گل رحمان ہمدرد
غامدی صاحب نے مقامات میں دبستانِ شبلی کے بارے بتایا ہے کہ اس کے دو اساسی اصولوں میں سے ایک اصول یہ تھا کہ دین کی حقیقت جاننے کےلیۓ ہمیں پیچھے کی طرف جانا ہوگا ”یہاں تک کہ اُس دور میں پہنچ جاٸیں جب قران اتر رہا تھا اور جب خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں سے مخاطب تھا“۔ڈاکٹر خضریاسین صاحب کاموقف بھی بعینہ یہی ہے۔اسی کو وہ ”نبوت کماھٸ“ سے تعبیر کرتے ہیں جس کے دو مظاہر ہیں ; کتاب وسنت۔ سنت گنتی کے چند اعمال ہیں ۔جبکہ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔غامدی صاحب اور خضریاسین صاحب دونوں ہی کا یہ موقف ہے کہ کتاب وسنت دونوں امت کے تواترعملی سے منتقل ہوۓ ہیں۔خضریاسین صاحب قرآن کی تفہیم(Understanding) کے قاٸل ہیں جبکہ قرآن کی تفسیر (Exegesis) لکھنے کے خلاف ہیں ۔کیونکہ ان کے بقول قران اپنی فصاحت و بلاغت میں کامل ہے۔ وہ یہ چھبتا ہوا سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا خدا کی کتاب انسانی وضاحت کی محتاج ہے؟اور پھر جواب دیتے ہیں کہ ”نہیں,خدا کی کتاب اپنے ابلاغ میں کامل ہے,لہذا یہ انسانی وضاحت وتفسیر کی محتاج نہیں“۔غامدی صاحب تفسیر ( Exegesis)کو ہی قرآن کی تفہیم (understanding)سمجھتے ہیں جبکہ خضریاسین کا موقف ہے کہ تفہیمunderstanding اور تفسیر Exegesis دو مختلف کام ہیں۔تفسیر متن کے نقصِ ابلاغ کو دور کرنے کےلیۓ کی جاتی ہے جبکہ تفہیم ذہن کے نقص ادراک کو دور کرنے کا عمل ہے۔تفہیم اصل میں متن کے ادراک کا ذہنی عمل(Mental activity ) ہے جبکہ تفسیر متن کی توسیع کا خارجی عمل(External activity) ہے جو ذہن سے نہیں بلکہ متن سے متعلق ہواہے۔ان کے بقول کوٸ بھی متن قابل تفسیر و قابل تشریح اس وقت بنتا ہے جب کوٸ بات متن میں چھوٹ گٸ ہو یا متن مبہم ہو یا متن میں تعقید ہو۔اسی طرح متن میں جو بات مختصرا“ بیان ہوٸ ہے تفسیر اس کی تفصیل بیان کرنے کا عمل ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مختصر ہے لیکن تفسیر لکھے والوں نے چھ چھ,اٹھ اٹھ ,دس دس ,بیس بیس اور تیس تیس جلدوں پر محیط تفاسیر لکھ ڈالی ہیں۔یہ تفاسیر کیوں پھیل رہی ہیں؟خضریاسین کے نزدیک اسکی وجہ یہ ہے کہ مفسرین خود کو قرآن کی تفہیم کے عمل تک محدود نہیں رکھتے ۔
تفہیم اور تفسیر میں ایک بنیادی فرق ان کے نزدیک یہ ہے کہ تفہیم میں کتاب کا قاری مصنف کے زاویہ نظر کو فالو کرتا ہے جبکہ تفسیر مصنف کے زاویہ نظر کو فالو کرنے کے بجاۓ متن کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھنے کا نام ہے۔جب قاری کا زاویہ نظر مصنف کے زاویہ نظر سے مختلف ہو تو قاری کےلیۓ متن کا مفہوم بدل جاتا ہے۔تفسیر ہمیشہ کسی نہ کسی زاویہ نظر سے ہی لکھی جاتی ہے۔زاویہ نظر کے بغیر کسی متن کی تفسیر کبھی ممکن نہیں ہوتی۔قرآن کا زاویہ نظر توحید ,تزکیہ نفس,عمل صالح اور نجات آخرت پر مبنی ہدایت کا زاویہ نظر ہے۔یہ زاویہ نظر قرآن کی تمام مکی سورتوں میں مختلف انداز سے بیان ہوا ہے۔اسی زاویہ نظر سے رسول اللہ ص نے اپنے صحابہ کو قرآن کی تعلیم دی تھی اور یہی قرآن سے ہدایت اخد کرنے کا درست زاویہ نظر ہے جس کی طرف جدید زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد , مولانا وحید الدین خان,جاوید احمد غامدی اور ڈاکٹر خضریاسین سمیت متعدد اہل علم نے امت مسلمہ کو متوجہ کیا۔ہمارے مفسرین قرآن کے زاویہ نظر سے قرآن کو سمجھنے کے بجاۓ پہلے اپنا فقیہانہ,صوفیانہ,فلسفیانہ,سیاسی وعمرانی,لسانیاتی(فراہی والا),ساٸنسی یا فرقہ وارانہ زاویہ نظر اپناتے ہیں اور پھر قران میں داخل ہوکر قران کے متن پر جبر کرکے اسے اپنے زاویہ نظر کے حق میں ڈھالتے ہیں۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بناسکتے ہیں پاژند
ہماری پوری تاریخ میں یہی ہوتا آیا ہے۔بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے قران کو خود قران ہی کے زاویہ نظر سے دیکھا اور متن سے بالجبر اپنا نظریہ ثابت کرنے کے بجاۓ متن کی تفہیم پر توجہ دی۔امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن کے دیباچہ میں رقم طراز ہیں کہ:
” کامل 27برس سے “قرآن” میرے شب و روز کے فکر و نظر کا موضوع رہا ہے۔ اس کے ایک ایک سورت، ایک ایک مقام، ایک ایک آیت، ایک ایک لفظ پر میں نے وادیاں قطع کی ہیں اور مرحلوں پر مرحلے طے کیے ہیں۔ تفاسیر و کتب کا جتنا مطبوعہ و غیر مطبوعہ ذخیرہ موجود ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ اس کا بڑا حصہ میری نظر سے گزر چکا ہے۔ اور علوم قرآن کے مباحث و مقالات کا کوئی گوشہ نہیں جس کی طرف سے حتی الوسع ذہن نے تغافل اور جستجو نے تساہل کیا ہو۔”
قرآن پر ستاٸیس برس کے تدبر کے بعد قرآن پر لکھی گٸیں تفاسیر کے بارے میں اُن کی راۓ یہ بنی کہ:
” اسلام کی ابتدائی صدیوں سے لےکر قرونِ اخیرہ تک جس قدر مفسِر پیدا ہوئے، ان کا طریق تفسیر ایک روبہ تنزل معیارِ فکر کی مسلسل زنجیر ہے۔۔۔اب اگر ہم چاہتے ہیں کہ قرآن کو اس کی حقیقی شکل و نوعیت میں دیکھیں، تو ضروری ہے کہ پہلے وہ تمام پردے(تفاسیر) ہٹائیں جو مختلف عہدوں اور مختلف گوشوں کے خارجی موثرات نے اس کے چہرے پر ڈال دیے ہیں۔ پھر آگے بڑھیں، اور قرآن کی حقیقت خود قرآن ہی کے صحفوں میں تلاش کریں۔”
مولانا آزاد کا یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اگر قران کو سمجھنا ہو قران کی حقیقت خود قران کے صفحات میں تلاش کرو نہ کہ تفاسیر میں۔تفاسیر نے قران کے چہرے پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
آگے امام الہند نے تفسیر بالرائے یعنی اپنی فکر کے مطابق قرآن کو پیش کرنے پر سخت نقد کیا ہے اور مفسرین کی یہی بہت بڑی کوتاہی شمار کی ہے۔یعنی مفسرین نے بجاۓ یہ دیکھنے کے کہ قران کیا کہتا ہے ,یہ دیکھا کہ ہمارے زاویہ نظر اور نظریہ بے مراد کےلیۓ قران کی کس آیت سے استدلال کیا جاسکتا ہے؟۔یوں قران کو فقہا و متکلمین و صوفیاء اور مختلف فرقوں کے جدید و قدیم مفسرین نے بازیچہ اطفال بنا دیا۔
مارچ1940میں مولانا ابوالکلام آزاد نےترجمہ وتفسیر کی وجودی حیثیت پر نقد کرتے ہوۓ لکھا کہ:
”قرآن کا کوٸ بھی ترجمہ وتفسیر ایسی نہیں ہے جو قرآن کے صحیح مقصد اور اسپرٹ کو واضح کرسکے“
( بحوالہ افاداتِ آزاد,صفحہ 49,سنِ تحریر 25 مارچ 1940)
غالبا“ یہی وجہ ہے کہ ترجمان القرآن کی تیسری جلد لکھنے میں ابوالکلام نے کوٸ خاص دلچسپی نہیں دکھاٸ۔چند منتشر اوراق انہوں نے لکھے تھے لیکن ان کو بھی محفوظ کرنے کا کوٸ خاص انتظام انہوں نے نہ کیا ۔ابوالکلام نے مسلمانوں کو یہ نصیحت کرکے کہ وہ قرآن کی حقیقت کو تراجم وتفاسیر کے بجاۓ خود قرآن کے اپنے صفحات میں تلاش کریں اور ترجمان القرآن کی آخری جلد نہ لکھ کر خود کو خضریاسین کی تنقید سے بچا لیا ہے۔
خضریاسین کا موقف ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے لوگوں کو یہ دعوت دے کر کہ قرآن کی حقیقت کو خود ترجمہ وتفسیر کے بجاۓ خود اس کے اپنے صفحات میں تلاش کرو,سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے۔
غامدی صاحب اور خضریاسین صاحب دونوں اس بات پر بھی متفق ہیں کہ قران قطعی الدلالہ ہے۔لیکن غامدی صاحب قطعی الدلالہ کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ کلام کثرتِ معنی کا متحمل نہ ہو جبکہ خضریاسین کے نزدیک جو کلام قطعی الدلالہ ہو اس میں دوصفات لازماََ موجود ہوں گی ۔
١۔کلام کثرتِ معنی کا متحمل نہ ہو ۔یعنی اسکا ایک ہی مطلب ہو۔
٢۔کلام کا مطلب اتنا واضح ہو کہ وہ کلام محتاجِ تفسیر و تفصیل وتوضیح وتشریح نہ ہو۔
ان کے مطابق قران مجید قطعی الدلالہ ہے۔متشبھات میں نہ الجھنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔جبکہ محکمات نہ کثرت معنی کی متحمل ہیں اور نہ ہی محتاجِ تفسیر وتشریح۔۔۔۔۔انسانی دماغ اگر آیت کے حقیقی معنی تک نہ پہنچ سکے اور ایک غلط معنی سمجھ بیٹھے تو اسے غلط فہمی کہا جاتا ہے۔اور غلط فہمی کو دور کرنا ہر سماج میں ایک علمی ضرورت تسلیم کی جاتی ہے۔اسی کے لیۓ نظامِ تعلیم وضع کیا جاتا ہے۔
خضریاسین صاحب غامدی صاحب سے اس ضمن میں تین بنیادی سوالات پوچھتے ہیں۔
١۔پہلا سوال یہ ھے کہ کتاب سنت اپنی “اصل حالت” میں محفوظ ھیں یا نہیں ؟
اگر آپ اسے محفوظ سمجھتے ہیں ہیں تو پھر ان اگلا سوال یہ ہے کہ
٢۔کیا قرآن انسان کےلیۓ قابلِ تفہیم ہے یا نہیں؟اگر قابلِ تفہیم ہے تو پھر تفسیروں کی ضرورت کیا ہے؟اور آپ اسے قابلِ تفہیم نہیں سمجھتے تو اسکی تفسیر وتفصیل وتوضیح وتوسیع وتشریح ضروری چیز بن جاتی ہے۔لیکن پھر ایک اگلا سوال ہے کہ
٣۔ اگر قران انسانی تفسیر و تشریح کے بغیر قابلِ فہم نہیں ہے تو نبی کریم ص اور ان کے اصحاب میں سے کسی نے اسکی تفصیلی تحریری تفسیر کیوں نہ لکھی؟۔ہمارے پاس خضریاسین کے اس سوال کا کوٸ ٹھوس جواب موجود نہیں ہے۔
خضریاسین کا یہ سوال بھی بجاہے کہ کیا
ہدایت مھتدی کی وضاحت وتفسیر وتفصیل کی محتاج ہوتی ہے؟یامھتدی کاکام صرف تفہیم وتعمیل ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ ثانی الذکر کام ہی مھتدی کا ہے اولذکر کام نہیں ۔یہی سوال مبشر زیدی نے یوں اٹھایا ہے”کیا خدا کا کلام انسانی وضاحت کا محتاج ہے؟“۔پھر اسکا جواب دیتے ہوۓ لکھا کہ ”خدا کے کلام کی وضاحتوں کے انسانی دلائل، بصد معذرت، کافی احمقانہ ہوتے ہیں۔
ان دلائل کو پڑھ سن کر احساس ہوتا ہے کہ، نعوذ باللہ، خدا کو پوری بات کہنا نہیں آتی تھی۔
دراصل، چوں کہ، چناں کہ، اگرچہ، حالاں کہ، وغیرہ وغیرہ کی کمی رہ گئی تھی جو ان حضرات کو مکمل کرنا پڑتی ہے۔
