Home » اسلامائزیشن آف سائنسز
اسلامی فکری روایت تہذیبی مطالعات شخصیات وافکار

اسلامائزیشن آف سائنسز

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور میں اسلام اور جدیدیت میں فکری پیرا ڈائیمز کے موضوع پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ الحمد للہ، بہت اچھی نشست رہی۔ تمام ورکشاپ کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی ہوئی ہے جو جلد ہی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے آفیشل پیج سے پبلش کر دی جائے گی۔ یہ پاکستان کے ان سرکاری کالجز میں سے ہے کہ جہاں سے ہماری سوسائٹی کی کریم گریجویٹ ہوتی ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں ایسی فکری نشستیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔

راقم کی گفتگو کا موضوع اسلامائزیشن آف سائنسز رہا کہ جس طرح پوسٹ ماڈرنزم نے آ کر ہر علم وفن کو اپنا ایک پرسپیکٹو یعنی قبلہ دیا کہ ماڈرنٹی کے مقابلے میں اپنا میوزک اور آرٹ تک پیدا کر دیا۔ یہی کام اسلامائزیشن کے حوالے سے بھی کرنے کا ہے۔ جدیدیت نے یہی کام سائنسز اور سوشل سائنسز میں کر دکھایا تھا کہ ان کا ہر علم نظریہ ارتقاء کے پرسپیکٹو میں پڑھایا جا رہا ہے، وہ ہسٹری ہو یا اکنامکس، عمرانیات ہو یا سائیکالوجی، فزکس ہو یا بیالوجی۔ ہر جگہ ارتقاء گھسا ہوا ہے یا زبردستی گھسایا گیا ہے۔ یہی وہ میدان ہے کہ جس میں غزو فکری کی ضرورت ہے۔

حدیث میں جو ہے کہ علماء کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر غالب رہے گا تو آج یہ بشارت بلاشبہ ان علماء کو شامل ہے جو ماڈرن سائنسز کے کفر والحاد کے مقابلے میں بند باندھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بات جدید تعلیمی اداروں میں جا کر ہی سمجھ آتی ہے۔ اپنی مسجد اور مدرسہ کے حلقہ میں بیٹھ کر نہیں۔ جناب مفتی صاحب نے روایت کی روشنی میں تشکیک (skepticism) پر بہت عمدہ گفتگو کی تو قیصر احمد راجہ صاحب نے جدیدیت کے تناظر میں امپیریل ازم (imperialisms) اور کلونیل ازم (colonialism) پر سیر حاصل بحث کی۔

آخر میں سوال وجواب کی بھی نشست ہوئی۔ طلباء نے ہر قسم کے سوالات کیے۔ میں نے یہ بھی عرض کی کہ یہ غلط فہمی اب دور ہو جانی چاہیے کہ اب مولوی کو کسی قسم کے سوال سے خوف آتا ہے یا وہ فتوی لگا دیتا ہے۔ ہم نے یوتھ کلب کے ساتھ قذافی اسٹیڈیم لاہور کے سامنے ایک شادی ہال میں ایک ایونٹ کیا تھا کہ جس کا نام ہی ڈیئر ٹو آسک تھا یعنی بک دو، جو بکنا ہے کہ کسی کے ذہن میں یہ نہ ہو کہ میرے سوال کی تو کوئی مولوی تاب ہی نہیں لا سکتا۔ پس آپ مہذب انداز میں سوال کریں، آپ کو ہر قسم کے سوال کا لاجیکل اور منطقی جواب دیا جائے گا اور وہ بھی ٹھنڈے طریقے سے۔ طلباء نے بھر پور طریقے سے سوال کیے اور تینوں مقررین نے ان کے جوابات دیے۔

بہت ضروری ہے کہ روایتی فکر سے تعلق رکھنے والے علماء اس طبقے کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ آپ مذہبی علوم کے ساتھ ماڈرن سائنسز اور سوشل سائنسز کا بھی مطالعہ کریں۔ فلاسفی بھی پڑھیں اور فلاسفی آف سائنس بھی۔ اور وہ بھی کسی منجھے ہوئے استاذ سے۔ پھر ہی آپ وقت کے ابن تیمیہ یا غزالی بن سکتے ہیں۔ ورنہ تو دوسروں پر فتوے لگا کر اور نکتہ چینی کر کے اپنا ٹائم پاس کرتے رہیں گے اور کفر والحاد آپ کے گھر میں پھیلتا رہے گا اور آپ اس اہل بھی نہ ہوں گے کہ دو ملحدین کے مابین بیٹھ کر اعتماد سے گفتگو کر سکیں۔ اور باتیں زمین وآسمان کے ملانے کی کرتے رہیں گے۔

فی زمانہ حقیقی عالم وہی ہے جو اس غزو فکری (intellectual war) میں لبرلز، فیمینسٹس، سوشلسٹس، ماڈرنسٹس اور ملحدین وغیرہ پر بحث میں غالب آ جائے۔ فی الحال تو یہ حال ہے کہ میٹرک پاس بچے کو یہ اعتماد حاصل ہے کہ مولوی صاحب میرا سوال سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔ اور اس کی یہ بات بہت حد تک درست ہے۔ اس تاثر کو آپ اسی وقت بدل سکتے ہیں جبکہ آپ کے علماء ماڈرن سائنسز اور ان سے پیدا ہونے والے الحادی اثرات سے واقف ہوں گے۔

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر دینی علوم کے معروف اسکالر ہیں اور رفاہ یونیورسٹی لاہور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہیں۔

mzubair.is@riphah.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں