غزالی نے اپنی تصنیفات میں عقل کی تعریف ، داخلی حرکت و خصوصیات، درجات اور سطحیں، اسکی آزادی و فعلیت جیسے جتنے پہلو بیان کئے ہیں ان سب کا تعلق عقلِ کلی سے ہے عقلِ استنباطی اور جزوی اسی کلی کے تحت داخل ہو کر ان مسائل میں عقلِ کلی سے مماثل ہوتی ہے ۔ چنانچہ ابتداء فکرِغزالی میں عقل کی دو قسموں کی طرف تقسیم موجود ہے اگرچہ اس تقسیم کو انہوں نے کہیں صراحتا ذکر نہیں کیا ۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ غزالی کے ہاں عقلِ کلی اور استنباطی کی فعلیت یا حرکت بالکل متضاد یا الگ ہے ۔ انکی عبارتوں میں اس قسم کے اشارے موجود ہیں جو اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ غزالی عقلِ استنباطی کو ان احکامات سے خارج نہیں سمجھتے جنہیں وہ عقلِ کلی کے لئے ثابت کرتے ہیں ۔ ذیل میں ہم ان عبارات کو ذکر کریں گے ۔
عقل کی حقیقت اور اطلاقات
غزالی کے نزدیک عقل کے دو معنی ہیں ۔ ایک ان میں سے منفرد جبکہ دوسرا معنی تین مزید الفاظ کے ساتھ مشترک ہے ۔ عقل کے مشترک معنی میں اسکے شریک باقی تین الفاظ قلب ، روح اور نفس ہیں ۔ عقل جس معنی میں ان تین الفاظ سے مشترک ہے وہ یہ کہ عقل اس لطیفہء ربانی کا نام ہے جو مدرک للعلوم ہے اور جس کی بناء پر انسان کو دیگر حیوانات سے ممتاز کیا جاتا ہے ۔ یہی وہ نورانی لطیفہ ہے جو عالم ہے اور خطاب و عتاب بھی اسی سے متعلق ہوتا ہے ۔ جبکہ عقل کا دوسرا معنی حقائقِ امور کا علم ہے ۔ اس صور ت میں عقل علم کی صفت ہے جس کا محل قلب ہے ۔ احیاء علوم الدین میں لکھتے ہیں :
“اللفظ الرابع العقل وهو أيضاً مشترك لمعان مختلفة ۔أحدهما أنه قد يطلق ويراد به العلم بحقائق الأمور فيكون عبارة عن صفة العلم الذي محله القلب والثاني أنه قد يطلق ويراد به المدرك للعلوم فيكون هو القلب أعني تلك اللطيفة”[1]
ترجمہ : چوتھا لفظ عقل ہے اور وہ بھی مختلف معانی میں مشترک ہے ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ عقل حقائقِ امور کا علم ہے ۔ اس صورت میں عقل صفتِ علمی ہے جس کا محل قلب ہے ۔ اور دوسرا معنی یہ کہ وہ مدرک للعلوم قوت کا نام ہے ۔ اس صورت میں عقل اور قلب بعینہ ایک چیز ہیں یعنی لطیفہء ربانی ۔
ان چاروں الفاظ یعنی عقل ، قلب ، روح اور نفس کا مشترک المعنی ہونا غزالی نے مشکاۃ الانوار میں بھی بیان کیا ہے ۔ ظاہری آنکھوں پر لفظِ نور کے حقیقی اطلاق کی بجائے عقل پر اسکے اطلاق کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
“واعلم أن في قلب الإنسان عيناً هذه صفة كمالها وهى التى يعبّر عنها تارة بالعقل وتارة بالروح وتارة بالنفس الإنسانى. ودعْ عنك العبارات فإنها إذا كثرت أوهَمَت عند ضعيف البصيرة كثرة المعانى. فنعنى به المعنى الذى يتميز به العاقل عن الطفل الرضيع وعن البهيمة وعن المجنون. ولنسمه “عقلاً” متابعة للجمهور في الاصطلاح”[2]
ترجمہ: جان لو کہ انسان کے دل میں ایک آنکھ ہے جس میں یہ صفتِ کمال ہے ۔یہ وہی آنکھ ہے جسے نفس ، روح اور عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ لیکن ان تمام تاویلات کی کوئی حاجت نہیں ۔کیونکہ جب تاویلات بڑھ جاتی ہیں تو ضعیف العقل انسان اس وہم میں مبتلاء ہو جاتا ہے کہ ان کے معانی بہت ہیں ۔اس لئے ہم وہی معنی مراد لیں گے جس سے عاقل مرد ، شیر خوار بچے ، دیوانے اور چوپائے سے ممتاز ہو جائے ۔ اور جسے جمہور کی اصطلاح میں عقل کہا جاتا ہے ۔
لیکن اس نور یا قلبی آنکھ یا لطیفہء ربانی کی کنہ اور حقیقت کیا ہے ؟ اور یہ فی ذاتہ کیا چیز ہے ؟ اس کی بابت غزالی نے کلام نہیں کیا جبکہ اسکی فعلیت سے اسکی شناخت کی کوشش کی ہے ۔ اگرچہ علمِ مکاشفہ کے تحت بیان کئے جانے والے اسرار میں سے ایک روح کا بیان ہے جسے غزالی نے تفصیل سے اپنے ایک الگ رسالہ ” الاجوبۃ الغزالیۃ فی المسائل الاخرویۃ “میں ذکر کیا ہے ۔ لیکن اس میں غزالی نے روح کو صرف اسکے معنیء مشترک کی حیثیت سے نہیں بلکہ اپنے کل کی حیثیت سے بیان کیا ہے جس کے ایک جزو میں عقل کا لفظ اسکا شریک ہے ۔ بہرحال احیاء العلوم میں لفظِ قلب کے تحت چاروں الفاظ کے معانی کی بابت لکھتے ہیں ۔
“والمعنى الثاني هو لطيفة ربانية روحانية لها بهذا القلب الجسماني تعلق وتلك اللطيفة هي حقيقة الإنسان وهو المدرك العالم العارف من الإنسان وهو المخاطب والمعاقب والمعاتب والمطالب ولها علاقة مع القلب الجسماني وقد تحيرت عقول أكثر الخلق في إدراك وجه علاقته “[3]
ترجمہ : قلب کا دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ ایک لطیفہء ربانی روحانی ہے جس کا جسمانی قلب سے تعلق ہے اور یہی لطیفہ انسان کی حقیقت ہے ، مدرک بھی یہی ہے اور عالم بھی یہی ہے ۔ اور خطاب اور عتاب بھی اسی سے ہوتا ہے ۔ اس لطیفہ کا جسمانی قلب سے جو تعلق ہے اس کے ادراک سے عام طور پر عقلیں عاجز ہیں ۔
پھر عقل و قلب کے اس حقیقی معنی کی نشاندہی اور جسمانی قلب سے اسکی مناسبت اور تعلق کو بیان نہ کرنے کی دو وجوہات ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔:
“شرح ذلك مما نتوقاه لمعنيين أحدهما أنه متعلق بعلوم المكاشفة وليس غرضنا من هذا الكتاب إلا علوم المعاملة والثاني أن تحقيقه يستدعي إفشاء سر الروح وذلك مما لم يتكلم فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فليس لغيره أن يتكلم فيه والمقصود أنا إذا أطلقنا لفظ القلب في هذا الكتاب أردنا به هذه اللطيفة وغرضنا ذكر أوصافها وأحوالها لا ذكر حقيقتها في ذاتها وعلم المعاملة يفتقر إلى معرفة صفاتها وأحوالها ولا يفتقر إلى ذكر حقيقتها[4]
ترجمہ :ہم اس ارتباط اور تعلق کو دو وجوہات سے بیان نہیں کرتے ۔ پہلا یہ کہ اسکا تعلق علومِ مکاشفہ کے ساتھ ہے جبکہ یہ کتاب علومِ معاملہ سے متعلق ہے ۔ دوسرا یہ کہ اس کی حقیقت بیان کرنے کے لئے روح کے راز سے پردہ اٹھانا ہو گا ۔ اور روح ایک ایسا راز ہے جس کی بابت زبانِ نبوت سے بھی کچھ ارشاد نہیں ہوا ۔غیر نبی کو کیا حق ہے کہ وہ اس سلسلے میں لب کشائی کرے ۔ اس کتاب میں ہم جہاں قلب کا لفظ بولیں گے اس سے مراد یہی لطیفہء ربانی ہی ہو گا ۔ ہم اس لطیفہ کے احوال اور اوصاف بیان کریں گے ، اسکی حقیقت اور ماہیت سے بحث ہمارا مقصود نہیں ہے ۔
غزالی نے اپنے رسالہ ” الاجوبۃ الغزالیۃ فی المسائل الاخرویۃ ” میں جو بحث کی ہے ہم اس کا لبِ لباب اور اس قدر ذیل میں ذکر کر دیتے ہیں جس کا ہماری بحث یعنی عقل کی کنہ اور حقیقت سے براہِ راست تعلق ہے ۔ غزالی کا کہنا ہے کہ
” روح ایسی جوہرِ بسیط ہے جو اپنی اور اپنے خالق کی پہچان رکھتی ہے اور معقولات کا ادراک کرتی ہے ۔ وہ نہ صفت ہے اور نہ ہی جسم ہے ۔ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں لامکان ہے اور اجسام سے اسکا تعلق نہ اتصال کا ہے اور نہ ہی انفصال کا ، نہ وہ جسموں میں داخل ہے اور نہ ہی ان سے خارج ہے ۔” [5]
اس رسالہ میں غزالی نے ان تمام دعووں کی وجوہات اور ان پر ہونے والے عقلی اشکالات کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔
غزالی نے عقل کا اطلاق چار معانی پر کیا ہے ۔
عقل ایسا وصف سے جس سے انسان دیگر چوپایوں سے ممتاز ہو جاتا ہے ۔
ماقبل تجربی اور بدیہی علوم کو بھی عقل کہا جاتا ہے ۔
ایسے علوم جن کا مدار انسانی تجربات اور اکتساب پر ہو انہیں بھی عقل کہا جاتا ہے ۔
انسان میں موجود ایسے ملکہ کو بھی عقل کہا جاتا ہے جو اسے افعال کے انجام پر نظر رکھنے پر ابھارے ۔
احیاء میں ان چاروں اطلاقات کو غزالی نے تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :
لفظِ عقل کا پہلا اطلاق
“الأول : الوصف الذي يفارق الإنسان به سائر البهائم وهو الذي استعد به لقبول العلوم النظرية وتدبير الصناعات الخفية الفكرية وهو الذي أراده الحارث بن أسد المحاسبي حيث قال في حد العقل إنه غريزة يتهيأ بها إدراك العلوم النظرية وكأنه نور يقذف في القلب به يستعد لإدراك الأشياء ولم ينصف من أنكر هذا ورد العقل إلى مجرد العلوم الضرورية فإن الغافل عن العلوم والنائم يسميان عاقلين باعتبار وجود هذه الغريزة فيهما “[6]
ترجمہ: عقل وہ وصف ہے جس کی وجہ سے انسان دوسرے چوپویوں سے ممتاز ہوتا ہے ۔یہ وہی وصف ہے جس سے انسان کے اندر نظری علوم کو قبول کرنے اور مخفی فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی استعداد پیدا ہوتی ہے ۔مشہور مفکر حرث ابن اسد محاسبی نے یہی تعریف کی ہے ۔چنانچہ کہتے ہیں کہ عقل ایک فطری قوت ہے جس کے ذریعہ انسان علومِ نظری کا ادراک کرتا ہے ۔گویا یہ ایک نور ہے جو اشیاء کے ادراک کے لئے قلب میں القاء کیا جاتا ہے ۔جس نے اس تعریف کا انکار کیا اور عقل کو بدیہی علوم کے ادراک میں منحصر کیا اس نے انصاف سے کام نہیں لیا ۔اسلئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ علوم سے غافل اور سوئے شخص کو بھی عاقل کہا جاتا ہے ۔ محض اس لئے کہ اس میں عقل کی قوت موجود ہے ۔
لفظ ِ عقل کا دوسرا اطلاق
“الثاني هي العلوم التي تخرج إلى الوجود في ذات الطفل المميز بجواز الجائزات واستحالة المستحيلات كالعلم بأن الاثنين أكثر من الواحد وأن الشخص الواحد لا يكون في مكانين في وقت واحد”[7]
ترجمہ : ان علوم کو بھی عقل کہا جاتا ہے جو قوتِ تمییز رکھنے والے کسی بھی بچے کی ذات میں موجود ہوتے ہیں ۔ یعنی ممکن کے ممکن اور محال کے محال ہونے کا علم ۔ مثلا یہ کہ دو ایک سے زیادہ ہوتے ہیں یا ایک ہی شخص کا ایک ہی وقت میں دو جگہوں پر پایا جانا محال ہے ۔
لفظِ عقل کا تیسرا اطلاق
“الثالث علوم تستفاد من التجارب بمجاري الأحوال فإن من حنكته التجارب وهذبته المذاهب يقال إنه عاقل في العادة”[8]
ترجمہ : عقل ان علوم کو بھی کہا جاتا ہے جو روز مرہ کے احوال اور تجربوں سے حاصل ہوتے ہیں ۔ اسی لئے آزمودہ کار شخص کو عاقل کہا جاتا ہے جو زندگی کے طریقوں سے واقف ہو ۔
لفظِ عقل کا چوتھا اطلاق
“الرابع أن تنتهي قوة تلك الغريزة إلى أن يعرف عواقب الأمور ويقمع الشهوة الداعية إلى اللذة العاجلة ويقهرها فإذا حصلت هذه القوة سمى صاحبها عاقلاً من حيث إن إقدامه وإحجامه بحسب ما يقتضيه النظر في العواقب لا بحكم الشهوة العاجلة وهذه أيضاً من خواص الإنسان التي بها يتميز عن سائر الحيوان”[9]
ترجمہ : چوتھی قسم یہ کہ اس قوتِ طبعی کی طاقت اس قدر ہو جائے کہ امور کے عواقب پر نظر اس کی نظر رہے ۔اور لذتِ عاجلہ کی طرف داعیء شہوت کا ازالہ کر سکے ۔ جسے یہ انتہائی قوت میسر ہوتی ہے اسے عاقل کہتے ہیں ، اس اعتبار سے کہ اسکا ہر اقدام انجام کے تقاضوں سے وابستہ ہوتا ہے ۔لذتوں کی شہوتوں کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتا ۔یہ قسم بھی انسان کی خصوصیت ہے ۔ اسکی وجہ سے انسان دیگر حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے ۔
حواشی:
[1] احیاء علوم الدین ، غزالی ، ص: 879 ، دار ابن حزم بیروت
[2] مشکاۃ الانوار و مصفاۃ الاسرار فی مجموعۃ رسائل الامام الغزالی ، الغزالی ، ص :288 ، المکتبۃ التوفیقیۃ ، مصر
[3] احیاء علوم الدین ، غزالی ،ص: 878 ، دار ابن حزم بیروت
[4] احیاء علوم الدین ، غزالی ، ص: 877 ، دار ابن حزم بیروت
[5] الاجوبۃ الغزالیۃ فی المسائل الاخرویۃ ، غزالی , ص: 381 تا 390 ، المکتبۃ التوفیقیۃ ، مصر
[6] احیاء علوم الدین ، غزالی ، ص: 101 ، دار ابن حزم بیروت
[7] احیاء علوم الدین ، غزالی ، ص: 101 ، دار ابن حزم بیروت
[8] ایضا ، ص: 101
[9] ایضا ، ص:102
کمنت کیجے