علی حمزہ افغان
ربیع الآخر میں عموماً حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا یوم وصال بہت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے اور بہت سے مسلمان جن کا تعلق تصوف اور سلاسل تصوف بالخصوص طریقہ قادریہ سے ہے وہ حضرت قدس سرہ کا تذکرہ پر مختلف مجالس کا انعقاد کرتے ہیں مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو حضرت شیخ کی اصل تاریخی شخصیت سے واقف ہوں گے بلکہ عموماً بے بنیاد روایات اور قصوں کے ذریعے آپ کی شخصیت کو پیش کیا جاتا ہے جس سے باشعور افراد حضرت رحمہ اللہ کی شخصیت سے متاثر نہیں ہو پاتے ، سچ تو یہ ہے کہ وہ شیخ عبدالقادر جیلانی جو زبان زد عام ہیں وہ اس تاریخی شیخ عبدالقادر جیلانی سے بہت مختلف ہیں، تاریخی عبدالقادر جیلانی ایک بلند پایہ اثری حنبلی فقیہ ، مفسر قرآن اور روحانی رہنما تھے جن کے اثرات نے نہ صرف حنابلہ کو متاثر کیا بلکہ پورے معاشرے پر آپ کے بہت سے مفید اثرات مرتب ہوئے یہاں تک کہ صلیبی جنگوں بالخصوص فتح بیت المقدس میں سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کے لشکر میں آپ کے کئی نامور تلامذہ نے شرکت کی۔ لہٰذا میں نے یہ چاہا کہ مستند تاریخی ذرائع کی روشنی میں آپ رحمہ اللہ کی شخصیت کا ایک تعارف قارئین کے سامنے لایا جائے۔ حضرت شیخ قدس سرہ کے حالات زندگی کے بارے میں سب سے مستند مآخذ امام ذہبی رحمہ اللہ کی “سیر اعلام النبلاء” اور امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ کی “ذیل طبقات الحنابلہ” ہیں ، لہٰذا میں انہی سے حضرت کے حالات زندگی اجمالا ذکر کروں گا۔
تعارف :
امام ذہبی آپ رحمہ اللہ کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں :
الشَّيْخُ، الإِمَامُ، العَالِمُ، الزَّاهِدُ، العَارِفُ، القُدْوَةُ، شَيْخُ الإِسْلاَمِ، عَلَمُ الأَوْلِيَاءِ، مُحْيِي الدِّينِ، أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ القَادِرِ ابنُ أَبِي صَالِحٍ عَبْدِ اللهِ بنِ جنكِي دَوَّسَتْ الجِيْلِيُّ ، الحَنْبَلِيُّ، شَيْخُ بَغْدَادَ.
(سیر اعلام النبلاء : ۴۳۹/۲۰، ط : الرسالہ)
نسب :
آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کا نسب ذکر کیا جاتا ہے کہ امام حسن مجتبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملتا ہے۔
ابن رجب نے آپ کا نسب اس طرح ذکر کیا ہے :
عَبْدُ القَادِرِ بْنِ أَبِي صَالِحِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَنْكِي دَوْست بنِ أَبِي عَبْدِ اللهِ بْن عَبْدِ اللهِ ابْنِ يَحْيَى الزَّاهِدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ بْنِ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُوسَى الجَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الحَسَنِ المُثَنى بْنِ الحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ
(ذیل طبقات الحنابلہ: ۱۸۹/۲، ط : العثیمن)
ذیل طبقات الحنابلہ کے محقق علامہ عبدالرحمن بن سلیمان العثیمن لکھتے ہیں کہ اس نسب کا دعویٰ شیخ عبدالقادر جیلانی کے پوتے نصر بن عبدالرزاق بن عبدالقادر (ت ۶۳۳ ہ) نے کیا تھا جو بغداد میں قاضی القضاة کے عہدے پر تھے مگر ان کے اس دعویٰ کی ہاشمیوں کے نقباء نے بڑی سختی سے مخالفت کی اور اس دعویٰ کو رد کردیا کیونکہ حضرت شیخ کا تعلق فارس سے تھا لہٰذا شیخ ابونصر نے حیا کی وجہ سے لوگوں سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس بارے میں اشعار بھی کہے۔
(حاشیہ ذیل طبقات الحنابلہ: ۱۸۹/۲)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ کا سید ہونا اتفاقی بات نہیں البتہ مشہور یہی ہے کہ آپ حسنی سید تھے، مگر اس سب سے آپ کی بلند شخصیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ بالآخر انسان کی شخصیت اسکے علم، عمل اور کارناموں سے ہوتی ہے نہ کہ محض نسب سے۔
ولادت :
آپ کی ولادت سن ۴۷۱ ہجری میں جیلان میں ہوئی جو طبرستان کے پاس ایک علاقہ ہے۔
(سیر اعلام النبلاء: ۴۳۹/۲۰)
تعلیم :
آپ جوانی میں ہی بغداد آگئے تھے اور وہاں آپ نے مشہور حنبلی عالم دین ابی سعد المخرمی سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں : ابی غالب الباقلانی، احمد بن المظفر بن سوس، ابی القاسم بن بیان، جعفر بن احمد السراج، ابی سعد بن خشیش اور ابی طالب الیوسفی وغیرہ شامل ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: ۴۴۰/۲۰)
ابن رجب لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ آپ نے ابن عقیل اور قاضی ابی الحسین سے بھی علم حاصل کیا اور مذہب حنبلی کے اصول و فروع میں پختگی حاصل کی۔ اسکے علاوہ آپ رحمہ اللہ نے شیخ حماد الدباس الزاہد کی بھی صحبت اختیار کی۔
(ذیل طبقات الحنابلہ : ۱۹۰/۲)
تدریس :
حصول تعلیم کے بعد آپ نے اپنے شیخ ابوسعید المخرمی کے مدرسے میں پڑھانا شروع کردیا اور اپنی وفات تک یہ سلسلہ جاری رکھا، وصال کے بعد آپ دفن بھی اسی مدرسے میں ہوئے۔
امام ابن الجوزی کہتے ہیں کہ یہ ایک چھوٹا سا مدرسہ تھا ، جب یہ شیخ عبدالقادر کے سپرد ہوا تو آپ نے اس میں وعظ کا آغاز کیا اور لوگوں میں آپ کے زہد کا چرچا ہوا تو یہ مدرسہ درس کے وقت لوگوں سے بھر جاتا تھا۔
حافظ ابن رجب کہتے ہیں کہ جب شیخ عبدالقادر جیلانی وعظ کے لئے بیٹھنا شروع ہوئے تو لوگوں میں آپ بہت مشہور ہوئے، لوگوں آپ کی دینداری اور نیکی کے قائل ہوگئے ، اور لوگوں کو آپ کے کلام اور وعظ سے بہت فائدہ ہوا، آپ کے احوال، کرامات اور مکاشفات بہت مشہور ہوئے اور بادشاہوں پر آپ کی ہیبت قائم ہوگئی۔
(ذیل طبقات الحنابلہ: ۱۹۱/۲)
تلامذہ :
آپ کے بہت شاگرد ہوئے مگر دو ایسے مشہور تلامذہ ہیں جو علم و عمل کی بلندیوں پر فائز ہوئے، شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ مشہور حنبلی فقیہ اور “المغنی “جیسی فقہ اسلامی کے انسائکلوپیڈیا کے مؤلف امام موفق الدین ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ اور مشہور و معروف محدث اور “عمدة الاحكام “ جیسی احادیث احکام کے مجموعے کے مؤلف امام عبدالغنی المقدسی رحمہ اللہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے، چنانچہ شیخ موفق الدین نے آپ سے فقہ حنبلی کا متن “ مختصر الخرقی” اور شیخ عبدالغنی نے آپ سے فقہ حنبلی کی کتاب “ الہدایہ” پڑھی۔
(سیر اعلام النبلاء: ۴۴۲/۲۰)
آپ کا عقیدہ :
آپ رحمہ اللہ عقیدہ میں بہت پکے اثری تھے اور اپنے امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے طریقے کی پیروی کرتے تھے۔
شیخ ابوبکر العماد کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت شیخ رحمہ اللہ کو فرماتے ہوئے سنا: “ہمارا عقیدہ وہی ہے جو سلف الصالح اور صحابہ کا تھا۔”
(سیر اعلام النبلاء : ۴۴۲/۲۰)
کرامات :
امام ابن قدامہ المقدسی کہتے ہیں : میں نے کسی کی بھی کرامات اتنی نہیں سنی جتنی شیخ عبدالقادر کی ذکر کی گئی ہیں ۔
(ذیل طبقات الحنابلہ: ۱۹۲/۲)
امام عز بن عبدالسلام کہتے ہیں : کسی کی بھی کرامات متواترا نقل نہیں ہوئی سوائے شیخ عبدالقادر کے۔
(سیر اعلام النبلاء : ۴۴۳/۲۰)
امام ذہبی کہتے ہیں : اکابر مشائخ میں کوئی ایسا نہیں جسکے احوال و کرامات شیخ عبدالقادر جیلانی سے زیادہ نقل ہوئے ہوں مگر ان میں سے بہت چیزیں صحیح نہیں اور کچھ تو ناممکن ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء : ۴۵۰/۲۰)
تعلیمات :
آپ رحمہ اللہ قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامنے، فرائض کے پابندی کرنے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی تعلیم دیتے تھے جو آپ کی تصانیف جیسا کہ “غنیہ الطالبین “ اور “ فتوح الغیب” سے ظاہر ہیں۔
آپ رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: “مخلوق تیرا تیرے نفس سے حجاب ہیں اور تیرا نفس تیرے رب سے تیرا حجاب ہے۔”
(سیر اعلام النبلاء : ۴۵۰/۲۰)
تصانیف :
امام ابن رجب لکہتے ہیں : شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا توحید، صفات، تقدیر اور سنت کے موفق علوم کے بارے میں کافی اچھا کلام موجود ہے، اور آپ کی تصانیف میں “الغنیہ لطالبی طریق الحق “ اور “فتوح الغیب” ہیں۔
(ذیل طبقات الحنابلہ: ۱۹۹/۲)
وفات:
شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ کا وصال ۹۰ برس کی عمر میں ۱۰ ربیع الآخر سن ۵۶۱ ہجری میں ہوا اور آپ کو آپکے مدرسے میں دفن کیا گیا جو بغداد میں ہے۔
(سیر اعلام النبلاء : ۴۵۰/۲)
اللہ تعالیٰ کی آپ پر رحمت ہو ۔
کمنت کیجے