Home » ڈاکٹر امبیڈکر اور بدھ مت
ادیان ومذاہب انگریزی کتب تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار

ڈاکٹر امبیڈکر اور بدھ مت

ترجمہ وتلخیص: محمد جان

زیر نظر تحریر ہندوستان کی نامور ماہر سماجیات ڈاکٹر اننیا واجپائی کی کتاب Righteous Republic: The Political Foundations of Modern India کے آخری باب کی تلخیص ہے۔ کتاب کا موضوع ہندوستان کی جدید قومی ریاست کے پانچ بانی اراکین کا  صدیوں پرانے مقامی روایات کی تعبیر نو سے ایک جدید تصور ذات /شناخت کی تشکیل ہے۔ یہ پانچ لوگ اور ان کی متعلقہ مذہبی روایات، جن کے ساتھ انھوں نے اشتغال رکھا، علی الترتیب درج ذیل ہیں:

  1. موہن داس گاندھی- بھگوت گیتا
  2. رابندرا ناتھ ٹیگور- قدیم سنسکرت شاعری
  3. ابانندرا ناتھ ٹیگور- مغلوں اور راجپوتوں کا فن تعمیر
  4. جواہر لال نہرو- راجا اشوکا کے edicts
  5. بھیم راو امبیڈکر-بدھ مت

بھیم راو امبیڈکر (1891-1956)

مہاراشٹرا میں مہر خاندان میں  پیدا ہوئے۔گوتم بدھ، قرون وسطی کے شاعرکبیراور جوتیبا پھولے کو اپنا گورو سمجھتے تھے۔ چوں کہ وہ خود اچھوت تھے، اس لیے انھیں  بچپن ہی سے اچھوتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا شدید احساس تھا، اور اسی احساس نے انھیں ہندو مذہب سے متنفر کرنے اور انسانی مساوات پر مبنی دیگر مذاہب کو قبول کرنے کی طرف راغب کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ہندوستان کے آئین کو لکھا۔ وہ  ہندوستان کے پہلے وزیر قانون بنے۔ 1956 میں اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے باضابطہ بدھ مذہب کو قبول کیا۔

امبیڈکر نے بدھ مذہب کیوں اختیار کیا؟

اچھوتوں کے بارے میں ان کا ایک تاریخی تصور تھا، جس کی رو سے اچھوت درحقیقت بدھ مت کے سابقہ پیروکار ہیں۔ ہندؤوں نے بدھ مت کو ہندوستان سے دیس نکالا دے کر  ہندو بنا کر اپنا غلام بنایا۔ اس لیے اچھوتوں کے لیے بدھ مت نئے مذہب کی قبولیت کے بجاے اپنے قدیم مذہب کی طرف مراجعت ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ بدھ مذہب کے بنیادی اصول چار ہیں۔  امبیڈکر نے ان چار بنیادی اصولوں میں سے صرف   duhkha(مصائب)  کو بدھ مت کی اصل بنیاد تسلیم کیا۔ اس نے تشخیص کیا کہ اچھوتوں کے مصائب ہی ان کی اصل شناخت ہیں۔  اچھوتوں کے لیے اپنے مصائب سے چھٹکارا ایک ایسے عقیدے کے بغیر ناممکن ہے، جو مصائب اور اس سے چھٹکارے کو اپنے اخلاقی نظام میں مرکزی  حیثیت نہ دے، اور امبیڈکر کی نظر میں ایسا عقیدہ صرف بدھ مت ہو سکتا تھا۔

امبیڈکر نےسکھ مت، مسیحیت اور اسلام کو کیوں مسترد کیا؟

بدھ مت کے علاوہ ہندوستان کے دیگر مذاہب (سکھ مت، مسیحیت، اسلام)کو اس نے مسترد کردیا۔ سکھ مت اس لیے کہ وہ ہندو مت سے زیادہ مختلف نہیں۔ مسیحیت اور اسلام اس وجہ سے کہ یہ من حیث المجموع ہندوستان کے لیے بیرونی مذاہب ہیں۔ مسیحیت اور استعمار کے درمیان اٹوٹ رشتہ بھی اس سلسلے میں رکاوٹ بنا۔ تقسیم کے نتیجے میں ہندوستان میں مسلمان اقلیت بن گئے اور ہندوستانی سماج میں ان کا کلی انضمام ناممکن ہو گیا۔ اگر اچھوت اسلام قبول کریں، تو وہ بھی اسی اقلیت کا حصہ بن جائیں گے، جنھیں ہندوستان تسلیم نہیں کرتا۔ بدھ مت کو قبول کرنے کی اور وجوہات میں سے اس کا ذات پات کے نظام کو للکارنا، مرد وزن کے لیے یکساں احترام، پوری دنیا میں پیروکار رکھنے والا عالمی مذہب،اس کے سیاسی، علمی اور اعتقادی پہلو اور بر صغیر میں اس کی احیا بنیادی عناصر ہیں۔امبیڈکر کی زندگی میں ہندوستان  میں بدھ مذہب پر تحقیقی اور علامات کا احیا عروج پر تھا۔ کئی برہمن اور اہل علم بدمت قبول کر چکے تھے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہندوستان میں بدھ مت عقائد ونظریات اور علامات پہلے سے اتنے قابل قبول تھے، تو اسے باضابطہ اختیار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی، بالخصوص جب آئین میں تمام شہریوں بشمول اچھوتوں کو یکساں قانونی حیثیت دی گئی تھی؟امبیڈکر کی نظر میں کوئی بھی جدید کمیونٹی عددی طاقت، ریاست کے ساتھ تعلق، قانونی حقوق، سیاسی نمائندگی کی صلاحیت اور قومی وسائل کے دوڑ میں دیگر کمیونٹیز کی طرف سے باضابطہ اعتراف سے متشکل ومُحَدَّد ہوتی ہے۔ اس کے خیال میں اعلیٰ ذات کے ہندؤوں کی طرف سے بدھ مت کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ اچھوتوں کی طرح اسے باضابطہ مذہب کے طور پر قبول بھی کرتے ہیں۔ امبیڈکر اچھوتوں کے لیے جدید سماجی تحریکوں، سیاسی جماعتوں اور ریاستی آئیڈیالوجیز کے وقتی اور عارضی بندوبست کے بجاے ماورائیت کا ماخذ اور عالمگیر اتھارٹی چاہتے تھے، جو فکر وعمل کا ایسا مکمل نظام ہو، جو اپنے پیروکاروں کی زندگی کی تشکیل وتنظیم کرے، اور اس کی نظر میں بدھ مت اس کے سوال کا صحیح جواب تھا۔ بدھ مت قبول کرنے کا بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ وہ ہندو مذہب سے اپنی مکمل لاتعلقی کا اعلان کرے، جس نے اچھوت کا نظام قائم کرکے ایک طبقے کے استحصال کو صدیوں سے جاری رکھا۔

امبیڈکر نے بدھ مذہب میں تبدیلیاں کیوں کیں؟

لیکن سوال یہ ہے کہ امبیڈکر کے لیے ایک بدھ مت ہی سب سے اچھا اور سچا مذہب تھا، تو پھر اس نے بدھ مت کے عقائد میں اتنی بنیادی تبدیلیاں کیوں کیں، اور اسے اپنی اصلی حالت میں قبول کیوں نہیں کیا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امبیڈکر ہندوستانی مذاہب میں موجود “رہبانیت” سے بیر رکھتے تھے۔ بدھ مت جس طرح سری لنکا، برما اور دیگر ممالک میں راہبوں، مفکروں اور مانکوں کا ایک منظم ادارہ بن چکا ہے، اس کی نظر میں اچھوتوں کے لیے  اس میں دل چسپی کا کوئی سامان نہیں۔  وہ بدھ مت کے انھی نظریات کے دلدادہ تھے، جو ایک جدید نظام حیات میں اچھوتوں کے لیے کار آمد ہوں۔ اس کے اخروی اور ماورائی پہلؤوں سے انھیں زیادہ سروکار نہیں تھا۔گوتم بدھ کی شخصیت میں اسے عقلیت، verifiablity، انسان پرستی اور ‘سائنسی مزاج’ کے پہلو بہت زیادہ بھاتے تھے۔

