Home » ڈسکورسز، مسائل وموضوعات اور فکری ماحول
مدرسہ ڈسکورسز

ڈسکورسز، مسائل وموضوعات اور فکری ماحول

مدرسہ ڈسکورسز کے احباب سے ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ اس کورس کا خاص فائدہ کیا ہے؟ اسے دوسرے انداز سے یوں لے لیجیے کہ اس کورس میں تین یا دو سال گزارنے کے بعد آپ لوگوں کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟

ڈسکورسز ایک ایسا پروگرام ہے جس میں کلامی پہلو سے دینی روایت کا مطالعہ کیا جاتا یے، فلسفہ اور فلاسفی آف سائنس کو پڑھایا جاتا ہے اور پھر دونوں روایتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی کے کلامی اختلافات کو سمجھا جاتا ہے، جانبین کی آراء سامنے لائی جاتی ہیں اور پھر جانبین کے اختیار کردہ مواقف (Positions) اور اس کے بعد کے ادوار میں علمی تراث پر دَر آنے والے اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ پروگرام اپنی پوری ترتیب کے اعتبار سے خالص ایک علمی اور نظری سرگرمی ہے جس کا عملی اثر بھی نظری ہے کوئی حسی (Physical) نہیں ہے۔

اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے اس کورس سے کون سے علمی وفکری فوائد سمیٹے ہیں اور کس طرح کی رہ نمائی حاصل کی ہے؟

ڈسکورس کے فوائد کی کئی جہتیں ہیں۔ اگر ہم پہلے ان فوائد کی بات کریں جو اس کی نصابی ترتیب (Academics) کے حوالے سے ہمیں حاصل ہوئے ہیں تو اس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

پہلا فائدہ جو اس کورس میں بطور طالب علم ہمیں حاصل ہوا ہے، وہ اپنی شاندار علمی روایت سے کسی درجہ میں واقف کاری ہے۔ ہم نے اس کورس میں آنے کے بعد مسلم فلاسفہ کے جو مختلف رجحانات فکر ہیں، ان تک رسائی حاصل کی ہے اور یہ جانا ہے کہ یعقوب الکندی، فارابی سے لے کر امام غزالی تک ہمارے ہاں یونانی فلسفے کو کس طرح جواب دیا جاتا رہا ہے،عقل اور نقل کے تعارض میں اشاعرہ، ماتریدیہ، امام رازی، غزالی اور امام ابن تیمیہ کا مؤقف کیا رہا ہے؟ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے اندر دور حاضر کے سائنسی ورلڈ ویو کو رسپانڈ کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور یہ اعتماد نصیب ہوا کہ ہم نے ماضی میں بھی اتنے ہی زور آور بیانیوں کو جو اپنے اندر پورا تہذیبی اثر لیے ہوئے تھے ، اقدامی طور پر جواب دیا ہے، اس لیے ہم آج بھی اتنی علمی قوت رکھتے ہیں کہ اس چیلنج کو سمجھیں اور آگے بڑھ کر اس کا جواب دیں۔

دوسرا ہم نے اسی کورس کے ذریعے سے مختصرا مغربی فلسفے کی تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی اور یہ جانا کہ طبعی فلاسفہ سے لے کر کانٹ تک” شک” کی تاریخ کیا ہے اور یہ فلاسفہ مختلف ادوار میں شک کی کوکھ سے جنم لینے والے اور انسانی تجسس کو سب سے زیادہ اپنی طرف مائل کرنے والے سوالات “حضرت انسان کی تاریخ کیا ہے ، کائنات کا اول و آخر کیا ہے اور اس پورے نظام کے پیچھے اصل طاقت کون سی ہے ؟” کا جواب دیتے ہوئے کس طرح کا تصور حیات و کائنات پیش کرتے ہیں۔ مغربی فلسفے کی اس تاریخ کو پڑھنے کے بعد ہمیں یہ سمجھ میں آیا کہ سائنس جو سوالات اٹھا رہی ہے، ان کا تناظر ماضی میں کیا رہا ہے۔

تیسرا ہم نے فلاسفی آف سائنس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں ہمیں یہ علم ہوا کہ سائنس کی تاریخ کن اہم ادوار پر مشتمل ہے، فلسفہ اس کی بنیادوں میں کیسے کار فرما ہے، اس سے الگ کیسے ہوا اور پھر خود سائنسدانوں کے میتھڈز کیا کیا رہے، ان کا تصور حیات و کائنات کیا تھا اور سائنسی نظریات کیسے ایک دوسرے کو رد و قبول کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔ ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم نے آج جو سائنس کی پوزیشن ہے، اس کو بھرپور انداز سے جان لیا کہ یہ اس مقام پر کس طرح پہنچی اور اس کے آج کے مؤقف کے پیچھے کارفرما عوامل کون سے ہیں۔

چوتھا ہم نے سائنسی توجیہات کے مطابق چند اہم اشیاء کے متعلق دور حاضر کے ان تصورات اور نظریات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جو اخلاق کا نیا پیراڈائم تشکیل دے رہے ہیں جیسے فطرت کی حقیقت اور شر اور خیر کا تصور یعنی اسلامی روایت میں فطرت کی حقیقت کیا یے، شر اور خیر کا معیار کیا ہے اور آج سائنسی ورلڈ ویو میں ان کی حقیقت اور معیار کیا ہے۔

پانچواں ہم نے اس کورس میں اسلامی تہذیب کا مطالعہ کیا کہ اس سے پہلے کا تہذیبی ماحول کیسا تھا اور اُس میں خاص طور پر عرب کے خطے کی کیا حیثیت تھی، یہ کس طرح وجود میں آئی، اس کی پیدائش، پرورش اور پھر عروج کے اسباب کیا تھے، دوسری تہذیبوں کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے اس کا رویہ کیسا رہا اور کیسے اس نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے دنیا کا ایک بڑا حصہ اپنے اندر سمو لیا اور یہ مطالعہ مغربی مؤرخین (پٹریشیا کرون، مائیکل کک) اور مسلم مؤرخین( ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ) ہر دو کے زوایۂ نظر سے کیا جس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ ہماری اپنی تہذیب کی تاریخ کیا ہے اور آج جب دوبارہ ہمیں تہذیبی چیلنج درپیش ہے تو کس طرح اس کا رسپانس طے کیا جائے گا۔

چھٹا ہم نے دور حاضر میں مغربی تہذیب کی سیاسی واقداری بالا دستی کی وجہ سے سماجی سطح پر پیدا ہونے والے چند مسائل کا جائزہ لیا، جیسے ” صنفی مساوات” کا مسئلہ بہت تفصیل سے زیر بحث آیا اور اس بات کو جاننے کی کوشش کی گئی کہ اس حوالے سے ماضی کے فقہی مفروضات، مواقف اور نتائج کیا تھے اور آج کے دور میں اس تصور اور عملی پریکٹس کو کن سوالات کا سامنا ہے۔

اب ان فوائد کی بات کرتے ہیں جو ہمیں اس کورس کی غیر نصابی سرگرمیوں سے اور ترتیب شدہ نظام سے حاصل ہوئے ہیں۔

اس کورس کے ذریعے ہمیں غیر مسلم مغربی طلباء و اساتذہ سے ملنے کا موقع میسر آیا جس سے ہم نے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے ساتھ علمی،سماجی اور سیاسی موضوعات پر سیر حاصل مکالمہ کیا جس سے صحیح معنوں میں یہ پتا چلا کہ مغربی اہل علم و اساتذہ کس علمی رویہ کے حامل ہیں،ان کی درس گاہوں کا تعلیمی معیار کیا ہے، مذہب اور سائنس کے مکالمے کو وہ کس طرح رسپانڈ کر رہے ہیں، ہماری اور ان کی سماجیات میں بنیادی فروق (Basic Differences) کیا ہیں، دونوں معاشروں کی مشترکہ اور علیحدہ اخلاقیات کیا ہیں، دونوں معاشروں کی ترجیحات اور اہداف کیا ہیں، مشرقی معاشروں کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں، مدارس دینیہ کے طلباء کو ملتے وقت ان کے ابتدائی احساسات کیا ہوتے ہیں اور ایک عرصہ کے بعد وہ ہمارے بارے میں کس طرح کی رائے قائم کرتے ہیں۔

دوسرا قطر اور نیپال میں وقت گزارنے کا موقع میسر آیا جس سے عموما دونوں ملکوں کی ثقافت، طرز زندگی، معاشی و معاشرتی حالات اور سیاسی نظام پرکھنے کا موقع ملا اور خصوصی طور پر حمد بن خلیفہ یونیورسٹی کے ذریعے قطری نظام تعلیم اور نیپال میں ہندو ازم، بدھ مت اور مسلمانوں کی اقلیتی آبادی کے مذہبی رجحانات کو سمجھنے کا موقع ملا جس سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں ان کے اہم مسائل کیا ہیں اور ان کی مذہبی اور سیاسی ترجیحات کیا ہیں؟

تیسرا ہمیں اس کورس کے ذریعے امریکہ سے ڈاکٹر ابراہیم موسی، ڈاکٹر مکینی، ڈاکٹر مہان مرزا، ڈاکٹر سعدیہ یعقوب، ڈاکٹر جیسن اسپرنگ، ڈاکٹر اطالیہ عمیر اور ڈاکٹر جوشوا، انڈیا سے ڈاکٹر وارث مظہری، پاکستان سے ڈاکٹر عمار خان ناصر، اردن سے ڈاکٹر رنا دجانی ، قطر سے ڈاکٹر دین محمد اور لبنان سے پی ایچ ڈی سکالر محمود جیسے نامور اساتذہ اور سکالرز سے پڑھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ ہم نے ان اساتذہ کے ذریعے کلامی، سماجی اور اخلاقی تصورات کے بدلتے تناظر میں پیدا ہونے والے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی اور مکالمہ کے دوران پوری ایمان داری سے یہ محسوس کیا کہ یہ اساتذہ ان مسائل پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں اور بات سمجھانے کی صلاحیت سے بھی مالا مال ہیں۔ یقینا یہ ایک ایسا فائدہ ہے جسے ایک سچا طالب علم نظر انداز نہیں کر سکتا۔

کچھ فوائد وہ ہیں جو اس کی نصابی ترتیب کا براہ راست ہدف نہیں تھے لیکن اس میں لازمی طور پر پنہاں تھے، جیسے ہمیں اس کورس میں چوں کہ کلامی سطح پر ایسے سوالات کو سننے، پڑھنے اور ان پر غور کرنے کا موقع ملا ہے جو بہت بنیادی نوعیت کے ہیں مثلا اس کائنات کو اگر خدا نے تخلیق کیا ہے تو اس کے شواہد کیا ہیں، انسان کی تاریخ جو اسلام یا آسمانی مذاہب بیان کرتے ہیں، وہ بگ بینگ تھیوری کے تناظر میں کس حد تک درست ہے اور مذہب کی حقیقت کیا ہے اور آج کے دور میں اس کی ضرورت کیا ہے ؟ اس کا اثر شرکاء پر یہ ہوا کہ ان کی نظر میں وہ تمام بحثیں غیر اہم ہوگئیں جو برصغیر کے فرقہ وارانہ تناظر میں کلامی سطح پر ہماری ہاں شد و مد سے ہوتی ہیں اور باہم نفرت کا سبب بنتی ہیں۔ لامحالہ یہ ایک ایسا فائدہ ہے جس کی اہمیت سے ہمارا فرقہ واریت کی آگ میں سلگتا ہوا سماج انکار نہیں کرسکتا اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

اس موقع پر یہ بتانا بھی بر محل ہے کہ اس پروگرام میں کلاسوں، مکالموں اور غیر رسمی گفتگو کے دوران اساتذہ کا رویہ کیسا ہوتا یے اور طلباء کس طرح آپس میں بات چیت کرتے ہیں۔ پ

روگرام میں شریک جملہ اساتذہ کبھی بھی اپنی بات کو ایسے بیان نہیں کرتے جس سے یہ جھلکے کہ آخری اور حتمی رائے اس معاملے میں عقل و نقل کے معیار پر یہی بنتی ہے بلکہ وہ سوال اٹھاتے ہیں اور پھر دعوت دیتے ہیں کہ اس سوال کے مفروضات اور صحیح ہونے پر اعتراض کیجیے۔ اگر سوال اس مرحلے میں صحیح سوال تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس پر غور ہوتا ہے کہ اس کو رسپانڈ کیسے کرنا ہے اور اس سارے عمل میں اساتذہ ایسے شرکاء کے طور پر موجود رہتے ہیں جو اصل مسئلے کی ڈومین سے آپ کو باہر نہیں نکلنے دیتے اور خود بھی بحث میں اس طرح شریک ہوتے ہیں کہ اُن کے سوال پر یا اعتراض پر بغیر ہچکچاہٹ کے سوال و اعتراض ہو سکتا یے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اساتذہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم نے انھیں ان کے اب تک کے تعمیر شدہ فکری سانچے سے نکال کر اپنے فکری سانچے میں نہیں ڈھالنا بلکہ ایسی جگہ پر کھڑا کرنا ہے جہاں یہ ہماری رائے کا بھی تنقیدی جائزہ لے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریک طلباء کئی بار اساتذہ پر اعتراض کرتے ہیں اور ضروری وضاحت کے بعد بھی اگر اپنی بات پر قائم رہیں تو انھیں اس بات کا حق دیا جاتا ہے۔ اساتذہ کے اس رویہ کا اثر طلباء پر یہ ہو چلا یے کہ سبھی شرکاء مکالمے کے دوران باہم اختلاف کرتے ہیں،ایک دوسرے کی بات توجہ سے سنتے ہیں، اعتراض کرتے ہیں اور دوسرے کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق دیتے ہیں۔
میرے خیال میں ان فوائد کے ضمن میں ڈسکورس کا نصاب،تدریسی و انتظامی ترتیب اور عمومی ماحول کی خاصی جھلک دکھلائی گئی ہے جو پورے کورس کی نوعیت سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

محمد عثمان حیدر

محمد عثمان حیدر نے دار العلوم کبیر والا سے درس نظامی اور گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے علوم اسلامیہ میں ایم فل کیا ہے۔ فوجی فاونڈیشن کالج اسلام آباد میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
Usaidhaider7@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں