سجیل کاظمی
چند دن پہلے خدا کو اخلاقیات کا ماخذ قرار دینے والی، Divine Command Theory کے رد میں پیش کیے جانے والے مسئلہ یوتھیفرو (Euthyphro Problem) پر لکھا تو کافی لوگوں نے اس مغالطے کے مختلف حل پیش کیے۔ اسی طرح کا ایک حل چوھودیں صدی کے عیسائی راہب اور تھیولوجین سینٹ تھومس اکوانس نے بھی پیش کیا جس کو ہم Natural Law Theory کے نام سے جانتے ہیں۔
اکوائنس کے مطابق اخلاقیات آتی تو خدا کے حکم سے ہی ہیں مگر اس نے اس دنیا کو ایسا بنایا ہے کہ وہ احکام عقل کے ذریعے بھی ثابت ہیں اور جن تک خدا کا حکم نہیں پہنچا وہ بھی اپنے مشاہدے اور عقل کے ذریعے وہ چیزیں پہچان سکتے ہیں۔ اکوانس کے مطابق جو چیزیں خدا ہم سے چاہتا ہے اور ہمارے لئے اچھی ہیں وہ خدا نے ہماری فطرت میں رکھی ہیں یعنی انہوں نے سات بنیادی خوبیوں کو شناخت کیا جو انسانی وجود کے اندرونی طور پر مستحق ہوتے ہیں۔ یہ خوبیاں ان کی اخلاقی نظریہ کا اہم حصہ ہیں اور انہیں “سات بنیادی خوبیاں (Seven Basic Goods) یا دوسرے الفاظ میں “روح کی خوبیاں” (Goods of the Soul)
کہا جاتا ہیں۔
1) زندگی (Life)
ہم سب کے اندر ایک بقاء کی جبلت (survival instinct) موجود ہوتی ہے جو خدا نے ہمارے اندر رکھی ہے یعنی ہم سب چاہتے ہیں کہ زندہ رہے۔
2) تولید (Reproduction)
یعنی خدا نے ہم سب کے اندر جنسی خواہش رکھی ہے اور جنسی عمل کو باعث لذت بنایا ہے۔
3) تعلیم (Knowledge/Education)
اس کے بعد ہر کسی کو زندگی بسر کرنے کے لئے مناسب تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر کوئی وہ جاننے کی جستجو کرتا ہے۔
4) عبادت یا خدا کی تلاش (Spiritual Goods)
اکوانس کے مطابق ہم سب خدا کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور جو اس سے واقف نہیں بھی ہیں وہ بھی اس کو تلاش کرتے ہیں یعنی خدا سے تعلق قائم کرنے کی تلاش، الہی حقیقت کی تلاش۔
5) سماجی زندگی (Sociability/Friendship)
اسی طرح ہم سب کو پیار، محبت، دوستی اور ساتھ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم یہ بھی چاہتے کہ ہم ہر ایک کی دل آزاری نہ کرے تاکہ ہم اکیلے نہ رہ جائیں۔
6) مزاح، کھیل یا فنونی تجربہ (Aesthetic experience)
حسینت کی تعریف، قدرت اور فنون میں دلچسپی، فراغت، تفریح اور ان کاموں سے لطف اٹھانا جو خوشی اور آرام دے۔
7) جہالت سے نفرت کرنا (Practical reasonableness)
اس کے علاوہ اکوانس کے مطابق ہم جہالت سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ جہالت نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
اکوائنس کے مطابق ان سات بنیادی اچھائیوں سے ہم مزید اچھائیاں اخذ کرسکتے ہیں اور یہ ہمارے لئے فائدے مند بھی ہیں اور ہر اچھائی کو بنیاد بنا کر ایک حکم ہے اور ایک پابندی ہے، جیسے پہلے والی کی بات کریں تو اس سے ہمیں ایک پابندی ملتی ہے کہ کیونکہ خدا نے اپنی زندگی بچانے کی حس سب میں رکھی ہے تو کبھی کسی کا قتل نہ کرو اور حکم ہمیں یہ ملتا ہے کہ زندگی کو بچاؤ یعنی بیماروں کی خدمت کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ وغیرہ۔
یعنی مشاہدے اور عقل کے ذریعے سے بھی ہم اخلاقی انسان بن سکتے ہیں مذہب یا مقدس کتاب آسان طریقہ تو ہیں لیکن لازمی نہیں۔
نیز اکوائنس سے کچھ سوال کیے گئے کہ اگر انسان ہمیشہ اچھائی ہی کی تلاش کرتا ہے اور خدا نے انسان کو بنایا ہی ایسا ہے تو پھر دنیا میں اتنی برائی کیوں ہوتی ہے؟
اکوانس اس کے دو جواب دیتے ہیں پہلا جذبات اور دوسرا کم علمی۔
پہلے وہ کہتے ہیں کہ جب ہمارے جذبات ہماری عقل پر غالب آجاتے ہیں تب ہم گناہ کرتے ہیں اور دوسرا تب جب ہمیں اتنا علم نہیں ہوتا کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔
بہرحال اکوائنس کی تھیوری کو اگر ہم عام الفاظ میں سمجھے تو یعنی دنیا کو دیکھ کر عقلی طور پر اخلاقیات تک پہنچ سکتے ہیں۔ اکوانس کی یہ تھیوری کافی بااثر رہی ہے اور آج بھی ہے۔ اسی بیان ہوئی دوسری اچھائی کی وجہ سے آج بھی کیتھولک چرچ Birth Control کی مخالفت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجیل کاظمی کراچی میں مقیم انجنئیرنگ کے طالب علم ہیں اور فلسفہ و سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
کمنت کیجے