روایت کے بارے میں امبیڈکر کا  تصور

غیر ہندوانہ مذہبی شناخت پر اصرار، اپنے لوگوں کے لیے بدھ مت کا انتخاب، اس کی نئی تعبیر وتشریح اور اسے باضابطہ قبول کرنے جیسے افعال سے روایت کے بارے میں امبیڈکر کا تصور کیا بنتا ہے؟ایک پہلو سے تو بظاہر وہ تمام روایتوں کے ساتھ عناد رکھتےاور انھیں شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے تھے، اس لیے کہ ان میں سے کسی نے بھی اچھوتوں کی حیثیت میں قرار واقعی بہتری نہیں لائی۔ لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ساری زندگی مختلف مذہبی روایات (اسلام، مسیحیت، سکھ مت، ہندومت، بدھ مت) کے اصلی اور ثانوی مصادر اور متون کے دقیق مطالعے میں مگن رہے۔ ہندوانہ متون پر اس کی شدید تنقید اور بدھ مت کی تعبیرِ نو سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ روایت کو پس پشت ڈالنا نہیں چاہتے، بلکہ اس کے اندر داخل ہونا چاہتے تھے۔ پھر یہ کہ انھوں نےاپنے لوگوں کو باضابطہ بدھ مت میں داخل کیاجو ایک روایتی مظہر ہے۔ ان کے تصور تاریخ (جس کی رو سے اچھوت دراصل بدھ تھے، جنھیں ہندؤوں نے کئی طرح کے ہتھکنڈوں سے واپس ہندو بناکر اور اچھوت کا درجہ دے کر اپنا غلام بنایا، اور اب بدھ مت کی طرف باضابطہ واپسی سے وہ ہندؤوں کے ذات پات کے نظام کو زیادہ قوت سے چیلنج کر سکیں گے)سے روایت اور جدیدیت ، مذہب وسیکولرازم، ہندوستانی اور مغربی افکار کے درمیان یک جائی جھلکتی ہے۔

نہرو نے ہندوستانی جھنڈے میں راجا اشوکا کا دھماکاکرا، ریاستی مہر میں سرناتھ لائن کیپٹل اور لوک سبھا (ایوانِ زیریں) کے لیے دھرما کاکرا -پراورترانایا  کو موٹو کے طور پر چنا۔ یہ تمام بدھ سلطنت ِ موریا کی علامات ہیں۔ ان علامات کے اختیار کرنے میں بظاہر امبیڈکر کی کوئی دل چسپی /کردار نہیں۔ تاہم بعد میں وہ جدید ہندوستانی قومیت کی تاریخ میں بدھ مذہب اور اس کی علامات کی اہمیت جتلانے کے لیے ان چیزوں کا حوالہ دیتے رہے۔ بدھ مت کی علامات کے استعمال میں امبیڈکر کی عدم دل چسپی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟  دراصل امبیڈکر کے نظریات نہرو سے اس قدر مختلف تھے کہ اس نے بدھ مت کےبنیادی کردار کو ان علامات کے ذریعے کبھی سوچا بھی نہیں۔ یا امبیڈکر نے بدھ مت قبول کرنے کے لیے اتنا طویل اور پیچیدہ رستہ اختیار کیا تھا کہ وہ یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ

  • ماضی حال کے لیے ایک ماخذ کے طور پر کام کر سکتی ہے۔
  • جدیدیت کو استناد فراہم کرنے کے لیے روایت کو سیدھا سادہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
  • بدھ مت کی قدیم علامات کے استعمال سے ذات پات ہندو نظام کو اس مساوات میں بدلا جا سکتا ہے، جس کی تبلیغ گوتم بدھ نے کی تھی، یا جس اخلاقی حاکمیت کی تلقین مورین سلطنت کے راجا اشوکا نے کی تھی۔

خلاصہ یہ کہ امبیڈکر بیک وقت روایت کی جانب راغب اور اس سے نبرد آزما تھے۔خود کو اس کا دھتکارا محسوس کرتے، اس میں شرکت یا اس کو استعمال کرنے سے لاچار تھے، ہندوستان کی موجودہ تاریخ میں اچھوتوں کے لیے ایک صحیح مقام کے حصول  میں انھیں اس کی شدید اہمیت کا بھرپور اعتراف تھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ہندوستان میں کوئی  فردیاکمیونٹی یا مذہبی گروہ اس وقت تک پھل پھول نہیں سکتا ، جب تک وہ:

  • کسی مذہبی روایت کے ساتھ کسی صورت میں نہ جڑے۔
  • ایسا تصور ذات اختیار نہ کرلے جو ایک مناسب تصور ذات کے لیے جدید ہندوستانی قومیت سے ہم آہنگ نہ ہو۔
  • ماضی کے ساتھ کچھ رشتہ ہو، جس کے حوالے سے وہ مستقبل میں اپنے وجود کو استحکام فراہم کر ے۔

مولانا محمد جان اخونزادہ

محمد جان اخونزادہ نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے دینی علوم کی تحصیل کی ہے اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد سے شریعہ اینڈ لاء میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
m.janakhoonzada@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں