جدید ریاست اور ساورنٹی
ساورنٹی نیشنلزم یا قومیت پرستی سے پیدا ہونے والا ایک سیاسی تصور ہے، مکمل طور پر تشبیہی ہے، اور اپنی تجسیم و تشکیل جدید ریاست کی صورت میں کرتا ہے۔ یہ تصور جدید ریاست کا قوامِ وجود ہے، یعنی ساورنٹی کے بغیر جدید ریاست کا وجود ہی قائم نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست کی ساورنٹی کوئی صوابدیدی چیز نہیں ہے کہ اس سے ہٹائی جا سکے یا داخل کی جا سکے۔ حاکمیت اعلیٰ کے طور پر ساورنٹی کوئی روحانی تصور نہیں ہے، قطعی سیاسی تصور ہے۔ حاکمیت اعلیٰ کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ورنہ تشبیہ لازم آئے گی اور ارتکاب شرک وارد ہو گا۔ وہ تصورات جو موجودات، مخلوقات یا ابداعی موجودات مثلاً مشین، سسٹم وغیرہ میں وجوداً شامل ہیں وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیے جا سکتے کیونکہ شرک اور ارتکاب شرک کے یہی معنی ہیں۔ جدید ریاست ایک وجود ہے اور ایک نہایت طاقتور مؤثر کے طور پر نہ صرف تاریخ میں شامل ہے بلکہ ہم عصر تاریخ اور معاشرے کو تہہ و بالا کرنے میں بنیادی کردار جدید ریاست ہی کا رہا ہے۔ اس کی واقعیتِ وجود کا عدمِ قبول حالت انکار کو جنم دیتا ہے۔ یعنی جدید ریاست ایک ساورن وجود کے طور پر طاقتور تاریخی مؤثرات کا سرچشمہ ہے، اور سیکولر معاشروں کے اجتماعی ارادے کی سب سے بڑی ایجنسی ہے۔ جیسے دریا پانی کے بغیر نہیں ہوتا، اسی طرح جدید ریاست ساورنٹی کے بغیر تصوراً یا واقعتاً موجود نہیں ہو سکتی ہے، اور جب موجود ہو گی ساورن ہو گی۔ جس طرح کوے کا کالا ہونا علمی صوابدید پر منحصر نہیں ہوتا اسی طرح ریاست کا سیاسی طور پر ساورن ہونا علم میں صوابدیدی نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی علما نے جدید ریاست کے ساورن ہونے کو رد کر دیا، اور ساورنٹی کے مکمل مادی اور سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا، اور اپنے زعم میں مسئلے کا حل نکال لیا۔ لیکن اس سے پانچ مسئلے پیدا ہوئے۔ ایک یہ کہ ساورنٹی کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے مسلم عقیدے کی جڑ کٹ گئی اور ارتکابِ شرک لازم آیا۔ سیاسی تصورات اور انتظامی اختیارات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا شرک ہے کیونکہ وہ تشبیہی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ایمان اور عمل کے بنیادی امتیازات منہدم ہو گئے۔ تیسرے یہ کہ علم اور وجود کی باہمی نسبتوں کو جائز اور ثقہ بنیادوں پر قائم کرنا ممکن نہ رہا۔ اگر ہم علم کا آغاز ہی اس بات سے کریں کہ جدید ریاست ساورن نہیں ہوتی یعنی کوا کالا نہیں ہوتا تو امکان علم ہی کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور انسانی ذہن حالت انکار میں چلا جاتا ہے اور خارج از ذہن وجود سے علمی تعرض ممکن نہیں رہتا۔ چوتھے یہ کہ تاریخ اور اس کے طاقتور مؤثرات کی درست علمی تفہیم اور بذریعہ شریعت ان کے تدارک کے امکان کا خاتمہ ہو گیا۔ پانچویں یہ کہ شریعت کو مکمل طور پر جدید ریاست کی تحویل میں دینے اور پورے دین کو سیکولر بنا کر اس کے خاتمے کا راستہ ہموار ہو گیا۔
شریعت اور ساورنٹی
جدید سیاسی افکار میں یہ امر ایک مسلمے کے طور پر داخل ہے کہ جدید ریاست ساورنٹی کی حامل ہے، یعنی جدید ریاست ماورائے انسان ایک وجود ہے اور ساورن ہے۔ جدیدیت کے افکار میں عقلِ انسانی خودمختار و خود مکتفی ہے، اور عقل میں یہ صفت اس کے حامل وجود یعنی جدید انسان سے داخل ہوئی ہے۔ آزادی اور حریت کا تنویری تصور ایجنسی کے طور فرد کی آٹونومی میں ظاہر ہوا ہے اور بنیادی طور پر اخلاقی ہے۔ اجتماعی سطح پر انسانی آزادی کا تصور ایجنسی کے طور پر جدید ریاست کی ساورنٹی میں ظاہر ہوا ہے اور جو بنیادی طور پر سیاسی ہے۔ جدیدیت کی پیدا کردہ مطلق تشبیہ اور شبستان تاریخ میں اس نے ایک وجود کو ساورنٹی سے متصف قرار دیا ہے۔ مطلق تشبیہ میں ساورنٹی کا حامل وجود خدا ہی کا ایک تصور ہے اور عین یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے ہیگل نے جدید ریاست کو زمین پر خدا کی خوش خرامی قرار دیا ہے۔ جدید ریاست خدا کی replacement صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب یہ ساورن بھی ہو، اور اس کی یہ صفت اس کے وجود سے منفک نہ ہو سکتی ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا ”دنیا“ میں کوئی ”چیز“ ساورن ہو سکتی ہے؟ دنیا اور اس میں ہر چیز مخلوق ہے اس لیے اعتقاداً اور عملاً (یعنی سیاسی طور پر) مخلوقات کے ساورن ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غیب سے انقطاعِ مطلق اور مطلق تشبیہ کے حالات میں ہی جدید ریاست کو ساورن قرار دیا گیا ہے۔ ساورن وجود ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ self-referential ہو، اسے کسی منطق یا علم سے جواز کی حاجت نہ ہو، وہ کسی پر منحصر نہ ہو اور دوسرا ہر وجود اس پر منحصر ہو۔ جدید ریاست کے ساورن ہونے میں یہ سارے معنی داخل ہیں۔ یہاں اس امر پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے کہ جدید ریاست بطور وجود واقعتاً اور عملاً ساورن ہے، یعنی ساورنٹی اب کوئی فکر نہیں رہی بلکہ اجتماعی عمل کی ایک خاص تشکیل میں فعال تاریخی واقعہ بن چکی ہے، اور فرد معاشرے اور تاریخ کے بہاؤ میں ایک طاقتور اور فیصلہ کن عامل کے طور پر شامل ہے۔ ساورنٹی کی حامل جدید ریاست اب ایک طاقتور ترین مؤثر کے طور پر روزمرہ کا واقعہ اور تجربہ ہے۔
اس صورت حال میں ساورنٹی کے بارے میں اپنے عقیدے کے بیان یا اس کے فکری رد سے نہ صرف یہ کہ کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ عقیدے اور فکر کے باقی رہنے کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس کے بالمقابل ساورنٹی کا دینی اور قابل عمل حل دینا ہوتا ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ معجزہ اور شریعت دونوں ساورن ہیں، اور بالترتیب نیچر اور دنیا میں امر الہی کا ظہور ہیں۔ لہٰذا امر الہی کی حیثیت سے شریعت تاریخ اور معاشرے میں سیاسی طور پر ساورن ہے، اور صرف وہی ساورن ہو سکتی ہے کیونکہ صرف قادر مطلق کا فعل اور امر ہی ساورن ہو سکتا ہے اور کوئی مخلوق اپنے وجود اور عمل میں ساورن نہیں ہو سکتی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم عصر سیاسی افکار میں جدید ریاست ایک وجود کے طور پر ساورن ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ اقدارِ حق ساورن ہیں کیونکہ ہر الوہی قدر autonomous اور ساورن ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ساورن ہونا یہاں ہرگز زیربحث نہیں ہے کیونکہ وہ اعتقادی ہے، سیاسی نہیں ہے۔ یہاں ساورنٹی بطور سیاسی تصور زیربحث ہے۔ قدر کا ساورن ہونا، اور وجود کا ساورن ہونا دو قطعی متضاد اور مختلف باتیں ہیں۔ اگر قدر ساورن ہے تو اس کا مطالبہ ہر وجود کو اپنے تابع لانا ہے، اور وجود کے ساورن ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اقدار کا خالق ہے اور کسی ایسی قدر ہی کو قبول نہیں کر سکتا جو اس پر وارد ہوتی ہو ورنہ اس کا ساورن ہونا بےمعنی ہو گا۔ جدید ریاست ایک ساورن وجود ہونے کی حیثیت ہی سے انسانوں سے کافۃً کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ شریعت بطور اقدار حق کافۃً کا مطالبہ رکھتی ہے۔ شریعت اور جدید ریاست کا باہمی تعلق صرف اسی تناظر میں بامعنی طور پر زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔
جدید سیاسی مباحث میں ساورنٹی کے تصور کو مرکزیت حاصل ہے، اس لیے اس پر دوٹوک بات کرنا ضروری ہے۔ ساورنٹی کا اسلامی تصور شرعی اور فقہی (juridical) ہے جبکہ افکارِ جدیدیت میں یہ مکمل طور سیاسی (polititcal) ہے۔ ساورنٹی کے اسلامی تصور کا تحقق بھی فقہی (juridical) ہے سیاسی نہیں ہے، اور یہ تحقق صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب فقہا پر مشتمل محکمۂ قضا قائم ہو اور جو جدید ریاست اور سرمائے کی قائم کردہ حرکیات سے مکمل طور پر آزاد ہو اور ان پر حکم ہو۔ ہمارے سیاسی ملاؤں کا یہ موقف چلا آتا ہے کہ شریعت اور پورے دین کو جدید ریاست کی تحویل میں دے دیا جائے اور جدید ریاست کے پیدا کردہ سیاسی جبر اور سرمایہ داری نظام کے معاشی تاراج کو شرعی جواز بھی فراہم کر دیا جائے۔
شریعت کا بنیادی ترین مطالبہ یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور اجتماع اس کی عملداری میں آ جائیں، اور یہ مطالبہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جبکہ شریعت ساورن ہو، جو کہ یہ ہے۔ شریعت ریاست اور سرمائے کے نظام کو بھی اپنی تحویل میں لانے کا مطالبہ رکھتی ہے جبکہ ہماری مذہبی جماعتیں شریعت کو جدید ریاست کی تحویل میں دینے کی جدوجہد میں مصروف رہی ہیں اور اس طرح شریعت کی ساورن اور خودمختار حیثیت کو ختم کر کے اسے ریاست کا آلہ کار بنانے کا داعیہ اور مطالبہ رکھتی ہیں جو سراسر شریعت کے منافی ہے۔ گزشتہ دو سو سالہ نام نہاد فکرِ اسلامی کا یہ بنیادی موقف ہے۔ یعنی بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا شریعت جدید ریاست کی تحویل میں ہو گی یا جدید ریاست شریعت کی تحویل میں لائی جائے گی؟ جو لوگ شریعت کو سیکولر قانون کی طرح کی کوئی چیز سمجھتے ہیں وہ شریعت کو بھی ریاست کی تحویل میں دینے کی جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ شریعت اس دنیا میں امر الہی کے طور پر ساورن ہے۔ موجودہ مشکل کا واحد حل یہ ہے شریعت کو جدید ریاست کی تحویل سے آزاد کر کے علی منہاج خلافت محکمہ قضا کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ شریعت قانون کی طرح نافذ نہیں ہوتی، بلکہ شریعت ایسے قیام کو مستلزم ہے کہ فرد، معاشرہ اور سرمائے اور طاقت کا سسٹم اس کی عملداری میں آ جائے۔
خلافت، خلیفہ اور ساورنٹی
ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا سیاسی تصور اور سیاسی ادارہ خلافت ہے اور اسے پوری مسلم تاریخ میں شرعی تائید حاصل رہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ خلافت (اور امارت) کوئی سیاسی تصور نہیں ہے بلکہ عین شرعی تصور ہے۔ خلافت اور خلیفہ کی اصطلاحات سے ساورنٹی کا تصور نہ صرف خارج ہے بلکہ خلافت اور ساورنٹی باہم متضاد ہیں۔ نیابت ساورنٹی کی ضد ہے۔ نیابت عبدیت ہی کی ایک جہت ہے جبکہ جدید ریاست اپنے میکانکی وجود کو ساورنٹی سے متصف کر کے خدا کی replacement بن جاتی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ جدیدیت ماورائے انسان ایک وجود کو قائم کر کے اس کو ساورنٹی سے متصف قرار دیتی ہے، اور یہ وجود حسی اور بدیہی طور پر قابل فہم اور قابل رسائی نہیں ہے۔ اس وجود کی غیرجسمی تشکیلات صرف اور صرف نظری طور پر قابل رسائی اور قابل فہم ہیں جبکہ اس کے جسمی اور مادی مظاہر روزمرہ کا انسانی تجربہ ہیں۔ ہماری دینی روایت میں خلیفہ ساورن نہیں ہے، اور نہ خلافت ساورن ہے بلکہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔
کمنت کیجے