ایک بھائی نے پوچھا ہے کہ شیخ ابن عربی کے بارے میں مشہور ہے کہ آپ فنائے نار جہنم کے قائل تھے، کیا یہ نسبت درست ہے؟
تبصرہ
اگرچہ مفہوم کے اعتبار سے آپ کی جانب اس کی نسبت درست ہے، تاہم شہ سرخی یا الفاظ کے اعتبار سے درست نہیں کیونکہ شیخ “فنائے نار جہنم” نہیں بلکہ “فنائے عذاب نار جہنم” کے قائل ہیں۔ شیخ “الفتوحات المکیۃ” میں کہتے ہیں کہ چار قسم کے مجرمین ہمیشہ نار جہنم میں رہیں گے اور اس سے باہر نہیں نکلیں گے:
1) متکبرین جیسے کہ فرعون یا نمرود وغیرہ جنہوں نے اپنی ذات کے لئے ربوبیت کا دعوی کیا
2) مشرکین جنہوں نے عبادت کے لئے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائے
3) معطلہ یعنی ملحدین جنہوں نے الہ عالم کا انکار کیا
4) منافقین جو صرف ظاہر سے ایمان لائیں مگر قلبی طور پر کافر ہوں
شیخ کے مطابق قرآن میں یہ بات تو ہے کہ جہنمی ہمیشہ نار میں رہیں گے لیکن یہ نہیں کہا گیا کہ وہ عذاب میں رہیں گے۔ وہ آیات جن میں “خلود فی الجهنم” (یعنی جہنم میں ہمیشہ رہنے) کی بات ہے وہاں “فیها” کہا گیا ہے نہ کہ “فیه”، یعنی “ها” کی ضمیر مؤنث ہے جو نار (یعنی اسم مؤنث) کی جانب اشارہ کررہی ہے نہ کہ عذاب کی جانب (جو اسم مذکر ہے)۔ دوسرا استدلال شیخ سورۃ ھود کی ان آیات سے کرتے ہیں:
خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ﴿١٠٧﴾ ۞ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ ۖ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ ﴿١٠٨﴾
یہاں کہا گیا کہ جب تک اس وقت کے زمین و آسمان قائم رہیں گے جہنمی جہنم میں رہیں گے سوائے اس سے کہ جو تمہارا رب چاہے اور جنتی جنت میں رہیں گے سوائے اس سے کہ جو تمہارا رب چاہے۔ ان آیات میں اہل جنت کے ساتھ ہونے والے معاملے میں مذکور استثناء (إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ) کے بعد کہا گیا کہ اللہ کی جانب سے یہ عطا نہ ختم ہونے والی ہوگی(عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ) جبکہ اہل جہنم کے ساتھ مذکور استثناء (إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ)کے بعد کہا گیا کہ تیرا رب جو چاہے وہ کرسکتاہے (إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ)۔ یعنی جنتوں کو نہ ختم ہونے والی نعمتیں میسر ہوں گی جیسا کہ ایک اور مقام پر ان کی نعمتوں کے بارے میں کہا گیا “لَّا مَقْطُوعَةٍ وَلَا مَمْنُوعَةٍ ” (الحاقۃ: 33) ، لیکن اہل جہنم کے لئے صراحتاً یہ نہیں کہا گیا کہ ان کا عذاب کبھی نہ ختم ہونے والا ہوگا بلکہ کہا کہ تیرا رب جو چاہے وہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ ان امور کی بنا پر شیخ کہتے ہیں کہ اہل جہنم کے لئے ابدی عذاب کی صراحت کسی آیت میں نہیں کی گئی اور گناہوں کی پوری سزا بھگتنے کے بعد نار جہنم اس کے باسیوں کے لئے ملائم (compatible) ہوجائے گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اسمائے الہیہ کی اپنی وجودی کاسمولوجی کی اصطلاحات میں شیخ کا کہنا ہے کہ از روئے حدیث اللہ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے اور متناہی گناہوں پر لامتناہی عذاب اللہ کی رحمت کے مناسب نہیں جو اس کے غضب پر حاوی ہے۔ غضب ایک ایسی صفت الہی ہے جو اس عالم سے متعلق ہے اور اس کا تعلق دنیا میں احکام شرع کے تناظر میں ہے جبکہ صفت رحمت کا اثر فیضان وجود کی صورت مستقل اور وسیع تر ہے اور وہ ذات باری کی جانب لوٹتی ہے (یعنی صفت غضب عالم کا تقاضا ہے جبکہ صفت رحمت ذات باری کا)۔ ذات باری چونکہ مستقل ہے لہذا صفت رحمت کا ظہور بھی مستقل ہوگا اور صفت غضب چونکہ ناپائیدار مخلوق کے اعمال بد سے متعلق ہے لہذا اس کا ظہور بالاخر ختم ہوجائے گا۔ شر کا جو کچھ بھی وجود ہے وہ بندے کی جہت سے ہے، بندے کی اصل عدم (ممکن ہونا) ہے، لہذا شر کا اثر چاہے کتنا ہی طویل ہو بالاخر ختم ہوجائے گا۔ لیکن صفت رحمت کا تعلق چونکہ مخلوق کے موجود ہونے سے ہے اور مخلوق کا وجود باقی رہے گا لہذا جہنمیوں کے لئے صفت رحمت کا اظہار بصورت ملائمت نار باقی رہے گا۔ اس مدت کے بعد جہنمیوں کے لئے عذاب ان کے خیالات میں صرف مثال کی صورت باقی رہ جائے گا، یوں اللہ کے اسم غضب کا محل بھی رہے گا مگر نار جہنم ملائم ہوجانے کی صورت اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب آجائے گی۔ جہنمی اس آگ کی ملائمت پر اپنے رب کا شکر کریں گے اور یہ تقاضا نہیں کریں گے کہ انہیں جنت میں ڈالا جائے کہ وہ ان کے لئے اذیت کا مقام ہوگا۔ ملائمت و راحت کا معنی کسی شے کا بندے کے مقصد و حال کے موافق ہونا ہے اور ابدی جہنم کے مستحق لوگوں کے لئے ملائمت نار ہی ان کے مزاج کے موافق ہوگی۔
آپ کہتے ہیں کہ جہنمیوں کی اصل محرومی یہ ہوگی کہ وہ اپنے رب کے دیدار سے محجوب رہیں گے اور یہ محرومی بھی انہیں اللہ کے حضور شرمندگی سے بچانے کے لئے ہوگی کہ یہ شرمندگی از خود عذاب کی صورت ہے جبکہ ان کا عذاب مکمل ہوچکا۔ شیخ آخرت کو دیدار و حجاب کے گھر بھی کہتے ہیں (“أن الآخرة ذات دارين، رؤية وحجاب”)۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جنتیوں کی اصل نعمت اپنے رب کا دیدار ہوگا۔
امام رازی کی تفسیر کبیر میں سورۃ ھود کا یہ مقام دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رائے شیخ ابن عربی نے پہلی مرتبہ پیش نہیں کی تھی بلکہ پہلے سے بعض لوگوں کے ہاں چلی آرہی تھی۔ امام رازی نے اس گروہ کا نام تو ذکر نہیں کیا لیکن ان کے دو قسم کے دلائل یعنی نقلی و عقلی کا تذکرہ کرکے جمہور اہل سنت کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے ان کی تردید کی ہے۔ آپ نے اس موقف کے حاملین کی جانب سے جو عقلی دلائل نقل کئے ہیں ان کی ساخت سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دلائل علمائے معتزلہ میں سے کسی نے پیش کئے ہوں گے (امام رازی کی بیان کردہ دو عقلی وجوہات یہ ہیں: (الف) متناہی گناہوں پر لامتناہی عذاب دینا ظلم ہے، (ب) لامتناہی عذاب دینا عبث عمل ہے کہ ایسے عذاب کے مدمقابل فائدے کا کوئی پہلو موجود نہیں اور خدا عبث عمل کرنے سے پاک ہے)۔ علامہ ابن قیم اور ان کے استاد شیخ ابن تیمیہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس رائے کے قائل تھے اور علامہ ابن قیم بھی سورۃ ھود کی درج بالا آیات ہی سے استدلال کرتے ہیں۔ تاہم بعض محققین کا کہنا ہے کہ ان کا موقف شیخ ابن عربی سے کچھ مختلف تھا کہ یہ حضرات فنائے نار جہنم کے قائل تھے۔ علامہ یوسف قرضاوی صاحب نے اس موضوع پر اپنی ایک تحریر “رأي ابن تيمية وابن القيم حول فناء النار ” میں اس رائے (یعنی اہل جہنم کا عذاب محدود ہونے) کی نسبت بعض صحابہ و تابعین کی جانب بھی کی ہے۔
کمنت کیجے