Home » ” مجھے فیمنسٹ نہ کہو”
اردو کتب تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

” مجھے فیمنسٹ نہ کہو”

زبیر  بن اسمعیل

یہ کتاب محترمہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے کالمز اور مضامین کا مجموعہ ہے, آپ مشہور گائناکالوجسٹ اور ادیبہ ہیں, مختلف اخبارات و رسائل میں آپ کے مضامین زینت اوراق بنتے ہیں,
کتاب کا موضوع سماج کی غریب عورت ہے, جسے یا تو اپنے حقوق معلوم نہیں یا پھر وہ اپنے حقوق کے لیے پدر شاہی ماحول میں آواز اٹھانے سے قاصر ہے,
ڈاکٹر صاحبہ نے عورت کے ساتھ روا رکھی جانے والی معاشرتی, اخلاقی, معاشی, برائیوں پر لکھا ہے, اور کیا خوب لکھا ہے,, وٹہ سٹہ, ونی, جہیز, بلوغت سے پہلے ہی منسوب کر دینے کا معاشرتی چلن, ہی موضوع کتاب ہے,,,!
مجھے فیمنسٹ نہ کہو, در اصل, آٹھ مارچی خواتین کے منہ پر طمانچہ ہے کہ وہ سال میں ایک مخصوص دن تو نام نہاد حقوق کی آواز تو اٹھاتی ہیں مگر پھر وہی خواتین سال بھر مردوں کو خوش رکھنے کا سامان بھی کرتی ہیں,
یہ کتاب موجودہ نہیں, بلکہ ماضی اور مستقبل کی حقوق نسواں کی علمبردار ہے,
ڈاکٹر صاحبہ کی تانیثیت محض نظریاتی نہیں, بلکہ انہوں خواتین کے غضب شدہ حقوق پر مکمل کھوج کی ہے ,,,,وہ ان اصطلاحات کو استعمال کرتے ہوئے ہر گز نہیں شرماتی, جن کے استعمال پر غیرت مند مرد اپنی خواتین کو قبر میں اتار دیتے ہیں,
ڈاکٹر صاحبہ کا خاص موضوع, جنسی تشدد کا شکار خواتین ہیں, جو آج تک یہ حقیقت تسلیم نہ کروا سکیں کہ وہ محض جنسی وظیفے کا معمول نہیں, بلکہ وہ احساس, عقل شعور, اور روح رکھنے والی ایک کامل مخلوق ہے, جو زندگی کی بقا, و ارتقاء میں برابر کی حصہ دار ہے,,
مصنفہ سب سے زیادہ عورت کی تعلیم پر زور دیتی ہیں کیوں کہ اسی کی بدولت اسے وہ مقام حاصل ہو سکتا ہے جسے مرد نے اسے ان پڑھ رکھ کر چھین لیا ہے
یہ کتاب پڑھنے سے آپ کے ذہن پر پڑے وہ معاشرتی بے راہ روی کے پردے کھلیں گے کہ, ایک انسان ہونے کے ناتے مرد عورت کے حقوق برابر ہیں, تو وہ کس طرح سے ہیں,
انہیں مذہبی طبقے سے بھی گلہ ہے کہ علم المیراث پر عبور حاصل کرنے باوجود ان کے عہد میں خود ان کی اپنی بہنیں, بیٹیاں وراثت سے محروم کیوں ہیں, اسلامی حقوق نسواں کا راگ الاپنے والوں کے اپنے حجرے طوائفوں سے آباد کیوں ہیں,
ڈاکٹر صاحبہ کے پیش نظر وہ تمام خواتین ہیں, جن کی مجبوریوں اور خوبصورتی کا فائدہ اٹھا کر چند چمکتے نوٹوں کے لئے انہیں,سیاست دانوں, جرنیلوں, علمائے سوء ,بیروکریٹوں کی جنسی تسکین کے لئے, پارلیمانی لاجرز, چھاونیوں, حجروں, اور سرکاری دفاتر میں پیش کر دیا جاتا ہے,
وہ ہر اس عمل کو خواتین کا حق سمجھتی ہیں, جس پر مردوں کی خود ساختہ غیرت اور اناء کو ٹھیس پہنچتی ہے,, وہ یہ باور کروانا چاہتی ہیں, کہ کنوار پن صرف لڑکی کے لئے ہی کیوں ضروری ہے, لڑکے کے لئے کیوں ضروری نہیں,,,,!

یہ کتاب نہیں شاہکار ہے, اصلی حقوق نسواں کا, اور آواز اٹھائی گئی ہے, اس پانچ, دس سالہ, بچیوں کے ریپ کے خلاف, اس غیر محفوظ عورت کے حق میں جو قبر میں بھی محفوظ نہیں, اس عورت کے حق میں جسے کاروکاری کے جرم میں موت کی راہ دکھائی جاتی ہے مگر جنس مخالف کو کوئی اور انعام میں کوئی اور عورت سونپ دی جاتی ہے,
اس عورت کے حق میں, جسے نو سالہ بھتیجا, غیرت کے نام پر قتل کرتا ہے جس کی نیپیاں بدلتے ہوئے بھی اس پر پیار آرہا تھا ,,
اس عورت کے حق میں جسے کسی اور کے جرم کے بدلے اپنے سے چالیس سال بڑے شخص کو سونپ کر ونی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے, ,,,
بعض مقامات پر مصنفہ کے قلمی نشتر مرد قاری کی انا اور غیرت کو شدت سے چبھتے ہوئےمحسوس ہونگے ,, لہذا اگر آپ کی غیرت اور انا اسے برداشت نہ کر پائے تو اسے پھر بھی ضرور پڑھیے گا ,یہ آپ کی انا کو عاجزی کی راہ دکھلائے گی,

یہ کتاب خواتین کو پڑھنی چاہیے کہ اس معاشرتی تشکیل شدہ پدر شاہی ماحول میں اپنےحقوق کو کیسے پہچان سکتی ہیں, اور ان کے لئے موثر آواز کیسے اٹھا سکتی ہیں, بالخصوص تازہ تازہ بالغ نوجوانوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے کہ خواتین کے متعلقہ ان کی اصل ذمہ داریاں کیا ہیں, , اور نئے شادی شدہ جوڑوں کو ضرور پڑھنی چاہیے,,تاکہ ایک دوسرے کے جسمانی و روحانی راز و نیاز جاننے کے بعد انہیں چھپانا اور اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے حل کیسے کرنا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبیر بن اسمعیل صاحب فاضل جامعہ دارالعلوم اسلامیہ ، ایم اے  اردو جامعہ پنجاب ہیں ۔ جبکہ جامعہ پنجاب ہی میں بی۔ایس نفسیات کے طالبعلم ہیں۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں