ابوبکر المشرقی
ایک حدیث مبارکہ میں عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے ، تو اس سے متعلق جدید اذہان کے سوالات قابلِ فہم ہیں ۔ کیا عورتیں واقعی ناقص العقل ہوتی ہیں ؟ اس حدیث کا مفہوم کیا ہے ؟ اس تحریر میں ہم اس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے ۔
حدیث درج ذیل ہے:
عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ، ۱ قَالَ :خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِيْ أَضْحٰی أَوْ فِطْرٍ إِلَی الْمُصَلّٰی، فَمَرَّ عَلَی النِّسَاءِ، فَقَالَ: ’’یَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ فَإِنِّيْ أُرِیْتُکُنَّ أَکْثَرَ أَہْلِ النَّارِ‘‘، [فَقَالَتِ امْرَأَۃٌ مِنْہُنَّ جَزْلَۃٌ]: وَبِمَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ’’تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ، مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِیْنٍ أَذْہَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاکُنَّ‘‘،۴ قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِیْنِنَا وَعَقْلِنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ’’أَلَیْسَ شَہَادَۃُ الْمَرْأَۃِ مِثْلَ نِصْفِ شَہَادَۃِ الرَّجُلِ‘‘؟ قُلْنَ: بَلٰی، قَالَ: ’’فَذٰلِکِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِہَا، أَلَیْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ‘‘؟ قُلْنَ: بَلٰی، قَالَ: ’’فَذٰلِکِ مِنْ نُقْصَانِ دِیْنِہَا‘‘.
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ عیدالاضحی یا عیدالفطر کے دن جاے نماز کی طرف جانے کے لیے نکلے تو آپ کا گزر عورتوں کے پاس سے ہوا۔ آپ نے فرمایا: بیبیو، صدقہ کیا کرو، اِس لیے کہ میں نے دوزخ میں تم کو زیادہ دیکھا ہے۔ اُن میں سے ایک عورت نے، جو دانش مند معلوم ہوتی تھی، پوچھا: ایسا کیوں ہو گا، یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: تم لوگ بہت زیادہ لعنتیں کرتی ہو۱ اورشوہروں کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا کہ اُس پر دینی اور عقلی، دونوں طرح کے معاملات کی ذمہ داری کم ڈالی گئی ہو اور وہ اچھے بھلے ہوشیار اور دانا مرد کو بے عقل بنا کر رکھ دے۔ عورتوں نے کہا: ہمارے اوپر دینی اور عقلی معاملات میں کیا کمی کی گئی ہے، یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: کیا تم پر گواہی کی ذمہ داری مردوں سے آدھی نہیں ہے؟ اُنھوں نے کہا: یقیناً۔ آپ نے فرمایا: یہی عقلی معاملات میں ذمہ داری کی کمی ہے۔ فرمایا: پھر کیا ایسا نہیں ہے کہ عورتیں ایام سے ہوتی ہیں تو نہ نماز پڑھتی ہیں اور نہ روزہ رکھتی ہیں؟ اُنھوں نے کہا: ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ دینی معاملات میں ذمہ داری کی کمی ہے۔”(الصحیح للبخاری)
بعض لوگ ایسی بات جب کسی ملحد وغیرہ سے سنتے ہیں کہ اسلام میں عورت کو ناقص کہا گیا ہے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں ، اور بعض اس حدیث جس میں یہ مضمون بیان ہوا ہے اسے ہی جھٹلانے لگتے ہیں ۔ یہ کوئی علمی طریقہ نہیں کہ کسی آیت یا حدیث کی کوئی بات بظاہر جدید مغربی فکر کے متعارض ہو تو اسے بلا سوچے سمجھے رد کر دیا جائے ۔ اس حدیث کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اسے ہم محض ضعیف یا موضوع قرار دے کر مطمئن ہو جائیں ۔ کیوں کہ یہ حدیث ، احادیث کی معتبر ترین کتب میں موجود ہے ۔
اس حوالے سے محمد حسن الیاس کی تحقیق و تخریج اس بارے بہت اہم ہے ، جو کہ درج ذیل ہے:
“۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحیح بخاری، رقم۲۹۶ سے لیا گیا ہے ۔اِس کے راوی ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔اُن سے یہ روایت اِن کتابوں میں نقل ہوئی ہے:الاموال،ابو قاسم بن سلام،رقم۱۲۳۵۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۹۵۹۳۔صحیح بخاری،رقم ۱۳۷۵، ۱۸۲۴۔صحیح ابن حبان،رقم۵۸۶۲۔
ابوسعید خدری کے علاوہ یہی مضمون عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔اُن سے اِس کے مصادر یہ ہیں: حدیث اسماعیل بن جعفر، رقم ۳۵۰۔ الاموال، ابو قاسم بن سلام، رقم۱۲۳۵۔مسند احمد، رقم۵۱۹۲، ۸۶۶۳۔سنن ترمذی،رقم۲۵۵۵۔سنن ابو داؤد، رقم۴۰۶۱۔سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۰۱۔السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۸۹۲۸۔ مسند ابی یعلیٰ،رقم۶۵۴۸، ۶۵۵۰۔
۲۔صحیح مسلم ،رقم ۱۱۷ میں اِس جگہ ’وَأَکْثِرْنَ الْإِسْتِغْفَارَ‘ کا اضافہ نقل ہوا ہے،یعنی زیادہ استغفار کرو۔اِس کے راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔
۳۔یہ اضا فہ صحیح مسلم ،رقم ۱۱۷۷ سے لیا گیا ہے ۔یہ خاتون کون تھیں؟ ابو قاسم بن سلام کی الاموال، رقم۱۲۳۵میں مذکورہے کہ یہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ زینب تھیں۔بعض روایات میں یہ بات بھی نقل ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس موقع پر شوہروں اور بچوں کو صدقہ دینے کے بارے میں بھی پوچھا گیا تو آپ نے اِس کی اجازت دی۔ ملاحظہ ہو:مسند احمد،رقم ۸۶۶۳۔
۴۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۹۸۱۹۹میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اِس جگہ یہ الفا ظ روایت ہوئے ہیں: ’مَا رَأَیْتُ مِنْ نَاقِصِ الدِّیْنِ وَالرَّأْيِ أَغْلَبَ لِلرِّجَالِ ذَوِي الْأَمْرِ عَلٰی أَمْرِہِمْ مِنَ النِّسَاءِ‘ ’’میں نے عورتوں سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا کہ اُس پر عقلی اور دینی، دونوں طرح کے معاملات کی ذمہ داری اُس کی کمزوری کے باعث کم ڈالی گئی ہو اور اِس کے باوجود وہ اپنے معاملات پر دسترس رکھنے والے مردوں پر غالب آجائے۔ ابوقاسم بن سلام کی الاموال ،رقم۱۲۳۵میں اِس جگہ ’مَا رَأَیْتُ مِنْ نَوَاقِصِ عُقُوْلٍ قَطُّ، وَلَا دِیْنٍ أَذْہَبَ لِقُلُوْبِ ذَوِي الأَلْبَابِ مِنْکُنَّ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔صحیح مسلم ،رقم ۱۱۷ میں یہاں’أَغْلَبَ لِذِي لُبٍّ مِنْکُنَّ‘کے الفاظ ہیں۔اِس کے راوی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔دونوں کے مدعا میں زیادہ فرق نہیں ہے۔مسند احمد ،رقم۸۶۶۳ میں اِس جگہ جملوں کی ترتیب یوں ہے:’مَا رَأَیْتُ مِنْ نَوَاقِصِ عُقُوْلٍ وَدِیْنٍ أَذْہَبَ لِقُلُوْبِ ذَوِي الْأَلْبَابِ مِنْکُنَّ، فَإِنِّيْ قَدْ رَأَیْتُکُنَّ أَکْثَرَ أَہْلِ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَتَقَرَّبْنَ إِلَی اللّٰہِ مَا اسْتَطَعْتُنَّ‘ ’’میں نے تم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا کہ اُس پر عقلی اور دینی، دونوں طرح کے معاملات کی ذمہ داری کم ڈالی گئی ہو اور وہ اچھے بھلے دانا مرد وں کے دل اچک لے جائے۔سو متنبہ رہو، قیامت کے دن میں نے دوزخ کے لوگوں میں تمھیں زیادہ دیکھا ہے۔ تم کو چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو‘‘۔
۵۔صحیح مسلم،رقم ۱۱۷ میں یہ بات اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے:’أَمَّا نُقْصَانُ الْعَقْلِ، فَشَہَادَۃُ امْرَأَتَیْنِ تَعْدِلُ شَہَادَۃَ رَجُلٍ، فَہٰذَا نُقْصَانُ الْعَقْلِ‘ ’’ رہا عقلی معاملات میں کمی کا معاملہ تو دو عورتوں پر گواہی کی ذمہ داری ایک مرد کے برابر ہے۔سو یہی عقلی معاملات میں ذمہ داری کی کمی ہے۔یہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔”
جہاں تک عورت کے ناقص ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات تو مسلّم ہے کہ عورت بہت سے اعتبارات سے ناقص ہے۔ مثلاً جسمانی لحاظ سے عورت مرد سے بہر حال کمزور ہے ۔
حدیث میں ناقص کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ اردو والے ناقص سے کہیں مختلف ہے۔ اردو میں ناقص خراب چیز کو کہتے ہیں جبکہ عربی زبان میں کم چیز کو ۔ اور دو چیزوں میں کمی زیادتی کا تناسب تو دنیا میں عام ہے لیکن کم استعداد کی حامل چیز کو کوئی ناقص نہیں کہتا مثلاً دو موبائلز ہوں ، ایک کی پیڈ اور ایک سمارٹ فون ۔ اب کی پیڈ موبائل میں کتنے ہی فیچر نہیں ہیں جو سمارٹ فون میں ہیں ۔ تو کیا کی پیڈ موبائل ناقص کہلائے گا ؟ ہر گز نہیں ۔ اس لیے کہ ہر آدمی جانتا ہے کہ کی پیڈ موبائل ویڈیو کال ، انٹرنیٹ اور گرافکس وغیرہ کے لیے بنایا ہی نہیں گیا ۔ ہاں جس چیز کے لیے بنایا گیا اگر اس میں کوئی خرابی ہوئی تو موبائل ناقص کہلائے گا ۔ اسی طرح عورت ہے بعض صلاحیتیں اللہ نے اس میں رکھی ہی نہیں ، بعض معاملات کا اسے مکلف بنایا ہی نہیں تو اسے ناقص کہنا کس طرح درست ہوا ؟
تو اب اصل سوال حدیث میں عورت کو ناقص العقل کیوں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ عقلی معاملات سے مراد دنیوی معاملات ہیں اور روایت میں’ناقصات‘ کا لفظ بالکل اُسی طرح آیا ہے ،جس طرح یہ سورۂ توبہ(۹) کی آیت ۴کے الفاظ’ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْئًا‘ میں استعمال ہوا ہے۔یہ یہاں اُس مفہوم میں نہیں ہے جس کے لیے اردو زبان میں ہم ’ناقص العقل‘ کی تعبیر اختیار کرتے ہیں۔
آخر میں ہم ایک اعتراض جو ہمارے اس موقف پر وارد ہو سکتا ہے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ عورت جب ناقص العقل ہے تو دین اسلام کا تقریباً پچاس فیصد حصہ ایک عورت یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے ۔۔۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عورت کو حدیث میں ناقص العقل بطور جنس کے کہا گیا ہے کہ بطور فرد کے نہیں ۔ مثلاً کوئی دیہاتی عورت کسی شہری مرد سے جسمانی اعتبار سے زیادہ مضبوط ہو سکتی ہے ، اسی طرح کوئی ٹریننگ یافتہ عورت عام مردوں سے بہت اعتبارات سے ممتاز ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو تمام امت کے مردوں پر علم میں فضیلت دی گئی ہے اور اس کی تصریح بہت سی حدیث و آثار میں موجود ہے ۔ اور یہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کمسنی میں نکاح کی وجہ تھی۔ سو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی امت کے تمام مردوں پر علمی برتری مسلم ہے لہذا یہ اعتراض بےمحل ہے ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوبکر المشرقی صاحب ماہنامہ فکر بھاولپور کے چیف ایڈیٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ماہنامہ گونج اور نوائے وقت کے مستقل لکھاری ہیں ۔ آپ کی دلچسپی کا میدان علم کلام ہے ۔
ماشاءاللہ💕 زبردست👍
Well explained MashaAllah