اجمل صدیقی
فلسفے کے بارے دو بڑے ابہامات کی وضاحت
١. فلسفہ ام العلوم ہے
٢. فلسفہ کا ماخذ یونان ہے
پہلے مقدمے کی تحلیل
فلسفہ بذات خود ڈسپلن ہے اور ہر ڈسپلن کی اپنی حدود اور قیود ہوتی ہیں البتہ فلسفے کی حدود ڈھیلی ہیں ۔۔۔جیسے سائنسی علوم کی حدود پھیلتی ہیں فلسفے کی حدود سکڑتی چلی جاتی ہیں ۔۔فلسفہ hydra کی جیسے ٹوٹتا ہے وہاں سے ایک نئی شاخ پیدا کر لیتا ہے۔
لیکن اپنا مرکزہ nucleus بھی رکھتا ہے ۔۔اس کا مرکزہ اپنی شکل اور رخ تبدیل کرتا رہتا ہے۔
بطور خود مختار ڈسپلن یہ محدود ہے اکثر مذہب اور سائنس سے مطابقت پیدا کر لیتا ہے۔
سائنس کے موضوع اور اسلوب فلسفے سے آتے ہیں۔
اس جہت سے یہ ام علوم کہلاتا ہے لیکن جب مختلف علوم اپنی اپنی فیلڈ میں ڈیٹا بیس اکٹھا کرلیتے ہیں تو ایک arbitrary worldview کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ،یہاں سے پھر فلسفہ شروع ہوجاتا ہے۔
سائنس وجود کا ایک segment لے کر نئے حقائق جمع کرتی ہے ،ان حقائق سے ایک تصور عالم پیدا کرنا فلسفہ ہے ۔
فلسفہ سائنس کے آغاز پہ ام علوم ہے اور سائنس کی انتہا جامع العلوم ہے ۔اس کے باوجود فلسفہ بذات خود حکمت نہیں ہے ۔یہ حکمت کے راستے کی صفائی ہے ۔
سامی ذہن میں سلمان علیہ السلام کو صاحب حکمت کہا گیا ہے وہ حکمت کے آگے اپنے آپ کو عاجز اور اس کا اہل نہیں پاتے ۔۔فیثا غورث نے بھی اپنے آپ کوحکیم کہنے سے معذوری کا اظہارِ کیا ہے ۔
اسی طرح ڈیلفی نے سقراط کو حکیم اول کہا لیکن وہ کہتا ہے میں کچھ نہیں جانتا ہے ۔
فلسفہ صرف حکمت کی راہ کی تلاش کا جذبہ ہے نہ کہ خود حکمت ۔حکمت صرف اللہ تعالیٰ کو ہی زیبا ہے ۔
قدیم ہو یا جدید انسان کا فلسفہ انتہاپسدانہ ہی ہے۔
Love of wisdom
بذات خود ایک paradox ہے کیونکہ جذبہ(love) عقل کے ریاضیاتی منطق یا فارمل طریق اختیار نہیں کرتا ہے ۔
یونان میں اس phrase کا مطلب منطق سے تمام مسائل حیات و کائنات کرنے کی سعی بن گیا ۔اس لئے یونان کی تاریخ ِفلسفہ میں حکمت یکسر غائب ہے ۔stoics میں حکمت کا کچھ پہلو اجاگر ہوا ۔
جدید فلسفہ میں تو حکمت یکسر غائب ہے یہ رائج الوقت سیاسی جماعتوں اور نظام کا آلہ کار ہے ۔
پورا یونان فلسفہ یہ ہے
Right living through right thinking
جو درست زندگی گزارتا ہے وہی درست سوچتا ہے
مشرقی طرز فکر
جو درست سوچتا ہے وہی درست زندگی گزارتا ہے
مغربی طرز فکر ۔
دوسرے مقدمے کی توضیح
فلسفے کے مآخذ یونان ہے
چونکہ مورخین فلسفہ کا اتفاق ہے کہ فلسفہ کا آغاز یونان سے ہوا اس لئے اس کی حیثیت مسلمہ ہوچکی ہے ۔
بابل مصر انڈیا اور چین میں حکمت موجود رہی ہے مگر انہوں نے فلسفے کے اطلاقی پہلو خاص کر جیومیٹری اور انجینئرنگ لسانیات پہ زور دیا مگر نظری پہلو سے دور رہے یونانی عملی اور اطلاقی سے دور رہے ۔ورنہ انسان کی فکر کسی خطے سے مقید نہیں ہے
ڈاکٹر برنل نے اپنی کتاب black Athena میں بڑی شرح وبسط سے یونان میں فلسفے کے مآخذ کو مسترد کیا ہے ۔
اس کے خیال میں یہ مصر اور افریقہ سے در آمد کیا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اجمل صدیقی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے اردو ہیں ۔ فیصل آباد میں تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ کی نظر و فکر اور دلچسپی کا دائرہ تاریخ، فلسفہ اورادب ہے ۔
کمنت کیجے