اجمل صدیقی
مذہب اور سائنس کا شدید اختلاف تو مسیحیت کی ساخت میں اس وقت داخل ہوا جب بطلیموس کا نظریہء نظامِ فلکیات مسیحیت کا حصہ بن گیا ہے ۔
یہ حصہ پوپ نے مسیحیت کو “سائنسی ” بنانے کے لئے جزو ِدین ِمسیحیت بنایا لیکن آگے چل کر یہی وجہِ تنسیخ ِمسیحیت بن گیا ۔
جب کوپرنیکس اور گلیلیو نے نئی تحقیق کی روشنی میں اسے جھٹلایا تو مغرب میں سائنس اور مذہب کی پہلی لڑائی شروع ہوگئی۔
اس سے پہلے مسلمانوں میں ابن رشد کہ چکے تھے کہ مذہب اور سائنس متصادم نہیں ہیں ۔عقل اور وحی دو مختلف راستے ہیں مگر منزل ایک ہے۔
مغرب کے علم الکلام کا حقیقی بانی ابن رشد ہے۔
سچائی کا ایک راستہ عقل اور سائنس کا ہے دوسرا وحی کا
مسلم دنیا میں ابن رشد کے اس فلسفے کو رد کر دیا گیا
یہ نظریہ مغرب میں بہت مقبول ہوگیا ۔
مغرب میں مذہب اور سائنس کی دوسری لڑائی نشاۃِ ثانیہ میں ہوئی
اس دور میں مسیحیت نے فرد کی زندگی کو اپنی فقہی جکڑ بندی اور فتوی فروشی اور عقائدی جبر سے دبا رکھا تھا
مغرب کی عوام نے یونانی اور لاطینی کلاسیک پڑھے اور اس دنیا کی تحقیق پہ مائل ہوگئے جسکے نتیجے میں مسیحیت کو زور دار دھچکا لگا۔
اٹھارویں صدی میں یورپ میں نئی دنیا کو دیکھنے کا شوق ہوا ۔فزکس اور طبیعیات کی تحقیق نے مذہب اور سائنس کی لڑائی کو مزید شدید کردیا۔
مسیحیت کے بنیادی اجزا بکھر گئے۔
جس میں مقامی جرمن اساطیر یونانی اور رومی عناصر واضح ہوگئے
اس پہ نطشے ،فیورباخ، رسل، برونو بائر نےبہت واضح لکھا ہے۔
فرائڈ اور جدید نفسیات نے مذہب کو ایک آفاقی illusion قرار دے دیا ۔۔مغرب میں بظاہر مذہب سائنس سے پسپا نظر آتا ہے ۔
مگر شاید سائنس اور مذہب میں حتمی شکست اور فتح ممکن نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل صدیقی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے اردو ہیں ۔ فیصل آباد میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ کی نظر و فکر اور دلچسپی کا دائرہ تاریخ، فلسفہ اورادب ہے ۔
کمنت کیجے