Home » حدیث عمار رضی اللہ عنہ چند دیگر روایات کی روشنی میں
اسلامی فکری روایت تاریخ / جغرافیہ تفسیر وحدیث

حدیث عمار رضی اللہ عنہ چند دیگر روایات کی روشنی میں

حافظ حسن علی

حضرت امیر معاویہ رضی اللّہ عنہ و انکے ساتھی رفقاء کا صحابیانہ وقار مجروح کرنے واسطے مخالفین حدیث عمار رضی اللہ عنہ کو پیش کرتے ہیں ۔ اور عام عوام کے ذہنوں میں یہ خیال بد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ و انکے جمیع رفقاء باغی و عاصی قاتل و جابر ہیں ۔ العیاذ باللہ

حالانکہ حقیقت امر یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ و حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بیچ ہونے والے فسادات و حادثات جنہیں احتراماً مشاجرات سے موسوم کیا جاتا ہے کے بارے بہت سی روایات و حکایات مروی ہیں ۔ جن میں سخت و نرم  دونوں طرح کے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ  عنہ و انکے ساتھی رفقاء پر صادق آتے ہیں  ۔ پس کسی تعصبی و حزبی مکروہ جذبے کے باعث  محض سخت الفاظ والی روایات کو نقل کرنا یا انہیں مکمل سیاق وسباق سے قطع کر کے عوام الناس میں پھیلانا سخت قبیح عمل ہونے کے ساتھ ساتھ علمی دیانت کے بھی منافی ہے ۔

ذیل میں ہم اس امر کی تشخیص و تشکیل کرنے والی دیگر تین روایات کو ذکر کرتے ہیں ۔

روایت اولی :صلح حسن رضی اللہ عنہ

امام بخاری نے کتاب الفتن میں” باب قول النبي صلى الله عليه وسلم للحسن بن علي إن ابني هذا لسيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين” کے تحت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول نقل فرمایا ہے ۔

“فقال النبي صلى الله عليه وسلم ابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين”

جسکا مفہوم یہ ہے کہ حسن میرا بیٹا سردار ہے ۔ جسکے ذریعے اللّٰہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔

روایت ثانیہ: قبائے خلافتِ و طرز عثمانی

ترمذی و مسند احمد نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا جسکا مفہوم کچھ یوں ہیکہ اے عثمان اللہ  تمہیں ایک قمیص پہنائے گا۔ اگر منافق تم سے اس قمیص اتارنے کا مطالبہ کریں تو اسے مت اتارنا حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔

“ثم قال: “يا عثمان إن الله عز وجل مقمصك قميصا، فإن أرادك المنافقون على أن تخلعه، فلا تخلعه لهم، ولا كرامة” يقولها: له مرتين أو ثلاثا۔

روایت ثالثہ: قتل فرقہ مارقہ

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد امت میں ہونے والے فسادات و خونی حادثات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میری امت میں اختلاف و انتشار کے وقت ایک فرقہ ایسا ظاہر ہو گا جو دین سے ایسے نکلا ہوا ہو گا جیسے تیر نشانے سے نکل جاتا ہے ۔ اسے دو جماعتوں میں سے جو جماعت حق کے زیادہ قریب ہو گی وہ قتل کرے گی ۔

ذیل میں حدیث کے الفاظ نقل کیے جاتے ہیں ۔

تمرُقُ مارقَةٌ على حينِ فُرقَةٍ من المسلمينَ فتقتُلُهم أدنى الطَّائفتينِ إلى الحَقِّ أخرجه مسلم

اب ہم مذکورہ تین احادیث پر تین نکات پیش کرتے ہیں ۔ جو ان احادیث کے معنی و مفہوم مصداق سے متعلق ہیں ۔

نکتہ اولٰی :

پہلا نکتہ  یہ ہیکہ جہاں ایک طرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی وہی دوسری طرف سختی سے حضرت عثمان کو قباء خلافت اتارنے سے منع فرمایا ۔ پھر فرقہ مارقہ کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی نرم الفاظ استعمال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ دو جماعتوں میں سے جو جماعت حق کے زیادہ قریب ہو گا وہ اس فرقہ مارقہ کو قتل کرے گا ۔

تاریخی واقعات و حادثات بتاتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشنگوئی کے عین مطابق حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں ہنگامہ بپا کیا گیا ۔ جس پر آپ رضی اللہ عنہ نے بموجب وصیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمل کرتے ہوئے قبائے خلافتِ راشدہ کو اتارنے سے انکار کیا ۔ اور پیغام شہادت کو گلے لگا لیا ۔

پھر دور علوی میں شہادت عثمان و قصاص قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی بنیاد پر حضرت علی و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان شدید نزاع ہوا جو اخیر خونی محاربات کا باعث بنا ۔  پھر اسی نزاع و اختلاف کے بیچوں و بیچ فرقہ خوارج کا ظہور ہوا جو مذکورہ دونوں فریقین سے علیحدہ نظری و عملی موقف کا حامل تھا ۔

نکتہ ثانیہ :

نکتہ ثانیہ یہ ہیکہ حضرت علی و حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیچ ہونے والے خونی محاربات و فسادات کو   حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے کچھ ہی عرصے بعد حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی جانے والی صلح نے رفع کیا ۔

نکتہ ثالثہ :

نکتہ ثالثہ یہیکہ یہ امر  تاریخی طور محقق ہیکہ فرقہ مارقہ خوارج کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت نے قتل کیا تھا ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابل جماعت جماعت فاسقہ و عاصیہ نہیں تھی ۔ العیاذ باللہ ، (جیسا کہ مخالفین باور کرواتے ہیں) بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بالمقابل جماعت حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی بنسبت  تھوڑا حق سے زیادہ دور تھی۔

کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرقہ مارقہ کے ذکر کے ذیل میں ارشاد فرمایا کہ اسے دو جماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہو گی۔

جس سے معلوم ہوا کہ اس جماعت قاتلہ کے بالمقابل    جماعت جماعت عاصیہ ہرگز نہیں ہو گی ۔ جو باطل پر جم کر کھڑی ہوں یا باطل کی داعی ہوں ۔ جیسا کہ حدیث عمار رضی اللّٰہ عنہ کے ظاہری الفاظ اس طرف مشیر ہیں ۔

پھر اس امر پر بھی غور کرنا ضروری ہیکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف فرمائی جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو صلح کرنے سے سختی سے منع فرمایا ۔ جس سے معلوم ہوا کہ دونوں شخصیات کے بالمقابل جماعتوں کا رتبہ و درجہ مختلف ہو گا ۔ وگرنہ کبھی حضرت حسن رضی اللّٰہ عنہ کی صلح پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعریفی کلمات ارشاد نہ فرماتے ۔

بہر حال خلاصہ قول یہی ہے  کہ مذکورہ تین نکات  کے باعث بخاری شریف میں حدیث عمار رضی اللہ عنہ کے ذیل میں وارد الفاظ کی تاویل لازم ہے ۔ وگرنہ محض اس روایت کے ظاہری الفاظ و تراکیب کے معنی کو لیکر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ  عنہ و انکے ساتھی رفقاء کا حدیثی مرتبہ متعین کرنا ہرگز درست طریقہ تحقیق نہیں ۔ بلکہ اس امر کی تنقیح و تشخیص کے عمل میں مشاجرات و محاربات بارے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول دیگر احادیث و احکام کا بھی عمیق مطالعہ لازم ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حافظ حسن علی ادارہ علوم اسلامی سترہ میل سے فارغ التحصیل اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں ایم-فل علوم اسلامیہ کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں