عمران شاہد بھنڈر
ہم نے اب تک متکلمین کی جن پوزیشنز کا ابطال کیا ہے وہ درج ذیل ہیں۔
1۔ آپ نے کہا خدا خالق ہے۔ ہم نے کہا مخلوق سے پہلے کوئی خالق نہیں ہوتا۔ پھر آپ نے پوزیشن بدلی اور کہا کہ خدا پوٹنشئل خالق ہے۔ ہم نے کہا مخلوق بھی پوٹنشئل مخلوق ہے۔ خدا جب بطور خالق حقیقی (ایکچوئلائز) ہو گا، مخلوق بھی حقیقی ہو گی۔ اس سے پہلے دونوں بطور صفات نتھنگ ہیں یعنی عدم ہیں۔
2۔ آپ نے کہا خدا علت ہے۔ ہم نے کہا علت کس کی؟ آپ نے کہا کائنات کی۔ ہم نے کہا کہ آپ خود کہتے ہیں علت و معلول میں زمانی بعد نہیں ہوتا۔ دونوں بیک وقت ہوتے ہیں تو اس صورت میں پہلے اور بعد کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
3۔ ہم نے کہا کہ علیت کی کیٹیگری کا ماورائے زمان کوئی استعمال نہیں ہے۔ اگر کوئی استعمال ہے تو استعمال کر کے دکھائیں۔ آپ نے کہا کہ علت دو طرح سے موثر ہوتی ہے: یا تو وہ معدوم کو موجود کرتی ہے جیسا کہ کائنات اور یا آگ کی طرح روئی کو معدوم کرتی ہے۔ آپ نے تسلیم کیا کہ کائنات سے پہلے وہ معدوم تھی۔ ہم نے کہا کہ وہ معدومیت کس کے ساتھ تھی؟ آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ عدم تو تھا ہی نہیں۔ لیکن یہ مانتے ہیں کائنات معدوم تھی۔
4۔ آپ نے کہا کہ خدا مفعول یا معدوم کو وجود میں لاتا ہے۔ ہم نے کہا جب کائنات موجود نہیں تھی تو معدوم تھی، لہذا مفعول بھی کائنات سے پہلے تھا۔ پھر معدوم اور مفعول کون تھا؟ آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
5۔ آپ نے صفات کو فعلیہ اور ذاتیہ میں تقسیم کر دیا۔ ہم نے کہا کہ کائنات کو ہٹا کر صفات تو دور صرف اس (خدا) کی موجودگی کو ثابت کر دیں گے تو ہم اپنا مقدمہ واپس لے لیں گے۔ کائنات اس (خدا) کا واحد حوالہ ہے۔ اس کے بغیر خدا عدم ہے یعنی نتھنگ ہے۔ اس کے علاوہ خدا کی کوئی فلسفیانہ و منطقی پوزیشن نہیں بنتی۔ اگر کوئی چیز بچتی ہے تو صرف عقیدہ جس کی کوئی منطقی حیثیت نہیں ہے۔ کیونکہ عقیدہ مفروضات کا پلندا ہوتا ہے۔
6۔ ہم نے کہا کہ ہر انسانی اور کائناتی صفت کو آپ نے خدا پر لاگو کر دیا ہے۔ ہمارا کہنا ہے کہ خدا عدمیت کا ایسا تصور ہے جس کی سرے سے اپنی کوئی پوزیشن ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی ہے تو انسانی اور کائناتی صفات کے علاوہ اس کی صرف ایک صفت بتا دیں۔
7۔ ہم نے واضح کیا کہ اگر ہم پوچھیں کہ خدا کیا ہے؟ تو اس کا کوئی بھی جواب کائنات سے قبل نہیں دیا جا سکتا۔ آپ کہیں کہ خدا خدا ہے۔ ہم کہیں گے کہ تجرید عدم ہوتی ہے، موجودگی کی اپنی صفت بتائیں۔ اس کے بعد آپ کا خدا کائنات کا محتاج ہے۔ اور آپ کا مذہبی خدا محتاج کیسے ہو سکتا ہے! جس کا محتاج ہو، اسی کو خدا مان لینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے وحدت الوجودی خدا کے تجریدی تصور پر مطمئن نہیں تھے اور کائنات کو خدا مانتے تھے۔
8۔ مذہبی خدا کل بھی عدم تھا، آج بھی عدم ہے اور ہمیشہ عدم رہے گا۔ اگر نہیں تو فلسفیانہ و منطقی حوالے سے کائنات کو ہٹا کر اس کے وجود کو ثابت کریں۔ البتہ کائنات موجود ہے۔
9۔ آپ کے خدا کا تصور ایک لمحے میں اس وقت مسمار ہو جاتا ہے جو آپ کائنات کو معدوم مانتے ہیں۔ جب کائنات معدوم تھی تو خدا کی فعالیت کس پر تھی؟ ہمارا کہنا ہے خدا خود پر فعال تھا۔ کیونکہ مذہبیوں کا کہنا ہے کہ مادہ تو موجود ہی نہیں تھا۔ لہذا منطقی طور پر خدا فاعل ہی نہیں مفعول بھی تھا۔ خدا نے اپنی فعلیت سے اپنی مفعولیت کی نفی کی، کیونکہ اس کے بغیر اس کا وجود ہی کوئی نہیں ہے۔ یہ صرف آپ کے مقدمے کے ابطال کے لیے دلیل دی گئی ہے۔
10۔ ہمارا منطقی مقدمہ یہ ہے کہ خدا (اے) ہی بطور مفعول (ناٹ اے) “موجود” ہے۔ یعنی خدا کی نفی اس کے مفعول کی نفی ہے۔ اور اس کے مفعول کی نفی ایک وجود کا اثبات ہے۔ وہ وجود ہمارے سامنے ہے۔ ہم اسے کائنات کہتے ہیں۔ اس کے دو پہلو ہیں: ایک مقرونی (کنکریٹ) یا کائنات، دوسری اس میں موجود سپرٹ جو خود شعوری کی حامل عقل ہے، جو کائنات کی منطقی ہیئت ہے۔ جس کا “وجود” نہیں ہے، بلکہ وہ تجریدی قوت ہے اور اسی وجود (کائنات) کی منطقی ہیئت و قوت ہے۔ وہ قوت ختم نہیں ہوئی، بلکہ وہ خود کو Unfold کر رہی ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جبکہ آپ کا مذہبی خدا منہدم ہو چکا ہے۔
11۔ ہمارے نزدیک “مطلق” وہ ہے، جس کی خارج سے نفی نہ کی جا سکے۔ آپ کے خدا کا وجود ہی منطقی طور پر ثابت نہیں ہوتا، اس لیے اس کے اندر سے اس کی نفی ہوتی ہے۔ اور یہ نفی ہی ہے جو تجریدی مطلق کو حقیقی مطلق بناتی ہے۔ آپ جب اپنے خدا کو ڈھونڈ لیں، ہمیں اس کی کسی ایک خصوصیت سے آگاہ کر دیں۔ ہم آپ کے مقدمے پر غور کریں گے۔
12۔ الہیاتی اساطیری قصوں میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ “ہو جا” اور “ہو گئی۔” یہ منطقی مباحث ہیں جن میں ہر منطقی مقولہ خود کو ظاہر کرے گا۔ خلا ہوا تو پر کر دیں گے۔ لیکن منطق کو الہیاتی مداری گری نہیں بننے دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے