ڈاکٹر عمار خان ناصر
صحیح بخاری کی ایک مشہور روایت میں ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ کے حجرے میں تشریف لائے اور ایک کپڑے پر تصاویر دیکھیں تو ناراضی کا اظہار فرمایا۔ کپڑے کو ہٹا دینے کا حکم دیا اور دو باتیں فرمائیں۔ ایک یہ کہ تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ تم نے جو تصویریں بنائی ہیں، ان کو زندہ کر کے دکھاو۔ دوسری یہ کہ جس گھر میں تصویریں ہوں، وہاں فرشتے نہیں آتے۔(صحیح بخاری 1963)
یہ روایت سیدہ سے ان کے بھتیجے قاسم بن محمد نے نقل کی ہے۔ تاہم بخاری کے مختلف مقامات پر اس واقعے کی دو مختلف تصویریں ملتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق جس کپڑے پر آپ نے تصویر دیکھی، وہ تکیہ تھا جو سیدہ نے آپ کے لیے بنایا تھا۔ اس تصویر واقعہ کی رو سے جب باتصویر تکیے کو ہٹا دینے کی ہدایت کی گئی تو وہ کپڑا گھر میں موجود ہی نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم دوسری روایت کے مطابق ابتداء آپ نے جس کپڑے پر تصویر دیکھی، وہ ایک پردہ تھا۔ آپ کے اظہار ناراضی پر سیدہ نے پردہ اتار کر اس کو تکیے کا غلاف بنا دیا اور اس پر پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگایا کرتے تھے۔
اگر دوسری تصویر واقعہ درست ہو (جو کئی طرق سے قاسم بن محمد سے مروی ہے) تو پھر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے پر تصویر دیکھ کر یہ فرمایا کہ اس کے بنانے والے کو عذاب دیا جائے گا اور یہ کہ اس کے ہوتے ہوئے فرشتے گھر میں نہیں آئیں گے تو سیدہ عائشہ نے اسی باتصویر کپڑے کا تکیہ کیوں بنا لیا جبکہ تصویر بعینہ موجود تھی؟ مزید یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اس تکیے کو استعمال فرمانے لگے، حالانکہ مذکورہ دونوں باتوں کی رو سے وہ کپڑا کسی بھی صورت میں گھر میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔
سیدہ کے بیان کردہ اسی واقعے کو جب ہم کتب حدیث میں مروی دیگر روایات میں دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ قاسم بن محمد کے علاوہ کم سے کم تین معروف راویوں نے یہی واقعہ سیدہ سے روایت کیا ہے اور ان تینوں میں صورت واقعہ اس سے بہت مختلف ہے جو قاسم کی روایت میں بیان ہوئی ہے۔
۱۔ سعد بن ہشام انصاری نے سیدہ سے یہ واقعہ یوں نقل کیا ہے کہ ہمارے حجرے میں لٹکے ہوئے ایک پردے پر پرندے کی تصویر تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو یہاں سے ہٹا دو کیونکہ میں جب بھی اندر آتا ہوں تو اس کو دیکھ کر مجھے دنیا یاد آتی ہے۔(صحیح مسلم 3934)
۲۔ سیدہ کے بھانجے عروہ بن زبیر واقعہ یوں نقل کرتے ہیں کہ سیدہ نے ایک بچھونا خریدا جس پر تصویریں تھیں۔ وہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا اور کہا کہ وہ اس کا ایک چھوٹا سا خیمہ (حجرے کے اندر) بنانا چاہتی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ نہیں بلکہ اس کو کاٹ کر دو تکیے بنا لو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔(مسند احمد23668)
۳۔ سیدہ کی بھتیجی اسماء بنت عبد الرحمن کی روایت کے مطابق واقعہ یوں ہے کہ ایک سفر سے واپسی پر آپ نے ایک باتصویر پردہ لٹکا دیکھا تو فرمایا کہ عائشہ، تم دیواروں کو کپڑے پہناتی ہو؟ چنانچہ سیدہ نے اس کو اتار کر تکیہ بنا دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھا کرتے تھے۔(مسند احمد24908)
۴۔ مذکورہ رواۃ کے علاوہ خود قاسم بن محمد کی روایت کے ایک طریق میں بھی واقعے کی یہی تصویر ملتی ہے جو امام مسلم نے نقل کیا ہے۔ اس کے مطابق گھر میں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اسے یہاں سے ہٹا دو۔(مسنداحمد 24908)
۵۔ سیدہ عائشہ کی اپنی روایات کے علاوہ اس واقعے کا ذکر حضرت انسؓ کی ایک روایت میں بھی ہوا ہے اور وہاں بھی صرف اتنا ذکر ہے کہ گھر میں ایک باتصویر پردہ لٹکا ہوا تھا تو حضور نے سیدہ سے کہا کہ اس کی تصویریں نماز میں مجھے متوجہ کرتی رہتی ہیں، اس لیے اسے یہاں سے ہٹا دو۔(صحیح مسلم 3938)
ان تمام طرق میں جزوی تفصیلات کے فرق کے ساتھ قدر مشترک یہ ہے کہ باتصویر پردے کی ناپسندیدگی کی وجہ آرائش اور دنیاداری بتائی گئی ہے۔ کسی میں بھی تصویر سازوں کے عذاب یا فرشتوں کے گھر میں نہ آنے کا ذکر نہیں ہے۔
یہ بات کہ اس واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باتصویر کپڑے پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے وہ بات ارشاد فرمائی ہو جس کا قاسم بن محمد کی روایت میں ذکر ہے (یعنی تصویر بنانے والے کو عذاب اور فرشتوں کا گھر میں نہ آنا)، نہ صرف عقلی طور پر بے محل ہے، کیونکہ اس صورت میں اسی کپڑے کو تکیے کے لیے استعمال کرنے کی کوئی تک نہیں بنتی، بلکہ واقعے کے دیگر تمام طرق سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے جس کی مختصر وضاحت عرض کی گئی۔ تاہم اس ضمن میں ایک فیصلہ کن وضاحت اتفاق سے خود سیدہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے جس کا متن یہاں درج کیا گیا ہے۔
’’اس روایت کے مطابق زید بن خالد جہنی نے ابو طلحہ انصاری سے یہ حدیث سنی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس گھر میں کتا یا تصاویر ہوں، وہاں فرشتے نہیں آتے۔ زید بن خالد یہ سن کر تصدیق کے لیے سیدہ عائشہؓ کے پاس گئے اور پوچھا کہ ابو طلحہ مجھے یہ بات بتا رہے ہیں، کیا آپ نے اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ جواب میں سیدہ کہتی ہیں کہ نہیں، میں نے ایسا کچھ نہیں سنا، البتہ میں وہ واقعہ تمھیں سنا دیتی ہوں جو میں نے دیکھا۔ ایک دفعہ آپ کسی غزوے پر تشریف لے گئے۔ آپ کی غیر موجودگی میں، میں نے ایک بچھونا لے کر اسے دروازے پر لٹکا دیا۔ جب آپ واپس تشریف لائے تو مجھے آپ کے چہرے میں ناپسندیدگی دکھائی دی۔ آپ نے کھینچ کر اسے اتار دیا اور فرمایا کہ اللہ نے ہمیں گارے اور پتھر کو کپڑے پہنانے کی ہدایت نہیں کی۔ سیدہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد ہم نے اس کپڑے سے تکیے کے دو غلاف بنا لیے اور ان میں کھجور کی چھال بھر لی تو اس پر آپ نے کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔’’(صحیح مسلم 2106)
سیدہ کی یہ تصریح کہ انھوں نے اس واقعے میں تصویر کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے زیادہ کچھ نہیں سنا، اس بات کی کم وبیش یقینی دلیل بن جاتی ہے کہ قاسم بن محمد کی روایت میں راویوں سے کچھ غلطی ہوئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دیگر مواقع پر خاص تصاویر سے متعلق جو بات ارشاد فرمائی تھی کہ ان کے بنانے والوں کو عذاب دیا جائے گا (جو کتب حدیث میں متعدد صحابہ سے مروی ہے)، راویوں نے مضمون کی مناسبت دیکھتے ہوئے غلط فہمی سے اسے سیدہ عائشہ کے واقعے میں بھی درج کر دیا ہے جس سے واقعے میں ایک تضاد پیدا ہو گیا ہے اور ایک بالکل بے جوڑ سی بات بن گئی ہے۔
درست بات یہی لگتی ہے کہ آپ نے اس واقعے میں صرف دنیاوی زیبائش وآرائش کے پہلو سے یا نماز میں خلل انداز ہونے کے پہلو سے باتصویر پردے کو نمایاں طور پر لٹکانے کو ناپسند کیا، البتہ اس بات کو گوارا فرمایا کہ تکیے یا بچھونے کے طور پر ایسا کپڑا استعمال کر لیا جائے۔ جن احادیث میں مصوروں کے عذاب کا ذکر ہے، وہ الگ موقع کی ہیں اور ان میں فی نفسہ تصویر نگاری کو حرام نہیں بتایا گیا، بلکہ کسی خاص پس منظر میں ایسی تصویر سازی پر وعید بیان کی گئی ہے جس کے ساتھ کوئی غلط تصور یا عقیدہ وابستہ ہو۔
ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم
کمنت کیجے