Home » نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب
سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

ڈاکٹر تزر حسین

غامدی صاحب اور حسن الیاس جب نیشن سٹیٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نشین سٹیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے دینی فکر میں موجود اصظلاحات جدید دور میں قابل عمل نہیں اور اس چیز نے دینی فکر کو جمود کا شکار کردیا ہے۔ انکی رائے میں دین میں ایسا کوئی حکم نہیں جو کہ نشین سٹیٹ کی تردید میں ہو۔ اور اس بنیاد پر جدید دور کے پڑھے لکھے لوگ اس کی موقف کی تائید بھی کرتے ہیں اور غامدی صاحب کی فکر سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اور عمومی طورپر غامدی صاحب بھی اس بدلی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کی بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے روایتی فکر پر تنقید کرتے ہیں۔ اس نیشن سٹیٹ کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نیشن سٹیٹ میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور نہ ہی ائین میں کوئی مذہبی بات کی جاسکتی ہے کیونکہ ایسا کرنا نیشن سٹیٹ کے تصور کے خلاف ہیں اور یہ کہ ایسا کرنا کوئی مذہبی بنیاد نہیں رکھتا۔

وہ اسلامی احکام کو ایک پارٹی کے منشور کی سطح پر لے کر اتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دینی احکام کو نافذ کرنا مسلمان حکمران کا کام ہے یہ ریاست سے متعلق نہیں۔ وہ اس حوالے سے سیکولرزم کے بہت قریب پہنچتے پہنچتے رک جاتے ہیں اور اپنی فکر اور سیکولرزم میں ایک لائن کھینچ لیتے ہیں۔

اج حسن الیاس صاحب نے جزیرہ نما عرب کے حوالے سے پوسٹ کی اور یہ کہا کہ جزیرہ نما عرب میں مندر اور کسی اور عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہیں۔ اور ابھی جو عرب امارات میں جو مندر بنا ہے یہ دینی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر بہت سارے جدید پڑھے لکھے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نیشن سٹیٹ کے اس دور میں اس حکم کی کیا حیثیت بنتی ہے۔ کہ اپ ہر جگہ مسجد بناتے رہے لیکن اپنے مقدس زمین پر کسی اور کی عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہ ہو۔ بہت سارے لوگوں کو غامدی صاحب کی طرف سے یہ موقف عجیب لگتا ہے۔ اور وہ اسکو جدید دور کے تقاضوں کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ اور اس حوالے سے حسن صاحب اور غامدی صاحب کا جواب بھی یہی ہے جو کہ عمومی طور پر روایتی فکر کیطرف سے اتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جدید دور کے لوگ مغربی تہذیب سے اتنے مرعوب ہوچکے ہیں کہ انکو معیار جدید مغربی تہذیب ہے اور یہ لوگ صرف کلچرل مسلمان ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق جو معیار جدید تہذیب کی طرف سے اتا ہیں دین کا وہی حکم انکے لیے قابل قبول ہیں۔ حسن صاحب نے ایسے لوگوں کو بالکل اسی انداز میں جواب دیا ہے جس طرح روایتی فکر کے لوگ انکو نیشن سٹیٹ کے حوالے سے دیتے ہیں۔

اس بحث میں میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جدید فکر اور مغربی تہذیب کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر ایک کنفلکٹ ضرور موجود ہیں۔ اور جب غامدی صاحب یہ بات کہتے ہیں کہ نیشن سٹیٹ کو مان کر ہمیں اگے جانا چاہیے تو وہ خود بھی نیشن سٹیٹ کے تصور یا اسکے بعض پہلووں کو رد کرتے ہیں جہاں وہ اسکے دینی فکر کے مقابل اجائے۔ غامدی صاحب ٹکراو کی اس لائن کو بہت قریب جاکر کینچھتے ہیں اور باقی لوگ تھوڑا فاصلہ سے اسکو کھینچ لیتے ہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ غامدی صاحب کے ہاں بھی جو اصل بحث ہے وہ یہ ہونی چاہیے کہ دین کیا کہتا ہے یہ نہیں کہ فلاں اصطلاح اج کے دور میں قبول ہے یا نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ غامدی صاحب جدیدیت کے بہت سارے اقدار کو مان کر بھی بعض مغربی اقدار کے خلاف ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تزر حسین صاحب نے السٹر یونیورسٹی (یوکے) سے کمپوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی مضمون سے بطور لیکچرار منسلک ہوں۔

ای میل : tazar.hussain@gmail.com

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں