Home » حضرت معاویہ کی ولی عہدی پر ایک عملی اعتراض کا جواب
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد کلام

حضرت معاویہ کی ولی عہدی پر ایک عملی اعتراض کا جواب

ثقیفہ بنی ساعدہ کی جس مجلس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت منعقد ہوئی، وہاں فیصلہ کن دلیل یہ تھی کہ قریش کسی اور کو امیر نہیں مانیں گے۔ غالباً حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ولی عہد مقرر کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ مشورہ سننے کے بعد آپ متذبذب و ہچکچاہٹ کا شکار رہے یہاں تک کہ یہ بات سامنے آئی کہ بنو امیہ کسی اور کو امیر نہیں مانیں گے۔

دونوں واقعات میں بیان کردہ یہ دلیل ایک ہی اصول پر مبنی تھی اور اس کے پس پشت ایک ہی خدشہ تھا کہ اس بات کا لحاظ نہ رکھنے سے حالات خراب ہوں گے۔ یہ الزام وارد کرنا کہ حضرت امیر معاویہ کے فیصلے کے بعد تو حالات عملاً خراب ہی ہوئے تو اس پر تین ملاحظات ہیں:

1۔ کیا اس کے برعکس فیصلہ کرنے سے حالات خراب نہ ہوتے؟ صرف اس بنا پر کہ تاریخ کے اس دوسرے امکانی دھارے کا ہم نے مشاہدہ نہیں کیا، یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ حالات اس سے بھی زیادہ خراب نہ ہوتے جس کا ہم نے مشاہدہ کیا۔ کیا جنگ صفین و جمل وغیرہ تاریخ کا حصہ نہیں جہاں ان واقعات سے زیادہ نقصان ہوا؟ چنانچہ حضرت امیر معاویہ کا گمان غالب یہی تھا کہ بنو امیہ کے سوا کسی کو حاکم بنانے میں خون خرابہ زیادہ ہونے کا خدشہ ہے اور اس تجزئیے میں وہ حق بجانب تھے۔

2۔ ہر فیصلہ اپنے علم کے تحت متعد پہلووں کو شامل بحث کرنے اور انہیں مناسب وزن دینے سے عبارت ہوتا ہے جس میں غلطی کا امکان ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت امیر معاویہ کے فیصلے کے بعد کچھ انارکی ہوئی تو اس سے ان کی نیت پر حملہ کرنے کا راستہ نہیں کھلتا۔ کسی فیصلے کی راستگی کا انحصار صرف فیصلے کی نوعیت اور فیصلہ کرنے والے سے نہیں ہوتا بلکہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ بعد میں لوگوں نے کیا رویہ اختیار کیا۔ ایک والدین اپنی اولاد کے لئے اس نیت سے جوائینٹ پراپرٹی بناتے ہیں کہ اولاد مل جل کر رہے لیکن اولاد کی بن نہیں پاتی اور وہی پراپرٹی ان میں فساد کا باعث بن جاتی ہے۔ کیا سارا قصور والدین پر ڈالا جاتا ہے یا اولاد کے رویے پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟ ایک اور والدین اس قسم کی لڑائی کے خدشے سے اپنے ہر بچے کے لئے الگ مکان بنا دیتے ہیں اور نتیجتاً بچے ایک دوسرے سے ملنے جلنے سے جاتے رہتے ہیں۔ کیا اس نتیجے کے لئے صرف والدین کو قصور وار ٹھہرایا جانا ہے یا اولاد کے طرز عمل پر بھی بات کرنا لازم ہے؟ یہ سادہ سی صورت حال سے متعلق امور ہیں، سوچئے ریاست کے فیصلے کیسے پیچدہ ہوتے ہیں جہاں درجنوں فیکٹرز کو بیلنس کرنا ہوتا ہے۔ الغرض فیصلوں کے نتائج دیکھ کر اتنی سادگی کے ساتھ احکام جاری نہیں کئے جاسکتے۔

3۔ آخری بات یہ کہ اگر نفس انارکی ہی کسی فیصلے کے ٹھیک یا غلط ہونے کا معیار ہے تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت تو کجا خود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد بھی ہوئی۔ کیا آپﷺ کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد اس غرض سے جھوٹا دعوی نبوت نہیں کیا گیا تھا کہ اس سے اقتدار حاصل کرنے میں آسانی ہوگی اور صحابہ نے حضرت ابوبکر کی معیت میں ان کا قلع قمع نہیں کیا تھا؟ کیا خوارج کی یہ رائے موجود نہ تھی کہ ایک خلیفہ کیوں بناتے ہو، اور کیا صحابہ نے ان کے ساتھ دو ہاتھ نہ کئے؟ الغرض وہ عمل جسے نفس انارکی کہا جاتا ہے، محض اس کا وجود کسی فیصلے کی غلطی ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہوسکتا۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں