Home » حلال جانوروں پر یہودی علماء کی بحث
ادیان ومذاہب تہذیبی مطالعات فقہ وقانون

حلال جانوروں پر یہودی علماء کی بحث

مبین قریشی

کتاب احبار کے باب ۱۱ میں شریعت کا قانون بیان ہوا ہے کہ چوپایوں میں سے صرف و چوپاے حلال ہیں جن میں درج ذیل دو شرائط بیک وقت موجود ہوں۔
(۱) صرف سبزی خور ہوں اور جگالی کرتے ہوں
(۲) انکے سم چرے ہوے ہوں۔
کسی جانور کا کھانے کے لئے حلال ہونے واسطے مزکورہ بالا دونوں شرائط کا اکھٹا پورا ہونا ضروری ہے۔مثلا کوئ جانور اگر ہمہ خور ہو ( جیسے خنزیر) تو اسمیں سموں کے چرے ہونے کے باوجود بھی کیونکہ پہلی شرط کی خلاف ورزی پائ جاتی ہے اسلئے وہ انسان کے کھانے کے لیے حرام ہے۔ اسی طرح گھوڑے اور گدھے میں پہلی شرط تو پائ جاتی ہے مگر دوسری شرط موجود نہیں ہوتی اسلئے یہ دونوں بھی کھانے کے لئے حرام ہیں۔

اسی طرح پانی کے جانداروں میں سے صرف پروں یا چھلکے والے جاندار ( مچھلیاں ) حلال اور باقی سب کچھ حرام۔ پرندوں میں سے گوشت خور پرندے حرام اور باقی حلال۔ پھر اسی باب میں کچھ مثالیں دے کر اس قانون کی وضاحت کی گئ ہے۔ اگرچہ اونٹ کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ جگالی تو کرتا ہے مگر اسکے سم چرے ہوے نہیں ہوتے اسلئے حرام، لیکن یہ خلاف مشاہدہ بات ہے کیونکہ اونٹ کے سم چرے ہوے ہوتے ہیں ۔ اسلئے معلوم ہوتا ہے کہ اس باب میں بیان کردہ مثالیں اصل قانون کا حصہ نہیں تھیں بلکہ فقہاء کے حاشیے کتابوں کے متن میں داخل ہوے ہیں۔
اس باب کی حکمت میں اہل کتاب علماء حلال و حرام کا سبب تلاش کرنے میں درج ذیل تھیوریز میں بٹّے ہوے نظر آتے ہیں۔

۱: شریعت تعبدی امور میں سے ہے اس لئے محض ایک امتحان ہے: خدا نے چند جانور منتخب کرکے باقی حرام قرار دے دئے اور یہ انتخاب کوئ بنیاد نہیں رکھتا بلکہ محض خدا کی رضا کیساتھ راضی رہنے کا امتحان ہے۔ اس کے حق میں عہدنامے کی وہ ساری عبارتیں پیش کی جاتی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ انسانوں کو امتحان سے گزارا جارہا ہے۔ اس جواب پر یہ اعتراض اٹھتا ہے کہ تورات کا یہ قانون بس چند جانوروں کا انتخاب کرکے فہرست نہیں دے رہا بلکہ ایک متعین فارمولہ دے رہا ہے اس لئے یہ جواب صحیح نہیں ہے۔

۲: ظاہریت: اس طبقے کے نزدیک یہ سوال اور حکمتوں سے متعلق اس نوعیت کے باقی تمام سوالات بھی اپنی اصل میں ہی غلط ہیں۔ اگر خدا نے کسی وجہ کے تحت چیزوں کو حلال و حرام میں بانٹا ہوتا اور وہ وجہ ہمارے لیے جاننا ضروری ہوتی تو خدا ضرور بتاتا۔ اس لئے وجہ کا نا جاننا ہی ایمان اور اسے جاننے کے لئے غور و فکر کرنا ہی خلاف ایمان ہے۔ ایمان صرف اور صرف ایک ہی وجہ رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا نے کہا اور ہم نے مان لیا لہذا اس طرح کے تمام سوالات اور انکی ابحاث اپنی بنیاد سے ہی غلط ٹھہرے۔ لیکن اس جواب پر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ خدا کبھی بھی حکم براے حکم نہیں دیتا کیونکہ یہ اسکی کچھ صفات کے خلاف ہے۔ لازما خدا کے احکام میں کوئ حکمت ہوتی ہے۔ مزکورہ قانون اپنی بناوٹ کے لحاظ سے انگلی اٹھا اٹھا کر اشارے کررہا ہے کہ اسکی بنیاد کسی حکمت پر مبنی ہے۔ یہ جواب اس لیے بھی غلط ہے کہ یہ بات کوئ کہہ ہی نہیں رہا کہ جبتک حکمت معلوم نہ ہوئ تب تک اس پر عمل نہیں کیا جاے گا۔

۳: خدا کی یاد دھانی: اس طبقے کے نزدیک جانوروں کے انتخاب کی تو کوئ وجہ نہیں لیکن قانون کی وجہ خدا کی ہر دم یاد دھانی ہے۔ انسان نے ہر روز کھانا ہوتا ہے اسلئے ضروری تھا کہ اس معاملے میں کھانے پر ایسا قانون دیا جاے جسکی وجہ انسان روز سوچے کہ اسے کیا کھانا ہے اور کیا نہیں کھانا۔ اس سوال کی وجہ سے خدا کی یاد کثرت سے معاشرت کا حصہ بنے گی۔ قانون کی حکمت کے تحت اس جواب پر اکثریت کا اتفاق ہے لیکن اس پر جواب پر اعتراض یہ ہے کہ اس نے اصل سوال کو ایڈریس ہی نہیں کیا۔

۴: معاشرتی نظم و ضبط: اس طبقے کے نزدیک اس قانون بشمول شریعت کے ہر قانون کا مقصد ایک معاشرتی نظم و ضبط قائم کرنا ہے۔ جیسے ملٹری اکیڈمیز کھانے پینے سے متعلق کچھ اصول طے کرلیتی ہیں جس سے ادارہ ایک طرف متعین نظم و ضبط کا پابند ہوجاتا ہے تو دوسری جانب وہ باقی اداروں سے ممتاز بھی ہوجاتا ہے۔ اس جواب پر اعراض یہ ہے کہ قانون میں مزکور جانوروں کو دو متعین و مشترک شرائط کے تحت لیا گیا ہے اسلئے یہ نقطہ ء نظر بھی سوال کا جواب نہیں ہے۔

۵: حفظان صحت: اس جماعت کے نزدیک اس قانون کی بنیاد حفظان صحت ہے۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ان جانداروں کے کھانے سے بھی بعض اوقات بیماریاں لگتی ہیں اور ڈاکٹرز انکے کھانے پر بھی پابندی لگادیتے ہیں۔ اس پر خاص طور پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اگر قانون کا بنیادی سبب ہی یہ بات ہوتی تو سب سے پہلے پانی کا ذکر کیا جاتا کیونکہ پرانے زمانے میں بیماریوں کا سب سے بڑا سبب پانی ہوا کرتا تھا۔ نیز بہت ساری جڑی بوٹیوں کا زکر کیا جاتا جو زہریلی ہوتی ہیں۔

۶: روحانی نشانات: ہر جاندار کسی نا کسی روحانی تشبیہ کے تحت ہوتا ہے۔ مثلا بنی اسرائیل کو بھیڑیں کہا گیا ہے۔ روح کو فاختہ سے تشبیہ دی گئ ہے۔ اس قانون میں جو جاندار مزکور ہیں وہ کیونکہ ایمانداری، مالک کی خدمت، معصومیت اور تعبداری کی تشبیہات کے تحت ہیں اسلئے حلال ہیں۔ گدھا گھوڑا وغیرہ مسافت کی طول کی علامت کے طور پر روحانیت کی موت ہونے کے سبب سے حرام ہیں۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ بہت سی مقدس ہستیوں سے جن حرام جانوروں ( مثلا شیر، چیتا وغیرہ) کو تشبیہ دی گئ تو وہ جانور پھر کیوں حرام ہوے۔ نیز یہ مشابہت عہدنامے میں ہمیشہ یکساں بھی نظر نہیں آتی۔ جیسے فاختہ کو مثبت و منفی دونوں خصوصیات سے تشبیہ دی گئ ہے۔

۷؛ رد شرک؛ جن جن جانوروں کی مشرک اقوام نے کبھی کبھی پرستش کی ہے یا اپنی عبادات میں ان جانوروں سے رسوم وابستہ کی وہ سارے حرام ہوے باقی حلال ٹھہرے۔ اس جواب پر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جواب مشرک اقوام کی تاریخ سے نابلد ہونے کی دلیل ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں