از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ
تحقیق وتخریج: ڈاکٹر انعام الحق غازی/نوید الرحمن داور
علمِ فقہ اور مولانا ضیاء الدین سنامی:
فقہ کے لفظی معنی پھاڑنے اور کھولنے کے ہیں ۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ “الفقه حقيقته الشق والفتح”[1]، فقہ کی حقیقت تحقیق و تفتیش ہے۔ احیاء العلوم میں امام غزالی نے فقہ کے معنی فہم و تدبر اور دین میں بصیرت کے بتائے ہیں۔ دونوں میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ہم اہنگی ہے، اسی لیے فقیہ کی یہ تعریف کی گئی ہے:
فقیہ دینی علوم کا وہ واقف کار ہے جو تدبر و تفکر کر کے قوانین کے حقائق کا کھوج لگائے اور پیچیدہ امور کو واضح کرے۔
فقہ کی اس گہرائی تک پہنچنے کے لیے ظاہری علوم و فنون کے ساتھ دل و دماغ کی صفائی اور نفس و روح کی طہارت بھی درکار ہے ، کیونکہ اس کے بغیر فکر و نظر میں مطلوبہ سنجیدگی پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں:
فقیہ وہ ہے جو دنیا سے دل نہ لگائے دنیا کو مقصود نہ سمجھے آخرت کی طرف راغب ہو، دین میں بھرپور بصیرت رکھتا ہو، اطاعت پر مداومت کرتا ہو، مسلمانوں کی آبرو ریزی اور حق تلفی نہ کرتا ہو، اجتماعی مفاد اس کے پیشِ نظر ہو، شخصی مفاد پر قومی وعمومی مفاد کو ترجیح دیتا ہو، دولت کا لالچی نہ ہو۔[2]
یہیں سے محدث اور فقیہ کا فرق معلوم ہو جاتا ہے سلیمان بن مہران المعروف امامِ اعمش[3] نے دونوں کے درمیان جو باریک اور جوہری فرق بتایا ہے وہ بہت لطیف ہے۔ اس سے فقیہ کی گہرائی اور نقطہ رسی کا ثبوت ملتا ہے:
” اے فقہائے کرام تم طبیب ہو اور ہم عطار ہیں”[4]
ہمارا یعنی محدثین کا کام دواؤں کا فراہم کرنا اور ان کا ذخیرہ رکھنا ہے جبکہ تمہارا یعنی فقہا کا کام دوا کی جانچ پڑتال کرنا مرض اور مریض کا مزاج معلوم کرنا اور پھر اس کی مناسبت سے دوا تجویز کرنا ہے۔ حکیم الامت شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ میں بڑے نکتہ اور کام کی بات ارشاد فرما گئے ہیں، لیجیے آپ بھی پڑھ لیجئے:
“جسے علم ِحدیث کی نعمت ملی وہ خیر کثیر سے ہم دوش ہوا اور جس نے بے رخی کی وہ بہک گیا اور گر گیا ، اسے نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ کیونکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی آمر، ناہی، بشیر و نذیر کی حیثیت لے کر آئی ہے، اس کے لیے آپ نے مثالیں بیان کی ہیں اور اس کے ذریعے آپ کی تذکیر وجود میں آتی ہے۔ اس کی حیثیت قرآن ہی جیسی ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ۔ لیکن حدیث کے کچھ طبقات ہیں اور اربابِ حدیث میں درجاتی تفاوت ہے۔ علمِ حدیث کی مثال بادام جیسی ہے جس میں چھلکا اور گری دونوں ہوتی ہیں یا سیپی کی ہے جس میں خول اور موتی ہوتا ہے۔ علماء نے حدیث کے اکثر موضوعات پر تصنیفی کام کیا ہے جن کے ذریعے حدیث کی مشکلات پر قابو پایا جاتا ہے۔ اس علم میں حدیث میں سند کی قوت اور ضعف، راویوں کی ثقاہت و ضعف کے اعتبار سے جانتا ہے اور اس حیثیت سے کہ متصل ہے یہ منقطع، مشہور ہے یا غریب، اس کے لیے بڑے بڑے محقق محدثین اور حفاظ حدیث نے کام کیا ہے۔ اس کے بعد حدیث کے لغوی اور ادبی انداز کو جاننا ہے اور اس کے لیے علمائے ادب نے بے مثال کام کیا ہے۔ اس کے بعد حدیث کا آخری درجہ قانونی اور دستوری معانی کو جاننا اور ان سے احکام مستنبط کرنا ہے اور بیان کردہ حکم پر اشتراکِ علت کی بنا پر نئے نئے مسائل کو قیاس کرنا، ناسخ منسوخ، محکم، راجح ، مرجوح کو جاننا ہے۔ حدیث میں یہ چیز بادام میں گری کی حیثیت رکھتی ہے یہ کام فقہاء کا ہے”۔ [5]
یہاں سے یہ بات بے غبار ہو کر سامنے آگئی کہ ہر فقیہ کے لیے محدث ہونا ضروری ہے لیکن ہر محدث کے لیے فقیہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ وجہ بالکل ظاہر ہے کہ اگر حکیم دوا سے آشنا ہی نہ ہو تو مریض کے مرض اور دوا کے مزاج میں مطابقت کیسے پیدا کرے گا؟ امام ترمذی نے ایسے ہی موقع پر بات بتائی ہے: الفقهاء أعلم بمعاني الحديث
مدلول تو دلیل کے بغیر پروان ہی نہیں چڑھتا، فقہ اگر مدلول ہے تو حدیث دلیل ہے، اگر فقیہ دلیل سے بے گانہ ہوگا تو مدلول تک اس کی رسائی نہ ہوگی۔ دراصل فقہ تو قرآن و سنت کے عقلی دلائل و براہین میں شناوری کا نام ہے۔ یعنی فقیہ زندگی کی مختلف شاخوں میں جس چیز پر کامل بھروسہ کرتا ہے وہ صرف کتاب و سنت ہے۔ وہ قرآن و سنت میں افکار، اعمال، اخلاق کو صرف نقل تک محدود نہیں سمجھتا بلکہ اس کو دلیل و برہان پر مبنی خیال کرتا ہے۔ فقیہ نصوصِ شرعیہ میں عقلی منطقی سے کام نہیں لیتا بلکہ عقلِ شرعی اس کی فقاہت کا سرمایہ ہوتا ہے۔ یہ عقلِ شرعی وہ نورِ نبوت ہے جو عقلِ منطقی پر حاکم ہوتی ہے۔
چنان كہ طورِ عقل ورائے طور ِحس است ہم چنين طورِ نبوت ورائے طورِ عقل است
بلا شبہ ارشادِ نبوت ہی فقیہ کے لیے ہادی و مرشد کا فریضہ انجام دیتا ہے۔اس کے ساتھ فقیہ بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ تحقیق و تفتیش کی صلاحیت، قومی مزاج کی رعایت، مصلحت شناسی میں مہارت، مریض اور مرض کی نفسیات سے بھرپور واقفیت رکھتا ہو۔ فقہ کے لئے وہ فہم و فراست درکار ہے جو عقل و قلب کے آمیزہ سے تیار ہوتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ قانون کی تشکیل کے لئے جس قسم کا فقہ درکار ہے اس میں عقل و قلب کی رہنمائی میں فہم و فراست کی جو نوع تیار ہوتی ہے، تشکیل ِقانون کے مرحلے میں جس کے بغیر چارہ نہیں ہے، قرآن میں اسی کو حکمت کہا گیا ہے: آیتِ قرآنی ہے:
((وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ))[6]
حکمت علم کا سب سے اونچا درجہ ہے اور فقیہ کا اصل مقام یہی ہے۔ یہ درجہ قوتِ فکری اور عملی دونوں میں کمال کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ صدرِ اول میں فقہ دینی اور دنیاوی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی تھا۔ اصول کی کتابوں میں ہے:
” قدیم زمانے میں فقہ علمِ حقیقت، طریقت اور شریعت سب کو شامل تھا “۔[7]
یعنی فقہ کا دائرہ اس دور میں اس قدر وسیع تھا کہ اس میں پوری بشری زندگی سمٹی ہوئی تھی اور فقہ کا لفظ پوری انسانی زندگی کو گھیرے ہوئے تھا۔ امام ابو حنیفہ اور دیگر جلیل القدر علماء کے یہاں فقہ کا جو مفہوم ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فقہ ملکۂ استنباط اور دینی بصیرت کا نام ہے جس کے ذریعے احکامِ شریعت، اسرارِ معرفت اور مسائلِ حکمت سے واقفیت ہوتی ہے۔ نیز نئے فروعی مسائل کا استنباط اور ان کی باریکیوں کا علم ہوتا ہے۔ جو شخص اس دینی بصیرت اور ملکۂ استنباط کا حامل ہو وہ فقیہ کہلاتا ہے۔
بہرحال قاضی ضیاء الدین فقیہ تھے اور ان کی فقاہت کو ان کے موافق اور مخالف سب مانتے تھے اور جب فقہ پر ان کو پورا قابو تھا تو بلا شبہ وہ مفسر بھی تھے اور محدث بھی، یعنی رموزِ قرآنی سے آشنا تھے اور فن حدیث کے شناور بھی تھے۔ برنی نے سارے تعصبات کے باوجود اقرار کیا ہے کہ مولانا سنامی مفسر تھے اور فقیہ تھے۔ اور فقاہت کی گاڑی قرآن و حدیث سے بے گانہ ہو کر چل ہی نہیں سکتی، لہذا وہ ایک ہی وقت میں قرآن کے مفسر ، حدیث کے شارح اور فقہ کے ماہر تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ حدیث کو علیحدہ کر کے بطورِ فن نہ اپنایا ہو کیونکہ وہ فقیہ کے منصب سے کمتر چیز ہے۔ جس چیز کوبطورِ فن اپنایا وہ فقہ ہے۔ مولانا عبدالحئی نے نزهة الخواطر اور ثقافة الہند میں الفتاوی الضائية کے نام سے فقہ میں ان کے علمی کارناموں کا ذکر کیا ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ علاء الدین خلجی کے زمانے میں جہاں مولانا سنامی قاضی، مفسر، واعظ اور محتسب تھے، وہاں مفتی بھی تھے۔ اور چونکہ مرکز میں افتاء کا منصب ان کے پاس تھا اس لیے یقینا پورے ملک میں ان کے فتاوی رواں دواں ہوں گے۔ فتاوی ضیائیہ کتنا عظیم ہوگا اور اس میں کس قدر فقہی سرمایہ ہوگا۔ بہرحال مؤرخین متفق ہیں کہ وہ فقیہ تھے اور ان کی فقاہت کے نمونے آج تک تاریخ کا علمی سرمایہ ہیں۔
یہ بات ذہن میں رکھیےکے علاء الدین خلجی نے اگرچہ علماء کے سیاسی اقتدار کو ختم کر دیا تھا لیکن اس نے علماء کے دینی اقتدار کو اور علمی وقار کو تقویت پہنچائی۔ اس نے خوشامد اور دربارداری کی ذہنیت کو سہارا دینے کی بجائے ان میں حق گوئی کے جذبے کو بیدار کیا۔ وہ یہ پسند نہیں کرتا تھا کہ علماء سیاست کے مہرے بن جائیں اور اپنے اعلی علمی کام کو چھوڑ کر مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کریں۔ اس نے نہ تو خود مذہب کو استعمال کیا اور نہ دوسروں موقع دیتا تھا کہ وہ مذہب کو اقتدار کا زینہ بنائیں۔ وہ علماء کی دینی عظمت کا قائل تھا۔ ان کو دینی اصلاحی کاموں میں مشغول دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے رویے نے علماء کا فکری مزاج بدل دیا تھا۔ اس کے زمانے میں منہاج الدین سراج، نجم الدین صغری، حسام درویش کے بجائے قاضی مغیث الدین اور مولانا سنامی جیسی شخصیتیں نظر آتی ہیں۔ قاضی ضیاء الدین سنامی کو صدرجہاں ہونے کے باوجود آپ کبھی علاءالدین کے دربار میں نہ دیکھیں گے۔ ان کے بارے میں جب سنیں گے یہی سنیں گے کہ ایک استاد کی حیثیت سے طلبہ کو درس دے رہے ہیں، ایک مذکّر کی حیثیت سے مجلسِ وعظ کے ممبر پر تشریف فرما ہیں اور آپ کا وعظ سننے کے لیے ہزاروں کا مجمع سراپا گوش ہے۔ ایک محتسب کی حیثیت سے احتسابی کام کر رہے ہیں، ایک قاضی کی حیثیت سے عدالت میں فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ آپ کبھی نہیں سنیں گے کہ مولانا سنامی کسی بادشاہ کے دربار میں کھڑے ہیں، قطب الدین مبارک خلجی کا ابتدائی زمانہ آپ نے پایا۔ وہ مولانا سنامی سے ارادت رکھتا ہے جیسا کہ منشأت ماہرو سے معلوم ہوتا ہے لیکن مولانا سنامی کا قطب الدین کے دربار میں جانے کا کوئی ذکر نہیں ہے، اگر کبھی سرکار کو کچھ کہنا ہے تو یا تو سرِعام تقریر میں کہتے یا پھر تحریر کے ذریعے اطلاع دیتے تھے۔ چنانچہ ماہرو نے منشأت میں بادشاہ کے نام میں خط کا ذکر کیا ہے جس میں پیش پا افتادہ مسئلہ پر رائے ظاہر کی گئی ہے۔
ردِ بدعات اور مولانا سنامی:
قضاء اور احتساب کے ساتھ ساتھ مولانا سنامی اپنے وعظوں اور درس و تدریس کے ذریعے اشاعتِ سنت اور رد ِبدعات کا بھی کام کرتے تھے اور شرک و جاہلیت کے خلاف جہاد میں مشغول رہے۔ یہ ان کا محبوب مشغلہ اور ان کی زندگی کا بڑا مقصد تھا۔ ان کے وعظوں کا اس دور کے دوسرے واعظوں کے ساتھ تقابلی مطالعہ کیجئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مولانا سنامی کے مواعظ معاشرے میں خالص اصلاحی تھے، صرف گرمیٔ مجلس اور لوگوں کی دماغی عیاشی کا سامان نہ تھے۔ ان کی مجالسِ وعظ کی بعض مؤرخین نے جو تصویر پیش کی ہے اس کی کیفیت سرتا سر روحانی ہے کہ مجمع وعظ میں سراپا گوش ہے، کوئی ہاو ہو ، نعروں کا ہنگامہ اور کوئی جوش و خروش نہیں ہے۔ مولانا عبدالحئی نے نزهة الخواطر میں مولانا سنامی کی مجلس کی جو تصویر پیش کی ہے اس کو پڑھیے، فرماتے ہیں:
“ان کی مجلس, وعظ میں خاص اور عام سب ہی ہوتے تھے، مجمع تین ہزار سے زیادہ ہوتا تھا ، مگر حاضرین کی توجہ پوری کی پوری سننے میں لگی رہتی ۔ مجال ہے کے دورانِ وعظ کسی کی توجہ بٹ جائے”۔[8]
اس کے مقابلے میں اُس دور کے دوسرے واعظین کی مجلس کا تاریخ میں حال پڑھیے۔ ایک بہت بڑے واعظ مولانا علاء الدین نیلی کا تذکرہ کرتے ہوئے ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے:
” ہر جمعہ کو علاءالدین نیلی وعظ کہتے تھے، ان کے وعظ میں لوگ حلقہ باندھ کر بیٹھ جاتے اور بیچ میں سننے والوں پر وجد طاری ہوتا تھا، بعضوں پر تو غشی طاری ہو جاتی تھی”۔[9]
مطلب یہ ہے کہ تذکیر و وعظ میں مہارت و تفنن پیدا کرنے والوں کا ایک گروہ ہر دور میں پایا گیا ہے۔ میں نے بطور نمونہ کے ایک مثال پیش کی ہے۔ مولانا سنامی کا وعظ ان وعظوں کے مقابلے میں بالکل ممتاز ہوتا تھا، وہاں سامعین پر نہ غشی طاری ہوتی تھی، نہ نعرہ بازی ہوتی تھی۔ سامعین قرآن کی اس آیت کی تفسیر ہوتے تھے کہ:
(اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْهَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا))[10]
وہ وعظ کی حلاوت محسوس کرتے تھے لیکن وہ فرزانے ہوتے تھے، ہوش اور عقل سے بیگانے نہ ہوتے تھے۔ جو کچھ سنتے پوری توجہ سے سنتے اور بات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے۔ یہی ایک صاحبِ قال اور صاحبِ حال کا فرق ہوتا ہے۔
مولانا سنامی اپنے مواعظ کے ذریعے اشاعتِ سنت اور ازالۂ بدعت کا فرض انجام دیتے تھے۔ ان بدعات میں سب سے بڑا فتنہ مشاہد یعنی مقابر کا تھا۔ مساجد کے مقابلے میں مشاہد کی اہمیت بڑھ گئی تھی اور عوام کا یہ مشاہد قبلۂ حاجات بن گئے تھے۔ چنانچہ ہندوستان کے چپے چپے پر ان مشاہد و مزارات کا جال پھیلا ہوا تھا۔ علاءالدین خلجی سے پہلے سلاطین نے بڑی فراخ دلی اور حوصلہ مندی سے ان کے لیے املاک اور زمین وقف کیں۔ ان مزاروں اور بزرگوں کی جگہوں پر سر بفلک عمارتیں اور طلائی گنبد تعمیر ہوئے، مجاورین اور جاروب کشوں اور خادموں کی ایک مستقل قوم اور امت وجود میں آ گئی۔ دہوم دہام اور تزک و احتشام کے ساتھ ان کی طرف سفر کا رواج ہو گیا۔ بڑے بڑے قافلے دور دراز مقامات سے اس طرح سفر کر کے جانے لگے جیسے حجاج کے قافلے جا رہے ہوں۔ مساجد سے عام توجہ ہٹ کر مسلمانوں کی توجہ مشاہد کی طرف ہو گئی۔ ساتویں صدی میں مشاہد اور مزارات نے اسلامی زندگی میں پوری مرکزیت حاصل کر لی۔ مولانا سنامی کے نصاب الاحتساب سے پتہ چلتا ہے کہ مشاہد کا یہ فتنہ کتنا عام تھا۔ اور جاہل اور اہلِ غرض مسلمانوں کو اس سے کتنا تعلق ہو گیا تھا۔
وہ معاشرے میں منکرات اور محدثات میں جب بھی کوئی چیز دیکھتے اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتے۔ اس کو حتی الامکان اپنے ہاتھ سے دور کرنے کی کوشش کرتے اس لیے کہ یہ ایمان کا اولین اور اعلی ترین تقاضا ہے۔ ارشادِ نبوت ہے :
تم میں سے جو خلافِ شرع اور منکر دیکھے اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے بدل دے، اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے اس کے خلاف کہے اور اصلاح کرے، ایسا بھی نہ کر سکے تو وہ اپنے دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔[11]
حکومت کے قانون کا دائرہ محدود تھا، علماء بہت سی چیزوں کو اہمیت نہ دیتے اور کچھ عوامی رد عمل کے خطرے کے پیش نظر مخالفت نہ کرتے تھے۔ لیکن مولانا سنامی یہ فرض بڑی دلیری اور بے باکی سے انجام دیتے تھے۔ بلا شبہ ان کے ساتھ ان کے تلامذہ اور ان کے ارادت مندوں کی جماعت بھی ہوگی۔ ارادت مندوں کی حد تک مولانا برنی کا اعتراف ہے: “ان کے وعظ میں دو دو اور تین تین ہزار بلکہ اس سے زیادہ تعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے”۔ [12]
واشتغل بالتذكير أكثر من ثلاثين سنة. آپ یہ کام 30 سال سے زیادہ عرصہ تک کرتے رہے۔
اور ان تقریروں اور وعظوں میں کیا موضوع ہوتا تھا یہ بھی مولانا عبدالحئی نے بتایا ہے کہ:
” آپ اہلِ بدعت کی بدعات پر سنگین گرفت کرتے تھے”۔[13]
اور یہ بھی ساتھ ہی لکھا ہے کہ:
“اس معاملہ میں وہ کسی سے نہ ڈرتے تھے اور اللہ کے معاملہ میں ان کو کسی ملامت گر کی ملامت کا اندیشہ نہ ہوتا تھا”۔[14]
مولانا سنامی اور حافظ ابن تیمیہ کا عہد قریب قریب ہے۔ مولانا کی ولادت اگر 641 میں ہوئی تو اس کے پورے 20 سال 661ء میں حافظ ابن تیمیہ پیدا ہوئے۔ حافظ ابن تیمیہ کا انتقال 726 میں ہوا۔ مولانا سنامی کا انتقال 716 میں قطب الدین مبارک خلجی کے زمانے میں ہوا ہے۔ برنی کی زبانی ہمیں معلوم ہوا ہےکہ وہ عہدِ علائی کی ساری مدت وعظ کہتے رہے اور تفسیرِ قرآن بیان کرتے رہے۔
اس طرح مولانا سنامی نے عمر کی 76 بہاریں دیکھی ہیں جب کہ حافظ ابن تیمیہ نے 65 سال کی عمر پائی ہے۔ اس اعتبار سے دونوں میں ایک گونہ معاصرت ہے۔ حافظ ابنِ تیمیہ کو جو حالات پیش آئے انہی حالات سے مولانا سنامی کو بھی گزرنا پڑا ہے۔ ان کا پیش نہاد علوم شرعیہ کی ترویج اور فکر ِاسلامی کا احیا ء ہے تو ان کی منزل بھی یہی ہے۔ وہ عرب میں تھے اور یہ ہندوستان میں تھے۔ جغرافیائی حدود مختلف ہیں مگر دونوں کے کام میں ہم آہنگی ہے۔ فرق ہے تو صرف یہ کہ عرب میں ابنِ تیمیہ کے کارنامے لکھنے والے اور علماء کی تاریخ مرتب کرنے والے تھے جب کہ ہندوستان میں اس دور میں علماء کی تاریخ لکھنے والا کوئی نہ تھا، یہاں جو مؤرخ تاریخ لکھ رہے تھے ان کے سامنے یا صرف اپنی ذات تھی یا پھر نظریاتی اختلاف آڑے آ رہا تھا ۔ پہلے کی مثال طبقاتِ ناصری اور دوسرے کی مثال برنی کی تاریخِ فیروز شاہی ہے۔ ابنِ تیمیہ کا تعارف کروانے والے حافظ ذہبی، حافظ ابن کثیر، حافظ ابن رجب حنبلی اور ان کے بعد حافظ ابن حجر عسقلانی شوافع، موالک، حنابلہ اور احناف ہیں۔ ان میں سے کون ہے جس کو ابن تیمیہ سے مسائل میں اختلاف نہیں، مگر تاریخ کا انصاف اور ہے اور مسائل کا اختلاف اور ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہندوستان میں جن مسلمانوں نے حکومت قائم کی تھی وہ سب جنگی خاندان اور سپاہی پیشہ لوگ تھے۔ نو مسلموں کی ایک بڑی تعداد مبلغینِ اسلام اور صوفیائے کرام کی کوششوں سےموجود ہو گئی تھی ان میں وہ نو مسلم بھی تھے جو علاء الدین خلجی کے زمانے میں مسلمان ہو کر اسی ملک میں بس گئے تھے۔ ان کو مغلہ یا مولہ کہا جاتا تھا۔ التمش، محمود اور علاء الدین کے دور میں چونکہ تاتاریوں کو ہندوستان میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملا اور ہر بار ان کو شکست ہوئی اس لیے سادات اور شیوخ کا ایک سیلاب ہندوستان کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ان باہر سے آنے والوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جو خراسان اور ایران کی خانقاہوں سے متأ ثر اور ان کی عظمت کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہندوستان میں آ کر ہندوستان کے مختلف حصوں میں تصوف کی خانقاہیں بنائیں۔ بتانا یہ ہے کہ جس طرح ایران، خراسان ،عراق اور دوسرے ممالک میں قرآن و حدیث کا رواج کم ہونے سے ہزارہا بدعات کے مجموعہ کو اسلام سمجھ لیا گیا تھا، اسی طرح ہندوستان میں متعدد افعالِ شرکیہ اور رسوم ِبدعیہ نے بھی اعمالِ اسلامیہ کا لبادہ پہن لیا تھا اور مختلف خانقاہی افکار نے ہندو جوگ کو اپنے موافق پا کر تصوف کے نام سے ان پڑھ مسلمانوں کی عقیدت کو اپنی طرف مائل کر لیا تھا۔ مزاروں پر ہزار ہزار بکروں کے چڑھاوے، قوالی کے نام پر مختلف قسم کے گانے اور رنگ رلیاں ہو رہی تھیں۔ یہ پہلے سن آئے ہو کہ التمش، ناصر الدین محمود، اور غیاث الدین بلبن کے زمانے میں تاتاریوں کے سیلاب کی وجہ سے بہت سے امراء خراسان، ایران اور عراق سے بھاگ کر ہندوستان آئے۔ ان کی ہم رکابی میں صوفیوں اور مولویوں کا ریلا بھی ہندوستان میں داخل ہوا۔ ناصرالدین محمود اور غیاث الدین بلبن کی مستحکم حکومت میں اس جدید سیلاب کا کچھ اثر نمایاں نہ ہوا لیکن معز الدین کیقباد کے چار سالہ فسق و فجور پر مبنی حکومت میں یہ پھلے اور پھولے۔
بات لمبی ہو جائے گی لیکن اگر معزالدین کیقباد کی تصویر سامنے نہ رہےتو ادھوری رہے گی، اس لیے ضروری ہے کہ کیقباد کا چہرہ ناظرین کے سامنے آئے۔ جناب شیخ محمد اکرام نے جو کچھ لکھا ہے وہی پڑھ لیجئے :
کیقباد تخت نشینی کے وقت 18 سالہ نوجوان تھا۔ اب تک اس کی تربیت بلبن کے زیرِ اثر بڑے ضابطے اور پابندیوں کے ساتھ ہوئی تھی۔ تخت نشینی کے بعد یہ پابندیاں اٹھ گئیں تو اس نے دل کھول کر داد عیش دی اور عیش و عشرت سے اس جگہ پہنچ گیا کہ محمد شاہ رنگیلا بھی اس کے سامنے طفلِ مکتب معلوم ہوتا ہے۔ طبقاتِ اکبری میں ہے:
کیقباد کی عیش و عشرت پر مبنی زندگی کی وجہ سے مسخرے، گویے اور رقاصائیں اکناف و اطراف سے اس کے دربار میں جمع ہو گئے۔ یہ طبقہ ہندوستان میں بہت زیادہ ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کھیل تماشہ ملک میں عام ہو گیا۔ فسق و فجور کے دروازے کھل گئے۔ ہمیشہ بادشاہ کی مجلس خوبصورت اور خوش رو لوگوں سے اور مسخروں سے بھری رہتی ہے۔
ملا عبدالقادر بدایونی لکھتے ہیں:
“چند دن باپ کی نصیحتوں پر کاربند رہا ، آخر کار حسین و جمیل لڑکیوں خوبصورت مطربوں او ربازی گروں نے بادشاہ کو اپنی عشوہ گری کے جال میں پھنسا لیا اور نوجوان بادشاہ کی توبہ شیشہ نازک کی طرح چور چور ہو گئی”۔ [15]
برنی نے تاریخ ِفیروز شاہی میں تفصیل مزے لےلے کر لکھی کہ:
” بادشاہ کی عیاشی کی وجہ سے اطراف و اکناف سے بہت سی طوائفیں اور اہل طرب لشکر کے ساتھ ہو گئے۔ جب بادشاہ چلا تو حسین و جمیل لڑکیاں ناز و ادا دکھا دکھا کر اس کو اپنی طرف مائل کرتی تھیں۔ ایک دن جب کہ سواری جا رہی تھی ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی گھوڑے پر سوار شاہی گھوڑے کے قریب پہنچ گئی اور بڑے ناز سے یہ شعر پڑھا:
سرو سيمنا بصحرا می روی
نيك بد عہدى كہ بے ما ميروى
بادشاہ کو یارائے ضبط نہ رہا اور اسی وقت شراب منگا ئی اور اس ماہ رو کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا:
شب ز مے توبہ می كنم از بيم ناز شاہداں
با راوان روى ساقى باز در كار آورد
اس آفت کی پرکالہ نے فورا ہی جواب دیا:
غمزه عابد فريبم زاہد صد سالہ را
موئے پيشانى گرفتہ پيش خمار آورد[16]
یہ تھے معز الدین کیقباد۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ سرکار کی بے راہ روی کے نتیجے میں شہریوں کی بے راہ روی کہاں پہنچی ہوگی۔ اس کے نتیجے میں صرف اسلامی معاشرہ ہی خراب نہیں ہوا بلکہ پوری شہری زندگی دینی اخلاقی معاشرتی معاشی روحانی اور علمی زندگی فسق و فجور کی بھینٹ چڑھ گئی، اور اس وجہ سے دین کی زندگی میں بدعت و لغویات کا طوفان آیا۔ اگر دین کی صحیح روشنی کہیں تھی تو وہ دہلی میں شیخ المشائخ اور ان کے تربیت کردہ بزرگوں میں تھی یا ملتان میں شیخ بہاؤ الدین زکریا کے خاندان میں پائی جاتی تھی۔
اس پُرفتن دور میں جس شخص نے اسلامی معاشرے کی اور مسلمانوں کی قیادت کی سب سے زیادہ دینی رہنمائی کی اور اصلاح کا کام کیا وہ حضرت مولانا ضیاء الدین سنامی ہیں۔ عوام میں ان کی اشاعتِ سنت، رد ِبدعات اور اصلاحی کاموں کا اندازہ کرنا ہو تو ان کے درسِ قرآن اور ان کے مواعظ میں شریک ہونے والے والوں کو دیکھ لیں۔ بتانے والے بتا رہے ہیں کہ ایک ایک وعظ اور ایک ایک درس قرآن میں سننے والوں کی تعداد تین تین ہزار سے زیادہ ہوتی تھی۔ مولانا سنامی نے ان مواعظ اور دروس کے ذریعے شرک و بدعت کے طوفان ہی کا بڑی بہادری سے مقابلہ نہیں کیا، بلکہ اجتماعی زندگی میں شریعت کے مقابلے نئی شریعت لانے کے ناپاک عزائم کا ڈٹ کر سامنا کیا۔ میرا خیال ہے کہ علاء الدین کے پہلے دس سال تو آپ نے اپنے وعظوں میں نئی شریعت کے خلاف جہاد کیا اور رائے عامہ کو تیار کیا۔ جب علاء الدین خلجی کی نئی شریعت کا گھروندہ گر گیا اس کے عزائم بدل گئے اور ملک میں اقتدار نے شریعت اسلامی نافذ کر دی تو آخری دس سال عوامی زندگی میں پھیلی ہوئی بدعت کی طرف توجہ کی ؛ دعوت کے ذریعے اور احتساب کے ذریعے بھی۔ یہ بات آپ ضیاء الدین برنی کی زبان سے سن چکے ہیں کہ وعظوں اور درسوں کا یہ سلسلہ صرف ایک دن، ایک ہفتہ ایک ماہ اور ایک سال نہیں بلکہ 695 سے لے کر 715 تک جاری رہا۔ مولانا عبدالحئی لکھتے ہیں کہ مواعظ کا یہ سلسلہ پورے 30 سال رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا سنامی نے کیقباد کے زمانہ ہی سے یعنی 686 سے یہ کام شروع کر دیا تھا اور پوری قوت سے پہلے اقتدار کی بدعت کی طرف توجہ کی اور ان کا رد کیا۔ اقتدار کی راہ سے جو منکرات آ رہی تھیں ان کے خلاف آواز بلند کی۔ اس طرح مولانا سنامی نے درس و تدریس اور مواعظ کے ذریعے فقہ و حکمت اور قرآن و سنت کی روشنی پھیلائی۔ آپ نے مولویانہ تنگ نظری اور کم حوصلگی اور کفریہ فتووں کے نامعقول رواج کو روکنے میں بڑی مؤثر کوشش کی اور امت کی بیماری کی صحیح تشخیص کر کے اس کے علاج کا کام کیا۔ صرف وعظ کہنے اور کفر کے فتوے لگانے کا نام دعوت نہیں، اصل یہ ہے کہ خود وعظ کہنے والے کے دل میں اللہ سبحانہ وتعالی کا یقین ترقی کر رہا ہواور غیر اللہ کی نفرت پیدا ہو رہی ہو، اتباعِ سنت کا ذوق ابھر رہا ہو، علمِ دین سے اپنے آپ کو سیراب کیا جا رہا ہو، یادِ الہی میں بہتات ہو، اور اس سے نورانیت محسوس ہو رہی ہو، اہلِ ایمان کا احترام اس قدر ہو کہ مومن تو مومن ہر انسان کو ہی اپنے سے بہتر سمجھ کر خدمت کا جذبہ کام کر رہا ہو۔ ان سب اعمال کا مقصد صرف اللہ سبحانہ کی رضا جوئی ہو، پھر اس کی پیداوار کے لیے اللہ کے بندوں میں کام کرنے کی لگن۔ اس کے لیے ہر قسم کی تکلیف جو بھی آئے برداشت کرتا جائے، لوگوں کو بدعت و منکرات میں مبتلا دیکھ کر غصہ نہ آئے، بلکہ رونا آئے ۔یہی آواز یہی دعوت لوگوں کے قلوب کو بدلتی ہے۔ مولانا سنامی کا بھی یہی حال تھا، اس کام کے کرنے والے کی مخالفت کام ہی کا حصہ ہے اور یہ انبیاء کی سنت ہے۔ کام جس قدر اونچا ہوگا مخالفت کا طوفان بھی اسی مقدار سے ہوگا۔ ہر اہلِ حق کے ساتھ تاریخ کا یہی معاملہ ہے۔ بلا شبہ مولانا سنامی کی بھی مخالفت ہوئی اور اوروں کا پتہ نہیں، مگر ضیاء الدین برنی نے اسی بنا پر مولانا سنامی کو شیخ المشائخ کا مخالف بتایا ہے، اگرچہ خود شیخ المشائخ کی شہادت اس کے خلاف ہے۔ برنی نے تاریخِ فیروز شاہی میں اپنے دل کا غبار اس طرح نکالا ہے:
” یہ تنگ نظر اور بے انصاف شخص شیخ الاسلام نظام الدین کے آستانہ کا حسد اور رشک کی وجہ سے مخالف تھا”۔ [17]
لیکن مؤرخین امیر خسرو، شیخ عبدالحق، عبدالواحد بلگرامی میں سے کوئی بھی برنی کی ہمنوائی نہیں کرتا۔ اور تو اور خود شیخ المشائخ اور خواجہ نصیر الحق بھی برنی کے ساتھ نہیں۔ برنی کے ان جذبات کی وجہ بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ برنی کا اسلام خانقاہی تصورات کا حامل تھا وہ فرد کی انفرادی نجات ہی کو اسلام سمجھتا تھا، جبکہ مولانا سنامی کے پیشِ نظر صرف فرد کی نہیں بلکہ اجتماعی نجات تھی ۔برنی کے اسلام میں مدارِ ہدایت مقابر اور خانقاہیں ہیں، مولانا سنامی کے اسلام میں مدارِ ہدایت کتاب وسنت ہیں۔ برنی مدارِ نجات خانقاہ سے تعلق اور مشاہد کی زیارت کو سمجھتا ہے۔ مولانا سنامی مدارِ نجات ایمان و عمل صالح کو بتاتے ہیں۔ دونوں میں یہی فکری مسافتیں ہیں جنہوں نے برنی کے ذہن میں تعصب کا لاوا تخلیق کیا ہے۔ ورنہ أين الثريا وأين الثرى!
مولانا سنامی اور حافظ ابنِ تیمیہ:
مولانا ضیاء الدین سونامی اس دنیا سے حافظ ابن تیمیہ سے 10 سال پہلے رخصت ہو گئے تھے، ( مولانا سنامی کاسالِ رحلت 717 ہے جبکہ حافظ ابن تیمیہ کی وفات 726 میں ہوئی) تاہم حافظ ابن تیمیہ کی دعوت و اصلاح کی تحریک ہمہ گیر تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کی سوسائٹی، دین اور سیاست کے ایک ایک گوشے کو قرآن و سنت کی روشنی میں پر کھا تھا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی تھی۔ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے امورِ سیاسی کا نہایت بالغ نظری سے مطالعہ کیا تھا۔ وہ اپنے معاصرین کے دینی شعور میں خلافت و امامت کا صحیح تصور پیدا کرنے کے لیے بے چین تھے۔ ان کی زندگی میں ان کی تصانیف مصر سے چین تک پھیل گئی تھیں۔ یہ ممکن نہیں کہ اس تحریک کا اثر علاء الدین خلجی کے دور حکومت میں ہندوستان نہ پہنچا ہو، جب کہ ان کی عمر، 695 میں، 34 سال کی تھی۔ شمس الدین ترک کا تو خود برنی نے ذکر کیا ہے اگرچہ اس واقعہ میں حدیث کی چار سو کتابوں کی حیثیت ایک افسانہ سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ شمس الدین ترک 400 حدیثوں کی کتابیں لے کر آئے تھے۔سوچئے کہ حدیث کی کون سی 400 کتابیں ہیں جن کو شمس الدین لے کر آئے ؟ اور برنی لکھتا ہے کہ شمس الدین کو ملتان میں خبر ملی کہ علاء الدین نماز نہیں پڑھتا تھا اس لیے ناراض ہو کر حدیث کی کتابیں واپس لے گئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بیچارے شمس الدین حدیث کا یہ عظیم ذخیرہ لے کر کہاں گئے؟ ۔خلجی کے زمانے میں وسطِ ایشیا، خراسان، ایران تاتاریوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ان کو اس وقت دنیا کے کس خطے میں ایسا بادشاہ ملا جو حدیث کا قدردان تھا؟ حدیث کی کتابوں کا افسانہ تو برنی کا ساختہ و برداختہ ہے۔ برنی نے تو یہ افسانہ علاء الدین کی بے دینی کا ٹھنڈورا پیٹنے کے لیے تراشا ہے، لیکن بعد کو آنے والوں نے اسی کو بنیاد بنا کر علمِ حدیث میں ہندوستان کی بے مائیگی اور یتیمی کا دعوی کر دیا۔ مولانا شمس الدین نے اپنے خط میں حدیث کی کتابوں کی کوئی تعداد نہیں بتائی۔ دراصل شمس الدین ایک حنفی عالم ہیں اور مصر میں قاضی تھے۔ ان کو ابن تیمیہ کی دعوت میں حمایت کی وجہ سے عہدۂ قضا سے برطرف کیا گیا تھا، 708 میں ہندوستان آئے۔ ان کے علاوہ اور خبر نہیں کتنے علماء ہندوستان آئے ہوں گے جن کا تعلق حافظ ابنِ تیمیہ سے تھا۔ محمد تغلق کے زمانے میں 725 میں حافظ ذہبی، جمال الدین مزی اور حافظ ابن تیمیہ کے شاگرد عبدالعزیز اردبیلی تشریف لائے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ سلسلہ پہلے سے جاری تھا اور علماء آتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان آنے والوں کی مولانا سنامی سے ضرور ملاقات ہوئی ہوگی اور مقاصد میں ہم آہنگی کی وجہ سے باہم افادہ اور استفادہ ہوتا ہوگا۔ لیکن تصریح نہ ہونے کی وجہ سے جزم و یقین کے ساتھ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ملتان میں شیخ بہاؤ الدین زکریا ایسے بزرگ گزرے ہیں جن کے تعلقات مصر و شام کے علماء سے تھے، ان کے پاس اور ان کے بعد ان کے خاندان کے لوگوں کے پاس عرب ممالک کے علماء آتے جاتے رہتے تھے۔ خود ان کے داماد فخر الدین عراقی دمشق جا کر 709 میں اللہ کو پیارے ہوئے اور ان کے بیٹے اور پوتے بھی حجاز، مصر ،شام اور عراق جا کر رہتے اور ہندوستان واپس آ جاتے۔ خود شیخ بہاؤ الدین زکریا ایسے بزرگ تھے جنہوں نے شام ور عراق میں لگاتار حدیث کی تحصیل پر پورے 15 سال لگائے، پھر شیخ کمال الدین یمنی سے مدینہ منورہ حدیث پڑھی اور حدیث کے استاد رہے۔ اس کے بعد مدینہ سے بغداد آ کر شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی سے بیعت ہوئے اور صرف 17 روز کے بعد خلافت حاصل کر کے ملتان واپس آئے اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔ ممکن نہیں کہ مولانا سنامی، جن کے شیخ زکریا بہاؤالدین سے دور کے قرابت کے تعلقات بھی ہیں، ممالک اسلامی کی علمی اور دینی تحریکوں سے واقف نہ ہوں اور خصوصا حافظ ابن تیمیہ کی کتابوں سے بے خبر ہوں۔
مولانا سنامی اہلِ صلاح کی نظر میں:
رائے عامہ اور اپنوں کا کسی کی طرف میلان شخص کی مقبولیت کی مضبوط علامت نہیں۔ عالم اور بزرگ وہ نہیں جسے عام لوگ عالم اور بزرگ سمجھیں۔ عالم وہ ہے جسے علماء اور اہل علم عالم کہیں اور بزرگ وہ ہے جسے وقت کے مشائخِ بزرگ سمجھیں۔ کسی کی عند اللہ مقبولیت اور استقامت اور علوِ ہمت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اہلِ صلاح و تقوی اور اہل علم و بصیرت کی شہادت اس کے بارے میں کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ کہ اس سے محبت و بغض رکھنے والوں اور اس کے پاس اٹھنے بیٹھنے والوں میں سداد و صلاح، حسنِ اعتقاد، تقوی و احتیاط اور آخرت کی فکر پائی جائے اور وہ اپنے زمانے میں اپنی دین داری اور سلامت روی میں ممتاز ہو۔ مولانا ضیاء الدین سنامی کا یہی معاملہ تھا کہ ممتاز اہلِ علم اور اصحابِ نظر ان کی عظمت و فضیلت، صحتِ اعتقاد اور سلامتِ عقیدہ کے معترف اور ان کے مداح تھے۔ اور ان کے مخالفین میں وہ لوگ تھے جو ابنائے دنیا اور جہاں طلبی کے مریض تھے اور دولت و عزت کے خواہاں تھے۔ اہل ِعلم میں شاہ عبدالحق محدث دہلوی، اہل تقوی میں شیخ المشائخ نظام الدین، مؤرخین میں مولانا عصمت اللہ سہارنپوری، مولانا عبدالحئی صاحبِ نزہۃ الخواطر، مولانا عبدالواحد بلگرامی سب ببانگِ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ دیانت و تقوی میں مولانا ضیا الدین سنامی بے مثال تھے۔ ان کی بزرگی، علم کی بے پایانی، علومِ دین میں وسعتِ نظر، کمال ذکاوت اور اجتہاد، اور ان سارے اصافِ کمال میں وہاں تک پہنچے ہوئے تھے جو حدِ توصیف سے باہر ہیں اور ان اوصاف کے مطابق ان کا زہد وورع اور دیانت و حق پرستی اور صرف اللہ کے لیے نصرتِ حق میں قیام اور طریقِ سلف پر استقامت اور بحیثیتِ مجموعی مولانا سنامی کا وہ مرتبۂ کمال کہ اپنی مثال آپ ہی ہیں۔ غرض مولانا سنامی کے بارے میں اہلِ تقوی اور اہلِ علم کی جو شہادتیں پیش کی جا سکتی ہیں کی جا چکی ہیں۔ یہ صرف ان کے موافقین کا اعتراف نہیں بلکہ مؤرخین میں جو ان کے شدید مخالف ہیں مولانا کے علم و عمل کے سامنے ان کی گردنیں بھی جھکی ہوئی ہیں۔ ضیاء الدین برنی کے حق کوش قلم سے بھی یہ بات مولانا سنامی کے بارے میں لکھی گئی ہے:
” مولانا سنامی جو مفسر تھے اور فقیہ بھی، وہ خود بھی استاد تھے اور استاد کی اولاد بھی۔ وہ عہدِ علائی کی ساری مدت وعظ اور تفسیر بیان کرتے رہے۔ وہ قران کی آیات پر متعدد اقوال بیان کرتے یعنی اس کی مفصل تفسیر بیان کرتے”۔
یہ ان کے شدید مخالف کی رائے ہے۔ اسی سے اندازہ کر لیں کہ جب مخالفوں کا یہ حال ہے تو دوستوں اور منزلت شناسوں کا کیا حال ہوگا؟۔ اگر کسی بھی اہلِ علم کا کوئی بھی اعتراف تاریخ میں نہ ہوتا تو برنی کی یہی ایک شہادت مولانا سنامی کے کمال و مرتبہ، علم و عمل کے لیے کافی ہوتی۔ برنی کے علاوہ امیر خسرو، وصاف، عصامی اور دوسرے مؤرخین اور تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے برنی کی مولانا سنامی کی مخالفت میں ہمنوائی نہیں کی۔ اگر کہا تو یہی کہا کہ مولانا سنامی مقتدائے وقت تھے؛ کسی نے بتایا دیانت و تقوی میں بے مثال تھے، کسی نے انکشاف کیا کہ متبعِ حق تھے اور اعلان ِحق میں کسی سے نہ ڈرتے تھے۔ کسی نے اعلان کیا کہ شیدائے سنت تھے اور اشاعتِ سنت اور انکارِ بدعت ان کی زندگی کا مشن تھا۔ شیخ المشائخ نے ان کی پوری زندگی پر بھرپور اور جامع تبصرہ کر کے سب کا منہ بند کر دیا کہ وہ :یک ذات بود حامیٔ شریعت[18]۔ شاہ عبدالحق نے علی رؤوس الاشہاد بتایا کہ: بر پا بہ شریعت بغات قدم راسخ داشت[19]
در اصل مولانا سنامی کی ذاتِ گرامی ان اکابرِ امت میں سے ایک ہے جن کی زندگی کے کارناموں پر پردے پڑ گئے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ان کی زندگی بس ایک واعظ گو عالم کی ہے۔ حالانکہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ جو حالت اس وقت ہندوستان کی تھی وہ برنی کے 46 نامور اساتذہ اور علماء کے سامنے تھی، سب اس پر آہ و فغاں بھی کرتے ہیں، مگر معاملہ اس سے آگے نہیں بڑھتا۔ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ تمام عوام و خواص پر تصوف کا رنگ غالب تھا ، اتنا کہ بس یہی اسلامیت کی نشانی بن چکا تھا ، لیکن تصوفِ صالح کا جوہر ِپاک بدعت کی آمیزش سے یکسر مکدر ہو چکا تھا، بلکہ ایک طرح کی اباحت اور مطلق العنانی تھی جس کا نام طریقِ باطن رکھ دیا تھا۔ پورا ملک شریعت اور اس کے تقاضوں سے بے گانہ ہو کر خانقاہوں اور مزاروں کے سلسلوں میں جکڑ بند تھا۔ دوسری طرف کیقباد کی منکرات تاج و تخت کے زور سے ہر طرف پھیل چکی تھیں اور علماء و مشائخ خود ان کی اشاعت کے نقیب تھے یا گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر تماشائی بنے ہوئے تھے۔ اس وقت دعوت و اصلاح کی امتحان گاہ میں نکلنامولانا ضیاء الدین سنامی کا ہی کام تھا۔ کچھ شک نہیں کہ توفیق نے حضرت ممدوح کے وجودِ گرامی کے لیے یہ مرتبہ خاص کر دیا تھا۔ مقامِ دعوت کی پوشاک صرف انہی کے جسم پر راس آئی، باقی جس قدر تھے یا تو مدرسوں میں پڑھاتے رہے یا خانقاہوں میں بیٹھ کر چلہ کشی کرتے رہے۔ وقت کا جو اصلی کام تھا اس کو کوئی ہاتھ نہ لگاتا۔ یہی بات ہے جو بے ساختہ مولانا سنامی کے بارے میں شیخ المشائخ کی زبان پر آ گئی: یک ذات بود حامیٔ شریعت، حیف آن نیز نماند۔ حمایتِ شریعت اور جادہ ٔ شریعت پر جورسوخ مولانا سنامی کو حاصل تھا اس کا جو جامع چہرہ ان بزرگوں نے پیش کیا ہے وہ واقعاتی چہرہ ہے۔ ایک طرف وہ خود سراپا دیانت و تقوی اور عامل بالسنت تھے اور دوسری طرف وہ اجتماعی زندگی میں نفاذِ شریعت کے علم بردار تھے اور کہہ رہے تھے:
اختر تو لائیں گے کوئی آہ و فغان سے ہم
محبت تمام کرتے ہیں آج آسمان سے ہم
بہرحال مولانا سنامی اہلِ علم ، اہل ِنظر ، اہلِ تقوی اور اہلِ باطن کی نظر میں جو کچھ تھے اس کا بھرپور خاکہ شاہ عبدالحق اور شیخ المشائخ کی زبانی آپ سن چکے ہیں۔ یہ بزرگ اپنے اپنے دور کے اصحابِ کمال اور ارباب ِعلم تھے۔ کون ہے جو ان کے علم اور تقدس کو شبہ کی نظر سے دیکھے! مولانا سنامی کے بارے میں ان کی شہادت ایک واقعہ اور حقیقت کی شہادت ہے۔
[1]۔ الفائق في غريب الحديث والأثر، الزمخشري، تحقيق علي محمد البجاوي ومحمد أبو الفضل إبراهيم، دار المعرفة – لبنان، الطبعة الثانية، ج: 3، ص: 134
[2] ۔ تفصیلات کے لئے دیکھئے : إحياء علوم الدين، الإمام الغزالي, دارابن حزم، بيروت، 2005ه، صفحات 22 تا 39
[3]۔ ابو محمد بن سلیمان بن مہران اعمش ( وفات/148ھ) کا حدیثِ نبوی کے اولین حفاظ اور تابعین کے چوتھے طبقے میں شمار ہوتا ہے۔ ذہبی نے انہیں شیخ المحدثین کا لقب دیا ہے۔
[4] ۔ جامع بيان العلم وفضله، ابن عبد البر, تحقيق أبي الأشبال الزهيري، دار ابن الجوزي, بيروت، 1435ه، ج:2، ص: 200
[5] ۔ حجة الله البالغة، الشاه ولي الله الدهلوي، تحقيق عثمان جمعه ضميرية، مكتبة الكوثر، الرياض، 1999، ج:1، ص: 44-45
[6] سورۃ البقرۃ، آیت: 269
[7] ۔ مسلم الثبوت، محب الله بن عبدالشكور الهندي البهاري، المطبعة الحسينية المصرية – مطبعة كردستان العلمية، 1326ھ، ص:
[8] ۔ نزهۃ الخواطر، عبد الحی، دار ابن حزم، بیروت، لبنان، 1999ء، ج: 2، ص: 182
[9] ۔ تحفة النظار في غرائب الامصار وعجائب الأسفار، محمد بن عبد اللہ ابن بطوطہ، دار الشرق العربی، ج: 2، ص: 329
[11] ۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: 49
[12] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ص:
[13] ۔ نزہۃ الخواطر، ج: 2، ص: 182
[14] ۔ ایضا
[15] ۔ منتخب التواریخ ، عبد القادر بدایونی،ترجمہ، احتشام الدین، منشی نول کشور، لکھنو،1889ء، ص: 45
[16] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ص: 160
[17] ۔ تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی بہ تصحیح سر سید احمد خان، سر سید اکیڈمی، علی گڑھ، 2005ء ص: 119
[18] ۔ اخبار الاخیار ، شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ ، ترجمہ ،مولانا سبحان محمود اور مولانا محمد فاضل ، اکبر بک سیلرز، لاہور، 2004ء ، ص: 239
[19] ۔ ایضاً
کمنت کیجے