ابو الحسین آزاد
مسیحیت نے اپنے ابتدائی تین سو سال انتہائی مشکلات اور مصائب میں گزارے۔ 318ء میں شہنشاہ قسطنطینِ اعظم نے مسیحیت کو رومی سلطنت میں قانونی آزادی عطا کی اور بعد میں خود بھی مسیحیت قبول کر لی۔ اس واقعے کو مسیحیت کی تاریخ میں ”کلیسا کی فتح “ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بڑی تیزی سے مسیحیت یورپ میں پھیلتی چلی گئی ۔ یہاں تک کچھ ہی وقت میں مسیحیت رومی سلطنت کا غالب اور سرکاری مذہب بن گئی۔
ابھی مسیحیت نے غلبہ پایا ہی تھا کہ جرمنی سے گاتھ کے وحشی قبائل کا ایک طوفان اٹھا اور انھوں نے پے درپے حملوں کے ذریعے مغربی رومی سلطنت کی کمر توڑنا شروع کر دی۔ یہاں تک کہ 410ء میں انھوں نے روم شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی۔ روم اگرچہ اب مغربی رومی سلطنت کا دار الحکومت نہیں رہا تھا لیکن اس کے باوجود یہ شہر رومیوں کی نظر میں ایک عظیم روحانی اور رمزی حیثیت رکھتا تھا۔ اسے ”ابدی شہر“ کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ رومی سلطنت کا نام ہی اسی کے نام پر تھا۔ پچھلے آٹھ سو سالوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ اس عظیم شہر پر کوئی اجنبی دشمن غلبہ پاسکے۔ اب وحشی قبائل کے ہاتھوں اس کی بربادی نے رومی باشندوں کے اعصاب شل کر کے رکھ دیے۔ بعد میں یہی واقعہ 476ء میں مغربی رومی سلطنت کے ہمیشہ ہمیشہ کے خاتمے پر منتج ہوا۔
مسیحیت کے ابتدائی غلبے کے بعد بھی یورپ میں بت پرستوں، پاگان اور رومی ویونانی مشرکین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جنھیں مذہبی آزادی حاصل تھی اور اب یہ آزادی ایک تسلسل کے ساتھ ریاستی پابندیوں میں جکڑتی چلی جارہی تھی۔ ان کے بڑے بڑے مفکرین اور فلسفی تھے ۔جن کے مسیحیوں سے شدید قسم کے مناظرے اور مباحثے ہوتے رہتے تھے۔ 410ء میں جب روم کا سقوط ہوا تو ان بت پرستوں نے شدت سے شور مچایا کہ یہ دراصل دیوتاؤں کا عذاب اور مسیحیت کی نحوست ہے۔ چوں کہ یورپ کے باشندے اپنے آباء و اجداد کا مذہب چھوڑ رہے ہیں اسی وجہ سے دیوتاؤں نے اُن پر یہ عذاب اتارا ہے اور اُن کے عظیم شہر اور سلطنت کا برباد کیا ہے۔ اُس وقت سینٹ آگسٹائن (354ء – 430ء) نے اِن اعتراضات کے جواب میں اپنی یہ کتاب ”خدا کا شہر“ (City of God) تحریر کی۔
مسیحیت نےغالباً آگسٹائن سے بڑا فلسفی اور متکلم پیدا نہیں کیا۔ کیرن آرم سٹرانگ کے بقول: ”آگسٹائن کو مغربی روح کا بانی کہا جاسکتا ہے۔“ (خدا کی تاریخ: 163)ہنری چاڈ وِک (Henry Chadwick)اسے ”پہلا جدید شخص“ قرار دیتا ہے کہ ”اُسے پڑھتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ لکھاری بالکل منفرد اور نئےانداز میں اُس کی نفسیاتی گہرائیوں میں اتر کر اُس سے ہم کلام ہے۔“ (آگسٹائن: ایک مختصر ترین تعارف، ص: 12)حضرت مسیح، کنواری مریم، سینٹ پال اور پطرس وغیرہ کے بعد اُسے مسیحیت کی مقدس ترین اور عظیم ترین شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ آگسٹائن نے 33 سال کی عمر میں مسیحیت قبول کی، اس سے پہلے وہ مختلف طرح کے مذاہب اور مسالک کی خاک چھانتا رہا۔آگسٹائن کی یونانی و رومی فلسفے، ادب اور تاریخ پر بہت گہری نگاہ تھی۔ اُس کی کتابیں اِن موضوعات پر بنیادی مصادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مسیحیت کو افلاطونی اور ارسطوئی فلسفے کی راہ پر لگانے میں آگسٹائن کا نمایاں کر دار ہے۔
مسیحیت یونانی فلسفے کی راہ پر کیسے لگی اور کیوں کر یونانی فلسفہ اس کی الہیات کا اہم ترین رکن بن گیا، اس کا کچھ جواب ہمیں سینٹ آگسٹائن کی ”خدا کا شہر“ میں مل جاتا ہے۔
دراصل آگسٹائن نے رومی اور یونانی مشرکین اور بت پرستوں پر رد کرتے ہوئے افلاطون کی تعلیمات کا سہارا لیا۔ یونان کے ماقبل سقراطی (Pre-Socratic)فلسفیوں کی بنسبت افلاطون کا تصورِ خدا مسیحیت کے شخصی، روحانی اور واحد خدا کے زیادہ قریب تھا۔اسی وجہ سے آگسٹائن نےمادہ پرست پاگان مفکرین پر رد کرنے کے لیے افلاطون کا سہارا لیا۔ اور مسیحیت کی ترجمانی میں افلاطونی اور ارسطوئی منطق اورالہیات کو استعمال کیا۔ جس کے نتیجے میں یونانی فلسفہ مسیحیت کا جزوِ لاینفک بن گیا۔
نیچے دیے گئے اقتباس میں آگسٹائن ماقبل سقراطی فلسفیوں کے تصورِ خدا پر رد کر رہا ہے۔ طالیس(Thales)، انیکسی مینڈر (Anaximander)، رواقی (Stoics) اور اپیقوری(Epicureans) وغیرہ کائنات کی اصلی علت اور خالق کے متعلق عجیب و غریب اعتقادات رکھتے تھے۔ کوئی پانی کو کائنات کی اصل علت مانتا، کسی کے نزدیک آگ ہر چیز کی خالق تھی اور کوئی اجزائے لایتجزی کو خدا کا درجہ دیتا تھا۔یہ مادہ پرست تھے اور کسی روحانی اور بےجسم خدا کے قائل نہیں تھے۔ کسی نہ کسی مرکب یا بسیط، زندہ یابےجان مادی جسم کو ہی کائنات کی علت، خالق اور خدا سمجھتے تھے۔
آگسٹائن اُن پر رد کرتے ہوئے انھیں اُن کے اپنے نفوس میں تدبر کرنے کا کہتا ہے کہ دیکھو! تم ایک غیر جسمانی، غیر مادی اور خالص روحانی خدا کے وجود کو اس لیے تسلیم نہیں کر رہے کیوں کہ تمھارا شعوربرُی طرح سے مادے اور حواس کا اسیر ہو چکاہے۔تم کسی غیر مادی شے کو ماننے کو تیار ہی نہیں ہو۔حالاں کہ اگر تم غور کرو تو تمھارے اپنے اندر بھی ایک غیر مادی چیز موجود ہے۔ یہ جو تم مختلف چیزوں کو سوچتےاور اُن کی صورت اپنے ذہن میں لاتے ہو کیا یہ صورت مادی ہوتی ہے؟ یقینا یہ غیر مادی ہوتی ہے۔ اَب تم جس چیز کے ذریعے سوچتے ہو، اور اِن صورتوں کے اچھا اور بُرا ہونے کا فیصلہ کرتے ہو، خود وہ چیز بھی یقیناً غیر مادی ہونی چاہیے،یعنی دماغ کی وہ فیکلٹی جو غیر مادی اشیاء (یعنی تصورات وخیالات) سے بحث کرتی ہے وہ بھی لازماً غیر مادی گی کیوں کہ یہ فیکلٹی فیصلہ کر رہی ہے، اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس چیز کے بارے میں فیصلہ کیا جارہا ہے وہ فیصلہ کرنے والے سے زیادہ برتر ہو، لہذا اگر تصورات و خیالات غیرمادی ہیں تو دماغ کی یہ فیکلٹی بھی غیرمادی ہے اور اسی کو انسان کی عقلی روح کہا جاتا ہے۔
اب جب انسان کی عقلی روح غیر مادی اور غیر جسمانی ہے، یہ ہوا، پانی، مٹی اور آگ میں سے کسی عنصر پر بھی مشتمل نہیں ہے تو بھلا اِس کا پیدا کرنے والا کیوں کر ایک مادی جسم ہوگا۔ یقیناً وہ بھی ایک غیرمادی،اور غیرجسمانی ذات ہے۔
یوں آگسٹائن نے ذہن یا نفس کے ذریعے خدا کے غیر مادی وجود کو ثابت کرنے کی طرح ڈالی جو بعد میں بہت دور تک مسیحی روایت میں چلتی گئی۔ یہاں تک کہ ڈیکارٹ کے نغمۂ Cogito Ergo Sum میں بھی اسی کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو الحسین آزاد جامعہ دار العلوم کراچی میں شریک دورہ حدیث ہیں۔
کمنت کیجے