خدا کے کلام کی وضاحت گویا اس کے کلام میں اضافہ ہے جو کوئی انسان نہیں، چھوٹا موٹا خدا ہی کرسکتا ہے“۔اسی دعویٰ خداٸ کو خضریاسین مفسر کی ”بقراطیت“ سے تعبیر کرتے ہیں۔
یوں قرآن اور اسکی تفسیر سے متعلق دو طاقت ور نظریات سماج میں عام ہیں;ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ تفسیر ضروری ہے جبکہ دوسری طرف ڈاکٹر خضریاسین اور ان کے پیروکار ہیں جو قرآن کی تفہیم [درست زاویہ نظر کے ساتھ متن فوکسنگ انڈرسٹنڈِنگ] کے تو حامی ہیں لیکن تفسیر[غلط زاویہ نظر کے ساتھ ماوراۓ متن انڈرسٹنڈِنگ]کے مخالف ہیں۔ان دونوں نقطہ ہاۓ نگاہ کا اظہار دو شعرا ٕ کے اشعار میں یوں ہوا ہے
تفسیر کے حق میں عارف امام کا شعر ہے:
مجمعِ عام ہو, آیات کی تشہیر نہ ہو
کیسے ممکن ہے کہ قرآن ہو, تفسیر نہ ہو
تفسیر کی مخالفت میں ادریس آزاد کا شعر ہے:
معنیِ صُحفِ مُبین صاف ہیں شیشے کی طرح
بات مُبہم ہو تو تفسیر لکھی جاتی ہے۔
تفہیم کیا ہے؟ کسی متن کو ویسے ہی سمجھنا جیسا کہ مصنف کا مدعا ہے تفہیم understanding کہلاتا ہے جبکہ مصنف کے متن کو مصنف کے بجاۓ اپنے تناظر میں سمجھنا تفہیم نہیں کہلاتا بلکہ تفسیر کہلاتا ہے۔مختصرا“ یہ کہ خضریاسین کے نزدیک تفہیم ایک ذہنی عمل ہے۔ان کے نزدیک قران کی تفہیم کی تین شراٸط ہیں:
١۔زاویہ نظر درست ہو یعنی قران کو خود قران کے زاویہ نظر سے سمجھا جاۓ
٢۔نظم کلام اور سیاق وسباق کا لحاظ رکھا جاۓ
٣۔متن فوکسنگ رہنا یعنی متن میں جو کچھ اور جتنا کچھ بتایا گیا ہے اسی پر اکتفاء کیا جاۓ
خضریاسین کا موقف ہے کہ فہم ِقران خود قران کے الفاظ کے ساتھ ہی منسلک ہے اس سے باہر نہیں۔الفاظ کا اپنا ایک نظم ہے۔اس نظم قران کے اندر آیات کا اپنا ایک ہی قطعی مفہوم ہے ۔اس مفہوم کے علاوہ لوگ جو کچھ بھی سمجھ رہے ہوں وہ فہم قران نہیں بلکہ غلط فہمی ہے جس کا علاج سماج دعوت و تعلیم کے زریعہ کرے گا ۔
ان کے مطابق جو لوگ قرآن سمجھنا چاہتے ہیں وہ عربی سیکھ لیں اور قران پر قران کے اپنے ہی زاویہ نظر سے تدبر وتفکر کریں اور باہمی مکالمے کو فروغ دیں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آیات سے متعلق غلط فکر سماج میں مرتی چلی جاۓ گی اور آیات کے حقیقی فہم پرامت متفق ہوتی چلی جاۓ گی۔بشرط یہ کہ عربی لغت،قران کا زاویہ نظر,کلام کے سیاق و سباق ،سیاقِ کلام کا نظم قران اور رسول کی عملی تعلیمات [سنت] کو رہنما مان لٕیا جاۓ۔غیبی امور میں جس طرح قران خاموش ہے ،امت کو بھی قیاس آراٸ سے گریز کرنا چاہیۓ۔ظاہری امورمیں عملی چیزیں تو سنت میں آگٸیں ہیں۔جبکہ علمی چیزیں لغت،کلام کی ترتیب،کلام کا سیاق وسباق اور کلام کے نظم سے واضح ہوتی ہیں۔اسی حوالے سے خضریاسین صاحب مزید فرماتے ہیں کہ لوگ متن کی تفہیم کے باب میں جتنے سوالات واعتراضات قرآن کےمتن پر اٹھاتے ہیں ،وہ سب کے سب حنفیت و شافعیت و حنبلیت و مالکیت و سلفیت و شیعیت و سنیت کی کتابوں کی تفہیمِ متن کے معاملے میں بھی اٹھاۓ جا سکتے ہیں۔عجیب لوگ ہیں قرآن کی تفہیم کے معاملے میں اعتراضات اٹھاتے ہیں اور اپنےاٸمہ کی لکھی ہوٸ کتابوں کی تفہیمِ متن کے معاملے میں اپنے ہی پیش کردہ اعتراضات کو بھول جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر فقہا و مفسرین وغیرہ کی کتابوں کی تفہیم میں اتفاقِ راۓ[Consensus]پیدا ہوسکتا ہے تو کتاب اللہ جو کہ عربی مبین میں نازل ہوٸ ہے اور جسے سمجھنے کےلیۓ خدا نے آسان بنایا ہے[یسّرناالقران] تو اسکی تفہیم میں اتفاقِ راۓ قاٸم کیوں نہیں ہوسکتا۔قران پزل نہیں ہے کہ اسکی ہر آیت کے ہزاروں معنی ہوں اور سب درست ہوں،یہ قطعی الدلالہ ہے اسکی ہر آیت کا ایک واضح مطلب ہے جن کے ذریعہ لوگوں کی ہدایت[ہدیٰ للناس] کا کام لیا جاتا ہے۔قران خواص کےلیۓ نازل نہیں یوا،عوام کےلیۓ بھی کتابِ ہدایت ہے۔اگر یہ اپنی ہدایت میں واضح نہ ہوتا تو ہدیٰ للناس کہلانے کا مستحق نہ ٹہرتا۔اور جب خدا نے اسے ہدیٰ للناس قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ اپنی ہدایت کے ابلاغ میں کامل اورواضح ہے بشرط یہ کہ عربی سے آپ کی تھوڑی بہت واقفیت ہواور کلام کے سیاق و سباق اور ترتیبِ کلام [sequence of speech] آپ کےپیشِ نظر رہے۔
تفسیرِ متن میں موضوعیت اور معروضیت کا مسلہ ایک بنیادی مسلہ رہا ہے۔قرآن ہی میں نہیں ہر متن میں یہ سوال ہے۔اس باب میں دو متضاد آرا ٕ ہیں اور دونوں مضبوط دلاٸل رکھتی ہیں۔ہرمیونیوٹِکس کا پہلا سوال یہی ہے کہ متن کے معنی خود متن میں ہیں یا ذہنوں میں؟۔اگر ذہنوں میں ہیں تو ہر پڑھنے والا متن سے اپنے فہم کے مطابق مفہوم نکالےگا۔اس صورت میں متن لکھنے والے کا مقصد فوت ہوسکتا ہے۔
دوسری راۓ یہ ہے کہ متن کا مفہوم خود متن میں ہے۔جب متن کا مفہوم خود متن میں ہے تو پھردنیا میں فہم کا اختلاف کیوں ہے؟۔یہی مسلہ ہرمیونیوٹکس کا نقطہ ٕ آغاز ہے۔اس بات کو سجھنا ساری ہرمیونیوٹکس کو سمجھنے کے برابر ہے۔
خضریاسین کی راۓ یہ ہے کہ متن کی یک معنویت معروضی حقیقت ہے جبکہ فہم کا اختلاف ذہنی،نفسیاتی اور سماجی مظہر ہے معروضی حقیقت نہیں ۔ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں:
”اگر پرانی سے پرانی گمراہی کا سرچشمہ ڈھونڈنے نکلو گے تو آپکو سوء فہم میں ملے گا کہ کہنے والے نے کیا کہا اور سمجھنے والے نے کیا سمجھا؟“
میرے نزدیک خضریاسین صاحب کی تفسیر،تفہیم،تعلیم،ترجمہ وغیرہ کی یہ بحث اپنے اصل میں لسانیاتی Linguistical ہے۔وہ ان الفاظ کو روزمرہ کے مفہومات میں نہیں بولتے بلکہ علمِ لسانیات کی ”اصطلاحات“ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ترجمہTranslation , تفہیمunderstanding, تفسیر Exegesis اور تعلیم Teaching خضریاسین کے نزدیک علمِ لسانیات کی رو سے چار مختلف کام ہیں۔یہ بات تحقیق طلب ہے کہ یہ چار مختلف کام ہیں یا نہیں۔اگر نہیں تو خضریاسین کی فکر کایہ حصہ گِر جاتا ہے لیکن اگر یہ چار مختلف کام ثابت ہوجاتے ہیں تو ایک طرف ہمیں اپنی جہالت پر ماتم کرنا ہوگا اور دوسری طرف خضریاسین کے موقف کی افادیت کوتسلیم کرنا پڑے گا۔
میرے نزدیک خضریاسین تفہیم اور تفسیر میں جوفرق کرتے ہیں یہ بہت اہم ہے۔تفہیم خالصتا“ ایک ذہنی عمل ہے جبکہ تفسیر متن سے متعلق ایکٹیوٹی ہے جو بادی النظر میں متن میں رہ جانے والی کمی کو پورا کرنے کےلیۓ کی جاتی ہے۔یعنی متن میں کوٸ بات چھوٹ گٸ ہو یا غیر واضح ہو یا مختصر بیان کردی گٸ ہو,تو تفسیر اس کمی کی تلافی کےلیۓ کی جاتی ہے۔اسلیۓ تفسیر اصل میں متن کی ”توسیع“ کاکام ہے۔اب سوال یہ ہے کہ قران میں جن باتوں کی وضاحت نہیں کی گٸ انسان خدا تعالیٰ کے ذہن تک پہنچ کر ان باتوں کی تفصیل معلوم کرسکنے کی پوزیشن میں ہے؟۔مثلا“ روح کی ماہیت کے بارے میں قران خاموش ہے۔لیکن مفسرین خاموش نہیں ہیں۔وہ اپنی طرف سے اس گیپ کو بھرتے ہیں جو متن قران میں رہ گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ مفسر کو کیسے معلوم ہوا کہ روح کیا ہے؟۔۔۔۔تفسیر متن کی توسیع و تفصیل و توضیح ہے۔یعنی اصل متن میں کوٸ بات چھوٹ گٸ ہے تو مفسر اپنی تفسیر میں اس کو کھول کر بیان کرتا ہے۔قران کے متعلق بحث میں سوال یہ ہے کہ قران میں جو باتیں بیان نہیں ہوٸیں یا محض اشارات پر اگر اس نے اکتفا کیا ہے تو مفسر اپنی طرف سے جملے ٹانک کر اس ”کمی“ کو پورا کرنے کا جواز کہاں سے لاتا ہے؟کیا ذہن خداوندی تک اس کی رساٸ ہوتی ہے؟۔ قران کے متن میں جو بات بیان نہیں ہوٸ,مفسر اس کو بیان کرنے پر قادر کیسے ہے؟۔۔غامدی صاحب کے حلقے سے وابستہ معروف اسکالر قاری حنیف ڈار کی ایک واٹس ایپ گروپ میں ترجمہ وتفسیر کی بابت خضریاسین کے شاگردوں سے بحث ہوٸ۔اس بحث کے دوران قاری حنیف ڈار نے تسلیم کیا کہ ”ترجمہ کی افادیت بہرحال کچھ نہ کچھ ہے ,تفاسیر سے البتہ گریز کیا جاۓ“۔
غامدی صاحب کے ہونہار شاگرد محمد عمار خان ناصر چھ جون دوہزار اکیس کو اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں اس حوالے سے لکھتے ہیں:
”بنیادی بات یہ ذہن میں رکھیں کہ ایسا بالکل نہیں کہ قرآن کی ہر ہر آیت کا مطلب سمجھنے کے لیے صحابہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محتاج تھے اور بعد میں آنے والے حدیث کے محتاج ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ قرآن کسی کوڈ میں لکھی گئی کتاب ہے جس کی کلید اگر ساتھ نہ ہو تو وہ سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ قرآن اپنے پیغام کے ابلاغ میں بالکل واضح تھا، اسی لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پورے عرب میں اسلام کی دعوت عام کرنے کے لیے قرآن کو ذریعہ بنایا گیا۔ رسول اللہ یا صحابہ ہر ایک کے پاس جا کر الگ سے قرآن کی تفسیر نہیں کرتے تھے جس سے اس کو مطلب سمجھ میں آ جائے۔۔۔“
غامدی صاحب کی” البیان“ تفسیر ہے یا تفہیم؟
اوپر کی اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ خضریاسین صاحب قرآن کو محتاجِ تفسیر نہیں سمجھتے البتہ قابلِ تفہیم سمجھتے ہیں۔ان کے نزیک جیسا کہ اوپر بتایاگیا تفہیم میں تین باتیں بہت اہم ہیں:
ایک,یہ کہ ہر کتاب کی تفہیم کےلیۓ سب سے پہلے اس کے مصنف کا زاویہ نظر معلوم کرنا انتہاٸ ضروری ہے۔قران کو بھی صرف اسی زاویہ نظر سے سمجھا جاسکتا ہےجو اس کا اپنا زاویہ نظر ہے اور جس کے مطابق رسول نے صحابہ کو قران سمجھایا تھا۔دوسرا یہ کہ سیاقِ کلام اور نظمِ کلام کا لحاظ رکھاجاۓ ۔تیسرا یہ کہ انڈرسٹینڈنگ متن فوکسنگ ہونا چاہیۓ۔جو کچھ اور جتنا کچھ متن میں بیان ہوا ہے اسکو سمجھنے کی کوشش کی جاۓ ۔متن پر باہر سےاپنے نظریات داخل نہ کیۓ جایٸں۔
غامدی صاحب کی البیان ان تینوں صفات کی حامل ہے۔یہ بات حیران کن ہے کہ قران کی تفہیم کے وقت غامدی صاحب کا زاویہ نظر فراہی و اصلاحی کا لسانیاتی زاویہ نظر نہیں ہوتا بلکہ مولانا وحیدالدین خان کا توحید,عمل صالح اور نجات آخروی کا زاویہ نظر غامدی صاحب کے ذہن پر حاوی رہتا ہے ۔یہی قران کا بھی زاویہ نظر ہے تو البیان کا زاویہ نظر بالکل قران کا زاویہ نظر ہی ہے۔پھر غامدی صاحب چونکہ فراہی و اصلاحی کے اثرات کے زیر اثر نظم قران اور کلام کے سیاق وسباق کا بھی پوراپورا لحاظ رکھتے ہیں ۔اس وجہ سے البیان تفہیم کی اس دوسری شرط کوبھی کامیابی سے پورا کرتی ہے۔تفہیم کی تیسری شرط متن فوکسنگ رہنا ہے اور البیان سے زیادہ متن فوکسنگ کتاب پورے تفسیری لٹریچر میں دستیاب نہیں ہے۔غامدی صاحب مختصر اور ٹودی پواٸنٹ بات کرتے ہیں اور متن میں جو کچھ کہا گیا ہے اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔اسطرح تفہیم کی تیسری شرط کو بھی البیان کامیابی سے پوراکرتی ہے۔اسلیۓ میں سمجھتا ہوں کہ البیان تفسیر نہیں بلکہ تفہیم ہے۔۔
میں نے خضریاسین صاحب سے سوال پوچھا کہ کیا تفہیم کو ضبط تحریر میں لایا جاسکتا ہے؟,تو ان کا جواب تھا کہ:
”پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیۓ کہ تفہیم ہمیشہ مختصراور متن فوکسنگ ہوتی ہے ,تفہیم کا حجم اگر اصل متن سے بہت زیادہ ہے تو یہ پھر تفہیم نہیں ہوگی بلکہ تفسیر ہوگی ۔متن جتنا ہے تفہیم کم وبیش اتنی ہی ہو گی ۔یہ نہیں ہوسکتا کہ متن ایک جلد پر محیط ہو اور تفسیر اٹھ ,دس ,بیس یا چالیس جلدوں پر محیط ہو۔یہ طوالت صرف اسی وقت ممکن ہے جب آپ اصل متن میں اپنے مخصوص نظریات کی کنتربیونت کرنا چاہ رہے ہوں۔مفسر تفسیر لکھتا ہی اس وقت ہے جب اسے لگتا ہے کہ اس کے ذہن میں جو نظریات ہیں یہ واضح طور پر قرآن کے متن سے لوگوں کے سامنے نہیں آرہے۔وہ کوشش کرتا ہے کہ متن میں جو چیز اسے غیر واضح نظر آتی ہے اس کی وضاحت کر دے ,جو مختصر ہو اسکی تفصیل بیان کردے۔اسطرح تفسیر کا حجم اصل متن سے کٸ گنا بڑھ جاتا ہے۔اس پر میرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن میں جوبات مختصرا“بیان ہوٸ ہے,مفسر اسکی تفصیل بیان نہیں کرسکتا جب تک وہ خدا کے ذہن تک رساٸ کا دعویٰ نہ کرلے ۔مفسر کس بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ جو بات چھوٹ گٸ تھی میں نے وہ لکھ دی ہے اور جو بات غیر واضح تھی میں نے اس کی توضیح وتفسیر وتفصیل و تشریح بیان کردی ہے؟۔۔۔
دوسری بات یہ ہے کہ تفہیم اور غلط فہمی دو مختلف چیزیں ہیں۔جس تفہیم کا انکار متنِ قرآن کا انکار نہ ہو وہ قرآن کی تفہیم نہیں بلکہ غلط فہمی ہے جبکہ تفہیم وہ ہے کہ جس کا انکارمتن کا انکار متصور ہوسکے۔تیسری بات یہ ہے کہ تفہیم کواگر کوٸ ضبط تحریر میں لانا چاہے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔دوسروں کو اس کی تعلیم دے سکتاہے۔یہ تعلیم زبانی بھی ہوسکتی ہے اور تحریری بھی۔ لیکن یہاں تنزیل کے نقطہ نظر سے باریک سا ایک مسلہ ہے اور وہ یہ کہ فہم کو جب ضبط تحریر میں لایاجاۓ تو وہ تحریر پرسنل فہم نہیں رہتی بلکہ الہی متن کے متبادل متن کی حیثیت سے اپناوجود رکھتی ہے۔میرا موقف ہے کہ متلاشیان ہدایت کےلیۓ لازم ہے کہ وہ ہدایت کےلیۓ اس متبادل انسانی متن کے بجاۓ اصل متن یعنی قرآن کی طرف رجوع کریں۔ انسان “علم بالوحی” کو جب اسلاف سے حاصل ہونے والے علم یا “علم الاسلاف” کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو “علم بالوحی” کی مستقل حیثیت ختم کر دیتا ھے۔“۔
فہم کو ضبط تحریر میں لایا ہی کیوں جاۓ؟۔اسکی دو وجوہات ہیں۔
ایک یہ کہ اپنی ذاتی یاداشت کی خاطر فہم کو ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے۔دوسری وجہ کہ اپنے فہم کو دسروں کے سامنے بیان کرکے یا ضبط تحریر میں لاکر دوسروں کے سامنے پیش کرنے سے ہم دوسروں کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم اگر کسی آیت کی تفہیم میں غلط فہمی کا شکار ہویۓ ہیں تو ہماری اصلاح کریں۔جب تک ہم اپنے فہم کو دوسروں کے سامنے نہیں رکھیں گے تب تک ہمارے فہم کی کوتاہی کی اصلاح ممکن نہیں ہوگی۔اسلیۓ فہم کو بیان کرنا اور ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے۔ اپنے قرآنی فہم کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے پر یا ضبط تحریر میں لانے پر خدا نے کوٸ پابندی عاٸد نہیں کی۔مزید برآں ,اس ضمن میں خضریاسین صاحب کا اپنا طرزعمل بھی یہی رہا ہے کہ انہوں نے بھی طلاق,ورا ثت ,سود سمیت قرآن کی کٸ آیتوں کی تفہیم کو تحریری صورت میں لکھا ہے جو ان کے مجموعہ مقالات میں موجود ہیں۔خضریاسین کے تفہیمی مقالات کی طرح غامدی کی البیان بھی اس بات کی ایک عملی مثال ہے کہ کس طرح مھتدی اپنے آپ کو متن فوکسنگ رکھتاہے اور کس طرح غیر ضروری علوم اور الجھنوں سے دامن بچاتے ہوۓ متن کی تفہیم کی کوشش کرتا ہے۔اور یہی چیز ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم البیان کو تفاسیر کی کیٹیگری سے نکال کر تفہیمی کوشش قراردیں۔بعض جگہوں پر غامدی صاحب غلط فہمی کا شکار ہوسکتے ہیں لیکن بحیثیت مجموعی البیان قرآن فہمی کے سلسلے میں غامدی صاحب کی ایک کامیاب اور قابل قدر کاوش ہے۔ ۔میرا اندازہ ہے کہ تفسیر پر ڈاکٹر خضریاسین کی بھر پور اور قابل قدر علمیاتی تنقید کے بعد مستقبل کے قرآنی اسکالروں کو قرآن فہمی میں غامدی صاحب کا یہی انداز فالو کرنا پڑے گا جو البیان میں اپنایا گیا ہے۔یعنی طویل لایعنی تفاسیر کے بجاٸۓ متن فوکسنگ مختصر اور ٹو دی پواٸینٹ رہنا پڑے گا۔
ایک بنیادی سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدیم تفاسیر کا سرمایہ سو فی صد بے کار ہے؟,خضریاسین اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔مجھ سےگفتگو کرتے ہوۓ ایک بار انہوں نے کہا کہ ایک ہی تفسیر کے بعض حصے تفسیری اور بعض حصے تفہیمی ہوسکتے ہیں۔تفاسیر کا جوتفہیمی حصہ ہے اس پر اعتراض نہیں کی جاسکتا ۔جبکہ جو تفسیری حصہ ہے خضریاسین کا اس پر اعتراض ہے۔ان کے بقول متلاشیانِ ہدایت قرآن کو میزان بناکرقدیم تفاسیر کا مطالعہ کرکے معلوم کرسکتے ہیں کہ کہاں متن پر جبر کرکےمتن کو اپنے عقائد وافکار کے حق میں کام میں لایاگیا ہے اور کہاں مصنف نے اپنے ذہن کو متنِ قرآن کی پیروی کےلیۓ وقف کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گل رحمان ہمدرد صاحب فلسفہ اور تصوف میں دلچسپی رکھنے والے اسکالر اور باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں فلسفہ کے استاد ہیں۔
کمنت کیجے