یہ سوال عموما” ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونا بالکل فطری ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ جو حالت کفر میں دنیا سے چلے گئے اور بظاہر ان کے بعض اعذار سمجھ میں آتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالٰی قیامت میں کیسے معاملہ فرمائیں گے؟ بہت سے دیگر نصوص کے علاوہ زیر نظر حدیث سے بھی یہ بنیادی بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے لوگ قیامت کو اپنا عذر پیش کر سکیں گے اور اس حدیث کے مطابق ان کو ایمان کی آزمائش کا موقع دوبارہ دیا جائے گا (یا کچھ دیگر روایات کے مطابق ان پر جزا وسزا کے عام قانون کے اطلاق کے بجائے مقام اعراف میں بھیج دیا جائے گا)۔
روایت میں چار طرح کے افراد کا ذکر ہے جو اللہ کے سامنے اپنا عذر پیش کریں گے اور وہ قبول کیا جائے گا:
1۔ بہرا جو سن نہیں سکتا (اسی پر دیگر معذوروں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جن کے ظاہری حواس کا نقص بلوغ دعوت میں مانع ہو)۔
2۔ کم عقل لوگ جنھیں چیزوں کی کوئی سمجھ نہ ہو۔ ایسے لوگ کہیں گے کہ ہمیں تو سمجھ ہی نہیں تھی اور بچے ہماری بے عقلی کی وجہ سے مینگنیاں اٹھا اٹھا کر ہم پر پھینکتے تھے۔
3۔ انتہائی ضعیف العمر لوگ جن کو ایسی حالت میں دعوت پہنچی ہو کہ وہ قوت فیصلہ کھو چکے ہوں۔
4۔ ایسے لوگ جو دور فترت میں ہوں، یعنی جب انبیاء کی دعوت مرور زمانہ سے مٹ چکی ہو اور کسی قابل اعتماد اور واضح صورت میں موجود نہ ہو۔
(علماء یہی حکم ان لوگوں کا بیان کرتے ہیں جن تک اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو۔ امام غزالی رح فرماتے ہیں کہ جن تک اسلام یا پیغمبر اسلام کا تعارف ایسی صورت میں پہنچا ہو کہ بجائے متوجہ کرنے کے انھیں متنفر کرنے کا باعث بنے، وہ بھی اسی اصول کے تحت آتے ہیں۔)
ایسے لوگوں کے ایمان کی آزمائش کی ایک شکل روایت میں یہ بیان ہوئی ہے کہ ان سے کہا جائے گا کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ جو اطاعت کرتے ہوئے اس میں داخل ہوں گے، ان پر آگ ٹھنڈک اور سلامتی بن جائے گی، اور جو انکار کر دیں گے، ان کو آزمائش میں ناکامی پر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔
کمنت کیجے