ڈاکٹر اشفاق احمد
آپ میں سے کئی احباب نے disc personalities کے بارے میں پڑھ رکھا ہوگا۔ ڈاکٹر ولیم مولٹن مارسٹون جوکہ ایک سائیکو لوجسٹ تھے، نے اس ماڈل کو متعارف کیا تھا۔ یہ درحقیقت اداروں میں کام کے حوالے سے افراد کے استعداد کار کو جانچنے کے مقصد سے تھا۔ لیکن یہاں اس کو therapeutic مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا جائزہ لینا ہے۔ اس کے مطابق ہم میں سے ہر ایک طبعی طور پر ان چار میں سے ایک میں موجود ہے۔
1) dominant
جو ایسے افراد ہوتے ہیں جہاں فطرت میں برتری کا اظہار موجود ہوتا ہے۔ یہ لوگ نتائج پر یقین رکھتے ہیں اور ایک طرح سے پیدائشی لیڈر ان کو کہہ سکتے ہیں
2) infuential
یہ افراد محفل کے دلدادہ ہوتے ہیں۔
ان کے ہاں fun عروج پر ہوتا ہے۔
3) steadiness
یہ خاموش طبع اور نرم خو ہوتے ہیں۔
4) conscientious
یہ لوگ تفصیل اور documentation کو اولیت دیتے ہیں۔
ہر ایک کی پوری تفصیل آپ کو نیٹ پر مل سکتی ہے۔ disc personalities کو لکھ کر نیچے تمام تر تفصیل خود ہی پڑھ لیجیے۔
اس طالبعلم نے اس کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اسی کو موضوع بنا کر اپنے کئ سوالوں کی گھتیاں سلجھائ ہیں۔
اپنی تمام تحقیقق کا یہاں ذکر تو بہت تفصیل طلب ہے تاہم چیدہ چیدہ نکات یہاں لکھ دیتا ہوں۔ تحقیق کی دنیا میں غلطی اور اپنی بات سے رجوع کا امکان تو ہر وقت پیش نظر رہتا ہے اور اس امکان کا میں ہر وقت سامنا کرتا ہوں۔
ہماری بنیادی شخصیت ان چار میں سے ایک ہی ہوتی ہے اور ہے۔ ہمارے اندر ایک عنصر غالب اور بقیہ تین کا ضمنی طور پر اُس کا ساتھ دینا ہی ہماری منفرد شخصیت کی تشکیل کرتا ہے اور یہی حالت صحت ہے۔
اگر کبھی ہماری یہ شخصیت دب جاۓ تو بقیہ تین میں سے کوئ دوسرا عنصر غالب ہو کر ایک طرح سے شخصیت میں تغیر کا موجب بنتا ہے اور یہی مرضیاتی کیفیت ہوتی ہے مثلا کوئ شخص اپنی شخصیت کے اعتبار سے influential ہو اور یہ stuck ہوجاۓ تو اگلے عناصر میں سے کوئ ایک ابھر آۓ گا یعنی اس میں غصے، برتری کا رجحان، خوف، انتہائ تفصیل کی تلاش analytical ہونا یا پھر سرد مہری کا رجحان پیدا ہوگا۔ فطری عنصر کے دب جانے سے یا اس کو متوازن رستہ نہ ملنے سے ردعمل کے طور پر بقیہ تین کا یکے بعد دیگرے ابھرنا شخصیت کی شکست و ریخت کا سبب بن جاتا ہے۔ ایک صورت یہ بھی لاحق ہو سکتی ہے کہ خود فطری عنصر ( یہاں عنصر سے مراد ان چاروں میں سے ایک ہے) اپنی جگہ بڑھ کر ہیجان کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور نتیجے کے طور پر بقیہ تین decompensation کی حالت میں آجاتے ہیں۔
جس مثال کو یہاں اخذ کیا ہے ایسی مثالیں ان چار میں سے ہر ایک کی دی جاسکتی ہیں۔ میری کاوش یہ تھی کہ ان میں سے ہر ایک ڈائیرکشن کا مکمل مشاہدہ بلکہ تجربہ کیا جاسکے۔
جو نیا ڈھونڈ لایا ہوں اس کا خلاصہ بس یوں ہے کہ ایسی راہیں تلاش کرنے کی سعی کی جن سے اپنی طبعی حالت تک رسائ ممکن ہو پاۓ۔
میں “عنوان” کو بہت اہمیت دیتا ہوں اور وجہ یہ ہے کہ عنوان اگر محکم اور وسیع ہو تو سمیٹنے اور سمٹنے کی درست راہیں متعین ہو جاتی ہیں۔
مزمن امراض کا بنیادی عنوان اگر ایک لفظ میں کہوں تو وہ ” کمی” ہے۔ جسم میں موجود اس کمی کو اگر دریافت کر لیا جاۓ اور اس کے لیے انجذاب abosrption کا طریقہ ڈھونڈ لیا جاۓ تو یہ ایک بہترین معان کے طور پر آپ کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ آپ ٹوٹے بغیر ان کا مقابلہ کر پائیں گے۔ معاون سے مراد یہ نہیں کہ آپ اپنی دیگر ادویات چھوڑ دیں۔ معاون سے مراد یہ ہے کہ یہ آپ کو آپکی فطری شخصیت کی طرف لوٹا دے تاکہ دیگر مستعمل ادویات کی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہو، ان کے مضر اثرات سے بڑی حد تک محفوظ رہیں اور وقت کے ساتھ ان کو مذید بڑھانے کی ضرورت پیش نہ آۓ بلکہ ممکن حد تک کمی واقع ہو۔
کسی بھی مزمن مرض میں خواہ وہ نفسیاتی ہو یا جسمانی، دو ہی رستے ہوتے ہیں،
یا تو اپنی طبعی شخصیت کی طرف لوٹ کر ممکن حد تک “undo” ہوجائیں یا پھر نئ ابھرنے والی layers کو ہی یکے بعد دیگرے تبدیل کرتے جائیں۔ اول الذکر طریقہ بہت فائدہ مند ہے۔ ثانی الذکر طریقہ مذید پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔
دیرینہ جسمانی اور ذہنی عوارض کو undo کرنے کے لیے معاون ادویات کی کھوج میں ہی نکلا تھا۔
میں اور آپ ان چار میں سے کسی ایک ہی میں ہیں۔ برا ایک بھی نہیں۔ یہ آپ کی فطری صلاحیت ہے۔ اسی کو جونہی تقویت ملتی ہے تو جسم کے اندر بقیہ تین چیزیں بھی اپنی اپنی جگہ استوار ہو جاتی ہیں۔
اس طریقے کو استعمال میں لاتے بے ضرر معاون ادویات کے ساتھ اب تک بہت سارے ذہنی اور جسمانی امراض میں انتہائ کارگر rehabilitation اور کئ نفسیاتی امراض میں reversal تک ممکن ہو پائ ہے اور مریضوں کی ادویات کے بوجھ میں خاطر خواہ کمی ہوئ۔
مکمل ہم میں سے کوئ نہیں، ہم اگر متوازن ہیں بس یہی حالت صحت ہے ،یہی ہدف ہونا چاہیے اور اب یہی مقصد ہے کہ ہر اُس رستے کی تزئین کی جاۓ جو خود اپنی طرف لوٹتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹراشفاق احمد صاحب سوات کے رہائشی ہیں ۔آپ نے علمِ نفسیات میں تعلیم حاصل کی اوراسی فن میں اپنی پریکٹس اور تحقیق کو جاری رکھے ہوئےہیں۔
کمنت کیجے