Home » تعلیمی انڈسٹری میں حیرت انگیز انقلاب
تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت

تعلیمی انڈسٹری میں حیرت انگیز انقلاب

موجودہ حکومت نے عالم نزع میں پنجاب میں چھبیس نئی یونیورسٹیز کے لیے چارٹرز دے دئیے ہیں. ایجوکیشن انڈسٹری مبارک باد کی مستحق ہے کہ ڈگریاں فروخت کرنے کے مزید کارخانے کھل گئے ہیں. یاد رہے کہ پاکستان میں یہ سب سے سستا اور کامیاب بزنس ہے. چند ہزار سالانہ کے بدلے وزٹنگ فیکلٹی رکھ کر لاکھوں روپے پر سسمٹر فیس وصول کر کے ڈگری دے دینے سے زیادہ نفع بخش کوئی بزنس نہیں ہے۔ایم اے تک ہم نے دوسالہ نصاب کے تحت یکبارگی امتحان کے ذریعے ڈگریاں حاصل کیں۔اس کے فورا بعد سمسٹر سسٹم کا چلن شروع ہوا. میں نے ریاض یونیورسٹی سے سمسٹر سسٹم کے تحت applied linguistics کی ڈگری حاصل کی تھی۔اتنی محنت کرنا پڑتی تھی کہ دن رات کا فرق بھول جاتالیکنپاکستان میں یونیورسٹیز میں سمسٹر سسٹم کا چلن دیکھا۔رنگین مزاج ٹیچرز گل و گلاب پر ہی ریشہ خطمی ہو جاتےلیکن عمومی تعلیم میں استاد سلائیڈز تیار کر کے طلبہ کو mail کر دیتا ہے۔اور وہی سلائیڈز کلاس میں بول کر آجاتا ہے۔کوئز اسائنمنٹس، سیشنل، مڈ ٹرم اور فائنل سب کچھ اسی میں سے ہوتااور طلبہ نمایاں کامیابی حاصل کر لیتے۔اس پر ایجوکیشن انڈسٹری کی برکت سے یہ ہوا کہ ہر سمسٹر میں طالب علم لگ بھگ لاکھ روپے فیس کی مد میں جمع کراتا ہے۔اسے فیل کر کے ہم اپنی آمدنی کے ذرائع تو نہیں بند کر سکتے۔طلبہ کو معلوم ہے کہ یونیورسٹیاں ہماری فیسوں سے چلتی ہیں۔ہمیں پاس کرنا ان کی مجبوری ہے۔پھرجس طرح اساتذہ طلبہ کے پیپرز کی مارکنگ کرتے ہیں طلبہ بھی اساتذہ کے بارے میں فیڈ بیک دیتے ہیں۔اگر مجھے اپنی جاب جاری رکھنا ہے، پروموشن لینی ہے تو مجھے طلبہ کی طرف سے شاندار فیڈ بیک چاھئے۔اور یہ تبھی مل سکتی ہے جب میں ان کو شاندار گریڈ دے کر پاس کروں گا۔جس کسی نے ہمارے ملک کو اس شاہراہ پر ڈالا ہے اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ پیارا پاکستان ہے اورہم اس کے نگہبان ہیں۔
ماضی بعید سے شروع کریں اور لارڈ میکالے کی کرم نوازی کا ذکر کریں تو بات لمبی ہو جائے گی۔تاہم پاکستان میں تعلیم کے دونوں سلسلے یعنی دینی اور رسمی قومی امنگوں کے مطابق استوار نہیں کئے گئے. دینی تعلیم صادق و امین لیکن ہر شعبہ حیات میں متحرک، مستعد اور زندہ شہری پیدا کرنے کے بجائے امام، خطیب اور دینی تعلیم کے اساتذہ پیدا کرنے تک محدود ہو گئی جبکہ ان افراد کی ضرورت تو تھی لیکن محدود. ایسا کوئی سسٹم متعارف نہیں کروایا گیا کہ دوچار سال کی لازمی دینی تعلیم کے حصول کے بعد /ساتھ رسمی تعلیم کا حصول بھی ممکن ہو اور ہم مسلم سیاست دان، متقی بیوروکریٹس، دیانت دار فوجی، امانت دار تاجر اور ایثار پیشہ زمیندار اور صنعت کار تیار کرسکیں. دوسری طرف رسمی تعلیم کسی حد تک ملک کی مادی ضروریات پوری کرتی تھی لیکن اس میں اسلام و أخلاق کی آمیزش سرے سے نہیں تھی. پھر جب اسلامیات کی تعلیم لازمی کی گئی تو فرقے سامنے آ گئے. ہر فرقہ کا اسلام اپنا تھا نتیجتاً بہت کم امور ایسے تھے جن پر فرقہ وارانہ اتفاق ہو سکا اور وہی تین چار باتیں دوسری جماعت سے بی اے تک اسلامیات کے نام سے دھرائی جاتی ہیں۔
درمیان میں سمسٹر سسٹم آ گیا. جن ممالک میں واقعتاً سمسٹر سسٹم رائج ہے وہاں طلبہ کو چوبیس گھنٹے میں چار گھنٹے بھی سونے کے لیے بڑی مشکل سے دست یاب ہیں لیکن اس کے لیے اساتذہ کو بھی بے پناہ محنت کرنا پڑتی ہے. ہمارے ہاں دونوں کام مشکل تھے، ہم نے ہر مضمون کی سولہ پریزینٹیشن تیار کر لیں، انہیں میں سے کوئز، اسائنمنٹ اور امتحان. ہر طالب علم کو معلوم ہوتا تھا کہ یہ سوال آئیں گے. اگر کسی طالب علم کی تیاری درست نہ ہو تو استاذ مادی اور دیگر غیر اخلاقی تحائف لے کر اچھے نمبر دے دیتا، اور انہیں کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا.
