت کی تلاش میں سوالات کی زد میں رکھا ۔عموما مفکرین اپنے مذہبی یا سماجی بنتروں سے تشکیل شدہ تصورات کو قبل تجربی علوم کا درجہ دینے کے بعد دیگر تصورات کا تجزیہ اسی خود ساختہ کسوٹی پر کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ غزالی نے ایسی تمام بنیادوں کی حقیقت کو بھی جانچنے کی کوشش کی ہے ۔ یہی امتیازی وصف انہیں اپنے زمانے کے دیگر مفکرین سے جدا کرتا ہے ۔
حنیف ندوی لکھتے ہیں :
“غزالی اور اسکے حریفوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اگرچہ انہوں نے فلسفہ و حکمت اور مذہب میں بلاشبہہ دادِ تحقیق دی لیکن ان میں سے کوئی ایسا نہیں جس کے دل پر شک و ریب نے دستک دی ہو ، جس کو ہر ہر حقیقت نے بد ظن کر دیا ہو ،ہر ہر صداقت نے آزمائش میں ڈالا ہو ،جس نے تمام خیالات و افکار کی رسمی تقلید سے رہائی حاصل کر کے اور تاویل و استدلال کے گورکھ دھندوں سے نکل کر تحقیق کی ایک نئی بنیاد ڈالی ہو ۔فلسفہ و مذہب کے اذعانات کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا ہو جب تک انکی حقانیت کو اچھی طرح نہ آزما لیا ہو اور انکا ذاتی تجربہ نہ کر لیا ہو “
کمنت کیجے