عصر حاضر کی نوجوان نسل جو کہ علم و فنون کے سیل رواں سے نہ صرف فیض یاب ہو رہی بلکہ ان سے خوب واقف بھی ہے۔شعور و آگہی کی بلند ترین منزل پر کھڑی اس وقت مذہب کے حوالے سے جن الجھنوں کا شکار ہے اور جن سوالات کی متلاشی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آیا اسلام ایک متعدل مزاج کا حامل دین ہے یا پھر شدت پسندی اس کا خاصہ ہے۔ بچپن سے لے کر عقل و شعور کی دہلیز پر قدم رکھنے تک ان کو ایک بات بار بار نصابی و غیر نصابی اسلامی کتب میں پڑھنے کو ملی کہ اسلام میانہ روی کو پسند کرتا ہے اور اس کا حکم دیتا ہے۔ شدت پسندی اس کا خاصہ نہیں ہے۔ مگر جب کتب سے نکل کر عملی زندگی میں اسلام کو دیکھا پرکھا اور اس کو اپنانے کی کوشش کی تو حقیقت حال اس سے بہت مختلف نکلی۔ ترغیبات و خواہشات سے بھر پور اس زندگی میں جو چند باشعور اور خوش نصیب لوگ اس دین کی حقانیت کو دل سے قبول کرتے ہوئے اس کی طرف مائل ہوئے ان میں سے بیشتر کو جس شدت پسندی کا سامنا کرنا پڑا ان کو حالت کچھ یوں ہوئی کہ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ دل ہے کہ اس دین حق کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے مگر دوسری طرف جو پیکج ان کو دین کا دیا جاتا ہے و ہ اس قدر مشکل ہے کہ ان کے لیے اس کو قبول کر نا جان جوکھوں کا کام ہے۔
بحیثیت ایک اسلامیات کے استاد کےجب نوجوان نسل سے ان کے تجربات اور احساسات جاننے کا موقع ملا تو یہ احساس ہوا کہ ان میں کئی سلیم القلب افراد اسی شدت پسندی کی بھینٹ یا تو چڑھ چکے یا پھر عنقریب اس پر قربان ہونے جا رہے۔ایسا کیونکر ہو رہا یہ سوال یقینا قابل توجہ ہے مگر ایسا ہو کس طرح رہا ہے ؟ یہ اس سے بھی زیادہ اہم سوال ہے۔ ذاتی تجربے کی بناء پر میرے نزدیک اس کی چند صورتیں نہایت عام ہیں جن کی بدولت نوجوان نسل اس شدت پسندی کا شکار ہو رہی ہے۔ مثلا جب کوئی نوجوان اپنے تئیں اسلام کو صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ قلبی اور عملی لحاظ سے اپنانا چاہتا ہے اور کسی مذہبی شخص، جو اس کے نزدیک چاہے تو دینی علوم کا ماہر ہو یا پھر نیک و پرہیزگار، سے رجوع کرتا ہے تو اس کو کچھ اس طرح کی صورتحال سے واسطہ پڑتا ہے کہ اولاً چند شعائر اسلامی کو ایمان کی حقانیت سے منسلک کر دیا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے کہ تم اسی وقت صحیح معنوں میں مسلمان کہلاؤ گے جب تمھاری شرعی داڑھی ہو گی۔ عشق رسول کا حق ادا کر کے ہی تم مکمل طور پر مسلمان بن سکتے ہو۔ لباس و طعام میں اسلامی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ وہ نوجوان جو داڑھی کے بغیر ہے اس کو نہ تو مسجد میں اذان دینے کا حق ہے اور نہ ہی جماعت کروانے کا چاہے اس کا علم کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح نوجوان لڑکیوں کو جو پیکج دیا جاتا ہے وہ یہ ہےکہ آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنی آرائش نا محرم مردوں سے چھپائیں۔ آپ کا چہرہ ہمیشہ ڈھکاہوا ہو۔ آپ کو تقریبات کے دوران بننے سنورنے کا حق نہیں ہے آپ کو تمام مخلوط تقریبات میں یوں جانا ہو گا کہ کوئی آپ کا چہرہ نہ دیکھ پائے اور جو عورت یوں نہیں کرتی وہ دین اسلام میں پوری طرح داخل نہیں ہو سکتی ۔ دوم یک مشت تمام اراکین اسلام چاہے ان کی حیثیت ثانوی ہو یا بنیادی اختیار کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ سوم ایسا نہ کرنے والوں کے لیے خصوصی مذمت و حقارت کا رویہ اپنایا جاتا ہے ۔بجائے ان کی حوصلہ افزائی کے ان کے سامنے ایک مسلمان کی ایسی لازم خصوصیات بیان کی جاتیں کہ جس کو سن کر ہی وہ ڈر جاتے اور دین حق کو اپنانے کی طلب دل ہی میں رہ جاتی۔ الٹا ان کے اند ر ایک طرح کا احساس کمتر ی پیدا کر دیا جاتا ۔ ان کو یہ باور کروایا جاتا کہ چاہے آپ کا اخلاق کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ؟ آپ کا معاملہ کتنا ہی درست ہو؟ دل میں خوف الہٰی اور اس کی محبت ہو عبادات کی لگن ہو مگر جب تک آپ داڑھی نہیں رکھ لیتے کسی کی بیعت نہیں کر لیتے کسی مذہبی جماعت یا گروہ سے منسلک نہیں ہو جاتے ، اپنے آپ کو سر تک پاؤں ڈھانپ کر تمام تر جمالیاتی حسوں سے خود کو مبر ا نہیں کر لیتے ۔تب تک آپ اسلام کے سچے پیروکار نہیں بن سکتے ۔ نہ آپ کی نمازوں کی کوئی اہمیت نہ آپ کے سچ اور دیانت داری کی، نہ آپ کی پرہیزگاری کی تب تک جب تک آپ کے چہرے پر داڑھی نہ نمودار ہو جائے یا پھر آپ کا چہرہ ماسوائے آنکھوں کے چھپ نہ جائے۔ اور اس کا نتیجہ نوجوان نسل کی اسلام سے مزید دوری کی صورت میں نکل رہا۔ حال میں ایک نوجوان لڑکی سے ملاقات ہوئی جو نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور تھی بلکہ دوسروں کے مقابلے زیادہ حساس اور میرے نزدیک قلب سلیم کی حامل ۔ اس کا مجھ سے جو پہلا سوال تھا وہ یہ تھا کہ میرے جیسی لڑکی جو اس تقریب میں اس طرح شریک ہوئی کہ اس کے سر پر ڈوپٹہ نہیں ہے ،چہرے پر کچھ آرائش کے آثار بھی ہیں ، تو آپ کی میرے بارے میں یا مجھ جیسی دوسری لڑکیوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ آپ کیسا محسوس کرتی ہیں ہمیں لے کر ؟ کیا آپ کو ہم سے نفرت یا بیزاری محسوس ہوتی ہے؟ کیونکہ ہم نے میک اپ بھی کر رکھا ہے اور بال بھی کھول رکھے ہیں۔ اس کے اس ایک سوال سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ بچی بھی دیگر نوجوانوں کی طرح اسی شدت پسندی کا شکار ہو چکی ۔ ایسے نوجوان بچوں کا یہ سوال بھی ہوتا ہے کہ مذہبی شخصیات ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تو کیا ان کا یوں کرنا مناسب ہے؟
میرے نزدیک یہ شدت پسندی ہی کا ایک مظہر ہے۔ اگر چہ داڑھی یا پردا بطور شعائر اسلام بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں اور کسی طور ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔ مگر ان کو ابتداء و انتہا قرار دے دینا شدت پسندی کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ شدت پسندی ہمارے ہر طبقے میں سرایت کر چکی ہے۔ ہم صرف مدارس کو ہی اس کا ذمہ دار یا سب سے بڑا ذریعہ نہیں قرار دے سکتے بلکہ وہ مسلمان جو مدارس کے فارغ التحصیل نہیں ہیں بطور مذہب اسلام کے حوالے سے ان کا رویہ بھی شدت لیے ہوئے ہوتا ہے۔ یہ ہماری شدت پسندی ہی ہے کہ ہم آسانی کو چھوڑ کر ہر کام میں مشکل پسند ہو چکے ہیں۔ یہ شدت پسندی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہمارے نزدیک مقصود سے بڑھ کر اس مقصود کے حصول کے ذرائع اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ مرد و زن کے اختلاط کے حوالے سے موجود تمام احکامات دراصل ذرائع ہیں جن کا ایک مقصود ہے۔ اور وہ مقصد اس کے سوا کوئی نہیں کہ خاندانی و عائلی زندگی کو تحفظ فراہم کیا جائے اور معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کے فروغ کے دروازے بند کیے جائیں۔ لیکن ان احکامات کو ہی کل قرار دے کر ایمان کو جانچنے کا آلہ بنا دینا ۔کیا یہ شدت پسندی نہیں؟ ایسی کئی اور مثالیں ہمیں مل سکتی ہیں جو بطور دین اسلام کے پیروکار کے ، اس کے مبلغ کے ، اور اس کے نمائندہ کے ہماری شدت پسندی کو واضح کریں گے۔
لیکن اسلام کا مزاج تو کسی صورت یہ نہیں ہو سکتا ۔ یہ لوگوں کو بدظن کرنے نہیں بلکہ انتہائی حکمت سے ان کو اپنی طرف مائل کرنے کا حکم دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نےاگرچہ نصوص پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا مگر ایسی مثالیں ہمیں ملتی ہیں جب آپ نے لوگوں کی حالت کو دیکھتے ہوئے کئی احکامات میں نرمی برتی یا پھر سرے سے ان کو وہ احکامات بیان کیے جن پر عمل کرنا ان کے آسان تھا۔لہذا اسلام کے اسی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے اس نوجوان بچی کو یہ تو بتلایا کہ اسلام کے احکامات کیا ہیں اور ان میں کس حد تک ہمارے لیے گنجائش اور سہولت موجود ہے اور سب سے بڑھ کر ان کی حکمت کیا ہے؟ مگر میں نے اس کے لیے اور اس جیسے دیگر تمام نوجوانوں کے لیے احترام کا اظہار کیا جو کہ حتی الوسع چہرے کھلا رکھنے یا کلین شیو کے باوجود اپنے نگاہوں اور عصمت کی حفاظت کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔
ہمیں یہاں بطور ایک استاد ، ایک مبلغ ، ایک محقق اور ایک مسلمان کے یہ سوچنا ہو گا کہ اسلام جو کہ اپنی اصل میں ایک معتدل مزاج کا حامل دین ہے اعتدا ل کا حکم دیتا ہے تو اس کی تعلیمات کو بھی یوں سمجھا اور ہر سطح پر پیش کیا جائے کہ لوگ اس دین میں آسانی اور اعتدال پائے ہوئے اس کی طرف مائل ہوں نہ کہ بدظن ۔اگر ہم ہدایت کی طلب دل میں لیے غور و فکر کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر وہ عمل جو آج نوجوان نسل کو دین سے دور کرنے کا سبب بن رہا ہے اعتدال کے دائرے میں آکر ان کی ذہنی الجھنوں کی تشنگی کا باعث بن جائے۔
کمنت کیجے