جب تک کسی مسئلے پر خصوصی تحقیق کی ضرورت نہ پڑے، تو جو راے عموما ہمارے مفتیانِ کرام کے ہاں رائج ہوتی ہے، ہم اسی کی پابندی کرتے ہیں اور اسی کو حنفی مذہب سمجھتے ہیں۔
البتہ تحقیق کی ضرورت آن پڑے، تو پھر ہماری ترتیب یہ ہوتی ہے:
سب سے پہلے ہم مبسوط میں اس مسئلے پر امام سرخسی کا تفصیلی تجزیہ پڑھتے ہیں (اور بار بار پڑھتے ہیں)۔ پھر اس مسئلے کے دیگر پہلوؤں پر بھی مبسوط میں ہی متعلقہ مقامات دیکھ لیتے ہیں۔ جب یہ متعین ہوجائے کہ امام سرخسی نے اس مسئلے پر حکم کیسے بیان کیا ہے، تو اس کے بعد ہی ہم اگلا قدم اٹھاتے ہیں۔
اگلے قدم کے طور پر ہم امام سرخسی سے پیچھے جا کر امام جصاص اور ان سے قبل امام طحاوی کے ہاں اس مسئلے کو دیکھ لیتے ہیں اور عموما کوئی بہت بڑا فرق نظر نہیں آتا لیکن نظر آئے تو امام جصاص پر ہم امام سرخسی کو ترجیح دیتے ہیں۔ البتہ امام سرخسی اور امام طحاوی میں فرق نظر آئے تو مسئلہ گمبھیر ہوجاتا ہے اور پھر تب تک ہم اگلے قدم پر نہیں جاتے جب تک اس فرق کی توجیہ نہ ہوجائے۔
اس کے بعد ہم اسی بحث کو امام کاسانی کے ہاں دیکھ لیتے ہیں اور بسا اوقات یہی ہوتا ہے کہ امام کاسانی نے امام سرخسی کی بات کو الفاظ کے معمولی تغیر کے ساتھ، لیکن نہایت اعلی ترتیب کے ساتھ، ذکر کیا ہوتا ہے۔ بعض اوقات امام کاسانی کے ہاں کوئی ایک آدھ پہلو تشنہ بھی رہ جاتا ہے اور جب تک اس کے ساتھ امام سرخسی کی تفصیل نہ دیکھی جائے، آدمی کو غلط فہمی لاحق ہوسکتی ہے۔
امام کاسانی کے بعد چوتھے مرحلے پر ہم ہدایہ کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں ہم بدایۃ المبتدی کے متن کو ہدایہ کی شرح سے الگ کرکے پڑھتے ہیں۔ متن میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ امام مرغینانی نے امام طحاوی، امام سرخسی اور امام کاسانی کی بحث کو نہایت جامع الفاظ میں سمویا ہوتا ہے۔ پیچھے کی وہ ساری بحث واضح ہو، تو عموما متن میں کوئی اشکال نظر نہیں آتا لیکن پھر بھی کچھ مسئلہ ہو، تو متن کی وضاحت امام مرغینانی کے مختصر نوٹس سے ہوجاتی ہے۔
البتہ یہ فکر ضرور لاحق ہوتی ہے کہ کہیں متن کے فہم میں ہم سے غلطی نہ ہوئی ہو، یا اپنے فہم کو متن پر حاوی نہ کیا ہو، اس لیے ہم ہدایہ کی شروح کی طرف لازما رجوع کرتے ہیں اور اس ضمن میں ہماری توجہ بالعموم علامہ ابن الہمام، علامہ عینی اور علامہ بابرتی کی شروح پر ہوتی ہے۔
اگر ہدایہ سے ہماری سمجھ میں کچھ اور آیا ہو (اور اس کی تائید امام طحاوی، امام سرخسی اور امام کاسانی سے بھی ہوتی ہو) لیکن شارح کچھ اور اضافی بات کہہ رہے ہوں، تو ہم رک کر دوسری شروح بھی دیکھتے ہیں اور پھر بالخصوص علامہ شامی کی ردالمحتار کا رخ کرتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوا ہے لیکن جب بھی ہوا ہے، علامہ ابن الہمام کی بعض آرا کے ضمن میں ہی ہوا ہے۔ ایسی صورت میں بعض اوقات علامہ بابرتی اور اکثر اوقات علامہ شامی ہمارے لیے فیصلہ کن ثابت ہوجاتے ہیں۔
علامہ شامی کے کام کی کئی خصوصیات ہیں لیکن اس میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں بہت سارے مآخذ سے مواد لے کر ان پر مختصر تبصرہ بھی ہوتا ہے اور بعض اوقات قاری ان بہت سارے حوالہ جات اور ان پر تبصروں میں گم ہوجاتا ہے، لیکن جس راستے سے ہم آتے ہیں، یعنی مبسوط، بدائع الصنائع اور ہدایہ کے بعد رد المحتار پڑھیں، اور وہاں بھی تنویر الابصار کے متن کو الدر المختار کی شرح سے الگ پڑھیں اور الدر المختار کو الگ دیکھیں اور آخر میں علامہ شامی کا حاشیہ پڑھیں، تو ساری بات نہایت وضاحت کے ساتھ کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ بات وہی ہوتی ہے جو علامہ شامی سے آٹھ سو سال قبل امام سرخسی نے کہی ہوتی ہے۔ یوں نہ صرف ایک مسلسل روایت کی صورت سامنے آجاتی ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اصول سے فروع اور پھر مزید فروع نکالنے میں اصولی ہم آہنگی کو کیسے یقینی بنایا گیا ہے اور کیسے بحث درجہ بدرجہ آگے بڑھی ہے۔
یہ تو رہی مآخذ کی بات لیکن ان مآخذ سے استفادے کےلیے ہمارا طریقہ سوال و جواب کا ہوتا ہے۔ کسی مسئلے کے ایک ایک پہلو پر کئی کئی سوالات، پھر ان کے جوابات ملیں تو مزید سوالات، یہاں تک کہ اس کا ہر پہلو منقح ہوکر سامنے آجائے۔ ایک دفعہ استاد محترم کے ساتھ ایک مسئلے پر بحث میں ہمارے درمیان دو سو سے زائد ای میلز کا تبادلہ ہوا جس میں امام طحاوی، امام جصاص، امام سرخسی، امام کاسانی، امام مرغینانی، علامہ ابن الہمام، علامہ عینی، علامہ بابرتی اور علامہ شامی کی کئی عبارات کا تجزیہ ہوا، کئی کئی سوالات قائم ہوئے اور بالآخر ایک نتیجے پر پہنچے جس پر بہت تفصیلی بحث کے بعد ہی اتفاق ممکن ہوسکا۔
کمنت کیجے