فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام کیسے ممکن ہوا؟ یہ ایک گہرے تاریخی مطالعے کا موضوع ہے اور مسلمان اہل علم ودانش کو اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس گہرے مطالعے کے بغیر تاریخ اور بین الاقوامی سیاست کی درست تفہیم ممکن نہیں۔
نائن الیون کے بعد ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر محمد فاروق خان شہید کے ساتھ مل کر ہم کچھ دوستوں نے طے کیا کہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر جیسے کچھ اہم ایشوز کی تاریخی اور سیاسی تفہیم کے حوالے سے کچھ چیزیں لکھنی چاہییں جن سے ان مسائل کو دیکھنے کا نسبتاً ایک معروضی تناظر پیدا ہو سکے۔ ڈاکٹر صاحب نے تو مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر کچھ تحریریں لکھ دیں جو ان کی کتابوں میں شامل ہیں۔ میں نے اس مطالعے کے دوران میں صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل کی کتاب ’’یہودی ریاست’’ دیکھی تو ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے۔ یہ ترجمہ تقریباً بیس سال قبل مکمل کر لیا گیا، لیکن نظرثانی اور اشاعت کی فرصت نہیں ملی۔ (ممکن ہے، اب اس کا کوئی ترجمہ مارکیٹ میں آ چکا ہو)۔
جدید اسرائیل کے قیام کی تاریخ صہیونی تحریک کے بغیر نامکمل ہے اور اس میں ہرزل کی یہ مختصر کتاب بنیادی دستاویز ہے جس میں مغربی طاقتوں کے سامنے اس تصور کو سیاسی اور تاریخی طور پر ایک قابل فہم اور قابل عمل تصور بنا کر پیش کیا گیا ہے، یعنی ایک باقاعدہ مقدمہ اسٹیبلش کیا گیا ہے کہ یہودی ریاست کا قیام خود یورپ کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں پوری طرح قابل عمل ہے۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ تو عام دستیاب ہے، لیکن کوشش کی جائے گی کہ اس کے بنیادی مقدمے کی ایک تلخیص یہاں بھی پیش کر دی جائے۔
ہرزل نے اپنی کتاب کو درج ذیل فصول میں تقسیم کیا ہے۔
1۔ مقدمہ (Introduction)
2۔ یہودی مسئلہ (The Jewish Question)
3۔ یہودی کمپنی (The Jewish Company)
4۔ مقامی گروہ (Local Groups)
5۔ مجلس یہود اور یہودی ریاست (Society of Jews & Jewish State)
6۔ خاتمہ یا نتائج بحث (Conclusion)
ان میں سے فصل سوم وچہارم موجودہ مطالعے کے لیے اتنی اہم نہیں، کیونکہ ان میں زیادہ تر ان عملی انتظامات کا مجوزہ نقشہ بیان کیا گیا ہے جو نئی ریاست میں یہودیوں کی اجتماعی نقل مکانی اور پھر ریاست کی تعمیر کے لیے کیے جائیں گے۔ زیادہ اہمیت پہلی دو اور آخری دو فصول کی ہے جن میں ہرزل نے ایک ترتیب کے ساتھ مسئلے کا تاریخی تعارف پیش کیا ہے، مجوزہ حل کے عملی امکانات پر بات کی ہے، متوقع اعتراضات کا جواب دیا ہے، مجوزہ ریاست کے سیاسی وقانونی خط وخال کی وضاحت کی ہے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اس ریاست کے قیام سے کیسے یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو سکتا ہے۔
کتاب کے مباحث سے واضح ہے کہ ہرزل کا روئے سخن بنیادی طور پر خود یہودیوں کی طرف ہے جو اس کے خیال میں تاریخی صورت حال کا درست تجزیہ نہیں کر پا رہے اور سستی یا کم ہمتی کی وجہ سے یا نسبتاً بہتر مواقع سے بہرہ ور بالائی یہودی طبقات کے زیراثر ان امکانات کی طرف توجہ نہیں دے رہے جو یورپی اقوام کی نئی صورت حال نے پیدا کر دیے ہیں۔ مسئلے کے دوسرے فریقوں مثلاً یورپی طاقتوں یا اس علاقے کے اہل حل وعقد کا تذکرہ جہاں مجوزہ ریاست عمل میں لائی جائے گی، اس کتاب میں ضمناً ہی ہوا ہے۔
ہرزل سب سے پہلے تو یہ واضح کرتا ہے کہ ’’یہودی مسئلہ’’ جو یورپ کو قرون وسطیٰ سے ورثے میں ملا ہے، بنیادی طور پر اب بھی (یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے) موجود ہے اور کسی بھی لحاظ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی سنگینی میں کوئی فرق واقع ہوا ہے۔
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
“ہم نے ہر جگہ اپنے آباؤ اجداد کے دین پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ نہایت خلوص سے ہمسایہ سماجی گروہوں کی معاشرتی زندگی میں گھل مل جانے کی کوشش کی ہے، لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہم مفت کے محب وطن اور وفادار ہیں اور ہماری وفاداری بعض مقامات پر انتہا کو بھی چھوتی رہی ہے۔ ہم اپنے ساتھی شہریوں کی طرح جان اور مال کی قربانیاں بھی بے کار دیتے رہے۔ اپنے قومی وطن کا نام سائنس اور آرٹ میں اجاگر کرنے اور اس کی دولت کو تجارت اور بزنس کے ذریعے سے بڑھانے کی کوششیں بھی ہم نے بے فائدہ کیں۔ جن ملکوں میں ہم صدیوں رہے، وہاں اب بھی ہمیں اجنبی سمجھ کر دھتکار دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے اکثر وہ ہوتے ہیں جن کے آباؤ اجداد بھی اس وقت اس ملک کے باسی نہیں تھے جہاں یہودی پہلے ہی اذیت کے تجربات سے دوچار ہو چکے تھے۔ اکثریت ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ اجنبی کون ہیں کیونکہ، قوموں کے مابین تعلقات میں اٹھنے والے دوسرے نکات کی طرح یہ بھی طاقت کا سوال ہے۔” (فصل اول، مقدمہ)
“یہودی مسئلہ ابھی تک موجود ہے۔ اس کا انکار کرنا حماقت ہوگی۔ یہ قرون وسطیٰ کی باقیات میں سے ہے جس کے اثرات سے مہذب دنیا کوشش کے باوجود اب تک اپنے آپ کو پاک کرنے کے قابل دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں [جبر اور امتیاز کی زنجیروں سے] آزادی دیتے وقت انہوں نے اس کوشش کا ایک مخلصانہ اظہار کیا تھا۔ یہودی مسئلہ ہر اس جگہ موجود ہے جہاں یہودی کسی بھی قابل لحاظ تعداد میں بستے ہیں۔ جہاں اس کا وجود نہیں ہے، وہاں سے ترک وطن کرنے والے یہودی اسے اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں۔ فطری طور پر ہم انہی علاقوں کی طرف جاتے ہیں جہاں ہم ایذا رسانی سے محفوظ ہوں، لیکن ہمارا وہاں جانا ہماری ایذا رسانی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ صورت حال ہر ملک میں ہے اور مثلاً فرانس جیسے اعلیٰ مہذب ملکوں میں بھی یوں ہی رہے گی جب تک کہ یہودی مسئلے کا سیاسی بنیادوں پر کوئی حل تلاش نہیں کر لیا جاتا۔” (فصل اول، مقدمہ)
اس ضمن میں ہرزل اس تاثر یا غلط فہمی کا خاص طور پر ازالہ کرتا ہے کہ جدید دور میں یورپ میں یہودیوں کی emancipation یعنی سیاسی وسماجی زندگی میں ان کی فعال شرکت کو قبول کرنے کا جو عمل ہوا ہے، اس سے یہودیوں سے نفرت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ ہرزل کا کہنا ہے کہ قرون وسطیٰ میں یہودیوں کے لیے سماجی سرگرمیوں کے میدان محدود کر دیے جانے (خصوصاً جائیداد رکھنے کے حق سے محرومی) کی وجہ سے قدرتی طور پر یہودیوں کا رجحان تجارت اور مالیاتی امور کی طرف ہو گیا اور ان میں ایک خاصا دولت مند طبقہ پیدا ہو گیا جو ہمیشہ ارد گرد کی قوموں کی نظر میں نفرت کا باعث بنتا رہا۔ نسلاً بعد نسل چلے آنے والے شعوری وغیر شعوری تعصب کی وجہ سے، جدید دور میں سیاسی وسماجی زندگی میں یہودیوں کا کسی بھی پہلو سے نمایاں ہونا، اور خاص طور پر مالیاتی امور میں امتیاز حاصل کرنا ان سے نفرت کو کم نہیں کرتا، بلکہ الٹا اس تعصب اور نفرت کو دوبارہ انگیخت کرنے کا ذریعہ بن جاتا ہے اور جدید قانون اپنے شہریوں کو جو تحفظ فراہم کرتا ہے، اس کی وجہ سے یہودیوں کے خلاف نفرت مزید شدت اختیار کر لیتی ہے۔
اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
“جدید سامی مخالف تحریک کو پرانے وقتوں میں یہودیوں کے خلاف مذہبی ایذا رسانی کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ ملکوں میں بعض اوقات یقینا یہ ایک مذہبی جانب داری کی شکل اختیار کر لیتی ہے لیکن اس جارحانہ تحریک کا مرکزی بہاؤ اب بدل چکا ہے۔ ان مرکزی ممالک میں جہاں سامی مخالف تحریک کا غلبہ ہے، وہ یہودیوں کو سیاسی وقانونی حقوق دینے (emancipation) کے نتیجے میں ہے۔ جب مہذب اقوام میں ہمارے خلاف امتیازی قوانین کے غیر انسانی ہونے کا احساس ہوا اور انہوں نے ہمیں حقوق دینے کا فیصلہ کیا تو یہ اقدام بہت تاخیر سے کیا گیا۔ اپنی پرانی آبادیوں میں رہتے ہوئے جو نقائص ہمارے اندر پیدا ہو چکے تھے، ان کو ختم کرنا اب ممکن نہیں رہا تھا۔ کیونکہ، حیرت انگیز طور پر، الگ تھلگ آبادیوں (ghettos) میں رہتے ہوئے ہم بورژوا طبقے میں بدل چکے تھے اور وہاں سے نکل کر ہمیں یک دم درمیانہ طبقات کے ساتھ ایک سخت مقابلے میں شریک ہونا پڑا۔ اس طرح سماجی زندگی میں ہماری شمولیت نے ہمیں اچانک ان درمیانہ طبقات کے اندر گھسیڑ دیا جہاں بقا کے لیے ہم پر اندرونی اور بیرونی، دوہرا دباؤ تھا۔” (فصل دوم، یہودی مسئلہ)
“یہودیوں پر ہاتھ نہ ڈال سکنے کی اس صورت حال سے ہی ان کے خلاف نفرت اور تلخی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سامی مخالف جذبات ہر دن بلکہ ہر لمحہ قوموں کے مابین بڑھ رہے ہیں اور حقیقتاً ان کا بڑھنا ناگزیر ہے کیونکہ اس کے بڑھنے کی وجوہ مسلسل موجود ہیں اور ان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی تاریخی وجہ تو یہ ہے کہ قرون وسطیٰ میں ہم اختلاط کی طاقت کھو بیٹھے، جبکہ فوری سبب یہ ہے کہ ہم نے درمیانی سطح کی ذہانتیں بہت زیادہ پیدا کی ہیں جنہیں اوپر یا نیچے کسی بھی جانب اپنی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کاموقع نہیں ملتا۔” (فصل دوم، یہودی مسئلہ)
“عام لوگ نہ تو تاریخی امور کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ وہ رکھ سکتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ قرون وسطیٰ کے گناہوں کی سزا اب یورپ کے لوگوں کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ ہم وہ ہیں جو ghettos نے ہمیں بنایا۔ ہم نے مالیاتی امور میں امتیاز حاصل کیا ہے کیونکہ قرون وسطیٰ کے حالات نے ہمیں اس پر مجبور کر دیا۔ یہی پروسس اب دہرایا جا رہا ہے۔ دیگر معاشی سرگرمی کی دوسری شاخوں سے ہمیں باہر رکھ کر اب پھر ہمیں مالیاتی امور میں، جو آج کل سٹاک ایکس چینج ہے، دھکیلا جا رہا ہے۔ سٹاک ایکس چینج میں ہونے کے نتیجے میں ہمیں ازسرنو نفرت کا سامنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہم متوسط درجے کی ذہانتوں کو بھی مسلسل پیدا کر رہے ہیں جن کو صلاحیتوں کے اظہار کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ یہ امر بھی اسی طرح ہماری معاشرتی پوزیشن کو خطرے میں ڈالتا ہے جیسا کہ ہماری دولت ڈالتی ہے۔ وسائل سے محروم تعلیم یافتہ یہودی اب تیزی سے سوشلسٹ بنتے جا رہے ہیں۔ چنانچہ طبقات کی باہمی کش مکش میں ہمارا شدید تکلیفیں اٹھانا یقینی ہے کیونکہ ہم سرمایہ داروں اور اشتراکیوں دونوں کے کیمپوں میں سب سے نمایاں پوزیشن میں کھڑے ہیں۔” (فصل دوم، یہودی مسئلہ)
کمنت کیجے