از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی/نوید الرحمن داور
انقلاب اور مولانا سنامی:
یہ بات تو آپ قاضی ضیاء الدین برنی کی زبانی سن آئے ہیں کہ مولانا سنامی علاء الدین خلجی کے سارے زمانۂ حکومت میں وعظ کہتے رہے ، اور یہ بات بھی برنی کی زبانی معلوم ہو چکی ہے کہ اس وعظ میں تین ہزار سے زیادہ سامعین ہوتے تھے اور علاء الدین خلجی کے بارے میں برنی نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ :
“میں جاہل ہوں، پڑھا لکھا نہیں ہوں،بجز الحمد اور قل ھو اللہ، دعائے قنوت اور التحیات سے زیادہ کچھ نہیں جانتا ہوں”۔ [1]
اور اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ:
“مجلس شراب میں کہتا اور دین و مذہب کی ایجاد کے بارے میں امراء کے ساتھ مشورے کرتا تھا”۔[2]
برنی ہی نے بتایا ہے کہ:
“سلطان کے اِس ارادے کی خبر عوام تک پھیل گئی تھی”۔[3]
اس کے بعد علاء الدین خلجی میں تبدیلی آئی اور ایسی تبدیلی آئی کہ بقول خسرو:
شاہ محمد کہ بتائیدر ائے کر د قوی شرع رسول خدائے[4]
اور خزائن الفتوح میں علاء الدین کو اِس طرح پیش کیا ہے:
“بہ جذبہ جو محمد نام رکھتا ہے اور جو حضرت ابو بکر جیسا صدق اور حضرت عمر کا عدل رکھتا ہے، اس کے کارنامہ ہائے جہانداری میں سے ایک کارنامہ یہ ہے کہ حضرت عثمان کی طرح اس نے خداوندی رحمت کی نشانیوں کو مصحف وجود کی جلد میں کس طرح مرصع کر دیا ہے اور حضرت علی کی مانند علم کے دروازوں کو مدینۃ الاسلام دہلی میں کس طرح احسان کی کنجی سے کھول دیا ہے اور اس بڑے شہر کو فیض کے دجلہ کے پانی سے کس طرح بغداد کی سی روشنی بخشی ہے”۔[5]
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ علاء الدین خلجی میں یہ یکبارگی تبدیلی کیونکر آئی ہے۔ چونکہ اِس تبدیلی کا راز مولانا سنامی کے مواعظ میں ہے اس لئے برنی نے علاء الدین خلجی کے مثالب بیان کرنے میں بہت بڑی بلند آہنگی سے کام لیا ہے لیکن اس کے محاسن کے بیان کرنے سے گریز کیا ہے۔ اُس دور کے سارے محاسن کا سہرا خانقاہوں کے سر پر باندھ دیا ہے۔ خیر یہ تو برنی کا تعصب ہے ۔ اپنے تعصب کی پٹی آنکھوں سے ہٹا کر ایک مبصر کی حیثیت سے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کیجئے اور سوچئے کہ علاء الدین میں یکبارگی یہ تبدیلی کیوں رونما ہوئی ۔ دراصل رائے عامہ کی بیداری اور شہری زندگی کے اِس اسلامی اور سیاسی شعور نے جس کی تربیت ناصر الدین محمود، غیاث الدین بلبن کر چکے تھے سرکاری نظام میں ہل چل مچا دی۔ عوام کی اِس بیداری میں سب سے بڑا کردار مولانا ضیاء الدین سنامی کا ہے۔ انہوں نے ا پنی مجالسِ وعظ میں تین ہزار انسانوں کو جھنجھوڑا، جب کہ تمام علماء صرف مسجدوں اور مدرسوں میں تدریس و امامت کا کام کر رہے تھے اور ساری خانقاہیں حالات کی اس ناخوشگواری کا مقابلہ دعاؤں سے کر رہی تھیں صرف مولانا ضیاء الدین سنامی کی ذاتِ گرامی شاہراہِ عام پر اعلان حق کر رہی تھی۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ شیخ المشائخ نے بتایا ہے کہ:
“یک ذات بود حامی ٔ ِ شریعت، حیف آن نیز نماند”[6]۔
یہ اسی حامیِٔ شریعت کے مواعظ کا اثر ہے کہ علاء الدین خلجی نے خود شراب نوشی یکسر ختم کی اور مے فروشی اور مے نوشی کا قانوناً کامل انسداد کر دیا۔ شرابیوں کے لئے جیلیں بنائی گئیں۔ امراء کو حکم دیا گیا کہ وہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر شہر کے بازاروں، گلی کوچوں ، سڑکوں پر شراب نوشی کے انسداد کا اعلان کریں۔ مولانا سنامی ہی کے مواعظ کا یہ اثر تھا کہ علاء الدین نے اِباحی فرقہ پر سختی کی اور اُن کا قلع قمع کر دیا۔ اور یہ بھی مولانا سنامی ہی کے مواعظ کا اثر ہے کہ علاء الدین خلجی نے طوائفوں کو مجبور کیا کہ وہ زناکاری کے پیشے کو چھوڑ کر پاک دامنی کی زندگی اختیار کریں۔ سرکار نے زبردستی اُن کے نکاح کرا دیئے۔
شاید آپ کے ذہن میں خلش ہو کہ علاء الدین خلجی کی اِن اصلاحات کو میں مولانا ضیاء الدین سنامی کے مواعظ کا نتیجہ کیوں قرار دے رہا ہوں؟
اتنی بات تو آپ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ علاء الدین خلجی کے زمانے میں جاسوسی کا نظام بے حد مستحکم اور وسیع تھا۔ اُس کو اُس وقت کی سرکاری زبان میں منبی کہتے تھے۔ یہ مختلف قسم کے ہوتے تھے اور کم سے کمتر اور اعلی سے اعلی تر افراد کی خبر بارگاہِ سلطانی تک پہنچاتے تھے۔ وہ گھروں تک میں اس کام کے لئے بے روک ٹوک داخل ہو جاتے ۔ برنی لکھتا ہے کہ :
“یہ نظام اس قدر سخت تھا کہ سرکار کے خلاف کوئی دم نہیں مار سکتا تھا اور امراء ، ملوک اور اکابرِ سلطنت کے یہاں جو کچھ بھی ہوتا تھا منبی بارگاہ سرکار میں پہنچا دیتے تھے”۔[7]
علاء الدین نے پولیس اور جاسوسی کے محکمے کی تنظیم بہت بہتر طریقہ پر کر رکھی تھی۔ کوتوال پولیس کا بڑا اہم عہدہ تھا۔ اس کے اختیارات بہت وسیع تھے اور اسکا عہدہ بڑا ہی ذمہ دار ہوتا۔ وہ امن کا علمبردار اور قانون کا نگہبان ہوتا۔ وہ اہم معاملات میں بادشاہ کا مشیر ہوتا۔ علاء الدین کے زمانے میں پہلے کوتوال نصرت خان تھے۔ اس کے بعد علاء الملک ہوئے۔ اُن کا ہی کام تھا کہ شہریوں کے بارےمیں سلطان کو رپورٹیں دیں۔ اب آپ سوچیں گے کہ ایک شخص مرکزی گورنمنٹ کے سائے میں یعنی دار الخلافہ میں ہفتہ میں ایک بار تین ہزار انسانوں کے مجمع میں شریعت کی پاسبانی و حمایت میں اور بدعات کے ردّ میں لگاتار تقریریں کر رہا ہے اور بلا خوف سب کچھ کہہ رہا ہے۔ ایک طرف روحانی نظام خانقاہوں کی شکل میں ہے اور دوسری طرف مادی نظام سرکار کی صورت میں ہے۔اُس کی تقریروں ، اُس کے بیانوں اور اُس کے درسوں ہیں، یہی دو موضوع ہیں۔ عوام کی برائی عوام کی برائی نہیں سرکار کی برائی ہے کہ الناس علی دین ملوکہم ۔ اُن کی تقریری تیر اندازیوں کا نشانہ بلاشبہ خانقاہ اور سرکار دونوں ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ برنی مولانا سنامی کو شیخ المشائخ کا مخالف سمجھتا ہے اور یہ بات ذہن میں تازہ رکھئے کہ مولانا سنامی:
“کسی سے نہیں ڈرتے تھے اور کسی ملامت کا اُن کو خوف نہ تھا”۔[8]
ظاہر ہے کہ اِسی حالت میں وہ سرکار کی بے راہ روی ، شراب نوشی اور سرکاری رنگ رلیوں پر برملا تنقید کرتے ہوں گے۔ اُن کی یہ ناقدانہ تقریریں، اُن کے درس و وعظ کی رپورٹیں بلاشبہ علاء الملک کوتوال سلطان تک پہنچاتا ہوگا۔ برنی نے تو بیان نہیں کیا مگر قیاس یہی کہتا ہے کہ علاء الملک خود بھی رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے اور جلسوں کی رونقوں کی وجہ سے رپورٹیں پڑھ کر مولانا سنامی سے متاثر ہوا اور اُس نے رپورٹیں پیش کرتے وقت اندازِ بیان ایسا اختیار کیا جس سے سرکار اپنی جگہ سے ہل گئی اور علاء الدین خلجی میں بھی یکبارگی تبدیلی رونما ہو گئی۔ سوچئے کہ ایک شخص ہزاروں کے مجمع میں دار الخلافہ میں کھڑے ہو کر بے دھڑک سرکار کو مخاطب کر رہا ہے اور لوگ اُس کے اردگر صرف جمع نہیں بلکہ اُس سے اِس قدر اثر پذیر ہو رہے ہیں کہ تقریر سنتے وقت سراپا توجہ اور ایسے كأن على رؤسهم الطيور کہ گویا اُن کے سروں پر پرندے ہوں۔ کیا علاء الملک اِن تقریروں اور جلسوں سے علاء الدین کو بے خبر رکھتا ہو گا؟ یقینا بتاتا ہو گا اور علاء الملک کی رپورٹیں سن کر سلطان نے علاء الملک سے دریافت کیا ہو گا۔ اِس پس منظر میں آپ اب علاء الملک اور علاء الدین خلجی کی پوری گفتگو اِس موضوع پر پڑھئے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بات کیا تھی اور برنی جیسے مورخ کہاں سے کہاں لے گئے۔ علاء الملک نے کوتوال ہونے کی حیثیت سے سمجھایا او ر بادشاہ کو معلوم ہو گیا کہ ملک میں اسلام سے ہٹ کر بنایا قانون اور نئی شریعت کا تصور بھی فتنہ و فساد ایسا برپا کرے گا کہ :
برائے صد بزر چمہر فرونہ نشیند[9]
بادشاہ نے اپنے ارادے سے توبہ کی اور علاء الملک کی رپورٹوں کے پس منظر میں بول پڑا:
“میں نے اب سوچا ہے کہ جیسے تو کہتا ہے کہ وہی صحیح ہے ۔ مجھے ایسی باتیں نہ کہنی چاہئے ۔ اب کسی مجلس میں کوئی شخص مجھ سے ایسی باتیں نہیں سنے گا”[10]۔
ضیاء الدین برنی نے علاء الدین میں ساری تبدیلی کا سہر اپنے چچا علاء الملک کے سر باندھ دیا ۔ لیکن یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ انٹیلی جنس اور پولیس کا کام رپورٹیں سرکار تک پہنچانا ہے، اور اُن رپورٹوں کی بنیاد پر شہریوں کے احساسات کا جائزہ پیش کرنا ہے۔ اس لئے علاء الملک کی انفرادی محنت و کاوش بھی اِس انقلاب کا پس منظر نہیں ہے بلکہ رائے عامہ کا وہ لاوہ ہے جو اُن سرکاری عزائم کے خلاف پک رہا تھا اور جس کی آگ کا ایندھن مولانا سنامی کے درس، ان کے مواعظ اور تقریریں فراہم کر رہی تھیں۔ برنی نے یہ تو بتایا ہے کہ سلطان اکثر اپنی شراب کی مجلسوں میں نئی شریعت و قانون جاری کرنے کا ذکر کرتا تھا اور برنی کے بیانات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سلطان اِس ارادے کے متعلق مجلسِ شراب کے علاوہ بھی مشورہ کرتا تھا اور برنی ہی نے یہ بھی بتایا ہے کہ سلطان کے اس ارادے کی خبر عوام میں پھیل گئی۔ اور یہ بات بھی برنی نے ہی بتائی ہے کہ کہ مسلمانوں کے مختلف حلقوں میں مختلف قسم کے اثرات پیدا ہو گئے تھے اور ہر طبقہ نے اپنی فکر اور اپنی ہمت کے مطابق تشویش کا اظہار کیا تھا:
“شہر کے بعض بزرگ ہنستے اور بادشاہ کی جہالت و حماقت پر اُس کو محمول کرتے تھے اور بعض عقل مند ڈرتے اور آپس میں کہتے کہ یہ شخص فرعون صفت ہے اور علم و دانش سے بیگانہ ہے اور بے حساب دولت کا مالک ہے جو حکماء کو بھی اندھا کر سکتی ہے۔ پھر بے علم اور غافل لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ اگر شیطان نے دین کے خلاف کوئی راستہ اسے بتایا ہے اور اس نے اس کی خاطر 60-70 ہزار آدمیوں کو قتل کر دیا تو مسلمانوں کا کیا بنے گا اور مسلمانی کا کیا بنے گا”[11]۔
مطلب یہ ہے کہ فرعون سے سب ڈر رہے تھے اور موت کےاندیشے میں خاموش تھے لیکن برنی یہ نہیں بتاتا کہ نڈر کون تھا۔ فرعون سے بے خوفی کس پر غالب تھی۔ سب خاموش تھے، ہزاروں کے مجمعے میں بول کون رہا تھا؟ یہ سرکار کے کاموں، خیالات پر بر سرِعام کون تنقید کر رہا تھا۔ برنی نے تو تعصب کی وجہ سے نام نہیں لیا ، صرف یہی بتا کر خاموش ہو گیا کہ مولانا ضیاء الدین کے ہفتہ وار عوامی جلسے ہوتے تھے، سامعین کی تعداد ہزاروں سے زیادہ ہوتی تھی، لیکن شیخ المشائخ نے بتایا ہے کہ علماء و مشائخ کے سارے انبوہ میں صرف ایک ذات حامیٔ ِ شریعت تھی اور بس۔ یعنی علاء الدین خلجی کی نئی شریعت کے مقابلہ میں شریعتِ محمدی کی حمات کرنے والی ایک ذات تھی ۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ علاء الدین میں جو تبدیلی آئی تھی اُس کا پس منظر اسلام پسند رائے عامہ کا دباؤ تھا اور رائے عامہ میں بیداری اور ایمانی شعور کو ابھارنے کا ذریعہ بقول شیخ المشائخ مولانا ضیاء الدین سنامی کی تقریریں تھیں۔ مولانا سنامی کے درسوں اور وعظوں نے رائے عامہ کو اِس قدر بیدار کر دیا تھا اور عوام کا سیاسی شعور اِس قدر جاگ اٹھا تھا کہ علاء الملک کو بادشاہ کے سامنے حقیقت بیان کرنے کا موقع ملا اور اُس کے بعد ہی علاء الدین نے عدلیہ کے سربراہ قاضی مغیث الدین سے اسلامی نظام کے بارے میں گفتگو کی ۔ لیکن برنی نے علاء الدین اور قاضی مغیث کی جو گفتگو پیش کی ہے فی الواقع اس راہ سے قاضی مغیث کی زبان سے اپنے خیالات ادا کر دیئے ہیں۔ واقعہ کی تحقیق مقصود نہیں، صرف اُن حالات کی عکاسی کرنا چاہتا ہوں جن کے ذریعے علاء الدین میں تبدیلی آئی ہے اور بس۔ یہ تھے مولانا سنامی کے درس اور اُن کے وعظ ۔
یہ بات ذہن میں رکھئیے کہ سلاطینِ دہلی کے زمانے میں جو نظام ِعدل قائم تھا اُس کی جناب محمد شیر کی جانب سے جناب سید صباح الدین عبد الرحمن ایم اے نے یہ تفصیل بتائی ہے۔
محکمہ قضا مرکز اور صوبوں میں قائم تھا۔ مرکز میں یہ عدالتیں تھیں:
1۔ دیوان ِمظالم : یہ صدر جہاں کے ماتحت تھا (فوجداری)
2۔ دیوان ِرسالت : یہ صدر جہاں کے ماتحت تھا (دیوانی)
3۔ شاہی دربار جس میں بادشاہ خود فیصلے کرتا ۔
4۔ قاضی القضاۃ کی عدالت (عدالت عالیہ)
5۔ صدر جہاں کی عدالت جس میں مذہبی امور طے پاتے (شرعی عدالت)
6۔ دیوانِ سیاست
باشاہ دیوانِ مظالم اور دیوانِ رسالت کا صدر ہوتا۔
604 سے 646 تک قاضی القضاۃ محکمۂ عدل و انصاف کا نگران تھا۔ ناصر الدین محمود نے صدر جہاں کا ایک نیا عہدہ قائم کیا جو قاضی القضاۃ سے اونچا سمجھا جاتا تھا۔ علاء الدین خلجی نے قاضی القضاۃ اور صدر جہاں دونوں عہدوں کو ایک ہی شخص کے سپرد کر دیا۔ طبقاتِ ناصری میں صدر جہاں کے یہ فرائض بتائے ہیں: قضا ء ، خطابت، احتساب اور امامت۔ برنی کے بیان کے مطابق وہ قانونی اور تعلیمی امور کا بھی نگران ہوتا تھا۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا سنامی کا عہدہ علاء الدین کےآخری دس سالوں میں صدر جہاں کا عہدہ تھا۔ وہ ایک وقت میں قاضی بھی تھے ، مرکز میں خطابت کا بھی کام کرتے اور شہری زندگی کے محکمۂ احتساب کے سربراہ بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا ضیاء الدین کو مورخین نے کہیں قاضی، کہیں خطیب اور کہیں محتسب لکھا ہے۔ غالبا اُن کے مواعظ میں منکرات پر نکیر اور معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں پر کڑی اور سخت تنقید کی وجہ سے علاء الدین نے علاء الملک کی وساطت سے محکمۂ احتساب کا سربراہ بنایا ہو گا۔ مولانا عبد الحی نزہۃ الخواطر میں کہتے ہیں: واشتغل بالحسبة مدة من الزمان. [12]
جناب خلیق احمد نظامی لکھتے ہیں:
“عہدِ علائی کے مذہبی ماحول کا پورا نقشہ اُس وقت تک ذہن میں نہیں آ سکتا جب تک اُس عہد کی بعض احتسابی کاروائیوں پر بھی ایک نظر نہ ڈال لی جائے۔ اِن واقعات سے احکامِ شرع کے احترام، دینی شعور کی پختگی اور مذہبی رواداری کے جن جذبات کا اظہار ہوتا ہے وہ خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ یہ فضا بعد کو دہلی کے کسی بادشاہ کے دور میں نہیں پائی گئی۔ مولانا ضیاء الدین سنامی دیانت و تقوی میں مقتدائے وقت تھے۔ حکومت کی جانب سے احتساب کا کام اُن کے سپر د تھا”۔[13]
علاء الدین خلجی کے اِن آخری دس سالوں میں مولانا سنامی کی صدر جہانی اور احتسابی کاروائیوں کی وجہ سے اُس عہد کا کیا حال تھا ؟ برنی کی زبان سے سنیئے، اگرچہ برنی تعصب کی بیماری کی وجہ سے مولانا سنامی کا نام تک نہیں لیتا:
“سبحان اللہ، عجیب دن اور عجیب زمانہ تھا جو علاء الدین خلجی کی آخری دس سال میں نظر آیا۔۔۔ سلطان نے اپنے ملک کی فلاح اور بہبود و اصلاح کے لئے تمام نشہ آور چیزیں ، ممنوعات اور فسق و فجور کے تمام اسباب جبر و قہر اور تشدد کے ساتھ روک دیئے تھے”۔[14]
اور آخر میں لکھا ہے:
“خلقِ خدا عام طور پر طاعت و عبادت کی طرف راغب ہو گئی تھی اور عوام کے دلوں میں نیکی اور نیکو کاری نے جڑ پکڑ لی تھی۔ حاشا و کلّا علاء الدین کے آخری سالوں میں کہیں شراب فسق و فجور، قمار، فحش لواطت ، بچہ بازی کا نام بھی لوگوں کی زبان پر گزرا “۔[15]
اگرچہ برنی نے مولانا سنامی کا نام نہیں لیا مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ احتسابی کاروائیوں سے متعلق امور ہیں اور اُسی کے نتائج ہیں۔ خود علاء الدین کا نام بھی اِس موقع پر برنی نے بکثرت لیا ہے ۔ وہ تو علاء الدین کے خلاف بولنے میں بہت زیادہ حوصلہ مند ہے۔ اِس موضوع پر اُس کی سخاوت کے نمونے دیکھنے ہوں تو علاء الملک اور علاء الدین خلجی کی گفتگو اور قاضی مغیث الدین اور علاء الدین خلجی کا اُس سے مکالمہ سنو، شمس الدین کا افسانہ تاریخ فیروز شاہی میں پڑھو۔ ان میں حقیقت کم اور برنی کے اپنے خیالات اور تعصبات زیادہ ہیں۔ بلکہ برنی نے اپنی خام خیالیوں اور افسانہ طرازیوں کو قاضی مغیث کے نام رکھ کر وقت کے ایک عالم دین کو اہل علم کی نظر میں رسوا کیا ہے۔ بہرحال برنی سے یہ امید ہی عبث ہے کہ مولانا ضیاء الدین کا کسی ایسے موقع پر ذکر کرے۔ بہرحال مولانا سنامی عہدِ علائی کے آخری دس سالوں میں احتساب کی ذمہ داریاں اپنائے ہوئے تھے۔
اسلام میں احتساب بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس موضوع پر علماء نے ایک سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس شعبہ کی اسلام میں بہت بڑی سیاسی ضرورت ہے۔ مثلا الماوردی( وفات 450 ھ) اور ابو یعلی ( وفات 458ھ) کی الاحکام السلطانیہ میں فصل فی الحسبة ، شافعی فقیہ محمد بن محمد ابن القرشی ( وفات 729 ھ) کی معالم القربة في احكام الحسبة ، ابن بسام( وفات 740ھ) کی نهاية الرتبة في طلب الحسبة اور عبد الرحمن بن نصر شیزری (وفات 545ھ) کی نهاية الرتبة ، حافظ ابن تیمیہ (وفات 729ھ) کی الحسبة في الإسلام۔ اِن کے علاوہ امام غزالی کی احیاء العلوم اور اس کی شرح اتحاف السادة المتقين، علامہ مرتضی الزبیدی کا موضوع ِاحتساب پر تبصرہ اور اُسی موضوع پر مولانا ضیاء الدین سنامی کی نصاب الاحتساب ہے۔ مولانا سنامی کی کتاب نصاب الاحتساب کا بھی ہم ان شاء اللہ ضرور تعارف کرائیں گے۔
سرِدست یہ بتانا ہے کہ اسلامی حکومت کا ایک اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے۔ معروف وہ ہے جو اسلامی قانون کی نظر میں اچھا ہو اور منکر وہ ہے جو اسلامی قانون کی نظر میں برا ہو۔ یہ ایک جامع فریضہ ہے جس کا تعلق زندگی کے ہر پہلو سے ہے اور شہری زندگی کے ہر فرد سے ہے۔ اِس موضوع پر محتسب کے اختیارات میں بے حد وسعت ہے۔ ایک عام شہری سے لے کر سربراہِ مملکت تک سب احتساب کے میدان میں یکساں ہیں۔ لکھا ہے کہ شام کے سربراہ اتابک( وفات 488ھ) کو دمشق میں محتسب کے عہدے کے لئے کسی امیدوار کی تلاش ہوئی۔ لوگوں نے ایک صاحبِ علم بزرگ شخصیت کا تعارف کرایا ۔ سرکاری طور پر اُن کو بلایا گیا۔ سربراہِ مملکت نے اُن عالم سے کہا کہ میں نے آپ کو محکمۂ احتساب کا سربراہ مقرر کیا ہے، یہ آپ کاکام ہے کہ شہریوں کو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ احتساب پر مقرر ہونے کے بعد سب سے پہلے احتساب کا نشانہ سربراہِ مملکت کو بنایا اور احتساب کا عمل یہیں سے شروع کیا۔ بادشاہ ریشمیں غالیچہ پر براجمان تھا اور ہاتھ میں سونے کی انگوٹھیاں پہنے ہوئے تھا۔ بولے میں محتسب ہوں ، براہِ مہربانی یہ ریشمیں غالیچہ اور ہاتھ سے سونے کی انگوٹھیاں اتار دیجئے۔ سونے اور ریشیم کا استعمال اسلامی قانون میں مردوں کے لئے حرام ہے۔ بادشاہ نے فورا غالیچہ اٹھوا دیا اور ہاتھ سے انگوٹھی اتار دی اور بولے کہ پولیس کے نگرانِ اعلی بھی آپ ہوں گے۔ لکھا ہے کہ اِن عامل سے زیادہ بارعب محتسب کوئی نہ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ محتسب کے احتسابی عمل کا دائرہ محدود نہیں ہوتا اور کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور محتسب کے احتساب سے بالا نہیں ہوتا۔ محتسب کی نگاہ ہر شخص کی جلوت اور خلوت کو تاکتی ہے اور کسی شخص کی کوئی حالت محتسب کی گرفت سے باہر نہیں ہوتی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ابتدائی دور ہی میں اسلامی حکومتوں نے اُس کے لئے ایک الگ شعبہ قائم کر رکھا تھا۔ یہ کام اسلام کا اتنا اونچا ہے کہ خود حضور ﷺ نے اِس فرض کو انجام دیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کے حوالہ سے ترمذی میں ہے:
“آپ ﷺ بازار میں غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گذرے ، آپ نے غلہ کے ڈھیر میں ہاتھ دیا، آپ کو ہاتھ میں کچھ نمی محسوس ہوئی، فرمایا یہ کیا ہے؟ دکان دار بولا کہ بارش ہو گئی تھی، فرمایا کہ نمی والے حصے کو تم نے اوپر کیوں نہیں کیا تا کہ لوگوں کو نظر آ جاتا ۔ پھر فرمایا جو دھوکہ دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں”۔[16]
علامہ عبد الحی الکتانی نے التراتیب الاداریہ میں لکھا ہے کہ حضور ِاقدس ﷺ نے فتح مکہ کے بعد مکہ کے ایک بازار میں سعید بن سعید کو احتساب کے کام کے لئے مقرر فرمایا۔ [17]اور یہ بھی الکتانی ہی کے حوالہ سے ہے کہ:
“احتساب اسلام کے عظیم ترین کاموں میں سے ہے ۔ اُس کی منفعت بھی زیادہ ہے اور اس میں نزاکت بھی بہت ہے۔ خلفائے راشدین اِس کام کو خود انجام دیتے تھے باوجودیکہ اُن کے پاس جہاد وغیرہ کے مشاغل بھی تھے”۔[18]
السيرة الحلبية [19]کے حوالہ سے یہ انکشاف بھی الکتانی نے کیا ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں احتساب کا کام مکہ میں سعید بن العاص نے کیا اور حضرت عمر نے مدینہ منورہ میں کیا ہے۔ [20]
اس کے بعد ہر دور میں اسلامی حکومت میں ولایتِ احتساب کے نام سے ایک علیحدہ محکمہ رہا ہے۔ اُمویوں کا دور ہو یا عباسیوں ، فاطمیوں کا دور ہو یا سلجوقیوں کا، ہر دور میں احتساب کا کام ہوتا رہا ہے۔ اِس محکمہ کا کام یہ تھا کہ کسی معروف کو ترک کیا جا رہا ہو یا کسی منکر کا ارتکاب کیا جا رہا ہو اور یہ خرابیاں شہری زندگی میں علانیہ رونما ہوں تو اُن کو روکا جائے اور اُن کا سدباب کیا جائے ۔[21]
یہ محکمہ جہاں زندگی کے دوسرے پہلوؤں عبادات، آدابِ معاشرت اور اخلاقِ عامہ کی طرف توجہ کرتا تھا وہاں مالکانہ حقوق کے استعمال ، تجاوزات اور منفی کاروبار اور تجارت کی بے اعتدالیوں پر کڑی نگاہ رکھتا ۔ گلی میں گرنے والے پرنالے، مکانوں کی چھت پر دیواروں تک اس کی نگاہِ احتساب جاتی تھی۔ الکتانی نے کشف الظنون[22] سے احتساب کی یہ تعریف نقل کی ہے:
“علمِ احتساب شہری زندگی میں اُن معاملات سے بحث کرتا ہے جن کے بغیر شہریت نامکمل رہتی ہے۔ یہ ایک طرف معاملات میں قانون کے توازن کو قائم رکھتا ہے اور دوسری طرف شہریوں میں اچھائیوں کو ابھارتا ہے اور اُن برائیوں کا انسداد کرتا ہے جو شہری زندگی میں شہریوں کے درمیان جھگڑے کا باعث بنتے ہیں”۔ [23]
مولانا نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ابجد العلوم میں کشف الظنون کی ہمنوائی کی ہے۔ الشیخ محمد علی تھانوی نے کشاف اصطلاحات الفنون میں مولانا ضیاء الدین سنامی کی نصاب الاحتساب سے یہ تعریف نقل کی ہے:
“احتساب اسلامی قانون میں شہریوں کے اچھائی کے چھوڑنے اور برائی کے ارتکاب پر قانونی دست اندازی کا نام ہے۔ اسلامی قانون کا احتسابی دائرہ وسیع ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد سب اُس کی گرفت میں رہتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ عدالت بھی احتساب کا ایک شعبہ ہے”۔[24]
عبد الحی الکتانی نے التراتیب الإداریہ میں یہ بات بتائی ہے کہ احتساب تمام علوم میں سب سے زیادہ دقیق ہے ۔ اُس کی ذمہ داری صرف اُس شخص کے سپرد کی جاتی ہے جو فہمِ ثاقب اور حدسِ صائب کا مالک ہونے کے ساتھ دیانت و تقوی میں بے مثال ہو۔ [25]
اور لکھا ہے کہ:
“اس منصب کے لائق وہ شخص ہوتا ہے جس میں بھرپور قوتِ قدسیہ ہو جیسے حضرت عمر فارو ق اعظم”۔[26]
نهاية الرتبة في طلب الحسبة میں علامہ عبد الرحمن الشیزری نے یہ بات بڑی لطیف لکھی ہے کہ :
“غزنی شہر میں ایک صاحب محمود غزنوی کے پاس محتسب کے عہد ے کی درخواست لے کر آئے۔ محمود غزنوی کی نظر سب سے پہلے امیدوار کی مو نچھوں پر پڑی کہ اتنی لمبی ہیں کہ منہ چھپا ہوا ہے ، پھر ازار کو دیکھا کہ ٹخنوں سے نیچا ہے، فرمایا پہلے اپنا احتساب کیجئے پھر واپس تشریف لا کر احتساب کی درخواست دیجئے “۔[27]
بہرحال بتانا یہ چاہتا ہوں کہ احتساب اسلامی حکومت میں ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ نزاکت بھی رکھتا ہے۔ ضرورت کو علمی طور پر تو سب جانتے ہیں کہ یہ اسلامی مملکت میں شہری زندگی میں سب سے اہم اور ناگزیر تقاضا ہے لیکن اُس کی نزاکت کو بہت کم لوگ محسوس کرتے ہیں۔ نزاکت یہ ہے کہ اس منصب کی اہلیت ہونی چاہئے ۔ مولانا ضیاء الدنی سنامی کے بارے میں مؤرخین یک زبان ہیں کہ آپ کی ذاتِ گرامی تقوی و دیانت کا مثالی شاہکار تھی۔ مولانا عبد الحی لکھتے ہیں:
“تقوی اور دیانت میں آپ ایک مثالی شخصیت تھے”۔[28]
شاہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
“دیانت و تقوی میں مقتدائے وقت تھے۔ احکامِ شریعت پر سختی سے پابند تھے”۔[29]
اِن ہی اوصاف کی وجہ سے آپ علاء الدین خلجی کے زمانے میں محتسبِ اعلی مقرر ہوئے۔ ظاہر ہے کہ جب علاء الدین نے شہریوں کی فکری ، معاشرتی، اخلاقی اور معاشی اصلاحات کے لئے قدم اٹھایا تو اس کے لئے احتساب وقت کی ناگزیر ضرورت تھا تا کہ شہری زندگی میں قانون کے توازن کو قائم رکھا جا سکے۔ یہ کام صرف پولیس اور جاسوسی کا محکمہ نہیں کر سکتا تھا۔ علاء الدین کی اقتصادی اور دینی اصلاحات کو قرون وسطی کی تاریخ میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ برنی نے لکھا ہے:
“سلطان نے کلاہ سے موزے تک، کنگھی سے سوئی تک، گنے سے سبزی تک ، ہریسہ سے شوربے تک ، حلوے سے صابونی تک ، کاک بریان سے نان اور مچھلی تک، پان کے پتوں اور چھالیہ تک ، گلاب سے سبزیوں تک ، اور ان سب چیزوں کو جو بازار میں فروخت ہوتی تھیں سب کی قیمتیں مقرر کی تھیں”۔[30]
اشیائے خوردنی بالخصوص غلہ کی بڑھتی قیمت کو روکا تھا اور احتکار کے خلاف سخت انتظامی تدابیر اختیار کرنے کے بعد ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی کہ جن سالوں میں بارش نہ ہوتی تھی پہلے قحط پڑتا تھا ، لیکن دہلی میں اب قحط نہیں پڑتا تھا اور یہ ممکن نہ تھا کہ کہ غلہ سلطانی یا غلہ کاروانی میں سرکاری نرخ سے ایک پیسہ بھی بڑھ جائے۔
یہ نتائج تھے سرکاری طور پر مکمل احتسابی نظام کے اور یہ احتسابی عمل اس قدر مضبوط اور ہمہ گیر تھا کہ شہری زندگی کا کوئی گوشہ اس سے اوجھل نہ تھا۔ جب ابن بطوطہ ہندوستان آیا تو اس نے لوگوں کو علاء الدین خلجی کی تعریف کرتے سنا۔ لکھتا ہے کہ:
“کہتے ہیں کہ ایک بار علاء الدین نے محتسب سے دریافت کیا کہ گوشت کی گرانی کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ گائے بکرے پر محصول لیا جاتا ہے۔ بادشاہ نے اُسی روز سے اِس قسم کے سارے محصول معاف کر دیئے اور سوداگروں کو بلا کر سرمایہ دیا اور کہا کہ گائے بکرے اِس سے خریدو اور اُن کو بیچ کر اصل قیمت خزانہ میں داخل کرو اور اُن کی کچھ اجرت مقرر کر دی۔ اسی طرح جو کپڑا دولت آباد سے آتا تھا اس کا انتظام کیا۔”۔[31]
سراج عفیف نےلکھا ہے کہ جو فراخی عہدِ علائی میں تھی کسی بادشاہ دین پناہ کے عہد میں نہیں ہوئی۔
جیسا کہ پہلے بتا آیا ہوں کہ اسلام میں احتساب کی حدود صر ف شہری زندگی میں شہریوں کے مالیاتی وسائل تک نہیں بلکہ اس کی وسعتوں اور پہنائیوں میں شہریوں کے مالیاتی مسائل، فوجداری معاملات، اخلاقی ، معاشرتی احوال کے ساتھ عبادات کے رسوم و حدود بھی آتے ہیں۔ علامہ عبد الرحمن ( الشیزری) لکھتے ہیں:
“محتسب کی توجہ جامع مسجدوں اور عام مساجد کی طرف ہونی چاہئے۔ مسجد کے نگرانوں کو مساجد کی صفائی کا حکم دے۔ نماز کے بعد مساجد کے بند کرنے، مساجد کی بچوں سے حفاظت، مساجد میں کھانے اور سونے ، بیع و شرا ، اشعار پڑھنے اور باتوں کے لئے بیٹھنے سے روکے”۔[32]
اور یہ بھی لکھا ہے کہ:
“مسجدوں میں مؤذنوں کو اذان میں تطرب اور تمطیط سے روکے “۔ [33]
اور یہ بھی لکھا ہے کہ:
“محتسب عورتوں کو قبروں کی زیارت سے منع کرے اور عورتوں کو بے پردگی سے روکے”۔[34]
مطلب یہ ہے کہ احتساب کا دائرہ پوری شہری زندگی کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ ابو یعلی موصلی نے الاحکام السلطانیہ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے۔
اس لئے قاضی ضیاء الدین سنامی کا احتسابی عمل صرف مالیاتی مسائل اور معاشرتی برائیوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ اس احتسابی عمل کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ لکھا ہے کہ:
“ایک بار شیخ شرف الدین بو علی شاہ قلندر پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے لبِ مبارک کے بال بہت بڑھ گئے۔ اُن پر جذب کی حالت طاری تھی ، کسی کی مجال نہ تھی کہ اُن سے بال کترنے کو کہتا۔ مولانا ضیاء الدین سنامی قینچی لے کر اُن کے پاس پہنچے اور لبوں کو تراش دیا”۔[35]
شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا بیان ہے کہ:
“اس کے بعد شیخ ہمیشہ اپنی داڑھی کو بوسہ دے کر فرماتے تھے کہ یہ راہِ شریعت میں تراشی گئی “۔ [36]
معلوم ہوا کہ صرف لب ہی نہیں بلکہ داڑھی بھی قدرِ مسنون سے زیادہ تھی، اس لئے اسے بھی تراش دیا گیا تھا۔
میر عبدالواحد بلگرامی نے ایک اور دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ مولانا ضیاء الدین سنامی جب پہلی بار احتساب کی خاطر قلندر صاحب کے پاس گئے تو قلندر صاحب نے دو تین بار مولانا سنامی کو تیز نگاہوں سے دیکھا۔ لیکن مولانا موصوف پر کوئی اثر نہ ہوا۔ جب مولانا سنامی چلے گئے تو لوگوں نے قلندر صاحب سے کہا کہ آج تو مولانا سنامی نے آپ پر بڑی سختی کی۔ فرمایا:
“دو تین بار میں نے چاہا کہ اس پر حملہ کروں، لیکن اس نے شریعت کی زرہ پہن رکھی ہے۔ میرے تیر نے اُس پر کوئی اثر نہ کیا”۔[37]
یہاں سے یہ نکتہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ تیر کے اثر نہ کرنے کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ قاضی ضیاء الدین سنامی صرف ایک عالمِ دین تھے بلکہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ علم ِظاہر کے ساتھ صاحبِ باطن بھی تھے، مگر انتظامِ شریعت اور اسلام کے تحفظ کی خاطر زندگی قانونی تھی۔
یہاں دو چیزیں ہیں اور دونوں الگ الگ ہیں۔ ایک ولایت اور دوسرے خلافت۔ ولایت نام ہے افراد کی انفرادی زندگی کے اسلامی قانون کے مطابق ہونے کا جب کہ خلافت نام ہے افراد میں شہری زندگی کو اسلامی قانون کے مطابق رکھنے کا۔ ولایت کے دو درجے ہیں، ایک درجہ یہ ہے کہ اپنے ظاہر و باطن سے آراستہ کرے، ظاہر کو ایسے اعمال مثلا فرائض کی بجا آوری اور محرمات سے بچاؤ اور اس کے ساتھ اپنے اندر یہ چار چیزیں پیدا کرے : اخلاص، تواضع ، صبر اور شکر۔ ولایت کا یہ درجہ حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ولایت کا دوسرا درجہ اس پہلے درجہ کی تکمیل کے بعد ہے۔ یعنی یہ کہ ظاہر کو نفل عبادتوں سے اور باطن کو دوامِ ذکر سے آرستہ کرے ، اِسی کو نسبتِ صوفیا کہتے ہیں۔ اس درجہ کا حاصل کرنا فرض نہیں مستحب ہے۔ عام لوگ اِس کو فقیری، بزرگی اور ولایت کہتے ہیں۔ اِس درجہ کے مختلف مقامات ہیں ۔ اولیائے کرام ا ور صوفیا ئے عظام اسی کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ بڑی محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اُس کی حیثیت ایک عمل ِلازم کی ہے۔ جب کہ خلافت کی حیثیت ایک عملِ متعدی کی ہے۔ بوعلی شاہ قلندر نے جب یہ فرمایا کہ شریعت کی زرہ پہن رکھی تھی تو یہ بتایا کہ مجھے ولایت کا مقام حاصل ہے جب کہ مولانا سنامی کو ولایت کے ساتھ خلافت کا مقام بھی حاصل ہے اس لئے ولایت کی نظر کا تیر خلافت پر اثر انداز نہ ہوا ۔ اگر مولانا سنامی کو خلافت کے ساتھ درجۂ ولایت حاصل نہ ہوتا تو وہ بوعلی شاہ قلندر کے تیرِ نظر اور تصرّ ف سے بسمل ہو جاتے۔
بتانا یہ چاہتا ہوں کہ مولانا سنامی کا احتسابی عمل اِس قدر ہمہ گیر اور ہمہ رس تھا کہ بڑے سے بڑا ولیٔ کامل اور شیخِ طریقت بھی اُن کی گرفت سے نہ بچا جس کی عقیدت سے سلاطین کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں۔ بعض تذکروں میں بوعلی شاہ قلندر سے علاء الدین خلجی کی عقیدت کا ذکر ملتا ہے۔ مشہور ہے کہ علاء الدین خلجی نے ایک مرتبہ بوعلی شاہ قلندر کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کرنے کا ارادہ کیا۔ قلندر صاحب کے جلال اور نازک مزاجی سے ہر شخص واقف تھا۔ اس کام کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہ تھا۔ بالآخر قرعۂ فال میر خسرو کے نام نکلا۔ علاء الدین خلجی نے ایک امیر کو سلطان المشائخ کی خدمت میں بھیج کر امیر خسرو کے لئے اجازت طلب کی۔ امیر خسرو تحائف لے کر گئے۔ قلندر صاحب نہایت شفقت سے پیش آئے ۔ اُن کی بات سنی اور یہ کہہ کر تحائف قبول کر لئے کہ اگر شیخ المشائخ درمیان میں نہ ہوتے تو ہر گز قبول نہ کرتا۔ امیر خسرو جب روانہ ہونے لگے تو ایک خط شیخ المشائخ کے نام اور دوسرا علاء الدین خلجی کے نام لکھ دیا۔ سلطان کے نام جو خط لکھا اُس کی عبارت یہ تھی:
“علاء خلج خوط دهيلى مقررّ داند، كہ با بندگان خداى – تعالى – زندگانى نيكو كند”[38]
جب خط دربار میں پڑھا گیا تو کچھ امراء نے کہا کہ بادشاہ کو ایسا لکھنا ترکِ ادب میں داخل ہے۔ علاء الدین نے کہا کہ غنیمت ہے کہ اس ذرہ بے قدر کو اس بار خوط دہلی تو لکھا ۔ ایک مرتبہ تو شحنۂ دہلی لکھا تھا۔ یہ صرف بو علی شاہ قلندر ہی نہیں ، دہلی کے بڑے بڑے سلاطین مشائخِ وقت سے اس طرح کی باتیں سننے کے لئے تیار رہتے تھے۔ میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ولایت سے عاری جب خلافت سامنے آئی تو ولایت کا تیر مؤثر ہو گیا اور جب حاملِ ولایت خلافت کا سامنا ہوا تو ولایت کا تیر بے اثر ہو کر رہ گیا۔
یہ تو بوعلی شاہ قلندر ہیں جن پر جذب و سکر کی حالت طاری تھی۔ آیئے ضیاء الدین سنامی کی احتسابی عمل کو شیخ المشائخ کی بارگاہ میں ہی دیکھ لیجئے ۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے اخبار الاخیار میں لکھا ہے :
“مولانا ضیاء الدین سنامی شیخ المشائخ نظا م الدین کے ہم عصر تھے۔ محبوبِ الہی سے ہمیشہ قوالی کی بابت احتساب کرتے اور محبوب ِالہی معذرت خواہی کرتے اور مولانا سنامی کی تعظیم میں کوئی فروگزاشت نہ کرتے”۔[39]
مولانا عبد الحی نزہۃ الخواطر میں لکھتے ہیں:
“مولانا سنامی شیخ المشائخ پر سماع کے بارے میں گرفت کرتے لیکن معذرت فرماتے اور بات ماننے کے لئے سراپا انقیاد ہو جاتے ا ورمولانا سنامی کی بے حد عزت کرتے”۔[40]
یہ بات دھیان میں رہے کہ سماع دو طرح کا ہوتا ہے۔ مزامیر کے ساتھ اور بغیر مزامیر کے۔ مزامیر کے ساتھ سماع کو خود حضرت شیخ المشائخ بھی معصیت اور حرام کہتے اور اُس سے سختی سے منع کرتے اور جب کسی سے اُس میں بے احتیاطی کی اطلاع ملتی تو نہایت ناراض ہوتے اور اس بارے میں کوئی معذرت قبول نہ فرماتے۔ سیر ا لاولیاء میں ہے:
“مجلس میں ایک بار ایک شخص نے حضرت سلطان المشائخ سے عرض کیا کہ ان دنوں بعض حاضر باش درویشوں نے ایک ایسی مجلس میں جس مین چنگ و رباب اور مزامیر تھے شرکت کی اور رقص کیا۔ فرمایا اچھا نہیں کیا ، جو خلاف شرع ہے وہ ناپسندیدہ ہے۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا کہ یہ لوگ جب باہر آئے اور لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ نے کیا کیا ، اس مجلس میں مزامیر تھے، آپ نے سماع کیسے سنا اور رقص بھی کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم سماع میں ایسے مستغرق تھے کہ ہمیں کچھ پتہ نہیں چلا کہ مزامیر ہیں یا نہیں۔ حضرت شیخ المشائخ نے سن کر فرمایا کہ یہ جواب بھی کچھ نہیں۔ یہ بات تو ہر معصیت کے متعلق کہی جا سکتی ہے”۔[41]
شیخ المشائخ کے حضرت نصیر الدین محمود چراغ بھی مزامیر کےس اتھ سماع کو ناجائز کہتے تھے۔ شاہ عبد الحق فرماتے ہیں کہ:
“ایک روز حضرت محبوبِ الہی کے مریدوں نے مجلسِ سماع شروع کی۔ قوالوں نے دف کے ساتھ گانا شروع کیا تو حضرت چراغ اسی وقت کھڑے ہو گئے۔ لوگوں نے بیٹھنے کی درخواست کی ۔ فرمایا یہ خلافتِ سنت ہے۔ حضرت محبوب ِالہی کو یہ واقعہ سنایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ سچ کہتے ہیں ، اور حق وہی ہے جو وہ کہتے ہیں”۔[42]
اسی میں ہے کہ:
“ایک روز کسی نے مجلسِ سماع حضرت نصیر الدین چراغ سے مزامیر اور رقص کے متعلق دریافت کیا، فرمایا: مزامیر بالاجماع حرام ہیں۔ اگر کوئی طریقت سے گرے تو کم از کم شریعت میں تو رہے۔ اگر شریعت کا نہ ہو گا تو پھر کہاں کا رہے گاا ور نجات کی صورت کیا ہو گی۔ اوّل سماع میں علماء کا اختلاف ہے۔ اگرچہ کچھ شرائط کے ساتھ مباح کہا گیا ہے لیکن مزامیر تو بالاتفاق حرام ہیں”۔[43]
باقی بغیر مزامیر کے سماع تو اس کی موافقت و مخالفت میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ اس میں نقطۂ اعتدال یہ ہے کہ نہ تو مطلقا حرام ہے اور نہ کوئی عبادت ہے نہ طاعت ہے۔ اعتدال اور خاص شرائط کے ساتھ ایک تدبیر و علاج ہے اور اصحابِ ضرورت اور اہلیت کے لئے بقدر ضرورت مباح ہے۔ اور بعض اوقات اس میں افادی حیثیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اس لئے اس میں مشہور چشتی شیخ قاضی حمید الدین ناگوری کی بات بڑی جامع اور معتدل معلوم ہوتی ہے:
“میں حمید الدین کہ سماع سنتا ہوں اور علماء کی روایت کی بنا پر مباح کہتا ہوں کیونکہ میں درد دل کا مریض ہوں اور سماع اس کی دوا ہے۔ امام ابو حنیفہ نے شراب سے علاج کرنے کی اجازت دی ہے جب کہ ازالۂ مرض کے لئے کوئی اور دوا نہ ہو اور حکیموں کا بھی اس پر اتفاق ہو۔ اس صورت میں یہ میری بیماری کی دوا ہے۔ لہذا میرے لئے اس کا سننا مباح اور تم پر حرام ہے”۔[44]
شیخ نصیر الدین چراغ کہتے ہیں کہ داروے دردمندان است ۔ اب مسئلہ صاف ہو گیا کہ بزرگوں کے لئے یہاں سماع بیماری کی دوا ہے اور دوا اگر صحت مند لذتِ نفس کے لئے استعمال کرے تو یہ خود بیماری ہے۔ شہری زندگی میں احتساب کا عمل اسی بیماری کو روکنے کے لئے ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ اگر بیمار ضرورت کی مقدار میں حکما ء کے مشورے سے استعمال کرتا ہے تو اس پر کوئی قانونی محاسبہ نہیں ہے۔ بیماری کے بغیر اگر لوگ ایسا کریں تو اس پر قدغن ہے اور قانونی احتساب ہے۔
[1] ۔ تاریخ فیروز شاہی محولہ بالا، ص: 296
[2] ۔ تاریخ فیروز شاہی محولہ بالا ،ص: 263
[3] ۔ تاریخ فیروز شاہی محولہ بالا، ص: 264
[4]۔ سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، خلیق احمد نظامی، مطبوعہ الجمعیۃ پریس، دہلی،1958، ص: 260
[5] ۔ خزائن الفتوح، محولہ بالا، ص: 27
[6] ۔ خبار الاخیار ، محولہ بالا، ص: 239
[7] ۔ تاریخ فیروز شاہی محولہ بالا، ص: 284
[8] ۔نزهة الخواطر محولہ بالا ، ج: 2، ص: 18
[9]۔ سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، محولہ بالا، ص:221
[10] ۔ تاریخ فیروز شاہی محولہ بالا، ص: 267
[11] ۔ تاریخ فیروز شاہی محولہ بالا، ص:264
[12] ۔ نزهة الخواطر حولہ بالا، ج: 2، ص: 182
[13] ۔ سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات، خلیق احمد نظامی، مطبوعہ الجمعیۃ پریس، دہلی،1958، ص: 277
[14] ۔ تاریخ فیروز شاہی محولہ بالا، ص: 342
[15] ۔ تاریخ فیروز شاہی، ص: 346
[16] ۔ سنن الترمذی، باب ما جاء في كراهية الغش في البيوع، حديث نمبر: 1315
[17] ۔ التراتيب الإدارية والعمالات والصناعات والمتاجر والحالة العلمية التي كانت على عهد تأسيس المدنية الإسلامية في المدينة المنورة العلمية، عبد الحي الكتاني، دار الارقم، بیروت، ج: 1، ص: 240
[18] ۔مرجعِ سابق
[19] ۔ السيرة الحلبية نور الدین علی ابن برہان الدین حلبی ( وفات 1043ھ) کی سیرت طیبہ پر مشہور تصنیف ہے ۔
[20] ۔ التراتيب الإدارية ،ص: 241
[21] ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے الماوردی اور ابو یعلی کی الأحكام السلطانية
[22]۔ پورا نام کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون مصطفی بن عبد اللہ المعروف حاجی خلیفہ چلپی( وفات 1067ھ) کی کتاب ہے جس میں تصانیف اور مختلف علوم و فنون کے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
[23] ۔ التراتيب الإدارية ،ص: 241
[24] ۔ کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم، محمد بن علی التھانوی، مکتبہ لبنان ، بیروت، 1996م، ج: 1، ص: 108
[25] ۔ التراتیب الاداریۃ محولہ بالا، ص: 241
[26] ۔ مرجعِ سابق
[27] ۔ نهاية الرتبة في طلب الحسبة، عبد الرحمن بن نصر الشيزري، مطبعة لجنة التأليف والترجمة والنشر – القاهرة، 1946م، المقدمة ، ص: 5
[28] ۔ نزهة الخواطر م محولہ بالا ، ج 2، ص: 182
[29] ۔ اخبار الاخیار، محولہ بالا، ص:239
[30] ۔ تاریخ فیروز شاہی محولہ بالا، ص: 316
[31] ۔ تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأسفار، ابن بطوطة، مؤسسة هنداوي، المملكة المتحدة،ج2،ص: 337-338
[32] ۔ نهاية الرتبة في طلب الحسبة، عبد الرحمن بن نصر الشيزري، محولہ بالا، ص: 110
[33] ۔ مرجع سابق، ص: 111
[34] ۔ مرجع سابق، ص:110
[35] ۔ اخبار الاخیار، محولہ بالا، ص: 281-282
[36] ۔ مرجع سابق
[37] ۔ سبع سنابل، میر عبدالواحد بلگرامی، ترجمہ، محمد خلیل برکاتی، فرید بک سٹال، لاہور، 1982، ص: 149-150
[38] ۔ ۔ أخبار الأخيار في أسرار الأبرار، عبد الحق الدِّهْلوي، المكتبة الشاملة ، کتاب نمبر: 33046، ص: 197
[39] ۔ اخبار الاخیار محولہ بالا، ص: 239
[40] ۔نزهة الخواطر محولہ بالا، ج: 2، ص: 182
[41] ۔ اخبار الاخیار محولہ بالا، ص: 183
[42] ۔ مرجع سابق ، ص: 183-184
[43] ۔ مرجع سابق : 184
[44] ۔ مرجع سابق، ص: 185
کمنت کیجے