Home » متکلمین و اصولیین کے ہاں قطعیت کے دو تصورات
اسلامی فکری روایت زبان وادب کلام

متکلمین و اصولیین کے ہاں قطعیت کے دو تصورات

امام رازی رحمہ اللہ اور بعض دیگر اصولیین کی رائے یہ ہے کہ دلائل نقلیہ (linguistic         proposition) ظنی (یعنی گمان غالب کا فائدہ دینے والے) ہوتے ہیں نہ کہ قطعی، الا یہ کہ ان کے ساتھ قطعیت کا فائدہ دینے والے امور متصل ہوں جیسے کہ تواتر۔ امام رازی کی بات سمجھنے کے لئے ان کا تصور قطعیت و ظنیت سمجھنا لازم ہے۔ یہاں ظنی سے مراد وہ قضیہ (proposition) ہے جو ایسے طریقہ علم سے حاصل ہو جو اپنی ذات کے اعتبار سے احتمال کو قبول کرنے والا ہو۔ اس احتمال کی بنا پر کسی نئی یا دیگر معلومات کی وجہ سے اس طریقہ علم سے حاصل شدہ علم میں اضافے یا تبدیلی کا امکان ہوتا ہےاور اسی بنا پر یہ دعوی وجوہات ترجیح پر معلق رہتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے قطعی علم وہ ہے جو سرے سے احتمال و بہتری کے امکان وغیرہ کو قبول ہی نہ کرے۔ قطعی و ظنی کے اس معنی میں اہم بات یہ نہیں کہ:

• آیا کسی معین یا خاص قضئے کے خلاف فی الوقت کوئی احتمال موجود ہے یا نہیں،

• نیز فریقین کے ذہن میں اس کے خلاف کوئی دلیل آرہی ہے یا نہیں،

• اور نہ ہی یہاں یہ بات اہم ہے کہ کسی دلیل سے دوسری امکانی رائے کو غلط یا کمزور ثابت کیا جاسکتا ہے یا نہیں،

بلکہ ظنی ہونے کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ وہ معین دعوی جس طریقہ استدلال سے تعلق رکھتا ہے وہ از خود احتمالات قبول کرنے والا ہے۔ اس کی مثال استقراء (induction) ہے جو اپنی ذات کے اعتبار سے اس امکان کو قبول کرتا ہے کہ کسی نئے مشاہدے (یا جہت استنباط کی تبدیلی) کے بعد پہلے حاصل شدہ اصول یا علم میں کچھ تبدیلی آجائے، اگرچہ اب تک کے مشاہدے میں اس اصول کے خلاف کوئی شہادت موجود نہ ہو۔ یہ اصولی بات کہ استقرا اس تبدیلی کے امکان کو قبول کرتا ہے، یہ ہر استقرائی دعوے کے ظنی ہونے کے لئے کافی ہے اور کسی معین دعوے کے خلاف کوئی معین دلیل لانا ضروری نہیں رہتا۔ جو قضیہ اصولاً احتمال کا حامل ہو، اس سے حاصل شدہ کسی معین قضیے کے خلاف کسی دلیل کو پیش نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسی دلیل موجود ہی نہیں یا ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ “عدم دلیل کو عدم وجود ” کے ہم معنی فرض کرلینا ہے جو غلط ہے۔ امام رازی جس قطعیت کی بات کرتے ہیں اس پر علم بدیہی و علم ضروری اور ان کے لوازمات (جیسے کہ “میں موجود ہوں” ، “اجتماع ضدین محال ہے” ، “ایک ہی وقت میں ایک ہی جسم دو مکانات میں ہونا محال ہے” وغیرہ) کے سوا کوئی چیز پوری نہیں اترتی اور یہ امور از خود اپنی دلیل ہیں۔ قطعیت کے اس تصور کے حامل اصولیین کا کہنا ہے کہ دلائل نقلیہ دس امور کا احتمال رکھتے ہیں (ان کی تفصیل سے یہاں سہو نظر کیجئے) اور اس بنا پر یہ اصولاً محتمل ہیں۔

اس کے برعکس اصولیین کے ہاں قطعیت و ظنیت کا دوسرا مفہوم بھی پایا جاتا ہے جس کی رو سے قطعی قضیہ دو قسم کا ہوتا ہے:

1۔ وہ جو سرے سے نقیض کا احتمال ہی قبول نہ کرے

2۔ وہ جو ایسا احتمال تو رکھتا ہو لیکن اس کے خلاف کوئی ایسی قابل ذکر دلیل موجود نہ ہو جو لائق التفات ہو۔ پس جب تک کسی معین قضئے کے خلاف کوئی لائق التفات معین دلیل پیش نہ کی جائے اس وقت تک وہ قطعی ہی رہے گا

اس دوسری تعریف کی رو سے کوئی قضیہ اگرچہ ایک ایسے طریقہ علم سے حاصل شدہ ہو جسے اصولاً احتمال لاحق ہوسکتے ہیں، تاہم محض احتمال لاحق ہونے کا امکان اس طریقے سے حاصل کردہ ہر قضئے کو ظنی ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں۔ اس تعریف کے حاملین کے مطابق ہر لسانی قضئے کو الگ الگ جانچا جائے گا، جس کے خلاف معنی کے لئے لائق التفات و مضبوط دلیل و قرینہ موجود ہوگا وہ ظنی کہلائے گا اور جس کے خلاف موجود نہ ہو وہ قطعی کہلائے گا۔ رہی یہ بات کہ مجتہد کی اس تلاش و بسیار کا حاصل بالاخر “عدم دلیل عدم وجود” پر منتج ہوتا ہے (یعنی پوری کوشش کے باوجود اسے کوئی مخالف دلیل نہیں مل سکی)تو یہ اعتراض قطعیت کے دوسرے مفہوم کے خلاف نہیں۔ بعض اصولیین قطعیت کی اس کیفیت کو یقین کے بجائے “اطمینان” یا “اعتقاد جازم” کہتے ہیں۔

غور کیجئے کہ امام رازی کی قطعیت کی تعریف درجات کو قبول نہیں کرتی، ان کے ہاں قطعیت کے درجے پر فائز قضیہ صدق کا حامل ہوتا ہے اور یا نہیں ہوتا، وہ متعدد امکانات میں سے کسی ایک جانب کی زیادہ و کم ترجیح سے جنم لینے والے درجات یقین کو قبول نہیں کرتا۔ اس کے برعکس دوسری رائے کے حاملین جس قطعیت کی بات کررہے ہیں وہ درجات یقین اور زیادہ و کم ترجیح کو قبول کرنے والی ہے۔ پس دوسری رائے کے حاملین بعض کو قطعی و بعض کو ظنی نیز بعض قطعی کو بعض کے مقابلے میں زیادہ و کم قطعی کہیں گے (اسی تعریف کی بنا پر احناف کے نزدیک محکم، مفسر، نص و ظاہر سب درجہ بدرجہ قطعی ہیں)۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں