Home » قانون نہ ماننے کی صورت قادیانیوں کے حقوق
سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون کلام

قانون نہ ماننے کی صورت قادیانیوں کے حقوق

قادیانیوں کے حوالے سے علماء کرام کا یہ اعتراض کہ وہ اس قانون کو نہیں مانتے ہیں اس لئے اس قانون سے ان کو جو فائدے حاصل ہورہے وہ بھی نہیں ہونے چاہیے بلکہ ان کو قانون شکن قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے ۔ جب تک وہ خود کو کافر نہیں مانتے ان کو غیر مسلم اقلیت کے حقوق نہیں ملنے چاہیے ۔ یہ علما کا صرف مطالبہ نہیں ہے بلکہ اس مطالبے کو حقیقت کا روپ دیکر مختلف معاملات کو وہ اسی بنیاد پر غلط ٹھہراتے ہیں قادیانی کسی کلیدی عہدے پر نہیں آسکتے کیونکہ وہ قانون نہیں مانتے قادیانی قربانی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ قانون نہیں مانتے اگر وہ اس قانون کے مطابق خود کو کافر مان لیں تبھی یہ فائدے حاصل کرسکتے ہیں۔ تو یہ گورنمنٹ سے کوئی مطالبہ نہیں اس پر کوئی قانونی پوزیشن لی جائے بلکہ یہ ایک فیصلہ ہے علما کی جانب سے جس کے مختلف مظاہر ہمیں نظر آتے ہیں ۔
یہ اعتراض مختلف الفاظ کے ساتھ مختلف فورمز پر اٹھایا جارہا ہے ۔ اس کے بارے کچھ باتیں ذہن میں ہیں ۔ عدالت یا قانون کا دائرہ کار کیا ہے ۔ اگر عدالت ایک شخص کو قاتل ڈکلیئر کردیتی ہے اور قتل کی سزا پھانسی اس پر نافذ کردیتی ہے اس کے بعد وہ شخص خود کو قاتل سمجھے یا نہ سمجھے اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ اور اگر بالفرض وہ خود کو قاتل نہیں سمجھتا ہے اور دنیا میں مختلف فورمز پر اس پر آواز اٹھانا اپنا حق سمجھتا ہے تو اس کو قانون کا باغی کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ۔ عدالت قتل کی سزا اس پر نافذ کردیتی ہے بعد میں اس کے ورثہ اس سزا کو ناحق سمجھتے ہیں لیکن عدالت یا قانون کے خلاف مسلح ہو کر کھڑے نہیں ہوتے لیکن ان کے فیصلے کے غلط ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو ان کو باغی کہا جاسکتا ہے۔
قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے جو مظاہر ہوسکتے ہیں وہ اگر اس کی خلاف ورزی کریں تو بھی وہ مجرم ہیں انہیں باغی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ مثال کے طور پر مسجد کے مینار بناتے ہیں مسلمانوں والے کام کرتے ہیں اذان دیتے ہیں تو یہ ایسی چیزیں ہیں جو ایک مسلمان ہونے کا اظہار ہیں اگر ایسا کرتے ہیں تو وہ مجرم ہیں یا قانون کے خلاف جارہے ہیں۔ اور اس قانون کی بنیاد پر ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ باغی ہیں۔ لیکن اگر ان کی مسجدوں پر مینار نہیں بن رہے یا وہ اذان نہیں دیتے ہیں تو اس کے بعد جو دل یا ذہن سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں جو قانون کے دائرے میں نہیں آتیں ان کی بنیاد پر ان کو باغی کیسے کہا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح اگر وہ نجی دائرے میں کوئی دینی عمل کرتے ہیں جس کی قانون نے ہی گنجائش رکھی ہے اور علماء اس کو تسلیم کرتے آئے ہیں اس پر کیسے انہیں باغی قرار دیا جاسکتا ہے ۔
اور اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ ایک جرم ہے جس کی مجرم کو سزا ملنی چاہیے لیکن بغاوت تب بنتی یے جب قانون کے خلاف مورچہ زن ہوجائے تو قادیانی یہاں کونسا مورچہ لگائے بیٹھے ہیں ۔
اس لئے یہ اعتراض کہ قانون کی سہولتیں تبھی لے سکتے ہیں پہلے قانون کو مانیں درست نہیں لگتا ۔ قانون کو ماننے کا کوئی بھی شخص ظاہراً مکلف ہے دل میں اس قانون کو اچھا سمجھے یا نہیں قانون اس پر گرفت نہیں کرسکتا ہے۔ پاکستان میں سینما موجود ہے حکومت اس پر پچھلے دنوں بجٹ بھی منظور کررہی تھی بہت سے لوگ اس کو غلط سمجھتے ہیں یہ ان کا حق ہے لیکن اس بنیاد پر کوئی سینما توڑے تو یہ قانون کی نظر میں مجرم ہے اور اگر اس بنیاد پر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو یہ باغی ہے لیکن اس کو یہ حق حاصل ہے کہ اس عمل کے خلاف مختلف محاذوں پر اپنا قانونی حق لڑے۔
اب علماء کرام سے سوال یہ بنتا ہے قادیانیوں نے کونسا جرم یا بغاوت کی ہے ۔
اس کے جواب میں کچھ ممکنہ صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ قادیانی بحیثیت گروہ اس قانون کو تسلیم نہیں کرتا ہے یہ کوئی انفرادی معاملہ نہیں ہے اور جب بحیثیت گروہ ان کے لئے قانون ہے اور وہ نہیں مان رہے تو قانون کے باغی ہوئے ۔لیکن اس پر پھر وہی سوال قائم رہتا ہے کہ تسلیم نہ کرنے میں جو ظاہری چیزیں قانون کے دائرہ میں آسکتی ہیں وہ ان کی طرف سے نہیں پائی جارہیں ۔ لیکن اگر کوئی کہتا ہے تمام قادیانیوں کی طرف سے اس کی کھلم کھلا مخالفت ہوتی ہے وہ کھلے عام کلمہ پڑھتے ہیں لوگوں کو دعوت دیتے ہیں تو اس کے شواہد پیش کرنا ضروری ہے ۔ اگر کچھ لوگ قادیانیوں میں سے ایسا کررہے ہوں تو یہ جرم ہے بغاوت نہیں ہے ۔
اگر یہ کہا جائے قادیانی عالمی طور پر مختلف فورمز پر اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور جب قانون کو مانتے ہی نہیں تو اس کا فائدہ ان کو کیسے دیا جاسکتا ہے ۔ کسی شخص کا عالمی طور پر مختلف آواز اٹھانا قانونی طور پر جرم ہے یانہیں ۔ اگر جرم نہیں ہے تو پھر صرف قادیانیوں کا آواز اٹھانا کیسے جرم بن سکتا ہے اور اگر جرم ہے تو کس قادیانی نے ایسا کیا ہے وہ پاکستان کا شہری ہے کہ نہیں اس کو اس جرم کی سزا دی جائے ۔
قادیانیوں کا اس قانون کو تسلیم نہ کرنا ان کے کالعدم ہونے کا جواز نہیں رکھتا ۔ لیکن بالفرض اگر جواز رکھتا بھی ہو تو یہ چیز بھی قانون کے حل کرنے کی ہے اس کو پارلیمنٹ یا عدالت طے کرے گی اس سے قبل ہی مختلف معاملات میں حکم لگانا یہ پاکستان میں کسی کلیدی عہدے پر فائز نہیں ہوسکتے ، عید پر قربانی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ قانون کو نہیں مانتے ہیں جبکہ قانون نے ان کو قانون شکن ڈکلیئر نہیں کیا ہے یہ صرف ہماری نظر میں ایک چارج شیٹ ہے اسی کی بنیاد پر اس کے ثابت ہوئے بغیر ان کے خلاف اقدامات کیسے کیے جاسکتے ہیں ؟
اگر ہم نے قادیانیوں کو صرف مذہبی حیثیت سے غیر مسلم نہیں ڈکلیئر کیا ہے بلکہ قانونی حیثیت سے غیر مسلم قرار دیا ہے تو پھر قانون کی حیثیت سے اس معاملہ کو دیکھنا ضروری ہے مذہبی حیثیت سے تو پہلے دن سے ہماری نظر میں وہ کافر مرتد زندیق تھے لیکن جب قانون کی بات کی جائے تو قانونی ابحاث کے تقاضے کیا ہیں اس جہت کو نظر انداز کرکے صرف مذہبی اصطلاحات استعمال کرتے رہنا اس کی قانونی حیثیت کو کمزور کرتا ہے

عبد الغنی محمدی

حافظ عبدالغنی محمدی شیخ زاید اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور اسلامیات کے ماہر مضمون کی حیثیت سے قائد اعظم پبلک اسکول سیالکوٹ میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
m03232835307@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • مولانا نے عمدہ نکتہ اٹھایا ہے لیکن سوال یہ کہ علما مجمع لگانے کے لئے یہ بات کرتے ہیں ۔ وگرنہ علما کے پاس شریعت سے کوئی دلیل نہیں۔