جنرل مشرف کے دور میں محدود پیمانے پر سیلف فائنانس سکیم کے تحت سیٹیں رکھی گئیں. عام ادارے بھی آمدنی کے اس ذریعے سے خوش ہوئے لیکن سب سے زیادہ فائدہ ان کی اپنی کمیونٹی کے بالائی طبقہ نے اٹھایا. دھڑادھڑ پرائیویٹ کالجز اور جامعات بننا شروع ہو گئیں. اور ملک میں سب سے بڑی انڈسٹری ایجوکیشن انڈسٹری متعارف ہو گئی جو تمام تر سیلف فائنانس پر استوار کی گئی. جب تعلیم مارکیٹ کا مال ہو گئی تو یونیورسٹیز نے اس امر کو عملا رائج کر دیا کہ ڈگری حصول علم کا سرٹیفکیٹ نہیں بلکہ اداء فیس کی رسید ہے. سربراہان جامعات اپنی فیکلٹی کو بتاتے ہیں کہ جس بچے نے اتنے لاکھ روپے ہمارے ادارے میں جمع کروائے ہیں ہم اسے ڈگری دیئے بغیر کیسے بھیج سکتے ہیں. اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک طرف غریب اور متوسط طبقے کی استطاعت سے تعلیم نکل گئی اور دوسری طرف وہ کسی اہلیت اور قابلیت کی علامت نہیں بلکہ قوت خرید کا نتیجہ ٹھہری۔
پھر اس پر یہ ستم کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی آفیسر جامعات کے سربراہ مقرر کرنے کا چلن عام ہو گیا. جبکہ یہ معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں عسکری قیادت میں شامل ہونے کے لئیے ایف اے /ایف ایس سی پاس ہونا چاہیے. اس کے بعد کچھ لوگوں کے پاس اعلی ڈگریاں بھی آ جاتی ہیں لیکن ان کی کہانی ناگفتہ ہی رہے تو بہتر ہے. تجربہ شاہد ہے کہ یہ قیادت آخری درجے کی ترقی پانے کے بعد بھی اکیڈمی طور پر ایف اے سے بلند سطح کی نہیں ہوتی. اگر کسی فرد نے کوئی ادارہ بہتر طور پر چلایا ہے تو صرف جامعہ میں موجود مہارت کے تعاون اور مشاورت سے۔
ہم عسکری قیادت کی مختلف شعبوں میں دراندازی سے ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن میری رائے میں سب سے بڑا نقصان شعبہ تعلیم میں ہوا کیونکہ سیاست، صنعت، تجارت اور رئیئل اسٹیٹ بزنس کے سٹیک ہولڈرز ملک میں پہلے سے موجود تھے جبکہ تعلیم کا سٹیک ہولڈر کوئی نہیں تھا اس لیے اس کی تباہ حالی کا دکھ کسی کو نہیں ہوا۔
مزید برآں وہ مضامین جو قوموں کی دانش و تہذیب کے ارتقا میں کار ہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں مثلاًفکر و فلسفہ، اخلاقیات، مذہب، تصوف، تاریخ، تہذیب اور دیگر سماجی اور عمرانی علوم وغیرہ سے متعلق تمام مضامین کو بیک جنبش قلم ختم کر کے قومی ترقی کا دار و مدار تاریں جوڑنے اور سکریو ٹائیٹ کرنے کو قرار دیا گیا.تعلیم کا تعلق انسان شخصیت کے ارتقا بجائے مادی وسائل کے حصول سے ہو گیا اور کامیابی نے ایک نئے مفہوم کا لبادہ اوڑھ لیا.
اسلامی ریاست اور مہذب سماج میں تعلیم کبھی بھی برائے فروخت نہیں ہوتی. یہ بنیادی انسانی حق نہیں کہ صاحب حق اپنا حق معاف کر دے بلکہ تعلیم کا حصول ہر فرد کا فرض ہے، جو نہ چھوڑا جا سکتا ہے نہ معاف ہو سکتا ہے . یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ جب برصغیر میں مسلمانوں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دئیے گئے تو یہاں کے مسلم سماج نے اپنی مدد آپ کے تحت ایسے ادارے قائم کئے جو نہ صرف ضرورت مند طلبہ کی کفالت کرتے ہیں بلکہ انہیں کسی بھی قسم کی فیس کے بغیر زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔
میں دینی مدارس کے قائدین سے گزارش کروں گا کہ پاکستان میں جامعات کا سارا انفراسٹرکچر اگلے دس سال میں دھڑام سے گر کر تباہ ہو جائے گا. سرکاری جامعات تو شاید تین چار سال بمشکل نکال سکیں. پرائیویٹ جامعات بھی اگر اپنی فیسوں میں قابل لحاظ کمی نہیں کریں گی تو اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکیں گی۔
یہ وقت ہے کہ دینی علم، اسلامی حمیت اور ادارہ جاتی تجربہ رکھنے والے افراد اور ادارے سامنے آئیں اور دینی مدارس کے پہلو بہ پہلو سائنسی، عمرانی، سماجی اور اقتصادی مضامین کی تعلیم کے لئے اسلامی فکر و تہذیب کی اساس پر ادارے قائم کریں اور اپنے اداروں کے توسط سے ساری ریاست کو مطلوبہ رخ دینے کی طرف پیش قدمی کریں۔

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی ممتاز ماہر تعلیم اور محقق ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد اور ہائی ٹیک یونیورسٹی ٹیکسلا میں تدریسی وانتظامی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
tufailhashmi@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں