Home » نظمِ قرآن میں امام فراہی سے موافق آراء رکھنے والے عرب علماء و مفسرین
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث شخصیات وافکار کلام

نظمِ قرآن میں امام فراہی سے موافق آراء رکھنے والے عرب علماء و مفسرین

خزیمہ ظاہری

یہ بات تو واضح ہے کہ امام حمید الدین فراہی نے نظمِ قرآن پر جس انداز کا کام کیا ہے،ان سے پہلے گزرے ہوئے مفسرین کے ہاں نظم پر اس سے مختلف اور جزوی طرز کا کام ہے.
کیونکہ (1) امام فراہی نظم کی بجائے نظام کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور (2) نظام انکے ہاں نظم سے وسیع و مفید تَر مفہوم میں بولا جاتا ہے.. چنانچہ (3) امام فراہی کے نزدیک نظام میں ایک سورت کی تمام آیات اپنے مرکزی مضمون سے جُڑی ہوتی ہیں.. جو کبھی ایک ہوتا ہے اور کبھی ایک سے زائد ہوتے ہیں.
سورتوں کے نظام سے متعلق اس تصور کو امام فراہی کے بعد کئی ایک عرب مفسرین و علماء نے اختیار کیا ہے جن میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے یہ تصور امام فراہی کی موافقت میں اختیار کیا ہے اور کچھ وہ ہیں جنہوں نے از خود یہ تصور پیش کیا اور اتفاقی طور پر انکی آراء امام فراہی کے تصورِ نظم/نظام سے موافقت پر مبنی ہیں.
1 : ان میں پہلی شخصیت شہیدِ اسلام سید قطب مرحوم کی ہے جنہوں نے اپنی مایہ ناز تفسیر “فى ظلال القرآن” میں یہ موقف اختیار کیا ہے کہ :
” ہر سورت کی ایک خاص اور متمیّز شخصیت ہوتی ہے اور وہ ایک یا ایک سے زائد مخصوص مرکزی مضمون میں بندھی ہوتی ہے.. اور یہ محور سورت کے تمام اجزاء کے لئے بندھن کی طرح ہوتا ہے”. (فی ظلال القرآن،١/٢٧).
مزید کہتے ہیں کہ :
” مکمّل سورہ بقرہ بنیادی طور پر ایک ہی محور کے گرد رُخ کئے ہوئے ہے.. اور یہ محور دو بنیادی موضوعات پر مشتمل ہے.. اور دونوں موضوعات کے تمام مضامین و مباحث آپس میں بھی مکمّل ربط رکھتے ہیں “. (فی ظلال القرآن،١/٢٨).
مزید لکھتے ہیں کہ :
” سورہ آل عمران دو بنیادی مضامین رکھتی ہے اور یہ دونوں مضمون آپس میں بھی مکمّل مطابقت و ربط رکھتے ہیں “. (فی ظلال القرآن،١/٢٥٢).
اس تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ سید قطب کا تدبر بھی یہی رجحان رکھتا ہے کہ سورتوں کا اندرونی نظم آپس میں نہایت مربوط ہے اور سورتوں کے مفاہیم اپنے بنیادی مقاصد و اغراض سے منظّم طور پر جُڑے ہوتے ہیں.
سید قطب نے کئی ایک مقامات پر اپنے اس موقف کی مزید تفصیل بیان کی ہے جسکے بعد امام فراہی کے سورتوں کے نظام سے متعلق پیش کئے گئے نقطہ نظر میں سید قطب انکے موافق کھڑے ہوتے ہیں.
2 : دوسری شخصیت ڈاکٹر محمد عبداللہ دراز مرحوم کی ہے.. آپ معروف فقیہ شیخ عبد اللہ دراز کے صاحبزادے تھے جو امام شاطبی کی الموافقات پر تعلیقات کے حوالے سے مشہور ہیں.
آپ قرآنیات کے عظیم محقق اور ماہر تھے.. انہوں نے اپنی کتاب “النبأ العظيم” میں سورتوں کے اندرونی نظم سے متعلق لگ بھگ وہی تصور پیش کیا ہے جو امام فراہی اور سید قطب کا ہے.. چنانچہ انکا کہنا ہے کہ :
“جب کوئی جاہل کسی طویل سورت کو مطالعہ کرتا ہے تو اسے لگتا ہے کہ یہ تمام معانی اور باتیں بغیر کسی ترتیب و تنسیق کے بَھر دئے گئے ہیں مگر جونہی کوئی شخص تدبر سے کام لیتا ہے تو یہ بات کُھل کر سامنے آتی ہے کہ سورت کے تمام مفاہیم و مطالب اسکے مرکزی اور بنیادی مقاصد و مضامین کے ساتھ بہترین انداز میں جُڑے ہوتے ہیں.. پھر ان مرکزی مضامین کی شاخیں پوری سورت میں پھیلی ہوتی ہیں.. پھر یہی نہیں بلکہ ہمیں کہنا چاہیے کہ ایک عمارت میں جیسے تمام پتھر اور اینٹیں ترتیب کے ساتھ جُڑی ہوتی ہیں.. بالکل اسی طرح ایک سورت کے تمام معانی آپس میں منظّم طور پر مرتّب ہوتے ہیں.. بلکہ جیسے انسانی جسم میں تمام اعضاء جُڑے ہوتے ہیں.. اسی طرح یہ معانی سورت میں مربوط ہوتے ہیں “. (النبأ العظيم،ص ١٥٥).
شیخ عبد اللہ دراز مرحوم کے اس بیان سے انکا رجحان بھی واضح طور پر امام فراہی سے موافقت رکھتا ہے.
3 : تیسری شخصیت دور حاضر میں علوم القرآن کے عظیم استاذ ڈاکٹر احمد حسن فرحات کی ہے.. انہوں نے نظمِ قرآن سے متعلق مختلف مفسرین کی آراء جمع کرنے کے بعد اسی موقف کی تائید کی ہے جسے اوّلاً امام فراہی نے پیش کیا اور بعد میں سید قطب اور شیخ عبد اللہ دراز وغيرہ نے بیان کیا.. چنانچہ اپنی کتاب “فی علوم القرآن – عرض و نقد و تحقيق” میں لکھتے ہیں کہ :
” امام فراہی نے نظمِ قرآن کا جو تصور پیش کیا ہے.. ہمارے نزدیک یہی راجح تَر ہے کیونکہ اس میں قرآنی حکمت و مقصد کا لحاظ سب سے بڑھ کر رکھا گیا ہے اور ہمارے پاس اسکے بہترین دلائل پیشِ نظر ہیں”. (فی علوم القرآن،ص ٩٠).

اس گفتگو سے سامنے آنے والی باتیں خلاصے کے طور پر ذیل میں درج کی جا رہی ہیں :
1 : ان تینوں اہلِ علم کی آراء سے امام فراہی کے ساتھ انکی موافقت ظاہر ہوتی ہے.
2 : ہم کہ سکتے ہیں کہ نظمِ قرآن سے متعلق امام فراھی جس موقف کے حامل ہیں.. یہ موقف اہل علم کی ایک جماعت کا اختیار ہے لہذا اس سے صرفِ نظر نہیں کی جا سکتی.
3 : اس موقف سے متعلق ہم جس نتیجے پر پہنچتے ہیں وہ یہ ہے کہ : نا تو یہ موقف دیگر مفسرین کے عام چلے آنے والے نظمِ قرآن کے تصور سے متصادم ہے اور نا ہی یہ وہ تصور ہے جو قدیم مفسرین کا رہا ہے بلکہ اسے ہم نظمِ قرآن کے تصور کی ارتقائی و انتہائی شکل قرار دے سکتے ہیں کیونکہ اس تصور میں بھی بنیاد “ربط” ہی ہے لیکن یہاں ربط کو ایک پورے نظام کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے.
4 : اس تحریر کے لئے بنیادی طور پر ڈاکٹر احمد حسن فرحات کی کتاب “فی علوم القرآن _ عرض و نقد و تحقيق” سے استفادہ کیا گیا ہے اور آپ نے اس مسئلے پر مفصل گفتگو کی ہے جسے اس کتاب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے.. انہوں نے امام فراہی کی تراث پر مزید کئی طرح کا کام کیا ہے جس میں امام فراہی کی تصنیف “جمهرة البلاغة” کی تحقیق بھی شامل ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خزیمہ ظاہری صاحب فیکلٹی آف اصولِ دین ، ڈیپارٹمنٹ آف حدیث ، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں