Home » دو مینار از مسعود مفتی : ایک تاثر
تاریخ / جغرافیہ سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

دو مینار از مسعود مفتی : ایک تاثر

محمد رضوان سلیم سندھو

بوئے گل, نالہ دل, دودِچراغِ محفل
جو تِری بزم سے نکلا سو پریشان نکلا

(غالب)

جب سے بزرگوار ڈاکٹر ساجد علی صاحب نے اپنی دیوار پر دو مینار سے اقتباسات لگانا شروع کیے میری تکلیف بڑھتی گئی. ایسی تکلیف دور کرنے کا واحد طریقہ یہی ہوتا ہے کہ جائیے اور کتاب خرید لائیے اور اس میں غرق ہو جائیے. کتاب خرید لی گئی اور آج مغرب سے پہلے تین روز کی کوشش کے بعد ہضم ہو گئی. بقول مصنف مغربی پاکستانی روایت کے مطابق خاموشی افضل ہے کہ کہیں اصل حاکموں کو کوئی تبصرہ ناگوار ناں گزر جائے مگر دل ہے کہ کم از کم مختصر تاثر دئیے بغیر راضی نہیں. آخر جو مصنف نے لکھا ہے وہ وطن عزیز کے اغوا کی درد بھری داستان ہے جسکی واردات 1958 میں ایوب خان نے انجام دی. یہ واردات کا انجام دراصل قائد کے پاکستان کے لٹنے کا آغاز تھا. پھر ہر حاکم نے استطاعت سے بڑھ کر لوٹ مار میں حصہ لیا.
کتاب کا اصل موضوع تو 1947 سے لے کر 1972 تک افسر شاہی کا عروج و زوال, اسکا پاکستان کے ابتدائ سالوں میں تعمیر وطن میں کردار اور پھر ایوب, یحییٰ اور بھٹو کے ہاتھوں قتل خاص ہے. مرکزی موضوع کے علاوہ بھی بہت سارے تذکرے ہیں جن سے آپ پاکستان کے ابتدائی 11سالوں کو بہت بہتر سمجھ سکتے ہیں. کتاب اس پراپیگنڈہ کا مؤثر توڑ کرتی ہے کہ 1958 سے پہلے پاکستان ڈوب رہا تھا اور ایوب خان ایک مسیخا بن کر نازل ہوا. کتاب منظم پھیلائے ہوے جھوٹ کے برعکس یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم نے جو پایا وہ پہلے گیارہ برسوں میں پایا اور اسکے بعد ایسے تنزل کا شکار ہوئے کہ آج تک واپسی نہیں ہوئی. ایوب وطن عزیز پر آفریت بن کر نازل ہوا اور ہمیں اندھے گڑھے میں دھکیل گیا.
کتاب ادب سے بھرپور ہے, ہر باب /مضمون مصنف کے اعلیٰ ادبی ذوق کا مظہر ہے. انگریزی دور کے حسن انتظام کا تذکرہ نہایت دلچسپ ہے, خاص طور پر سر شام گلی بازاروں میں چراغ جلانے کا انتظام. ان دنوں کا بیان جب ابھی آذادی نہیں ملی تھی تقسیم نہیں ہوی تھی. معاشرہ کیسا تھا لوگ کیسے تھے, ایک ایسا سماج جس میں مختلف مذاہب کے لوگ روداری اور محبت سے رہتے تھے اور پھر کیسے چھپی ہوی عداوتیں ذہر قاتل ثابت ہوئیں. میں سمجھتا ہوں جس کھلے دل سے مصنف نے علامہ مشرقی اور انکی خاکسار کا تذکرہ کیا ہے بہت کم پڑھنے کو ملا.
کتاب کے  مرکزی موضوع پر ابھی کچھ مہینوں پہلےڈاکٹر عشرت حسین نے بھی کتاب لکھی ہے جو میری نظر سے گزری اسلیے حقائق تو وہی ہیں مگر انداز بے حد دلچسپ. کتاب ایک بروقت یاددہانی ہے کہ قائد کا پاکستان کیا تھا اور ہم نے اسے کیا بنا دیا. مکمل احاطے کے لئے جتنا وقت اور تبصرہ چاہئے وہ پھر کبھی سہی. یہ کتاب ہر چھوٹے بڑے کو ضرور پڑھنی چاھئے خاص طور پر نوجوانوں کو تاکہ وہ اصل حقائق جان سکیں. یہ کتاب بجا طور پر ہمارے اصل المیے کا بیان ہے, اگر ہم چاہیں تو آج بھی بیان کردہ حقائق کی روشنی میں اپنی اصلاح کر سکتے ہیں.فقیہِ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب کرنا ہی پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے
کتاب بالکل درست تشخیص کرتی ہے کہ وہ پانچ بڑے عوامل جو کے پاکستان کے وجود کے ساتھ وابستہ تھے ان پر قابو ناپایا جانا ہمارے زوال کی وجہ بنی. وہ عوامل بالترتیب جاگیردار عناصر کی پاکستان میں شمولیت, پاکستان مخالف ملاء کی موقع پرستی, تقسیم کی وجہ سے جونئیر فوجی افسروں کا تیزی سے ان عُہدوں پر پہنچ جانا جس کے وہ اہل ناں تھے , انا پرستی اور دو حصوں کے درمیان تمدنی فرق. قائد اعظم اور لیاقت علی خان کو اگر اتنی مہلت مل جاتی جو بھارتی قیادت کو ملی تو یقیناً یہ بنیاد میں موجود منفی عناصر قابو میں رہتے, مگر افسوس.
آگے چل کر یہی بنیاد میں موجود منفی عناصر ہی تباہی کا باعث بنے. ایوب اور یحییٰ نے جاگیرداروں کے ساتھ مل کر تباہی پھیلائی, بھٹو نے مذہبی لوگوں کو شامل کیا اور ضیاء دور میں یہی مذہبی طبقہ آفریت بن گیا. ایوبی دور انگنت عیوب سے بھر پور تھا. آج کے دور میں جتنی برائیاں اس قوم میں ہیں سب کی بنیاد ایوبی دور میں رکھی گئی.
ایوب ہی وہ مجرم ہے جس نے مشرقی و مغربی پاکستان میں تقسیم کے بیج بوئے. ایوب نے سول اداروں کو تباہ کیا اور ملکی اثاثوں پر بے دریغ قبضہ جمایا جس کی روایت آج بھی قائم ہے. اس شخص نے حکومت کو ریاست پر صرف اسلئیے غالب کر دیا تاکہ اسکی ہر خواہش قانون بن جائے. آج یہ روایت ہماری ہر حکومت کا وتیرہ بن چکی ہے.
کتاب اپنے عمود پر اسطرح کھڑی رہتی ہے کہ اسکے اسباب اور اثرات پر مستقل روشنی پڑتی رہتی ہے. مصنف کا کمال یہ ہے کہ اسنے مرکزی موضوع پر کھڑے رہ کر آزادی سے لے کر آج تک کی صورتحال واضح کردی ہے.
میں اپنی ذات میں نیلام ہو رہا ہوں قتیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد رضوان سلیم سندھو صاحب نے مینجمنٹ سائنس میں ڈاکٹریٹ کی ہے اور ورچوئیل یونیورسٹی میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں