یادش بخیر، محترم جناب ڈاکٹر زاہد مغل صاحب سے ہم نے یہ سوالات کیے تھے:
1۔ کیا ولی عہدی کی بنا پر یزید پہلے دن سے ہی، یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے فوراً بعد، خلیفہ اور امامِ بر حق بن گیا تھا؟ یعنی کیا اس کی خلافت پہلے دن سے ہی منعقد تھی؟
2۔ کیا جس خلیفہ کی خلافت منعقد ہوچکی ہو، اس کی بیعت سے انکار جائز ہے، خواہ یہ انکار کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ کیا جائے؟
3۔ جس خلیفہ کی خلافت منعقد ہوچکی ہو اور اس کے باوجود اس کی بیعت سے کسی نے انکار کیا، تو انکار کرنے والے کے خلاف مسلح طاقت کا استعمال جائز ہوتا ہے؟ اگر ہاں، تو کس حد تک؟
4۔ اگر یزید کی خلافت منعقد ہوچکی تھی اور اس کی بیعت سے انکار ناجائز تھا اور انکار کرنے والوں کے خلاف مسلح طاقت کا استعمال جائز تھا، تو کیا آپ امام حسین کےلیے ثواب کے صرف اس وجہ سے قائل ہیں کہ انھوں نے یہ انکار نیک نیتی سے کیا؟ اور کیا ان کو داد آپ صرف اس وجہ سے دیتے ہیں کہ انھوں نے اس نیک نیتی سے کیے گئے غلط انکار پر استقامت دکھائی؟
ڈاکٹر صاحب نے چونکہ ولی عہدی کے موضوع پر تفصیلی تحقیق پیش کی تھی، اس لیے یہ سوالات ان کے موقف کے لازمی نتائج واضح کرنے کےلیے تھے، لیکن انھوں نے اپنے موقف کی توضیح سے گریز کی راہ اختیار کی ہے۔ ہماری خواہش تھی کہ وہ صرف یہ بیان کریں کہ ولی عہدی کے موضوع پر ان کی تحقیق کے نتیجے میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام اور ان کی شہادت کی نوعیت کیا بنتی ہے، لیکن انھوں نے اس کی توضیح کے بجاے نئے اور غیر متعلق سوالات کھڑے کرنے کو ترجیح دی۔
ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا غلط عنوان
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون کا عنوان یہ رکھا: “حضرت امیر معاویہ کے فیصلے کی تنقیح پر ہمارے سوالات”، حالانکہ ہمارے سوالات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی تنقیح کےلیےتھے ہی نہیں! ہمارے سوالات تو ڈاکٹر صاحب کے اس موقف کے متعلق ہیں کہ ولی عہدی کے ساتھ ہی خلافت منعقد ہوجاتی ہے۔ اس موقف کےلازمی نتائج کے متعلق ہم ڈاکٹر صاحب کے موقف کی تصریح چاہتے تھے کیونکہ ہم لزوم اور التزام کے فرق سے واقف ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ بعض اوقات خود اپنی بات کے لوازم کی طرف بندے کی نظر نہیں پہنچتی اور جب توجہ دلائی جائے، تو وہ ان لوازم سے انکاری ہوجاتا ہے اور نتیجتاً ان لوازم سے بچنے کےلیے اپنے موقف کی نوک پلک درست کرلیتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے ابتدا میں ہی بتا دیا تھا کہ ہم اس مرحلے پر ولی عہدی کے متعلق آپ کے موقف پر بحث نہیں کرنا چاہتے، نہ ہی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دفاع میں آپ کی کاوش پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں غیر متعلق امور
ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے: “علمی گفتگو کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ “شیعت اور ناصبیت” جیسے جذباتی نعروں کو استعمال کرنے کے بجائے موقف و دلیل پر توجہ دی جائے۔” ہمیں ان کی اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور ہمارے سوالات میں ایسا کوئی جذباتی نعرہ تھا ہی نہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے لکھا: “چنانچہ ہمارے نقطہ نگاہ پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب دینے سے پہلے ہم بھی چند ایسے سوالات پیش خدمت کرتے ہیں جو اس مسئلے کی درست تنقیح کے لئے ضروری ہے۔ امید ہے ان پر بھی غور و فکر کیا جائے گا۔” اس پر عرض ہے کہ اس وقت مسئلہ صرف اتنا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ولی عہدی پر جو تحقیق کی ہے، اس پر اٹھائے گئے سوالات کے جوابات دے دیجیے تاکہ ڈاکٹر صاحب کے موقف کے متعلق پوری تصویر سامنے آجائے۔ جوابات دینے کا یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ جواب دینے کے بجاے سوال اٹھانے والے سے سوال کیا جائے اور اس طرح اپنا موقف بیان کرنے سے بچنے کی راہ نکال لی جائے۔
ڈاکٹر صاحب مولانا مودودی کو خواہ مخواہ ہی بیچ میں لے آئے ہیں، حالانکہ ایک تو ولی عہدی کے متعلق میں نے پچھلے سال جو مختصر مضمون لکھا تھا ، اس میں کہیں مولانا مودودی کا ذکر ہی نہیں تھا، نہ ہی میرا موقف مولانا مودودی سے ماخوذ تھا؛ دوسرے، جیسا کہ اوپر بتایا گیا، بات ولی عہدی کے متعلق کسی اور کے موقف پر نہیں ہورہی، بلکہ اس پر ہورہی ہے کہ ولی عہدی کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے یہ لازمی نتائج ان کو تسلیم ہیں یا نہیں؟
ڈاکٹر صاحب آگے فرماتے ہیں: “پس ہم اس مسئلے پر ایسی ہی رائے کو درست سمجھتے ہیں جو اس حقیقت پر مبنی ہو کہ ائمہ کے نزدیک (بشمول باپ و بیٹے کی) ولی عہدی انعقاد خلافت کا جائز طریقہ ہے اور اس کے خلاف رائے جدید دور میں بھلے جتنی جاذب نظر معلوم ہو اس کا کلام و فقہ کی روایات سے تعلق نہیں۔”
یہاں پھر عرض ہے کہ ایک تو بحث اس پر ہے ہی نہیں کہ ولی عہدی انعقادِ خلافت کا جائز طریقہ ہے یا نہیں، بلکہ اس پر ہے کہ ولی عہدی کے متعلق جو ڈاکٹر صاحب کا موقف ہے، اس کے یہ یہ لازمی نتائج ڈاکٹر صاحب قبول کررہے ہیں یا نہیں؟
دوسرے، ولی عہدی کے خلاف کون سی راے ہے جو “جدید دور” میں “جاذبِ نظر” ہے اور جس کا “کلام و فقہ کی روایات” سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، یہ مسئلہ بھی سرے سے زیرِ بحث ہے ہی نہیں۔ زیرِ بحث مسئلہ یہ ہے کہ ولی عہدی کا جو نظریہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک کلام و فقہ کی روایات سے ثابت شدہ ہے، بھلے وہ جدید دور میں جاذبِ نظر ہو یا نہ ہو، اس نظریے کے یہ یہ لازمی نتائج ڈاکٹر صاحب مانتے ہیں یا نہیں؟
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کے درمیان یا امام حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے درمیان؟
ڈاکٹر صاحب آگے فرماتے ہیں:
“اس گفتگو میں ایک تاثر یہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حضرت علی كرم الله وجهه کے مقابلے پر حضرت امیر معاویہ رضي الله عنہ تھے جبکہ حضرت حسین رضي الله عنہ کے مقابلے پر یزید تھا۔۔۔ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہاں ایک طرف حضرت امیر معاویہ اور وہ دیگر صحابہ ہیں (جن کی تعداد تاریخی کتب میں 75 تک ہے) جن کے نزدیک ان حالات میں ولی عہد مقرر کرنا درست تھا اور دوسری طرف دیگر صحابہ تھے جن کی رائے میں یہ درست نہ تھا۔ ایسے میں اس موضوع کا درست عنوان “صحابہ کے مابین اجتہادی رائے میں اختلاف” ہے۔”
یہاں انھوں نے درمیان سے بات شروع کی ہے اور پھر درمیان میں ہی چھوڑ دی ہے اور اصل بات پر گفتگو سے کنی کترا کر نکل گئے ہیں! بات اگر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہی شروع کرنی ہے اور صحابہ کی گنتی ہی کرنی ہے، تو ڈاکٹر صاحب سب سے پہلے یہ بتائیں کہ ان کے “اجتہادی اختلاف” میں کتنے صحابہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھے اور کتنے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ؟ پھر یہ تو ڈاکٹر صاحب نے بتادیا کہ ولی عہدی کے متعلق حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فیصلے کی تائید کرنے والے صحابہ کی تعداد 75 تھی، لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ “دیگر صحابہ” کی تعداد کتنی تھی جنھوں نے اس فیصلے کی تائید نہیں کی؟ اس کے بعد کا سوال یہ ہے کہ کیا اجتہادی اختلاف میں ہر کوئی برحق ہوتا ہے یا حق پر کوئی ایک ہی ہوتا ہے؟ پھر کسی کے حق پر ہونے کےلیے معیار کیا “گنتی” ہے یا کچھ اور؟
اس معاملے کو “اجتہادی اختلاف” قرار دینا کافی نہیں ہے کیونکہ اس کے بعد اس کا تعین بھی ضروری ہے کہ اس اجتہادی اختلاف میں آپ کے اصولوں کی رو سے حق پر کون تھا؟ مثلاً باغِ فدک کے مسئلے پر میں نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ یہ اجتہادی مسئلہ تھا اور اس اجتہادی اختلاف میں حضرات شیخین ابو بکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما حق پر تھے۔
مکرر یاد دہانی کراؤں کہ ڈاکٹر صاحب سے سوالات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فعل کے متعلق تھے ہی نہیں، بلکہ اس فعل کے قانونی اثرات کے متعلق جو راے ڈاکٹر صاحب نے قائم کی ہے، اس کے متعلق تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کی رو سے یزید تو چونکہ پہلے دن سے ہی خلیفۂ برحق تھا ولی عہد بنائے جانے کے نتیجے میں اس کی خلافت پہلے ہی سن سے منعقد ہوچکی تھی، اس لیے وہ سوالات ڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھے گئے تھے۔ اس لیے خلطِ مبحث اصل ڈاکٹر صاحب کررہے ہیں جب وہ اس معاملے کو امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تنازعہ بنا لیتے ہیں کیونکہ میرے سوالات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فعل (یزید کو ولی عہد بنانے) کے متعلق تھے ہی نہیں۔
یزید اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا تقابل بھی اس پہلو سے کیا گیا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے معاملے میں تو دونوں طرف صحابہ تھے ، لیکن یہاں تو وہ صورت تھی ہی نہیں، اور پھر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو ایک طرف، خوارج کے ساتھ بھی وہ کچھ نہیں کیا جو یزید نے امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ کیا۔
میرے سوالات “بعد از کربلا” صورت حال کے متعلق نہیں تھے۔
ڈاکٹر صاحب آگے ایک اور خلطِ مبحث میں پڑ گئے ہیں اور فرماتے ہیں:
“دو امور جدا جدا ہیں۔ “کیا کربلا اور حرا کے واقعات رونما ہوچکنے کے بعد یزید فاسق ہوا یا نہیں؟” یہ ایک الگ سوال ہے۔ لیکن اس کا اس دوسرے پہلو سے کوئی تعلق نہیں کہ حضرت حسین کی جانب سے یزید سے بیعت نہ کرنے کی فقہی تکییف کیا ہے۔ چنانچہ یہاں پہلی نہیں بلکہ دوسری بات زیر گفتگو ہونی چاہئے کہ حضرت حسین نے کس بنا پر یزید کی بیعت سے ہاتھ کھینچا؟ ظاہر ہے کربلا وغیرہ کے بعد کے واقعات کی صورت حال اس سوال کا علمی جواب نہیں۔”
اس پر عرض ہے کہ میرے سوالات میں تو “بعد از کربلا” یا “بعد از حرہ” کوئی بات تھی ہی نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے یہ کہاں سے فرض کرلیا؟ میرے سوالات تو بہت سیدھے سادے ہیں، کہ جب ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ولی عہد بنائے جانے کے نیتجے میں یزید پہلے دن سے ہی خلیفۂ برحق تھا اور اس کی خلافت روزِ اول سے ہی منعقد تھی، تو اس کی بیعت سے انکار کا کیا جواز تھا، اور انکار کرنے والوں کے خلاف یزید کو کس قسم کے اقدام کا شرعی جواز میسر تھا؟ ڈاکٹر صاحب تھوڑی سی بھی غور کی زحمت گوارا کرتے، تو انھیں معلوم ہوتا کہ یہ سوالات کربلا سے پہلے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے ایک سیکنڈ بعد کی صورت حال کے متعلق تھے۔ کربلا و حرہ کے واقعات تو بعد کی باتیں ہیں۔
کیا ڈاکٹر صاحب اس لیے اس خلطِ مبحث میں پڑے ہیں کہ وہ ان سوالات سے آنکھیں چرا رہے ہیں، جو ولی عہدی کے متعلق ان کی تحقیق کے لازمی نتائج کے متعلق اٹھائے گئے ہیں؟
ڈاکٹر صاحب کے 12 غیر متعلق سوالات
ڈاکٹر صاحب نے آخر میں سوالات کی ایک لمبی فہرست دی ہوئی ہےجن کے متعلق پھر گزارش ہے کہ ہمارے سوالات اس مسئلے پر ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کی صحت و عدمِ صحت جانچنے کےلیے نہیں تھے، بلکہ ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے لازمی نتائج کے متعلق ان کی تصریحات حاصل کرنے کےلیے تھے۔ اگر ہمارے سوالات اس پہلو سے ہوتے کہ ولی عہدی سے فوراً انعقادِ خلافت کے متعلق ڈاکٹر صاحب کی تحقیق صحیح ہے یا غلط، یا ہمارے سوالات حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے تائید کنندگان کے طرزِ عمل کے درست مفہوم کے تعین کےلیے ہوتے، تو ان دو صورتوں میں ڈاکٹر صاحب کے ان سوالات کا کچھ جواز بن سکتا تھا،اگرچہ پھر بھی میں ضرور عرض کرتا کہ ان میں کئی سوالات غلط فریم کیے گئے ہیں، اور اتنا تو ڈاکٹر صاحب جانتے ہی ہیں کہ سوال غلط فریم کیا جائے، تو جواب غلط ہی نکلتا ہے۔ لیکن جب میرے سوالات ان موضوعات سے متعلق تھے ہی نہیں، تو ڈاکٹر صاحب کے ان جوابی سوالات کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اگرچہ ڈاکٹر صاحب کے جوابات کم از کم میرے لیے تو پہلے ہی سے واضح ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب نے یہاں جن سوالات کی فہرست دی ہے اس کے بین السطور بھی ڈاکٹر صاحب کا موقف اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے، لیکن پھر بھی میری گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب جب اپنے ان سوالات پر اپنے جوابات مرتب فرمالیں، تو آخر میں از راہِ کرم میرے ان سوالات کے جواب بھی ضرور دے دیں جن کے ذریعے ولی عہدی پر ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے لازمی نتائج کے متعلق ڈاکٹر صاحب کا موقف صریح الفاظ میں عام قارئین کے سامنے بھی آجائے گا۔
البتہ میں ڈاکٹر صاحب کے ان سوالات میں چند ایک کی غلطی واضح کرکے سوالات درست طریقے سے فریم کرنے میں ان کی تھوڑی سی مدد ضرور کرنا چاہوں گا ۔ چنانچہ عرض ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے پہلے 6 سوالات تو موجودہ بحث، یعنی ولی عہدی کے متعلق آپ کی تحقیق کے لازمی نتائج، کے لیے قطعی طور پر غیر متعلق ہیں اور موجودہ بحث میں ان کے غیر متعلق ہونے کی وضاحت تفصیل سے میں نے کر دی ہے۔
کیا ولی عہدی سے ہی خلافت منعقد ہوجاتی ہے؟
ڈاکٹر صاحب کا ساتواں سوال ہے کہ: “اگر حاکم وقت ولی عہد مقرر کرے، پھر بعد از اس کی مرگ معاشرے کے بااثر افراد کی اکثریت اور مختلف صوبوں کے عاملین و گورنر وغیرہ اس پر صاد کردیں جبکہ بعض لوگ اسے تسلیم نہ کریں، تو کیا اس کی ولایت نافذ ہو جاتی ہے یا نہیں؟”
اس کے متعلق عرض ہے کہ یہ سوال غلط فریم کیا گیا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ولی عہدی سے خلافت خود بخود منعقد ہوجاتی ہے یا اس کے بعد اہل الحل والعقد کی تائید اس کےلیے ضروری ہوتی ہے؟ اس سے کئی دیگر سوالات پیدا ہوتے ہیں، جیسے:
اگر ڈاکٹر صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اہل الحل والعقد کی تائید کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور خلافت کے انعقاد کےلیے صرف ولی عہدی کافی ہے، تو کیا ڈاکٹر صاحب ولی عہدی پر ہبہ کے اصولوں کا اطلاق کررہے ہیں؟ یا اگر ڈاکٹر صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ اہل الحل والعقد کی تائید کی ضرورت تو نہیں، لیکن ولی عہد کی خلافت کا انعقاد موجودہ خلیفہ کی وفات کے بعد ہی ہوگا اور موجودہ خلیفہ اپنی زندگی میں اس کی ولی عہدی ختم بھی کرسکتا ہے، تو کیا ڈاکٹر صاحب ولی عہدی پر وصیت کے احکام کا اطلاق کرتے ہیں؟
دونوں صورتوں میں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خلیفہ کو خلافت پر ذاتی ملکیت حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے ہبہ یا وصیت کردے، یا خلیفہ امت کا وکیل ہے؟ اگر وہ وکیل ہے، تو کیا اصیل کی مرضی کے بغیر وکیل کسی اور کو وکیل بنا سکتا ہے؟ یا وکیل کوئی ایسا کام کرے جس کی اجازت اصیل نے نہ دی ہو، تو کیا اصیل کی توثیق (اجازہ/ratification) کے بغیر وہ کام جائز ہوسکتا ہے؟
پھر ہبہ اور وصیت پر اور بھی سوالات اٹھتے ہیں، جیسے وارث کے حق میں وصیت کےجواز و نفاذ کےلیے کیا دیگر ورثا کی اجازت ضروری ہوتی ہے یا نہیں، اور کیا یہ اجازت وصیت کے وقت معتبر ہوگی یا وصیت کرنے والے کی موت کے بعد؟ اور ہر صورت میں کیا یہ یقینی بنانا لازم ہے یا نہیں کہ اجازت دینے والوں کی مرضی آزادانہ ہو؟ پھر وصیت ہو یا ہبہ ہو یا وکالت، ان تصورات کے کن اصولوں کو ڈاکٹر صاحب ولی عہدی کے معاملے پر منطبق کرتے ہیں اور کن کے انطباق سے انکاری ہیں، اور کیوں؟ اس pick and choose بلکہ cherry-picking کےلیے دلیل کیا ہے؟
دیکھیے، ایک سوال درست فریم کیا جائے، تو معاملہ کیسے سیدھا ہوجاتا ہے؟ امید ہے کہ اب ڈاکٹر صاحب کو اس سوال کا جواب تو مل ہی گیا ہوگا کہ: “اگر آپ کے نزدیک ولی عہدی سے حکومت کا نفاذ نہیں ہوتا، تو کیا ارباب حل و عقد کی کثیر تعداد میں بیعت ہوجانے کے بعد یزید کی حکومت کا نفاذ ہو گیا تھا؟ اگر نہیں، تو کیوں نہیں اور اس کی فقہی واصولی بنیادیں کیا ہیں؟”
اس کے بعد اس بات پر توجہ کیجیے کہ جب ڈاکٹر صاحب سوال اس طرح فریم کرتے ہیں کہ: ” بعض لوگ اسے تسلیم نہ کریں”، تو کیا ان کا دل ذرا بھی نہ کپکپایا کہ آپ امام حسین رضی اللہ عنہ (اور کئی دیگر جلیل القدر ہستیوں) کو “بعض لوگ” بنا رہے ہیں؟
کیا یزید خلافت کی شرائطِ اہلیت پر پورا اترتا تھا؟
ڈاکٹر صاحب کا آٹھواں سوال بھی موجودہ بحث کے لیے قطعی طور پر غیر متعلق ہے کیونکہ سوال ڈاکٹر صاحب سے یہ کیا گیا تھا کہ ولی عہدی کے متعلق ان کی تحقیق کے لازمی نتائج کیا ہیں؟ سوال یہ ہے ہی نہیں کہ ولی عہدی کے بعد جس نے یزید کی بیعت سے انکار کیا، تو اس انکار کا سبب کیا تھا؟
البتہ اس سوال یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی اس کے قائل ہوگئے ہیں کہ “کربلا سے پہلے” یزید بہت اعلی کردار کا حامل تھا۔ مجھے اس پر حیرت بالکل بھی نہیں ہے، لیکن میری گزارش صرف اتنی ہے کہ جو کہنا ہے کھل کر کہیں، اتنے پردوں میں اس بات کو چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟ صاف کہیے کہ یزید تو میاں آدمی تھا اور اس کی بیعت سے انکار کا موقف غلط تھا ۔
موجودہ بحث کے لیے تو ڈاکٹر صاحب کا نواں سوال بھی قطعی طور پر غیر متعلق ہے ، لیکن اس سوال سے ڈاکٹر صاحب کی غلطی کی بنیاد بخوبی معلوم ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ پوچھتے ہیں : “کیا یزید کو واقعہ کربلا سے پہلے یعنی حکمران بنتے وقت فاسق و فاجر ماننا اہل سنت کا واحد و ضروری موقف ہے؟” عرض ہے کہ یہ سوال پھر غلط فریم کیا گیا ہے۔ یہ تو کوئی سوال ہی نہیں کہ کیا اس موضوع پر اہلِ سنت کا صرف ایک “واحد و ضروری”موقف ہے؟ سوال یہ ہے کہ اس موضوع پر چاہے کتنے ہی مواقف ہوں، صحیح موقف کون سا ہے اور وہ موقف کن اصولوں پر قائم ہے؟ ڈاکٹر صاحب مزید پوچھتے ہیں: “کیا اس پر خود اہل سنت کے ائمہ کے مابین دوسری آرا موجود ہیں یا نہیں؟” یہ بھی کوئی سوال نہیں ہے۔ بھلے تین، چار، آٹھ، دس آرا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ان میں صحیح راے کون سی ہے اور کیوں وہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک صحیح ہے؟
کمنت کیجے