Home » Being, nothing, becoming (3)
فلسفہ کلام

Being, nothing, becoming (3)

عمران شاہد بھنڈر

مذہبی مقدمہ یہ ہے کہ آغاز میں وجود (خدا) تھا اور کائنات نہیں تھی۔ یعنی خدا کا ہونا اور کائنات کا نہ ہونا دونوں تھے۔ کائنات بطور عدم مستور تھی۔ اگر عدم (کائنات) نہ ہوتا، تو وجود کی معنویت جو کہ اس کی فعلیت میں تھی، وہ بھی نہ ہوتی۔ لہذا عدم وجود کی ہی خصوصیت ہے اور عدم وجود کے اندر سے پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ “باہر” تو اس صورت میں تسلیم کریں جب “ایک” کے علاوہ “دوسرے” کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ جبکہ مذہبیوں کے مطابق ابتدا میں ایک تھا، دوسرا یعنی عدم اسی میں مستور تھا۔ دوسرا یعنی عدم جو کہ مستور تھا، وہ بطور لزوم مکشوف ہوا۔ کیونکہ اس کا مستور رہنا پہلے کا عدم ہی رہتا۔ لہذا کائنات کی لازمیت تھی جس نے وجود میں عدمیت کو وجود پذیر کیا اور مذہبیوں کے مقدمے کے تحت خود بھی بامعنی کہلایا۔

عدم ایک عقلی مقولہ ہے۔ ہیگلیائی منطق میں اسے وجود کی عدمیت کے متماثل استعمال کیا گیا ہے جو کہ منطقی اعتبار سے درست ہے۔ یہ عدم تجریدی وجود کی نفی ہے۔ یعنی کائنات نہ ہوتی تو وجود بھی عدم ہی رہتا، کیونکہ یہ عدم وجود میں تھا۔ اس لیے اس اہم نکتے کو سمجھنا ازحد ضروری ہے کہ نہ ہونا وجود ہی کا نہ ہونا ہے اور عقل یہ شناخت کرتی ہے کہ جو موجود ہے، اسی کے اندر عدم ہے۔ عدم (کائنات) تجریدی وجود (خدا) کی نفی ہے۔ جبکہ عدم یا کائنات مقرونی حیثیت میں مکشوف ہوتی ہے جبکہ جو کائنات کو خلق کرنے کا دعوے دار ہے اسے کائنات کے کندھوں پر سوار کر دیا گیا ہے۔ کائنات کے بغیر وہ مطلق عدم ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ مذہبیوں کا خدا جو کائنات کی تخلیق سے پہلے موجودگی کا دعوے دار تھا، وہ کائنات کی تخلیق کے بعد کہاں چلا گیا ہے؟ اس سوال کا مذہبیوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ وہ جواب کے طور پر عقیدہ پیش کر دیتے ہیں جس کی بنیاد عہد طفولیت کے انسان کے قصے کہانیاں ہیں۔

اگر ہم مذہبیوں کا مقدمہ تسلیم کر لیں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عدم وجود کے ساتھ نہ ہوتا تو وہ کائنات کو وجود پذیر نہیں کر سکتا تھا۔ لہذا عدم وجود کا جزو لاینفک ہے۔

ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ وجود قابل مشاہدہ ہوتا ہے اور عدم مشاہدے میں نہیں آتا۔ صرف عقل بتاتی ہے کہ یہ وجود ہی ہے جو عدم ہے۔ کیونکہ وجود کے علاوہ تو کچھ بھی نہیں جس کو عدم کہا جا سکے۔ لہذا جب کائنات کا وجود ہوا تو “پہلا وجود” فرضی خدا جو کبھی بھی قابل مشاہدہ نہیں رہا، اس کی عدمیت واضح ہو گئی۔ اب ہمارے سامنے صرف کائنات قابل مشاہدہ وجود ہے اور دوسری طرف مذہبی خدا مطلق عدمیت ہے جو کبھی بھی قابل مشاہدہ نہ تھا، نہ ہے!

کانٹ نے “نسبت” کے تعلق سے ایک مقولہ فاعل اور مفعول دریافت کیا تھا۔ اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کا زمان و مکاں سے ماورا کوئی استعمال نہیں ہے۔ کیونکہ زمان و مکاں سے ماورا فاعل کو دریافت کر لیا تو مفعول کہاں سے آئے گا؟ کیونکہ مفعول (کائنات) تو زمان و مکاں کا آغاز ہے۔ یہ ایسا باکمال قضیہ تھا جسے کانٹ حل نہ کر سکا۔ ہیگل نے “منطق کی سائنس” میں بآسانی حل کر دیا۔

جب کائنات نہیں تھی تو فاعل (خدا، وجود) تھا۔ لیکن کائنات سے پہلے مفعول کون تھا؟ ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ جس طرح وجود کے اندر عدم تھا، اسی طرح فاعل کے اندر اس کا مفعول تھا۔ کیونکہ معروض (کائنات) تو موجود نہیں تھا۔ اس لیے جو فاعل تھا وہ کسی اور شے پر عمل آرا نہیں تھا، بلکہ اس کی فعلیت اس کی اپنی مفعولیت پر تھی۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ جب کائنات موجود نہیں تھی، یعنی عدمیت وجود میں مستور تھی تو مفعولیت کا مقولہ عمل آرا نہیں ہو سکتا! لہذا ہمارے لیے وجود میں عدم کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہیں۔ کیونکہ یہ وجود ہی ہے جو عدم ہوتا ہے۔ مذہبی خدا جو کہ مطلق عدم ہے اسے اپنی “موجودگی” کو ثابت کرنا ہے۔ وہ اگر زمان و مکاں سے ماورا ہے تو زمان و مکاں کے اندر قابل اطلاق مقولات و تصورات کا اس پر اطلاق ناممکنات میں سے ہے، جبکہ کائنات کے وجود میں آنے سے قبل عدم اسی وجود میں تھا، بلکہ یوں کہیں کہ وجود عدم بھی تھا اور ایک تجریدی شناخت کا حامل عدم وجود تھا جو صفات و خد و  خال سے عاری تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں