کرنے کے کام
اب گو کے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ چکا ہے، اور ہماری کئی نسلیں سقوطِ علم کے اس بحران کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس نوع کی سطحیت کا پھیلنا محض کسی ایک طبقے کی تباہی کا باعث نہیں ہوتا، عام طور پر ایسی سطحیت اپنی حدود توڑتے ہوئے پورے معاشرے میں پھیل جاتی ہے، اس لیے فی الفور اس سطحیت کو روکنے کے لیے کچھ اقدام کر بھی لیے جائیں تب بھی آئندہ طویل مدت تک اس بحرانی کیفیت کے اثرات محسوس ہوتے رہیں گے، جب کہ اس باب میں پہلی بات بھی محض معرض امکان کی ہے کہ یہ سلسلہ کسی طور روکنا ممکن بھی ہے۔ خیر ایسے میں مستقبل کے حوالے سے کوئی یک نکاتی ایجنڈا تو تجویز نہیں ہو سکتا، ایک وسیع خاکے کے بارے میں صرف اشارے ہی ممکن ہیں، اب درد رکھنے والے اہل فن کا کام ہے کہ اس خاکے میں رنگ بھریں اور اسے عملی صورت عطا کریں۔ چند نکات یا کرنے کے کام پیش خدمت ہیں۔
الف: مبادیات میں کم زوری کو ہر قیمت پر دور کرنا
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ مبادیات کے حوالے سے ہم میں کم زوری موجود ہے تو سب سے پہلے اسے دور کرنا ضروری ہے۔ اب اس معاملے میں ہمیں زیادہ محنت بھی درکار نہیں ہوگی بہت سے موضوعات پر یوٹیوب پر دروس موجود ہیں، ان سے کسی حد تک استفادہ ہوسکتا ہے، ہمیں اپنے اطراف میں ایسے اساتذہ بھی آسانی سے میسر آ سکتے ہیں جواس معاملے میں ہماری مدد کر سکیں۔ اس لیے ہم یہ سہولت اپنی یہ کم زوری دور کرسکتے ہیں، مگر اس سلسلے میں جو چیزیں رکاوٹ بن سکتی ہیں، ان میں ایک تو ہماری فطری جھجھک ہے، اور دوسری بے پروائی۔ ان دونوں پر اگر قابو پا لیا جائے تو سب کچھ آسان ہو سکتا ہے۔
ب: اپنا دائرہ تخصص متعین کرنا۔
علم کی دنیا جوں جوں پھیلتی جا رہی ہے، اسی رفتار سے ہر علم و فن کی شاخوں میں اضافہ ہو رہا ہے، ان سے واقفیت وقت کی ضرورت بن گئی ہے، لیکن یہ ضرورت ہر ہر فن سے چند ایک گھونٹ بھر لینے سے پوری نہیں ہو سکتی، اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے لیے مستقبل کے علمی مقاصد طے کریں، اور کوئی ایک فن اور شعبہ متعین کر کے اس میں اپنی جان کھپا دیں۔ یہ منزل کٹھن ہے اور یہ منزل مسلسل پڑھنے سے ہی حاصل ہوگی، سوشل میڈیا اس کا متبادل کسی صورت نہیں ہو سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ اپنا دائرہ تخصص کیسے متعین کیا جائے؟ ہم ابتدائی طور پر یہ تجویز کیا کرتے ہیں، اور بعض حضرات نے بتایا کہ اس سے انہیں فائدہ بھی ہوا ہے، اس لیے ہم یہاں مزید اطمینان سے یہ بات پیش کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کے محاضرات کی چھ جلدیں علی الترتیب پڑھ ڈالنا اس مقصد کے لیے نہایت مفید ہے، یعنی محاضرات قرانی، حدیث، فقہ، سیرت، شریعت معیشت و تجارت، پھر جس جلد میں زیادہ دلچسپی محسوس ہو اسے دوبارہ پڑھ لیجیے، اس سے جہاں شریعت اسلامی کا جامع تصور ذہن میں اجاگر کرنے میں مدد ملے گی، وہیں یہ اندازہ بھی ہو سکے گا کہ ہمارا مزاج علوم اسلامی کی کس شاخ کے زیادہ قریب ہے۔ جب دائرۂ تخصص یا اپنا میلان اور رجحان متعین ہوجائے تو آگے کے مراحل نسبتاً آسان ہوجاتے ہیں، بس ریاضت اور مسلسل محنت مانگتے ہیں، کہ بہ ہر حال اس کا کچھ متبادل نہیں۔
ج: اپنے موضوع پر متون کا مسلسل مطالعہ
ایک اور عمل جو ہمیں اپنے موضوع سے مسلسل منسلک رکھتا ہے اور ہماری معلومات کو تازہ رکھنے کا باعث بھی بنتا ہے، وہ اپنے شعبۂ تخصص سے متعلق ایک دو متون کا ہمہ وقت مطالعے میں رکھنا ہے، اور اگر کہیں اپنے موضوع کی سنجیدہ تدریس کا ماحول بھی میسر آجائے تو کیا کہنے۔ اس کے ساتھ ساتھ خاص طور پر تفسیر قران اور حدیث مبارکہ کا کوئی ایک متن بھی تھوڑا تھوڑا ضرور روزانہ کی بنیاد پر مطالعے میں رہنا چاہیے۔ہوتا یہ ہے کہ چوں کہ تمام علوم اسلامی کے منابع ان ہی دو موضوعات تک پہنچتے ہیں، اس لیے ہر پڑھنے والے کو ان کتب کے مطالعے سے اپنے موضوع پر نئی چیزیں میسر آتی رہتی ہیں۔ یوں انسان اصل مصادر سے استفادے کے بھی کسی حد تک قابل ہو جاتا ہے۔
یاد رہے کہ یہاں بار بار شعبہ تخصص کا لفظ استعمال ہو رہا ہے، اس سے محض اپنے اپنے شعبوں کے متخصصین مراد نہیں ہیں۔ یہاں بیان ہونے والی ریاضت تو ہر ایک کے لیے لازم ہے۔ اس کے نتیجے میں ہی چند ایک ایسے حضرات نکل سکیں گے، جو آگے چل کر واقعتاً اپنے اپنے شعبوں کے متخصص کہلانے کے حق دار ہوں گے۔
د: اپنے موضوع پر قدیم و جدید سے واقفیت
جب کسی حد تک استعداد بن جائے تو پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنے موضوع پر قدیم اور جدید لٹریچر سے بھی مسلسل واقفیت رکھی جائے۔ اس کا مطلب ہر چھپنے والی چیز کا مطالعہ نہیں ہوتا، نہ یہ ممکن ہی ہے، نہ اس کی ضرورت ہے، ویسے بھی ہر چیز مکمل پڑھنے کی ہوتی بھی نہیں۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ چھپ چکا، اور جو کچھ چھپ رہا ہے وہ کم از کم اردو عربی اور انگریزی میں ہمارے علم میں ہو اور نظروں سے مسلسل گزرتا رہے۔ بہت سے مباحث اور مضامین ایسے ہوتے ہیں جو پہلے سے ہمارے ذہن میں موجود ہوتے ہیں، ان میں جدید محققین کی تحقیق کی روشنی میں جس قدر اضافہ ہو رہا ہوتا ہے، وہ بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں محفوظ ہوتا چلا جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ مضامین اور مباحث پر اس قدر تسلسل سے نیا مواد سامنے اتا ہے کہ ہر ایک چیز کو دیکھنا بھی مشکل اور دشوار تر ہو جاتا ہے۔ ایسے میں بھی کوشش بہ ہرحال یہی ہونی چاہیے، پھر جس قدر بھی کام یابی ممکن ہو۔
ھ: زبانوں کی مہارت بہتر کرنا
ہم اپنی مادری زبان کے علاوہ ایک آدھ زبان سے کسی نہ کسی حد تک تو واقفیت رکھتے ہی ہیں، لیکن اس واقفیت کو صلاحیت میں بدلنا چاہیے، اور جس قدر ممکن ہو متعلقہ زبانوں میں اپنی مہارت کو بہتر کرتے رہنا چاہیے۔ کم از کم اس حوالے سے کسی موقع پر بھی مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ زبان علوم سے واقفیت کا ایک وسیلہ ہے، اس لحاظ سے بہت سی صورتوں میں اہم زبانوں کی تحصیل سے روگردانی سطحیت کا سبب بنتی ہے۔ ہمارے دینی تعلیم کے نظام کو سب سے بڑا نقصان ہی اردو کی ناقص شرحوں نے پہنچایا ہے، اس عمل نے کتاب اور زبان دونوں سے ہمیں کوسوں دور کر دیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس وقت علمی اور فکری اعتبار سے انتہائی پست ترین کیفیت میں مبتلا ہیں۔
و: غیر ضروری موضوعات سے شعوری طور پر پرہیز
ہمارا عمومی مزاج بھی یہی ہے کہ ہم ارتکاز فکر کسی بھی معاملے میں نہیں رکھتے، یا رکھتے ہیں تو بہت کم، لیکن سوشل میڈیا نے تو موضوعات کی یوں بھر مار کر دی ہے کہ انسان چاہے بھی تو اس کے لیے یکسو ہونا مشکل ہے۔ خاص طور پر موضوعات کے معاملے میں اخذ و انتخاب ہی دشوار ہو گیا ہے، لیکن ہمیں یہ مشکل مرحلہ بہ ہرحال طے کرنا ہوگا، اس لیے یہ ناگزیر ہے کہ ہم اپنے موضوع اور دائرے کو متعین کر کے اس کے مقابل ہر چیز کو نظر انداز کر دیں۔ آج ہماری عمومی صورت حال یہ ہے کہ کسی کی آواز اچھی ہے تو وہ اپنے آپ کو محقق تصور کر لیتا ہے، کوئی خاص لکھنے پڑھنے کا ذوق رکھتا ہے تو وہ عملی سیاست میں کود پڑتا ہے، اور کسی کو شاعری کرتے کرتے تنقید کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ ہماری کم زوری ہے، خوبی نہیں، اپنے ہی دائرے میں رہتے ہوئے اپنی خدمات انجام دینا اصل کمال ہے۔ رہے اس افرا تفری کے نتیجے میں ملنے والے ہمارے لائک اور عوامی واہ واہ تو ان کی حیثیت سمندر کے جھاگ سے بھی کم ہے۔ یہ بات جس قدر ہمیں سمجھ میں آجائے، اسی قدر ہمارے لیے بہتر ہوگا۔
ز: بلا وجہ کے کورسز اور کانفرنسوں میں شرکت سے گریز
اس حوالے سے بھی ہمارے ہاں دو انتہائیں نظر آتی ہیں۔ ایک تو ہمارا وہ طبقہ ہے، جس کے سامنے جیسا چاہے اچھے سے اچھا کورس ڈیزائن کر کے رکھ دیا جائے، وہ ٹس سے مس تک نہیں ہو گا۔ اس طبقے کا پختہ خیال یہ ہے کہ اب انہیں مزید کسی تعلیم کی ضرورت ہے، نہ تربیت کی۔ دوسری جانب ایک سیمیناری اور کانفرنس باز طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جس کا مطمع نظر زیادہ سے زیادہ پروگراموں میں شرکت اور زیادہ سے زیادہ سرٹیفیکیٹس کا حصول ہے۔ یہ دونوں غیر مطلوب انتہائیں ہیں۔ اپنے موضوع پر سنجیدہ پروگراموں میں ضرور شرکت کرنی چاہیے، اور اہتمام سے شرکت کرنی چاہیے، اپنے معاصر اور بڑوں سے یکساں استفادہ کرنے کا ذوق پیدا کرنا چاہیے، لیکن ہر ہر موضوع پر کانفرنس اور سیمینار یا تربیتی نشست میں دوڑے چلے جانا کسی طور سنجیدگی کی علامت نہیں۔ ایک شخص ایک ہی وقت میں انگریزی، عربی، اردو، لغت دان، صحافی، استاد، محقق، مفسر ،سیرت نگار وغیرہ وغیرہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس لیے صرف اپنے موضوع پر سنجیدہ پروگراموں کا انتخاب کیجیے، اور ان میں سیکھنے کی نیت سے شرکت کیجیے۔ سیکھنے کے مقابلے میں سرٹیفیکیٹ کے نام پر کاغذ کا ایک ٹکڑا بہت معمولی سی چیز ہے، اور وہ تو ویسے بھی مل ہی جائے گا۔
ح: اسکرین ٹائم کنٹرول کرنا
ہم سب کا خواہی نہ خواہی اسکرین ٹائم بہت بڑھ چکا ہے۔ اسے حدود میں رکھنا اب نہایت ضروری ہو گیا ہے۔ ہم میں سے اکثریت کو تو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ اس کے مفاسد کیا ہیں، اور اس ضمن میں ہونے والی ہماری بد احتیاطی کس کس طرح ہم پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ جنہیں اندازہ ہے وہ بھی بہت زیادہ اس بات کا اثر قبول کرتے ہیں سوشل میڈیا کے اپنے اکاؤنٹس ختم کرنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ یہ رویہ بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔ آخر انسان کس طرح سے مشین کے سامنے شکست تسلیم کر سکتا ہے۔ انسان کی قوت ارادی ایک مشین سے کہیں زیادہ بلند اور مستحکم ہے، انسان کو اپنے اوپر اس قدر تو گرفت ہونی ہی چاہیے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق ان اشیا کا استعمال کرنے میں کام یاب ہو سکے۔
ہمارے اسکرین ٹائم میں اضافے نے جہاں ہمارے لیے نفسیاتی مسائل پیدا کیے ہیں، ہماری سطحیت میں اضافہ کیا ہے، لایعنی بحثوں میں ہمیں الجھا کر رکھ دیا ہے، نان ایشوز ہمارے لیے زندگی اور موت جیسی اہمیت اختیار کر گئے ہیں، وہیں اس کی وجہ سے دماغی امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے، صحت کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں، ہمارے سماجی معاملات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی مضرتوں پر الگ سے لکھا جا رہا ہے، ہم بھی قبل ازیں کچھ اشارے کر چکے ہیں، اس لیے یہاں تفصیل کا محل نہیں، اجمالاً اسی قدر کافی ہے، اس لیے اپنے اسکرین ٹائم کو کنٹرول کرنا ہمارے لیے از بس ضروری ہے۔
ط: اپنے تعلقات کے دائرے کو بلاوجہ وسعت دینے سے گریز
سوشل میڈیا نے ہمیں ایک لامحدود دنیا کا باسی بنا دیا ہے، یہاں کچھ لوگ بہت زیادہ متعارف ہیں، ہمیں ان کی چلت پھرت دیکھ کر رشک آتا ہے، اور ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر انہیں آئیڈیلائز کر لیتے ہیں، حال آں کہ کسی بھی فرد کا محض معروف ہونا، محض سفروں میں رہنا، محض لوگوں کے بڑے حلقے میں پہچانا جانا، یا محض بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ اس کے فوٹو سیشن کوئی کمال تو نہیں، پھر اسے آئیڈیلائز کرنے کا مطلب؟ خصوصاً علمی دنیا کی نسبت کے حصول کے بعد اس قدر لایعنی اور فضول شوق میں اپنے آپ کو گنوا دینا یا کھپا دینا، چہ معنی دارد۔ اس لیے اس عمل سے حد درجے اجتناب ضروری ہے، اور اپنے حلقہ احباب کو محض ہم خیال، ہم مزاج اور باذوق افراد تک محدود کر دینے میں ہی بھلائی ہے۔
ی: لازمی عبادات کا مکمل اہتمام
یہ بات شاید اس مرحلے میں عجیب سی محسوس ہو، مگر ایک مسلمان کے لیے سب کچھ اس کا عقیدہ اور ارکان اسلام کی پابندی ہے۔ اس میں سستی، بے پرواہی یا بلا سبب عجلت کا مظاہرہ درجنوں مسائل کا باعث ہے۔ ہماری عجلت پسندی، سطحیت اور عدم ارتکاز کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ دنیا جہاں کی فکر پالنے والا فرد اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہونے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ وقت پر فرض کی ادائیگی، پھر فرض کے لیے جماعت کا اہتمام اور جس قدر ممکن ہو مسنون وظائف اور ماثور نوافل کا خاموش اہتمام ناگزیر ہے۔ نوافل خاموشی سے ادا کرنے کی چیز ہے، اس درجے خاموشی کے ساتھ کہ قریب ترین افراد کو بھی اندازہ نہ ہو سکے۔
ک: اپنے فن کے دقیق مباحث سے گریز نہ کرنا
کسی بھی موضوع سے انسان جب پوری طرح وابستہ ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا واسطہ بہت سے ایسے دقیق مباحث سے بھی پڑتا ہے، جن کا سمجھنا ریاضت چاہتا ہے، اور سرسری طور پر ان سے گزر جانا کافی نہیں ہوتا۔ جب کہ انہیں سمجھنے کے لیے غور و فکر کی ضرورت پیش آتی ہے، لیکن انسان اپنے مزاج میں شامل روایتی تساہل پسندی کے سبب انہیں نظر انداز کر دیتا ہے۔ یہ چیز آگے چل کر مزاج میں سطحیت کا باعث بن جاتی ہے۔
ابتدا میں تو یہ بات ٹھیک ہے کہ سر دست جو کچھ سمجھ میں آرہا ہے اس کو ضبط کر لیا جائے، مگر آگے چل کر اپنے فن کے ہر ہر پہلو کو ضبط کرنا ضروری ہوتا ہے، ایسے میں مشکل مقامات کو چھوڑ دینا اور ان سے گریز انسان کی صلاحیتوں کو رفتہ رفتہ ختم کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس پہلو پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔
ل: اصل مصادر سے استفادہ
ہماری روایتی تساہل پسندی ہمیں اردو ترجموں سے استفادے پر بھی ابھارتی ہے، اور یہ عمل بھی ہماری سطحیت کا ایک بڑا سبب ہے۔ ایک تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ ترجمہ اصل کے مترادف کبھی بھی نہیں ہو سکتا، جب کہ اہل تحقیق تو اسے ویسے بھی ثانوی مصادر قرار دیتے ہیں۔ دوسرے یہ بھی حقیقت ہے کہ اردو میں معیاری تراجم نہ ہونے کے برابر ہیں، یوں ان ترجموں سے استفادے کی وجہ سے صرف زبان کی سطحیت نہیں علم کی بھی سطحیت جنم لیتی ہے، اور تراجم کی اغلاط الگ سے ذہن میں بیٹھتی چلی جاتی ہیں، جو آگے چل کر جو مزید مسائل کا باعث بنتی ہیں۔
م: سنجیدہ علمی مباحث کا مسلسل مطالعہ
ایسی علمی تحریریں ہمہ وقت مطالعے میں رہنی چاہییں جو سنجیدہ مطالعے کا مزاج پیدا کر سکیں، اور جن کو پڑھ کر ذہن کو وسعت بھی حاصل ہو اور اس میں غور و فکر کا مادہ بھی پیدا ہو۔ سطحی معلوماتی تحریریں اور کہانیاں اسلوب اور زبان بہتر کرنے میں ضرور مفید ہوتی ہیں، مگر فکر کو جلا بخشنے کے لیے سنجیدہ مطالعہ ناگزیر ہے۔سنجیدہ اور فکری تحریر بھی ہی فکر کو جلا بھی بخشتی ہیں اور فکر کی تعمیر بھی کرتی ہیں۔ اب ہمیں کالموں اور کالم نما دانش وروں کے قصے کہانیوں سے باہر آجانا چاہیے۔
ن: فرقہ پرستی اور مناظرانہ اسلوب کی تحریروں سے گریز
اس کے برعکس فرقہ پرستی، مناظرے بازی ایک دوسرے پر طعن و تشنیع اور دوسروں کو نیچا دکھانے کے قبیح عمل پر مشتمل تحریریں تو کیا ویڈیو کلپس شوقیہ بھی دیکھنے اور سننے نہیں چاہییں۔ یہ سب ذہن کو الجھانے کا سبب بنتے ہیں اور نفس بھی اس عمل میں حظ محسوس کرتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے انسان کی راہ کھوٹی ہوتی ہے۔ اس لیے انہیں بے ہودہ کلپس اور شیطانی تصاویر کی طرح اپنے اوپر ممنوع قرار دے دینا چاہیے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ سوشل میڈیائی جتھے بازی کو بھی ہنر سمجھ لیا گیا ہے۔ بعض حلقوں کی اپنی سائبر ٹیمیں بنی ہوئی ہیں، جو محض اپنی تشہیر کے لیے ہیں، اور اگر غلطی سے کوئی خلاف مزاج کمنٹ کر دے تو اس کی خبر لینے کے بھی کام آتی ہیں۔ہمارے سنجیدہ نوجوانوں کو اس سے باہر آ جانا چاہیے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی صورت کسی پر دباؤ ڈال کر، کسی کو زچ کر کے یا مخالفت میں انتہا تک جا کر کسی بھی مخالف کو چپ کرا لینا محض اپنے نفس کی تسکین کا باعث ہے، اس سے دین کا کوئی تعلق نہیں، نہ ہی اس طرح دعوت دین کا فریضہ انجام دیا جا سکتا ہے۔ اور اگر یہ عمل محض اپنی رائے کو فوقیت دینے کے لیے ہو، یا علانیہ طور پر اپنی تسکین یا اپنے طبقے کی ہمارے خیال کے مطابق فتح کے لیے تو اس کی قباحت میں کوئی شک ہی نہیں۔
آخر میں مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا ایک اقتباس دیکھیے اگر چہ وقت تحریر اس کا حوالہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اسی پر ہم اپنی اس گفت گو کا اختتام کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
کھلی ہوئی بات ہے جب چاہو تجربہ کرلو۔ ملنا جلنا کم کردو، ادھر ادھر فضول دیکھنا بھالنا بند کردو، معاصی سے اجتناب کرو، اس سے خود بخود فہم اور عقل میں نورانیت پیدا ہوگی۔ جو لوگ بہت باتیں کرتے ہیں، ان کا فہم اور ان کی عقل برباد ہوجاتی ہے۔ ادھر ادھر فضول دیکھنے بھالنے سے اور معاصی سے حواس منتشر ہوجاتے ہیں، عقل خراب ہوجاتی ہے۔ مشاہدے کی بات ہے۔
وما علی الا البلاغ
کمنت کیجے