محمد عبد اللہ شارق
قرآن پانی کی طرح بہتا ہے، اپنا راستہ خود آپ بناتا ہے اور اس میں بات سے بات نکلتی جاتی ہے، لیکن وہ ساری باتیں عموما بس ایک نکتہ کے گرد گھوم رہی ہوتی ہیں، وہ نکتہ اللہ کے احساس، اللہ کی تعظیم، اللہ کی یاد، اللہ کی محبت، اللہ کے تعلق، اللہ کی بندگی، اللہ پہ توکل، اللہ کی طرف یکسوئی اور اللہ کی طرف ہمہ تن رخ کرلینے کا نکتہ ہے۔ قرآن مجید تدبر کے ساتھ پڑھنے والے شائقین خصوصا اہل علم اگر اس اعتبار سے قرآن کو دیکھیں تو سارا قرآن ایک لڑی میں پرویا ہوا نظر آتا ہے اور قرآن کے منظم و مربوط کلام ہونے کا ایک عظیم علم حاصل ہوتا ہے۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ سورہ الجمعہ کے شروع میں اللہ کی تسبیح اور مسلمانوں کی تعریف کے بعد یہود کا ذکر شروع ہوجاتا ہے اور انکی مذمت بیان کی جاتی ہے پھر یک دم جمعہ کے متعلق آیات شروع ہوجاتی ہیں۔ اس میں کیا ربط ہے؟
جواب دیا کہ سورہ جمعہ کے شروع میں اللہ کی تعریف ہے، اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے اور بتایا ہے کہ کائنات اللہ کے ذکر اور تسبیح میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایسا کرکے ہمارے دل اور دماغ کو اللہ پاک کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ بعد ازاں بتایا گیا کہ اسی مقتدر ذات نے ہی یہ رسول امی بھیجا جو موجودہ اور آنے والی کئی نسلوں کے لیے ہدایت کا سبب بنے گا۔ اسی ضمن میں بتایا گیا کہ رسول ہدایت کا کام اللہ کی کتاب کی بنیاد پر کرے گا، یوں کتاب کی عظمت اور اہمیت بتائی گئی۔ پھر رسول کی بعثت کو اللہ ہی کا فضل اور انعام قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر اللہ پاک کی طرف متوجہ کرکے اس کے احسانات کا احساس دلایا گیا۔
بعد ازاں یہود کا ذکر ہوا کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کی ناقدری کی تو ان کی مثال اس گدھے کی طرح ہے جس کے اوپر کتابیں لدی ہیں۔ یہ مثال دے کر مسلمانوں کو گویا سبق دیا گیا کہ کہیں تم بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنے والی کتاب کے ساتھ یہی سلوک نہ کرنا۔ جو لوگ اللہ کی آیات کی تکذیب کرتے ہیں، ہدایت کے دروازے ان کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ پھر یہود اپنے اس ابتر حال کے باوجود خود کو اللہ کا ولی اور چہیتا سمجھنے کے دھوکے میں بھی مبتلا تھے، کہا گیا کہ اگر اللہ کا ولی ہونے کا تمہیں اتنا ہی یقین ہے تو موت سے بھاگتے کیوں ہو۔ یہ ذکر کرکے بھی گویا مسلمانوں کو سبق دیا گیا کہ کہیں تم بھی اس دھوکے میں نہ پڑ جانا اور گویا جائزہ لیتے رہنا کہ کیا ہمارے اندر اللہ پہ جان دینے کا شوق ہے یا نہیں۔ موت تو بہرحال آنی ہے، خواہ کتنا ہی بھاگ لو۔
اللہ کے ساتھ ذوق وشوق کا تعلق قائم کرنے اور اس پر جان تک دینے کا جذبہ پیدا کرنے کی اسی تعلیم کے ضمن میں پھر خصوصا اذان جمعہ سن کر ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہونے اور اللہ کے ذکر کی مجلس کی طرف خوب جوش وخروش سے آنے کی تعلیم دی گئی، جبکہ نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دھندوں میں لگ کر ان دھندوں کو بھی اللہ ہی کی نسبت سے دیکھنے، ان دھندوں کے دوران اللہ کو یاد کرنے اور بکثرت یاد کرتے رہنے کی تعلیم دی۔ آخر میں ہم مسلمانوں کو ہمارے ذوق وشوق کی ایک کمزوری پر متنبہ کیا گیا تاکہ اپنی نیکیاں دیکھتے ہوئے بڑے سے بڑے مسلمان بھی خود کو کامل اکمل سمجھنے کی بجائے، اپنی کم زوریوں پر نگاہ رکھیں، ذوق وشوق کا اعلی ترین معیار آنکھوں کے سامنے رکھیں، خدا طلبی کے اپنے ذوق شوق کا مسلسل محاسبہ کریں اور گویا ساری زندگی خود کو تربیت کے مراحل میں سمجھیں۔
یوں یہ ساری سورہ اللہ کی تعظیم کے سبق سے شروع ہوکر اللہ کے رسول وکتاب کی تعظیم سے گزرتے ہوئے خدا طلبی کے ذوق وشوق اور دنیا کے میلوں جھمیلوں کو چھوڑ کر اللہ کے لیے جان تک دینے اور اللہ کے ذکر کو ہر غرض پر مقدم رکھنے کے سبق پہ ختم ہوئی۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق دیں۔ آمین
قرآن مجید میں بات زمین کی ہو یا آسمان کی، جنت کی ہو یا جہنم کی، کفار کی ہو یا مومنین کی، یہود کی ہو یا نصاری کی، دنیا کی ہو یا آخرت کی، انسانوں کی ہو یا فرشتوں کی، تاریخ کی ہو یا حال کی، وہ بہرحال اللہ کی بات ہوتی ہے اور اللہ ہی کی طرف متوجہ کرتی ہے، اس بنیادی نکتہ کو سامنے رکھیں تو سارا قرآن باربط نظر آتا ہے، بس بات کے انداز اور عنوان کچھ بدلے ہوئے لگتے ہیں۔ قرآن اللہ کے ذکر کا سرچشمہ اور مجسم ذکر ہے، خود قرآن میں کئی جگہ قرآن کو “الذکر” کہا گیا ہے۔
کمنت کیجے