جن مفکرین نے خلافت کو ملوکیت سے الگ کرنے کا پیمانہ امرھم شوری بینھم کے تحت جمہوری طرز انتخاب کو بنایا ان کے لئے خود خلافت راشدہ ایک معمہ بن کر رہ جاتی ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ چاروں میں سے کسی بھی خلیفہ کا چناؤ اس جمہوری طریقے پر نہیں ہوا جسے جدید دنیا پہچانتی ہے اور نتیجتاً دور دراز کی تاویلات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
• سقیفہ بنی سعدہ میں انصار مشورے کے لئے جمع ہیں کہ انصار میں سے کسی کو خلیفہ چن لیں، حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر رضی اللہ عنہما وہاں جاکر انہیں سمجھاتے ہیں کہ ایسا نہ کیجئے بلکہ خلافت قریش میں ہونا چاہئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کرتے ہیں اور وہاں موجود دیگر لوگ ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ کیا یہ جمہوریت ہے نیز کیا یہ امت مسلمہ کی استصواب رائے تھی؟ امت مسلمہ تو کجا اس میں جمیع صحابہ کی رائے بھی شامل نہ ہوسکی یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے بلند مرتبہ صحابہ کو مشورہ نہ لئے جانے پر شکوہ رہا۔
• حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی میں ہی ولی عہد مقرر کردیا اور تحریر لکھوا دی۔ اسے جمہوریت ثابت کرنے کے لئے کھینچا تانی کرکے بعض شخصیات کے ساتھ کئے گئے مشوروں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ کیا چند با اثر افراد یا سرداروں سے مشورہ کرنا جمہوریت کہلاتا ہے؟ نیز ان مشوروں میں تو لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتخاب پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔
• پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ولی عہدی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے خلافت کو چھ افراد میں بند کردیا کہ انہی افراد میں سے کسی کے انتخاب کا حق حاصل ہوگا نیز یہ فیصلہ بھی انہی چھ نے کرنا ہے کہ خلیفہ کون ہوگا۔ کیا جمہوریت کی رو سے حکمران کو اس کا حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ معاملے کو یوں چند افراد میں طے کر جائے؟ روایات میں تو یہ بھی آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آج اگر فلاں زندہ ہوتا تو میں اسے حکمران مقرر کرکے جاتا وغیرہ۔
• حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا معاملہ ھنگامی حالات کا شکار ہونا سامنے کی بات ہے
الغرض اس سب کو جمہوریت قرار دینا جمہوریت کے ساتھ مذاق کرنا ہے۔ جب بات نہ پن پائے تو اس سب کا نام “قبائیلی طرز کی جمہوریت” رکھ لیا جاتا ہے جو کہ دو متضاد اصطلاحات کو جمع کرنے کی کوشش ہے۔ مزید تاویل کے لئے مشورے کی ڈھیلی ڈھالی قسم کو شوارئیت کی شرط پورا کرنے کے لئے کافی سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ اس قسم کا مشورہ خود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی ولی عہد مقرر کرتے ہوئے کیا تھا۔ مزید مشکلات کو حل کرنے کے لئے بعض اہل علم نے یہ کہہ دیا کہ اس دور کے حالات کی وجہ سے اس سے زیادہ بہتر طرز پر جمہوری انداز کی مشاورت ممکن نہ تھی اور اس لئے صحابہ کو اس جمہوری نما بندوبست نہ کرنے پر برا نہیں کہا جاسکتا۔ یہ سب تکلفات اس لئے اپنانے پڑتے ہیں کیونکہ آپ غلط طور پر ولی عہدی کو خلافت کے خلاف فرض کرکے خلافت کو جمہوری نما عوامی استصواب رائے میں بند کرلیتے ہیں جبکہ ائمہ اسلام ایسی غلطی نہیں کرتے۔ پھر معاملہ اسی پر نہیں رکتا بلکہ ملوکیت کی نشونما قابل فہم بنانے کے لئے اس کا آغاز خلافت راشدہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور سے کرایا جاتا ہے۔ یوں عین وہی خلافت راشدہ نشانے پر آجاتی ہے جسے ان مفکرین کی جانب سے ملوکیت کے خلاف معیار بتایا جاتا ہے۔ پھر معاملہ یہیں نہیں رکتا بلکہ یا آپ کو پوری اسلامی تاریخ میں جمہور متکلمین و فقہا کے سیاسی فہم کو غیر متعلق قرار دینا پڑتا ہے اور یا اس کی تعبیر نو کرنا پڑتی ہے کیونکہ سب کے نزدیک ولی عہدی انعقاد خلافت کا جائز طریقہ ہے۔
کمنت کیجے