علت و معلول کی حقیقت پر متکلمین کے طریقہ بحث پر تحریر کے جواب میں بعض لوگوں نے اعتراضات و نقد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ذیل میں ہم ان اعتراضات کو ترتیب وار سوالاً جواباً پیش کرتے ہیں۔
اعتراض 1:
ایک صاحب نے ھیگیلین جدلیات کی بھاری بھرکم اصطلاح استعمال کرکے اثبات صانع پر متکلمین کا مقدمہ غلط ثابت کرنے کے واسطے یہ کہا کہ علت و معلول دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں، وہ اس طرح کہ جب تک معلول نہ ہو علت کہلائی جانے والی شے علت نہیں ہوتی۔ اس کی مثالیں وہ یہ دیتے ہیں کہ دیکھو جب بیٹا پیدا ہوگا تبھی کوئی باپ ہوگا، بال پر ہاکی لگ کر جب بال حرکت کرے گی تبھی ہاکی علت بنے گی، جب پتھر سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹے گا تبھی پتھر علت ہوگا اگر کھڑکی کی جانب پتھر اچھالا گیا مگر شیشہ ٹوٹا ہی نہیں تو وہ علت بھی نہیں وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ علت معلول کے اندر ہوتی ہے، دیکھو حادث ہوگا تو اس کی وجہ سے ہی محدث ہوگا، یعنی علت حادث کے اندر ہوتی ہے۔ اس سے وہ دو نتائج نکالتے ہیں:
- علت و معلول دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہوتے ہیں، علت معلول کا معلول ہے اور معلول علت کی علت، ان میں دوئی نہیں ہے
- جب خدا نے کائنات پیدا نہ کی تو وہ خالق بھی نہیں تھا، پس اہل مذہب کا مقدمہ غلط ہے کہ وہ ازل سے خالق ہے
جواب :
ہم نے اپنی تحریر میں ثابت کیا تھا کہ کانٹ کا یہ دعوی غلط ہے کہ علت معلول سے زمانی طور پر ماقبل ہوتی ہے نیز یہ بھی کہ علت و معلول لازماً زمانی تصورات ہیں۔ ہم نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ حادث علت نہیں ہوسکتا کہ یہ اس کے تصور ہی کے خلاف ہےاور علت کا مفہوم بھی بتایا تھا۔ اس پر کچھ کہنے کے بجائے ناقد نئی بات لے آئے ہیں کہ علت و معلول نہ صرف ایک ساتھ پائے جاتے ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے محتاج بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہہ کر کم از کم انہو ں نے یہ مان لیا کہ کانٹ کی یہ بات غلط تھی کہ علت معلول سے زمانی طور پر مقدم ہوتی ہے۔
ناقد کے اعتراض کے دو حصے ہیں جن پر تبصرہ کیا جاتاہے۔
پہلا حصہ: علت معلول کی محتاج نہیں ہوتی
ناقد نے پوری تحریر میں یہ تک نہیں بتایا کہ علت و معلول سے ان کی مراد کیا ہےاور یہ دعوی کردیا ہے کہ علت معلول کی محتاج ہوتی ہے۔ جب تک یہ علت کا تصور واضح نہیں کیا جاتا خلط مبحث یونہی جاری رہے گا، آئیے ہم واضح کرتے ہیں۔
لفظ علت دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:
(1) نسبت یا تعلق
(2) موجب یا مؤثر
نسبت یا تعلق کا مطلب یہ ہے کہ علیت دو اشیا کے مابین خاص طرح کے تعلق کا نام ہے اور تعلق تب متحقق ہوتا ہے جب دونوں جانب کچھ ہو۔ تعلق امر ثبوتی یا وجود خارجی نہیں ہوتا بلکہ وجود ذہنی یا تصور ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ کہنا درست ہے کہ “تصور علت بطور وجود ذھنی” دو اشیا کے ساتھ قائم ہوتا ہے اور دونوں کے بغیر یہ متحقق نہیں ہوتا۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس تعلق میں بندھنے والی دو اشیا وجودی یا اثباتی طور پر ایک دوسرے کی محتاج ہوتی ہیں۔ علیت کی نسبت دیگر نسبتوں (مثلاً صفت ذاتی و موصوف) سے کیسے مختلف ہے، جب ہم نے ناقد سے یہ سوال پوچھا کہ ان دو نسبتوں میں کیا فرق ہے تو وہ اس پر کچھ کہنے سے قاصر رہے جبکہ اس میں جواب پنہاں ہے۔ علیت دو اشیا کے مابین “فعلیت و انفعالیت ” کی نسبت کا نام ہے۔ اسی بنا پر علت بطور نسبت کا مطلب وہ شے ہے جس کا وجود و عدم وجود کسی دوسری شے کے وجود و عدم کو لازم کرے اور اسی فعلیت کے معنی میں وہ معلول سے مقدم ہوتی ہے (نہ کہ زمانی جہت میں جیسے کہ پہلے واضح کیا گی کہ علیت زمانی تقدم و معیت سے مختلف تصور ہے)۔ اگر علت و معلول سے اثر پزیری کے اعتبار سے مقدم و مؤخر ہونے کا یہ مفہوم ختم کردیا جائے تو یہ صفت لازم و موصوف کی نسبت سے جدا نہ ہوسکے گی کہ وہ بھی ایک ساتھ موجود و معدوم ہوتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی کسی کی علت (یعنی اس پر مؤثر) نہیں ہوتا۔ چنانچہ علت کا دوسرا مطلب ہے “مؤثر یا موجب ہونا”، یعنی علت وہ موجود یا شے ہے جو کسی دوسری شے پر بایں معنی موثر ہے کہ اس کا وجود و عدم وجود دوسری شے کے وجود و عدم وجود کو لازم ہے۔ جو شخص اس دوسرے مفہوم (یعنی مؤثر) کے اعتبار سے علت کو معلول کا محتاج کہتا ہے اسے علت و معلول کا معنی ہی معلوم نہیں۔ دونوں موجودات کا ایک ساتھ پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ دونوں اثر پزیری کے تعلق کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ حادث اسی معنی میں معلول (محتاج) ہوتا ہے کہ وہ اپنی انفعالیت کی بنا پر مؤثر (یعنی محدث) کی حاجت رکھتا ہے جو اس پر اثر انداز ہوکر اسے موجود کرے۔ اس سے یہ مطلب پیدا کرنا کہ محدث بھی اسی علیتی معنی میں حادث کا محتاج ہوتا ہے بے عقلی ہے۔ آسان زبان میں سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں جملے ایک ہی بات بیان کررہے ہیں: “آگ روئی کو جلاتی ہے”، “روئی آگ کو جلاتی ہے”؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔
چنانچہ علت بطور نسبت کی دونوں اطراف جو اشیا ہوتی ہیں، اس نسبت کا دونوں کے ساتھ تعلق ہم معنی نہیں ہوتا، اس کے ایک جانب مؤثر اور دوسری جانب اثر ہوتا ہے (مزید تکنیکی زبان میں بات یہ ہے کہ ایک جانب واجب اور دوسری جانب ممکن ہوتا ہے)۔ چنانچہ ناقد نے علت کے ان دو مفاہیم کے فرق کا خیال نہ رکھتے ہوئے ھیگیلین فلسفے کے نام پر صرف دھول اڑانے کی کوشش کی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں علت کا مفہوم معلوم نہیں۔ اسی طرح علت و معلول کی معیت نہ زمانی معیت ہے اور نہ ہی مکانی بلکہ یہ فعلیت اور اثر کی معیت ہے۔ پھر یہ بھی دھیان رہے کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے علت محض تصور نہیں ہے بلکہ امر وجودی ہے، پس اگر کائنات (اثر) موجود ہے تو مؤثر بھی یقینا موجود ہے۔
دوسرا حصہ: خارج میں عالم معدوم ہونے سے عالم کی علت کا معدوم ہونا لازم نہیں آتا
اعتراض کا دوسرا نکتہ قدم عالم والوں کا مشہور زمانہ استدلال ہے کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا قدیم ہو مگر کائنات حادث (یعنی مبسوق بالعدم) ہو؟ یعنی اگر علت تام ہے اور اس کا اثر ظاہر ہونے میں کوئی مانع بھی نہیں تو معلول ظاہر ہوکر رہتا ہے۔ موصوف نے اس استدلال کو صرف پلٹ کر یوں کہہ دیا ہے کہ جب کائنات (یعنی مخلوق) نہ تھی تو خدا کا خالق ہونے کا کوئی مطلب نہیں۔ یہ امام غزالی کی کتاب “تھافۃ الفلاسفۃ” کے پہلے باب کی پہلی بحث میں درج دلیل ہے۔ ہم نے ناقد سے کہا تھا کہ ہم دو جملوں میں اس کا جواب دیں گے اور ان کی بھی خواہش تھی کہ دو ہی جملے کہے جائیں۔ تو ہم دو جملے کہتے ہیں:
(1) جب ہم نے دلیل سے جان لیا کہ حادث کائنات کی علت ارادہ ہے اور ارادہ قدرت و علم کو لازم کرتا ہے اور قدرت نام ہی متعدد امکانات کے مابین بطریق بدل فعل (یعنی اثر ظاہر) کرسکنے و نہ کرسکنے کی صلاحیت کا نام ہے،
(2) تو ہم نے جان لیا کہ قادر کے لئے یہ ممکن ہے کہ ارادے کی مراد کو کسی خاص نکتے تک معدوم رکھنے اور اس نکتے پر اس کے ظاہر کرنے کا ارادہ کرے۔
پس ناقد کا یہ اعتراض بوگس ہے کہ جب کائنات نہ تھی تو خدا کسی بھی معنی میں علت و خالق نہیں ہوسکتا۔ خدا ازل سے قادر ہے اور جو قادر ہو وہ بمعنی پوٹنشل (اثر پزیری کی صلاحیت) خالق ہوتا ہے، اگرچہ اس کی قدرت کا اثر بوجہ ارادہ موخر ہو۔ اسی لئے متکلمین ذات باری کی صفات ذاتیہ و فعلیہ میں فرق کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر ضمناً مفیدہوگا کہ وجود اور خالق دو الگ تصورات ہیں نیز ذات باری کا بنیادی تعارف خالق ہونا نہیں بلکہ قادر ہونا ہے۔
یہاں سے یہ استدلال پوری طرح رفع ہوگیا کہ “جب تک معلول (اثر) نہ ہو تو علت (مؤثر) بھی نہیں ہوتی”۔ یہ بات “ظہور” کے لحاظ سے درست ہے نہ کہ “موجود ہونے” کے لحاظ سے۔ یعنی علت حقیقی جب با ارادہ صاحب قدرت ذات ہے، تو قدرت کے اثر (یعنی مخلوق) کا نہ ہونا قدرت (خلق کرسکنے کی صلاحیت) کی نفی کے ہم معنی نہیں ہے۔ یہ استدلال اسی پرانی غلط فہمی سے پیدا ہوا ہے جو ارسطو سمیت اس کے مسلم پیروکار فلاسفہ کو لاحق تھی جس کی رو سے علت فاعل مختار نہیں بلکہ ایسی شے تھی جو بالطبع اشیا پر اثر انداز ہوا کرتی ہے۔ مغربی فلاسفہ بھی علت کے نام پر اسی غلط فہمی کا شکار رہے ہیں۔
اعتراض 2:
ناقد نے موضوع پر مزید اعتراضات کا اظہار فرمایا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
“(آپ کی بات سے ثابت ہوا کہ) خدا خالق نہیں بلکہ “پوٹنشل” خالق ہوتا ہے۔ ہمارا مقدمہ درست ثابت ہوا کہ تخلیق یا مخلوق سے پہلے کوئی خالق نہیں تھا۔ “پوٹنشل” خالق اس وقت خالق ہوگا جب تخلیق کرے گا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ ایک انسان تو تھا لیکن وہ ایک پوٹنشل ڈاکٹر، پوٹنشل وکیل، پوٹنشل شاعراور ایک پوٹنشل کباڑیہ تھا۔ لہذا موجودگی خالق کی عدم موجودگی ہے۔ یہی بات قادر اور علت کے تصور پر لاگو ہوتی ہے۔ یعنی وہ ایک پوٹنشل قادر اور ایک پوٹنشل علت تھا۔ مختصر یہ کہ مخلوق یا معلول سے پہلے وہ صرف ایک پوٹنشل تھا اور کچھ نہیں۔”
جواب : عمل کرنے کی صلاحیت (پوٹنشل) اور اس سے متصف ذات معدوم نہیں ہوتی
“خالق اس وقت (بالفعل) خالق ہوگا جب تخلیق کرے گا”، یہ بات درست ہے اس لئے کہ خالق ہونا صفت فعلی ہے جو قدرت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔ تو جو قادر ہے وہ ہر صفت فعلی (خالق رازق وغیرہ) کا ازل سے متصف ہے اگرچہ کچھ خلق نہ کرے، اسے “خالق بالقوۃ” کہتے ہیں۔ یہ باتیں کرکے انہوں نے ہمارے علم میں ایک ذرے کا بھی اضافہ نہیں کیا، متکلمین آج سے نہیں ابتدا سے اس فرق کو پہچانتے ہیں اور اگر آپ ایک ہزار سال سے زیادہ قدیم کلامی کتاب اٹھا کر دیکھیں تو ان میں بھی صفات ذاتیہ و فعلیہ کی واضح تقسیم کی جاتی ہے اور متکلمین خالق ہونے کو ذات باری کی صفات ذاتیہ میں شمار نہیں کرتے بلکہ ازلی صفت ذاتی قادر ہونا ہے۔ لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ “یہی بات قادر اور علت کے تصور پر لاگو ہوتی ہے” تو یہ لاعلمی کا اظہار ہے کیونکہ قدرت فعل نہیں فعل کرسکنے یا نہ کرسکنے کی صلاحیت ہے، پس جب علت قدرت و ارادے سے متصف ذات ہو تو اس کے بارے میں “قادر بالقوۃ” کہنا تحصیل حاصل ہے۔
موصوف کو “موجود بالقوۃ” اور “خالق بالقوۃ” کا فرق معلوم نہیں، اس لئے پوٹنشل کو عدم کہتے رہے۔ چنانچہ خدا کو معدوم ثابت کرنے کے لئے لکھتے ہیں:
“ایک پوٹنشل خالق، علت اور قادر جب تک حقیقی (ایکچوئل) نہ ہو وہ عدم ہی ہوتا ہے۔”
موصوف کو “خالق بالقوۃ” اور “قادر بالقوۃ” کے دعوے کی غلطی نظر نہ آئی تو اس کے ساتھ اگلی غلطی یہ کی کہ صفت کو معدوم فرض کرلیا۔ قدرت صفت ہے جو امر ثبوتی ہے نہ کہ عدم (نفی محض)۔ چنانچہ قادر موجود بالقوۃ نہیں ہوتا بلکہ موجود ہوتا ہے، ہاں اس کی قدرت (یعنی فعل) کا اثر موجود بالقوۃ ہوتا ہے۔ تو اگر کسی چیز کو موجود بالقوۃ کہہ کر معدوم کہا جاسکتا ہے تو وہ مخلوق ہے نہ کہ خالق، وہ تو ازل سے بطور قادر موجود اور ازل سے بالقوۃ خالق موجود ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی مفید ہوگی کہ لفظ “پوٹنشل ” دو معانی میں بولا جاتا ہے:
ا۔ پوٹنشل وجود
2۔ عمل کرنے کی صلاحیت
اول الذکر وجود سے قبل معدوم ہوتا ہے (جیسے ممکن الوجود) جبکہ موخر الذکر موجود صفت کا نام ہے جو ایک موجود ذات کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔
اعتراض 3:
پچھلی بات کے ساتھ دوسری بات انہوں نے یہ ملائی ہے کہ فاعل کے مفعول پر اثر انداز ہونے کے لئے مفعول کا ہونا ضروری ہے لیکن جب کائنات نہ تھی تو عدم تھا، تو خدا کی قدرت کی تاثیر کس چیز پر ظاہر ہوئی ؟ نیز یہ عدم کہاں تھا، خدا کے اندر یا باہر؟ اس سے موصوف نے یہ نتیجہ نکالا کہ دراصل خدا ہی عدم تھا اور کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ اہل مذہب ایک معدوم شے کو خدا کہتے ہیں۔
جواب
اس اعتراض میں متعدد دعوے جمع ہیں، لہذا ان پر ترتیب وار تبصرہ کیا جاتا ہے۔
پہلا: فعل کے لئے مفعول کا وجود لازم نہیں
اس کا جواب ہم متعدد طرح سمجھاتے ہیں جو ایک ہی بات کے مختلف زاویے ہیں۔ جب یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اللہ کی قدرت نے کس پر اثر کیا جبکہ اس کے سوا سب عدم تھا تو اس کا جواب ہے “ارادے کی مراد پر”(یاد رہے کہ علت (وجہ ترجیح) ارادہ ہے کیونکہ کائنات تعیینات، تخصیصات و ترتیبات سے عبارت ہے اور یہ سب ارادے کا متقاضی ہے۔ تو جب قادر کے سوا کچھ نہیں تھا تب بھی قادر کے لئے ممکن تھا کہ وہ ارادہ کرکے اس کی مراد کو ظاہر کرے۔ اس نے یہ کیسے کیا، یہ صورت و کیفیت کا سوال ہے جسے ہم نہیں سمجھ سکتے کہ وہ زمان و مکان سے ماورا ہے۔ البتہ انسانی سطح پر ہم اس کا جزوی سا تجربہ یوں کرتے ہیں کہ کرسی موجود نہ تھی، ہم نے اس کا ارادہ کرکے اسے موجود کردیا۔ انسان کرسی بنانے کے لئے لکڑی کا محتاج ہے، لیکن قادر مطلق اس کا محتاج نہیں۔
متکلمین کے ہاں یہ بات علم فعلی (active)و انفعالی (passive) کے فرق کے تحت بھی زیر بحث آتی ہے۔ انفعالی علم کامنبع عالم (knower) سے خارج میں ہوتا ہے اور اس لئے یہ علم معلوم کے تابع اور صرف صفت کاشفہ ہوتا ہے۔ جیسے میرے ارادے کے بغیر سورج موجود ہے اور میں نے اسے دیکھ لیا، تو میرا علم سورج کے ہونے کے تابع ہے۔ علم انفعالی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ شے معلوم کے مطابق ہونا چاہئے، بصورت دیگر وہ علم نہیں جہل ہوگا کہ وہ خلاف واقعہ ہے۔ مثلاً اگر میں سورج کو بکری سمجھ رہا ہوں تو یہ علم نہیں۔ اس کے برعکس علم فعلی کا منبع عالم میں ہوتا ہے، یعنی جو وہ ارادہ کرتا ہے اس ارادے کی مراد اس کا علم ہوتا ہے، اور اگر وہ ارادے کو حقیقت کا روپ دینے پر قادر ہے تو مراد ویسی ہی موجود ہوگی جیسا اس نے ارادہ کیا۔ مثلاً میں اپنے ارادے سے ذہن میں ایک جھولے کا نقشہ بناؤں کہ “ایسا جھولا بنانا ہے” اور پھر اسے بنا دوں، تو یہاں میرا علم معلوم کے وجود کے تابع نہیں ہے بلکہ معلوم کا وجود (کہ وہ کیسا ہوگا) اس علم کے تابع ہے جو میرے ارادے سے مقدر ہوکر مجھے معلوم ہوا کہ شے ایسی بننا ہے۔ علم فعلی درحقیقت فاعل مختار کی مراد ہوتی ہے اور اس علم کی صداقت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مراد بعینہہ خارج میں وجود پزیر ہو، وگرنہ فاعل کا ارادہ مؤثر نہیں۔ الغرض فعل کی تاثیر دو صورت ہوا کرتی ہے:
- کبھی مفعول ایجاد سے پہلے سے موجود ہوتا ہے جیسے کتاب پڑھنا یا پانی پینا کہ یہاں کتاب و پانی پہلے سے موجود ہیں
- کبھی وہ فعل سے وجود میں آتا ہے جیسے کرسی بنانا یا پودا اگانا
پہلی قسم کے افعال کے بارے میں یہ سوال درست ہے کہ فعل جس شے (یعنی مفعول) سے وابستہ ہوا وہ شے فعل کے وقت کہاں تھی لیکن دوسرے قسم کے فعل کے حوالے سے یہ سوال ہی درست نہیں کیونکہ وہ چیز اس فعل کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔
مفسرین [1]و متکلمین نے اس سوال سے زیادہ بامعنی سوال پوچھ کر اسے ایڈریس کیاہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی شے کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے کہتے ہیں ہو جا تو وہ ہوجاتی ہے۔ اس مقام پر امر کا صیغہ (command form)، “ہوجا”، استعمال کیا گیا ہے جو کسی سمجھ رکھنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ تو آیت میں جو کہا گیا کہ “اس شے سے فرماتے ہیں”، یہاں شے سے کیا مراد ہے؟ اگر وہ موجود ہے تو یہ تحصیل حاصل ہے اور اگر معدوم ہے تو خطاب کس سے ہے؟ اصولیین و متکلمین واضح کرتے ہیں کہ خطاب دو قسم کا ہوتا ہے:
- خطاب تکوین : یہ کسی شے کو عدم سے وجود میں لانے کی تعبیر کا طریقہ ہے، یہ انسانی معنی والا خطاب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کے ارادے سے جب کوئی چیز وجود میں آتی ہے تو اس کا اظہار اس طرح کردیا جاتا ہے
- خطاب تشریع :یہ عقل و شعور والی ہستی کے لئے ہوتا ہے
ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ زیر بحث سوال ناقدین کے بیان کردہ اعتراض سے زیادہ بامعنی طور پر ہماری روایت میں زیر بحث آیا۔
اسی بات کو خطاب کی دو اقسام یعنی خبر اور انشا کے فرق سے بھی بیان کیا جاتا ہے۔ انسان افعال میں سے کلام بذات خود ایک اہم عمل ہے۔ زبان شناسی وفلسفہ زبان کی ذیلی بحث “نظریہ کلام و خطاب “(Speech act theory) کے تناظر میں بھی درج بالا بات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کلام کی ایک قسم کو “انشا” (Performative Utterance)کہا جاتا ہے۔ کلام بعض اوقات کسی ایسی چیز کے بارے میں خبر دیتا ہے جو پہلے سے موجود ہو۔ لیکن بعض اوقات ہمارا کلام ایک “موجد ” کا کام کرتے ہوئے کسی حقیقت کو وجود بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کو سچ و جھوٹ سے موسوم نہیں کیا جاتا۔ اس کی مثالیں کچھ یوں ہیں:
1۔ نکاح میں جب ایجاب وقبول کا اظہار دراصل ایک تعلق کو وجود بخشتا ہے
2۔ کسی ادارے کا مالک جب کسی سے کہتا ہے “میں تمہیں ملازمت پر رکھتا ہوں”یا “تمہیں ملازمت سے بر طرف کرتا ہوں”تو اس کا یہ اظہار دو ایسے امور کو جنم دیتا ہے جو اس کلام سے پہلے موجود نہیں تھے بلکہ اس کلام کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں
3۔ ہمارے خرید وفروخت کےمعاہدے اسی قبیل سے ہیں
سٹینفرڈ کے مشہور دائرۃ المعارف کے متعلقہ مقالے میں یہ بحث سے دیکھی جا سکتی ہے، اس کا یہ عنوان اور جملہ بامعنی ہے:
2.2 ؟ Can Saying Make it So
In some cases we can make something the case by saying that it is
اسلامی روایت میں “خبر وانشا ” کے تحت یہ بحث تفصیل سے ہوئی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے متکلمین، اصولیین، فقہا و نحوی حضرات نے ان دقیق بحثوں میں اپنا وقت بے سود نہیں کھپایا نیز یہ سب زندہ بحثیں ہیں۔
ناقد اس تفصیل کے باوجود یہ پوچھتے رہے کہ بتاؤ وہ مفعول کہاں تھا جس پر فعل ہوا؟ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے نزدیک نزدیک فعل کی حقیقت کیا ہے؟ جناب، فعل ہوتا ہی وہ ہے جس سے کچھ ایسا ہو جو پہلے معدوم تھا۔ ایسا کوئی فعل نہیں جس سے کچھ نیا نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فعل ہورہا ہو اور کچھ ایسا وجود میں نہ آرہا ہو جو پہلے موجود نہ تھا؟ اگر کوئی اصرار کرتا ہے کہ فعل ہونے کے لئے اس کے مفعول کا موجود ہونا لازم ہے تو یہ اصرار صرف یہ ظاہر کررہا ہے کہ اسے فعل کا مطلب معلوم نہیں۔ فعل معدوم مفعول کو موجود کرنے کا نام ہے یہ اس کے تصور میں شامل ہے، اور قادر وہ ہے جو ایسا کرسکے۔ چنانچہ یہ سوال لغو ہے کہ کائنات سے قبل وہ مفعول کہاں تھا جس پر فعل ہوا؟ موصوف کہتے ہیں کہ فاعل کے فعل کے لئے مفعول کو لازماً موجود ماننا گہری قسم کا جدلی فلسفہ ہے جسے سمجھنے سے متکلمین کی جہالت سمجھ آتی ہے۔ فاعل و مفعول کے بارے میں اس قسم کا فہم جدلی نہیں جنگلی فلسفہ ہے جہاں اس بات تک کا ادراک موجود نہیں کہ فعل کہتے کسے ہیں۔
دوسرا : مطلق عدم متحقق نہیں
کائنات عدم سے وجودمیں آئی، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ عدم کوئی شے تھی جو خدا سے الگ کہیں واقع تھی اور خدا نے وہاں کائنات پیدا کی بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کائنات نہ تھی اور پھر ہوگئی۔ ہم ان ناقد سے پوچھتے ہیں کہ تم بتاؤ کہ کیا وہ عدم تھا بھی جس سے متعلق آپ پوچھ رہے ہو کہ وہ “کہاں ” تھا؟
ہم کہتے ہیں کہ عدم کبھی متحقق تھا ہی نہیں۔ عدم کسی بھی وجود کے نہ ہونے کا نام ہے جبکہ جب کائنات نہ تھی تب بھی ذات باری موجود تھی، تو عدم تھا ہی کب؟ عدم (نفی محض یعنی absolute nothingness) تو تب متحقق ہوگا جب کوئی ذات نہ ہو۔ تو پہلے آپ عدم ثابت کرو، پھر ہم آپ کو اس کا مکان بتائیں گے۔ عدم صرف ایک اعتباری (relative) تصور ہے جو ممکن الوجود (مخلوق) سے متعلق ہے نہ کہ ذات باری سے کہ وہ واجب الوجود ہے، اس پر عدم محال ہے۔ عدم ممکن کے نہ ہونے کو کہا جاتا ہے، تو عدم کوئی “مطلق نہ ہونا” نہیں ہے۔ ایسا مطلق عدم نہ ذات باری کے اعتبار سے متحقق ہے کہ وہ ذات ازل سے ہے اور نہ تخلیق کے بعد مخلوق کے اعتبار سے کہ کوئی نہ کوئی مخلوق موجود ہے۔ یعنی معاملہ یوں ہے:
- ذات باری ازل سے موجود ہے، تو ذات باری کے لحاظ سے عدم ثابت نہ ہوا
- تخلیق کے بعد کوئی نہ کوئی مخلوق موجود تو پھر بھی عدم متحقق نہ ہوا
تو مطلق عدم متحقق ہی کب ہوا؟ تو جو چیز متحقق ہے وہ اعتباری عدم ہے اور وہ دو موجودات کی تقدیم و تاخیر سے جنم لیتا ہے (جیسے دو جزیات کی تقدیم و تاخیر میں ایک موجود اور دوسرا غیر موجود ہوتا ہے یا واجب اور ممکن کی تقدیم و تاخیر)۔ الغرض عدم تو لاحق ہی ممکن الوجود کو ہوتا ہےنیز یہ اعتباری تصور ہے۔ اس معلوم ہوا کہ یہ اعتباری عدم دراصل وجود کے مقابلے پر نہیں بلکہ زمان و مکان کے مقابلے پر بولا جاتا ہے، یعنی جب یہ کہا جاتا ہے کہ “جب عالم نہ تھا تو عدم تھا”تو یہاں عدم یا زمان کے مقابلے پر ہے اور یا مکان کے نہ کہ وجود کے، وجود تو ازل سے متحقق ہے بھلا اس کے مقابلے پر عدم کیسے آسکتا ہے؟ تو ہمارا سوال یہ ہے کہ پہلے آپ “مطلق نہ ہونے” کو ثابت کرکے دکھائیں، پھر اس کا “مکان” پوچھئے۔
تیسرا : خدا پر “کہاں ” کا سوال غلط ہے
یہ سوال متعدد غلط مفروضات کا مجموعہ ہے جو سب غلط ہیں:
- ذات باری کوئی جسم ہے کہ جس کا کچھ اندر و باہر ہے
- جب کائنات نہ تھی تو کسی نہ کسی معنی میں مکان موجود تھا جیسے اشیا سے خالی مکان (void)
- عدم اس void کا نام ہے نہ کہ نفی محض کا، خدا یا اس void سے متصل ہوگا اور یا منفصل
- لہذا عدم امر ثبوتی و وجودی ہے
لغو امور پر مبنی سوال غلط ہوتا ہے، ناقد معدوم کو بھی “موجود شے” کے معنی میں بول رہے ہیں جو خلط بحث ہے۔
ہم یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ سوال کوئی نیا نہیں ہے بلکہ بہت پرانا ہے۔ علم کلام (Islamic theology) کی روایت میں متکلمین کے مد مقابل مجسمہ و کرامیہ کے گروہ تھے، وہ بعینہہ اسی غلط فہمی کا شکار تھے جس کے یہ ناقد شکار ہیں۔ علم کلام کی روایت میں اشعری و ماتریدی متکلمین کے مدمقابل گروہوں میں سے مجسمہ و کرامیہ کے گروہ بھی تھے جو بعینہہ اسی غلط فہمی کا شکار تھے جس کے یہ ناقد شکار ہیں۔ ذات باری کے لازمی عقلی تنزیہی تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زمان و مکان سے متعلق سب تقاضوں جیسے کہ جہت اور جسمیت وغیرہ سب سے ماورا ہے (اس کے دلائل علم کلام کی کتب میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں)۔ چنانچہ متکلمین اسی لئے کہتے ہیں کہ ذات باری کے بارے میں نہ یہ کہنا درست ہے کہ وہ کائنات کے اندر ہے اور نہ یہ کہ وہ اس سے باہر ہے کیونکہ اتصال و انفصال دونوں جسم کی خصوصیات ہیں اور جسم زمان و مکان سے متعلق ہوتا ہے۔ یہ بنیادی بات نہ سمجھنے کی وجہ سے مجسمہ کا کہنا تھا کہ ذات باری نے جب اس عالم کو پیدا کیا تو یہ عمل یا اس کے اندر ہوا اور یا اس کے باہر، پہلی بات تو باطل ہے تو دوسری بات ہی درست ہوئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ ذات باری جہات کے اعتبار سے عالم سے الگ ہے، اور جو ذات نہ اس عالم کے اندر ہو اور نہ اس سے الگ وہ معدوم ہے۔ اسی لئے مجسمہ ذات باری کے لئے جہت کے قائل تھے۔ یہ باتیں علم کلام کی کتب میں تنزیہہ باری کے تحت تفصیل سے زیر بحث آتی ہیں۔ ان پہلووں کی زیادہ تفصیل کے شوقین حضرات امام رازی کی کتاب “المطالب العالیۃ” جلد دوئم ملاحظہ کریں۔ اس کے ایک باب میں امام صاحب نے گروہ مجسمہ کی جانب سے ان کے اس مقدمے پر نو دلائل ذکر کئے ہیں جن میں سے پہلے اور دوسرے کا خلاصہ یہی کچھ ہے۔ چنانچہ ناقد صاحب کے اعتراض میں ذرہ برابر بھی نیا پن نہیں۔ یہ اعتراض انہی غلط فہمیوں پر قائم ہے جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا جن کی غلطی علم کلام کی کتب میں واضح کی جاچکی ہے۔ متکلمین بتاتے ہیں کہ یہ سوال دراصل “وھم” کی کارستانی ہے، وھم ان کی خاص علمیاتی اصطلاح ہے جس سے مراد عقل کی وہ سطح ہے جو زمان و مکان سے متعلق ہے اور یہ اس وھم ہی کی کارستانی ہے کہ جب زمان و مکان معدوم ہوجائیں تب بھی زمان و مکان فرض کرکے سوال قائم کرلیتی ہے۔
تو موصوف کا سوال ہے کہ “بتاؤ عدم ذات باری کے اندر تھا یا باہر؟” ہمارا سوال یہ ہے کہ “بتاؤ عدم تھا ہی کب و کہاں”؟ ہمارا سوال منطقی طور پر آپ کے سوال سے مقدم ہے، تو پہلے اس کا جواب درکار ہے۔
اب یہ گروہ مجسمہ و کرامیہ کی طرح پوچھیں گے کہ پھر خلق کا عمل کہاں ہوا اور وہ مخلوق خدا کے مقابلے پر کہاں ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق سے قبل “کہاں” تھا ہی نہیں کہ یہ سوال پیدا ہو کہ عالم “کہاں” پیدا ہوا، یہ سوال کیٹیگری مسٹیک یعنی منطقی مغالطہ ہے۔ صرف کائنات کی تخلیق سے قبل ہی یہ سوال پوچھنا غلط نہیں کہ “عدم خدا کے لحاظ سے کہاں تھا” بلکہ اس کی تخلیق کے بعد پوچھنا بھی غلط ہے کہ “کائنات خدا کے لحاظ سے کہاں ہے” کیونکہ خدا تخلیق کائنات کے بعد بھی زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ قادر کے قدیم ارادے نے ازل میں جس نکتے پر فعل کے مفعول کو مقدر فرمایا تو اس لمحے زمانی و مکانی مفعول ظاہر ہوا اور فعل کا مطلب ہی کچھ ایسا سامنے آنا ہے جو پہلے نہ تھا، مفعول کا عدم وجود “عدم مطلق” کے ہم معنی نہیں کہ جس کا “مکان” پوچھا جائے۔ ایسا کوئی فعل نہیں جس سے کچھ نیا ظاہر نہ ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فعل ہورہا ہو اور کچھ ایسا وجود میں نہ آرہا ہو جو پہلے موجود نہ تھا؟ اگر کوئی اصرار کرتا ہے کہ فعل ہونے کے لئے اس کے مفعول کا موجود ہونا لازم ہے تو یہ اصرار صرف یہ ظاہر کررہا ہے کہ اسے فعل کا مطلب معلوم نہیں۔ فعل معدوم مفعول کو موجود کرنے کا نام ہے یہ اس کے تصور میں شامل ہے، اور قادر وہ ہے جو ایسا کرسکے۔ چنانچہ یہ سوال لغو ہے کہ کائنات سے قبل وہ مفعول کہاں تھا جس پر فعل ہوا؟ چنانچہ تخلیق سے قبل یہ عالم ذات باری کی مراد کے طور پر اس کے علم میں تھا۔
موصوف دراصل اسی قدیم ارسطوی غلط فہمی کا شکار ہیں جہاں علیت غلط طور پر فعل نہیں بلکہ اشیاء کے اندر موجود تاثیر (potentiality) کو فرض کرلیا جاتا ہے اور پھر کائنات کو بھی قدیم بنالیا جاتا ہے۔ علم کلام میں اس قسم کی غلط فہمیوں کو واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ درست اعتراض کرنے سے قبل سامنے والے کے نظام فکر کا علم حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ متکلمین کے نظام فکر کی رو سے مزید گہری بات یہ ہے کہ موصوف جو سوال پوچھ رہے ہیں کہ “کائنات سے قبل جب عدم تھا تو وہ مفعول کیا تھا جس پر فعل ہوا”، یہ سوال کائنات کی تخلیق سے قبل ہی نہیں آج بھی اسی طرح جوں کا توں ہے کیونکہ آج بھی چیزیں عدم ہی سے وجود میں آرہی ہیں۔ موصوف چیزوں میں تاثیر کے مفروضے پر سوال کئے جارہے ہیں کہ ہمارے سامنے تو چیزیں چیزوں سے ظاہر ہورہی ہیں تو بتاؤ اس سب سے پہلے کیا اور کیسے ہورہا تھا۔ چیزوں میں کوئی تاثیر نہیں ہے، نہ آگ روئی جلاتی ہے اور نہ پانی پیاس بجھاتا ہے، ان کے اقتران پر بار بار ایسا ہونا صرف ایک ترتیب ہے جس میں ایک فاعل ہر بار یکساں طور پر فعل کرتے ہوئے یہ سب مفعول ظاہر کرتا ہے۔ یعنی وہ ہر بار آگ کو عدم سے، روئی کو عدم سے اور جلنے کو عدم سے وجود دیتا ہے۔ چیزیں چیزوں سے ظاہر ہورہی ہیں، یہ نظر کا دھوکا ہے۔ بھلا جمادات بھی مؤثر ہوسکتے ہیں؟ حاشا و کلا۔ تو مزید گہری بات پوچھ لیں تو یوں ہے کہ جب آپ پیدا نہ ہوئے تو کہاں تھے؟ ارسطو کے پیروکار کہیں گے “اجزائے عالم میں”۔ ہم کہیں گے کہ یہ جہالت ہے، تم حادث اشیا میں تاثیر فرض کئے بیٹھے ہو جو بے بنیاد ہے۔ عالم میں چیزیں آج بھی وہاں ہی سے وجود پزیر ہورہی ہیں جہاں سے عالم کی پہلی شے وجود پزیر ہوئی، یعنی قادر کے فعل سے۔ اسی لئے عالم کے بارے میں امام غزالی فرماتے ہیں:
لیس فی الوجود الا افعال اللہ
” اعتراض 4:
ایک بات یہ بنائی گئی ہے کہ خدا کے وجود کے دلائل کائنات کو حوالہ بناکر ماخوذ ہیں، اہل مذہب کائنات کو حوالہ بنائے بغیر خدا ثابت کریں۔ جب کائنات (معلول) نہ تھی تو خدا (علت) بھی نہ تھا۔
جواب:
یہ ایک فضول بات ہے کیونکہ اہل علم جانتے ہیں کو جو شے بدیہی لزومی تقاضوں پر مبنی ہو وہ بھی حقیقت ہوتی ہے، اگرچہ حسی مشاہدے میں نہ ہو۔ چنانچہ موجود معلول سے موجود علت کا استنباط ایک لازمی وجودی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے اوراس میں علمی طور پر کوئی خرابی نہیں۔ اہل مذہب نے یہ دعوی نہیں کیا کہ ذات باری کا استدلال معلول سے علت کے بغیر متحقق ہے۔ علتی لزومی دلیل دو طرح کی ہوتی ہے:
- علت کے وجود سے معلول کے وجود کا اثبات، اسے اصطلاحا “دلیل لمی” کہتے ہیں (عربی لفظ “لم”، یعنی کیوں، سے)
- معلول کے وجود سے علت کے وجود کا اثبات، اسے “دلیل انی” کہتے ہیں
دلیل حدوث ہو یا دلیل امکان، ہر ایک دوسری قسم کی دلیل ہے اور یہ تفصیلات علم کلام و منطق کی کتب میں درج ہیں۔ معترض کو چاہئے کہ وہ اس دلیل کی خامی ظاہر کرے، یہ مطالبہ کرنا کہ معلول کے بغیر علت ثابت کرو، منطقی طور پر ایک لغو بات ہے۔
معترض کو منطق سے زیادہ شغف نہیں ورنہ وہ جانتے کہ بعض لحاظ سے دلیل لمی کے مقابلے میں دلیل انی کا لزوم زیادہ واضح ہوتا ہے۔ علت کے وجود سے لازماً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ معلول بھی خارج میں موجود ہے کیونکہ ممکن ہے کہ علت فاعل مختار ہو جس نے معلول کے ظہور کو خاص لمحے تک مؤخر کیا ہو اور ایسے میں معلول کا صرف پوٹنشل وجود ثابت ہوتا ہے نہ کہ بالفعل وجود، اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایسا کوئی مانع موجود ہو جس نے اثر ظاہر ہونے کو روک دیا ہو یا علت کا اثر کسی شرط پر موقوف ہو کہ جب تک وہ پوری نہ ہو علت کا اثر ظاہر نہ ہو۔ تو علت سے معلول پر استدلال کرتے ہوئے یہ دکھانا ہوتا ہے کہ نہ مانع موجود ہے اور نہ کوئی شرط مفقود ہے وغیرہ۔ اس کے برعکس معلول کے وجود سے لازمی طور پر علت کا وجود ثابت ہوتا ہے، چاہے علت موجب ہو یا فاعل مختار نیز یہ بھی متحقق ہوجاتا ہے کہ نہ کوئی ایسا مانع ہے اور نہ کوئی ایسی شرط جو علت کے اثر کو روک سکی۔ چنانچہ بعض وجوہ سے دلیل انی کے ذریعے معلول کے وجود سے علت کے وجود کا اثبات زیادہ واضح ہوتا ہے۔ پس دلیل انی سے ذات باری کا ثابت ہونا استدلال کی مضبوط ترین اقسام میں سے ہے۔
اگر موصوف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ موجود صرف وہ ہے جو حسی محسوسات میں ہو اور علت و معلول کو زمان و مکان سے ماورا لاگو کرنا غلط ہے، تو ہم کہتے ہیں کہ یہ بس آپ کا تحکم اور ایمان ہے اور ہم آپ کے ایمان کی بات نہیں کررہے بلکہ بدیہی حقائق و منطقی استدلال سے بحث کررہے ہیں۔ جب پہلے قدم پر آپ یہ ثابت ہی نہیں کرپائے کہ علت لازماً زمانی و مکانی تقدم یا اقتران کا نام ہے تو آپ کا ایمان غیر منطقی ہے جیسا کہ ہم دکھا چکے کہ علت کا معلول پر تقدم زمانی و مکانی تقدم و اقتران سے الگ تصور ہے۔ اسی طرح جب عقل ہمیں بتا رہی ہے کہ کائنات حادث یعنی معلول ہے تو آخر ہم علت اسی میں کیسے تلاش کرلیں؟ یہ خواھش ایسی ہی جیسے کسی شخص کے پاس صرف لال رنگ کی بالز ہوں اور وہ چاہتا ہے کہ ان میں سے بعض کو سفید ثابت کرلوں، لہذا وہ بعض بالز پر سفید کا لیبل لگا لے اور بعض پر لال کا۔ اس قسم کی لیبلنگ سے حقائق تبدیل نہیں ہو جاتے بلکہ یا خود کو دھوکا دیا جاسکتا ہے اور یا دل خوش کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ کائنات معلول ہے، معلولات میں سے بعض کو بعض کی علت قرار دینا دل بہلانے کی باتیں ہیں نہ کہ کوئی بامعنی فلسفہ۔
الغرض اس بات کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر کہ کائنات کے بغیر خدا ثابت کرو۔ اسی طرح یہ بھی بے معنی بات ہے کہ جب کائنات معدوم تھی تو خدا بھی معدوم تھا، ہم اوپر یہ بحث کرچکے کہ علت ذات باری کی صفت قادر مختار ہونا ہے جو فعل سے مفعول کو حاضر کرتی ہے۔ پس مفعول کی عدم موجودگی سے فاعل کی عدم موجودگی لازم نہیں آتی۔
خلاصہ بحث
- ہم نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کانٹ کی اس غلطی کو واضح کیا کہ علت معلول سے نہ تو زمانی طور پر مقدم ہونے کی بات درست ہے اور نہ ہی یہ کہ علت زمانی و مکانی تصور ہے۔
- اس کے جواب میں ناقد صاحب نے فرمایا کہ علت و معلول ایک ساتھ ہونا لازم ہے کیونکہ معلول علت کی علت ہوتاہے
- یہ بات کہہ کر موصوف نے خود ہی کانٹ کی بات رد کردی اور متکلمین کا مقدمہ مان لیا لیکن نئی بحث چھیڑ کر کہا کہ موصوف کو علت بطور وجود خارجی (نہ کہ وجود ذھنی کے اعتبار سے نسبت) کا تصور ہی واضح نہیں کیونکہ علت فعلی تاثیر کا نام ہے
- پھر موصوف نے کہا کہ فاعل و مفعول ایک ساتھ پایا جانا لازم ہے، یہ گہری جدلی منطق کے مطابق ضروری ہے
- ہم نے بتایا کہ فعل نام ہی معدوم کو موجود کرنے کا ہے، تو دونوں کے ایک ساتھ پائے جانے کی بات حماقت ہے
- موصوف اس بات کو چھوڑ کر پھر عدم کے پیچھے پڑ گئے کہ بتاؤ جب کائنات نہ تھی تو عدم خدا کے اندر تھا یا باہر
- ہم نے بتایا کہ یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ مطلق عدم سرے سے متحقق ہی نہیں تھا کہ یہ سوال پوچھا جائے کہ “عدم کہاں تھا؟” نیز ہم نے واضح کیا کہ ذات باری زمان و مکان دونوں سے ماورا ہے۔ تو پہلے عدم کا تحقق ثابت کریں پھر مکان کی بات کریں
[1] جواب کا یہ نکتہ نکتہ جناب مشرف بیگ صاحب کی ایک تحریر سے ماخوذ ہے
کمنت کیجے