Home » اچھے اور برے ناموں کے اثرات کی شرعی حقیقت
زبان وادب سائنس سماجیات / فنون وثقافت فقہ وقانون

اچھے اور برے ناموں کے اثرات کی شرعی حقیقت

مولانا سید انور شاہ

جامعہ بیت السلام لنک روڈ کراچی

اسلام وہ دینِ فطرت ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلو ں سےمتعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس میں زندگی کے ہر شعبہ اور گوشہ کے متعلق احکامات اور ہدایات موجود ہیں۔ جن میں نقص و کمی ، دشواری و تنگی اور ظلم و زیادتی نام کی کوئی چیز نہیں۔ اس کی پاکیزہ تعلیمات ایسی جامع، مکمل اور مفید ہیں کہ ہر ایک کے لئے ، ہر جگہ، ہر زمانے اور ہر حالت میں قابل عمل اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ ہے۔ ایک سچے مسلمان کا یہ شیوہ ہونا چاہیےکہ وہ اپنی زندگی کے تمام مراحل اورامور میں اسلام کا صحیح معنوں میں متبع اور پیروکار بننے کی کوشش کرے۔

نو مولود بچوں کے لئےعمدہ، دلکش اوربامعنی نام ،جس سے اسلامی تشخص جھلکتاہو تجویز کرنے، مہمل، بے معنی، غلط اور برے معانی کے حامل نام سے احتراز کرنے کے متعلق شریعت کے مفصل احکام و ہدایات موجود ہیں ۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کی نظر میں یہ موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جسے نظر انداز کرنے کی ہرگز گنجائش نہیں ۔ یوں تو ناموں کا موضوع دوسرے مذاہب اور دیگر اقوام ِعالم میں بھی اہمیت کاحامل رہا ہے ،لیکن شریعت نے جس باریک بینی سے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے متعلق مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔دنیا کےکسی بھی دوسرے مذہب میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

نوزائیدہ بچے کےلئے باپ کی طرف سے سب سے پہلااوربہترین تحفہ (گفٹ)

نام انسان کے تعارف کا ذریعہ ہے، اسی کے ذریعے وہ مخاطب کیا جاتا ہے، اسی سے انسان کی معاشرہ میں شناخت ہوتی ہے۔ بغیر نام کے اس کی شناخت اورپہچان دشوار ہے، اسلئےہر زمانے میں اور ہر قوم میں نام کا رواج رہا ہے۔ نام بچے کے لئے زیب و زینت کا سامان ہے۔ اچھے، بامعنی اور دلکش نام سے دل میں اس کی عظمت قائم ہوتی ہے، جبکہ برے نام طبیعت پر گراں گزرتے ہیں، جس کااثر بعض اوقات اس نام والے کو بھدّابنادیتا ہے۔ نام باپ اور سر پرست کی طرف سے وہ قیمتی تحفہ ہے جو انسان کے ساتھ دنیا و آخرت میں ہمیشہ لگا رہتا ہے، کہیں جدانہیں ہوتا، جس طرح آدمی نام سے دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے ،ویسے ہی آخرت میں بھی اس کی شناخت اسی سے ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطھرہ نے مسلمانوں کو اپنے بچوں کے لئے اچھا، دلکش اور بامعنی نام رکھنے کا حکم دیا اور اس کو والدین پر اولاد کا حق قرار دیا، اور جن ناموں کے معانی اچھے نہیں ان کو رکھنے سے منع کیا۔

عمدہ نام اولاد کا والدین پر اہم حق ہے

بہر حال بچوں کے والدین پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں ان میں ایک اہم ترین حق یہ ہے کہ بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔

خوبصورت ، اور دلکش نام کا انتخاب اور برے ناموں سے اجتناب احادیث کی روشنی

آیئے !بچوں کے اچھے، بامعنی اور دلکش نام تجویز کرنے ،مہمل، بےمعنی اور برے ناموں سے احتراز کرنے کے سلسلے میں چند احادیث طیبہ بھی ملاحظ فرمائیں:

حضرت ابن عباسؓ اور ابو ھرہرہؓ سے روایت ہے کہ باپ پر بچے کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کا اچھا اور عمدہ نام رکھے اور اس کو حسنِ ادب سے آراستہ کرے۔

عن أبي سعيد، وابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه، فإذا بلغ فليزوجه فإن بلغ ولم يزوجه فأصاب إثما، فإنما إثمه على أبيه “۔ (شعب الایمان:11/137/حقوق الاولاد/ رقم الحدیث:۸۶۵۸)

ایک حدیث میں جنابِ نبی کریم ﷺ نے اچھا نام باپ کی جانب سے پہلا اور بہترین تحفہ (گفٹ) قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’

اوّل ماینحل الرجل ولدہ اسمہ فلیحسن اسمہ‘‘آدمی اپنے بچے کوسب پہلا تحفہ نام کادیتاہے،اسلئے بچے کا اچھانام رکھناچایئے۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : اوّل ماینحل الرجل ولدہ اسمہ فلیحسن اسمہ (جمع الجوامع :۳/۲۸۵/حرف الھمزہ مع النون/رقم الحدیث:۸۸۷۵/دارالکتب العلمیہ)

قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ، داد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہذا اچھے نام رکھا کرو۔

عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم» (ابوداؤد:۴/۲۸۷/باب فی تغییرالاسماء)

وفی تحفۃ المودود: الفصل الثاني فيما يستحب من الأسماء وما يكره منها

عن أبي الدرداء قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وبأسماء آبائكم فأحسنوا أسماءكم رواه أبو داود بإسناد حسن وعن ابن عمر قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أحب أسمائكم إلى الله عز وجل عبد الله وعبد الرحمن رواه مسلم في صحيحه۔ (تحفۃالمودودباحکام المولود:۱۱/ الفصل الثاني فيما يستحب من الأسماء وما يكره منها۔

مذکورہ بالا احادیث طیبہ سے معلوم ہوا کہ:

۱.باپ پر بچے کا ایک بنیادی اور اہم حق یہ بھی ہے کہ اس کے لئے اچھے سے اچھا نام تجویز کرے ؛ لہذا باپ کو چائیے کہ بچے کے اس حق میں کوتاہی اور غفلت سے کام نہ لے۔

۲. نوزائیدہ بچے کے لئے سب سے پہلا اور بہترین تحفہ جو باپ اسے دے سکتا ہے وہ اچھا نام ہے؛ لہذا خوب سے خوب تر تحفہ دینے کی کوشش کرے۔

۳.قیامت کے دن اپنے اور باپ کے نام سے پکارا جائیگا کہ فلاں آدمی جو فلاں کا بیٹا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ میدانِ حشر میں اگر کوئی برے نام سے پکارا گیا تو اس بھرے مجمع میں بڑی خفت اور سبکی ہوگی۔ اسلئے وہ دن آنے سے پہلے توجہ دی جائے اور خود یا کسی اللہ والے عالم سے اچھا نام منتخب کر لیا جائے۔

یاد رکھئے:نام رکھنے کا مقصد محض تعارف اور پہچان نہیں، بلکہ درحقیقت مذہب کی شناخت اس سے وابستہ ہے۔ فکر و عقیدہ کے اظہارکا ایک ذریعہ ہے؛ اس لئے اس سلسلے میں احادیث طیبہ میں خصوصی ہدایات دی گئیں ہیں۔ اچھے، دلکش اور بامعنی ناموں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور ایسے ناموں سے منع کیا گیا ہے جو برے معانی کے حامل ہو۔

ناموں کے متعلق پیغمبر اسلام کی اصلاحات اور زمانہ جاہلیت کا نظریہ

وحی کی رہنمائی سے محرومی اور عمروبن لحئی ،جیسے کج فکر لوگوں کی سربراہی نے عرب قوم کو دینِ ابراھیمی سے بہت دور دھکیل دیا تھااور ان میں شرک، بت پرستی اور طرح طرح کی گمراہیاں عام ہو گئی۔ ان کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ بات بات پر لڑنا ،جھگڑنا اور تلواریں سونت کر ایک دوسرے پر پل پڑنا۔ ذرا سے اختلاف پر بڑی بڑی جنگیں شروع ہو جاتیں جو نسل در نسل چلتی رہتیں۔ غرور و تکبر کا یہ عالم تھاکہ راستے میں بھی کسی شخص کو اپنے آگے چلنے کو گوارا نہیں کرتے بلکہ اس کو اپنی توہین تصور کرتے۔

غرض عرب معاشرہ شرک و بت پرستی اور نخوت و تکبر جیسے عیوب سے آلودہ ہو چکا تھا۔ ان عیوب کا اثر ان کے ناموں پر بھی پڑ گیا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے لئے یاتو ایسےنام رکھنا پسند کرتے تھے ،جن میں شرک و بت پرستی کا معنی موجود ہوتا، یا ا یسےنام اختیار کرتے تھے جن میں جرأت، بہادری، تکبر و غرور اور بڑائی کا معنی موجود ہوتا۔ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک مرتبہ ابوالرقیش اعرابی سے کسی نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اپنی اولاد کے لئے کلب(کتا)، ذئب(بھڑیا) جیسے برے نام تجویز کرتے ہو، جب کہ اپنے غلاموں کے لئے مرزوق(رزق دیا ہوا)، رباح(نفع پانے والا) جیسے عمدہ اور اچھے نام رکھتے ہو؟ ابوالرقیش اعرابی نے جواب میں کہا: بیٹوں کے نام دشمنوں کے لئے اور غلاموں کے نام اپنے لئے رکھتے ہیں، یعنی غلام تو اپنی خدمت اور فائدہ حاصل کرنے کے لئے رکھے جاتے ہیں ؛ اس لئے ان کے یہ نام رکھے گئے ۔اور اولاد چونکہ دشمنوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر جنگ کرتی ہے اس لئے ان کے لئے یہ نام تجویز کئے گئے ،تا کہ ان کے نام سنتے ہی دشمن مرعوب ہوجائے۔

قيل لأبي الرقيش الأعرابى: لم تسمون أبناءكم بشر الأسماء نحو: كلب وذئب، وعبيدكم بأحسن الأسماء نحو: مرزوق ورباح، فقال: إنما نسمي أبناءنا لأعدائنا، وعبيدنا لأنفسنا: يريد أن الأبناء عدة الأعداء وسهام في نحورهم؛ فاختاروا لهم هذه الأسماء. (السیرۃ النبویۃلابن ھشام:۱/۲)

بہرحال عرب معاشرہ میں شرکیہ نام اور دیگر برے معانی پر مشتمل نام رائج ہو چکے تھے، چنانچہ عبدالعزیٰ(عزیٰ بت کا بندہ)، عبد الکعبہ(کعبہ کابندہ)، عبد الشمس(سورج کا بندہ)، غراب(کوا)، عاص(گنہگار) جیسے برے نام ان میں عام ہو چکے تھے۔ اپنی بہادری اور بڑائی جتانے کے لئے بعض اوقات وہ جنگلی درندوں کے نام بھی رکھ دیتے تھے، مثلا: لیث(شیر)، اسد(شیر)، ذئب(بھڑیا)وغیرہ۔

اسلام جو توحید اور امن و سلامتی کا دین ہے ۔تکبر و نخوت جیسے برے اوصاف سے بیزار ہے۔ اس لئے اس سلسلے میں حضور پاک ﷺ کا عام معمول یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی اسلام قبول کرتا اور اس کا نام قابلِ اصلاح ہوتا تو آپ ﷺ نہایت اہتمام سے اس کے نام کی اصلاح فرماتے تھے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:|”أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يغير الاسم القبيح”یعنی حضور ﷺ برے ناموں کو اچھے ناموں سے بدلتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں ایک وفد حاضرہوا، اس وفد میں ایک صاحب کا نام ’’اصرم ‘‘تھا ۔آپ نے اسی آدمی سے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟ اس نے کہا ’’اصرم‘‘ ۔آپ نے فرمایا: نہیں بلکہ تم ’’زرعہ‘‘ ہو۔

حدثني بشيرُ بنُ ميمون عن عَمِّه أسامةَ بن أخْدَريٍّ: أن رَجُلاً يقال له: أصرَمُ، كان في النفر الذين أتَوْا رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم -، فقالَ رسولُ الله -صلى الله عليه وسلم-: “ما اسمُك؟ ” قال: أنا أصْرَمُ، قال: “بل أنتَزُرعة”ٌ(ابوداؤد :٧/ ٣٠٨/باب فی تغییرالاسم القبیح)

اصرم کا معنی ہے: کاٹنے والا، قطع کلام و تعلق کرنےوالا، جو کہ ایک منفی اور غلط معنی ہے، زرعہ کا معنی کھیتی یا بیج کے ہے، یعنی دوسرے کو نفع پہچانے والاجو ایک اچھا اور مثبت معنی ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ نے ایک لڑکی کا نام جمیلہ رکھ دیا ۔جس کا پہلا نام عاصیہ (گناہگار) تھا۔ غزوہ حنین کے موقع پر آپ نے ایک شخص سے پوچھا : آپ کا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا : غراب۔(غراب کوے کو کہتے ہیں) آپ ﷺ نے فرمایا: آج سے تم غراب نہیں ،بلکہ مسلم ہو۔ أُمِّي رَائِطَةُ بِنْتُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِيهَا قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَقَالَ لِي: «مَا اسْمُكَ؟» قُلْتُ: غُرَابٌ، قَالَ: «لَا، بَلِ اسْمُكَ مُسْلِمٌ»(الادب المفرد:باب/ ۱/۸۲۴)

ان چند مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ کتبِ احادیث میں ان جیسی بہت سی مثالیں ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی نظرمیں ناموں کی غیر معمولی اہمیت تھی، جو نام قابلِ اصلاح ہوتا آپ نہایت اہتمام سے اس کی اصلاح فرماتے تھے۔

شخصیت پراچھے اور برے نام کے اثرات

یوں تو دیکھنے میں نام رکھنا ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے، بلکہ بعض لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ’’نام میں کیا رکھا ہے‘‘ حالانکہ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بچوں کی شخصیت اور کردار پر اچھے نام کے اچھے اثرات پڑتے ہیں جبکہ برے نام کے ممکنہ برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس لئے شریعت نے معنی و مفہوم کے اعتبار سے اچھا نام رکھنے کا حکم دیا تاکہ بچے کی زندگی کی شروعات کی پہلی اینٹ درست طور پر رکھی جائے۔ مشہور محدث اور فقیہ ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقات شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں: اپنی اولاداورخادم وغیرہ کے لئے اچھے نام کا انتخاب کرنا سنت ہے ، کیونکہ بسا اوقات برا نام تقدیر کے موافق ہو جاتا ہے ، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام خسار (جس کے معنی گھاٹے اور نقصان کے ہے) رکھے تو ہو سکتا ہے کہ کسی موقع پرخود وہ شخص یا اس کا بیٹا تقدیرِ الہی کے تحت خسارہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں لوگ یہ سمجھنے لگے ،کہ اس کا خسارہ اور نقصان میں مبتلا ہونا نام کی وجہ سے ہے اور بات یہاں تک پہنچ جائے کہ لوگ اس کو منحوس جاننے لگیں اور اس کی ہم نشینی سے احتراز کرنے لگ جائیں۔

ينبغي للإنسان أن يختار لولده وخدمه الأسماء الحسنة، فإن الأسماء المكروهة قد توافق القدر. روي عن سعيد بن المسيب أن عمر بن الخطاب – رضي الله تعالى عنه – قال لرجل: ما اسمك؟ قال: جمرة. قال: ابن من؟ قال: ابن شهاب. قال: ممن؟ قال: من الحراقة. قال: أين مسكنك؟ قال: بحرة النار. قال: بأيها؟ قال: بذات لظى، فقال عمر: أدرك أهلك فقد احترقوا، فكان كما قال عمر رضي الله تعالى عنه، اهـ. ولعل في هذا المعنى ما قيل: إن الأسماء تنزل من السماء، فالحديث في الجملة يرد على ما في الجاهلية من تسمية أولادهم بأسماء قبيحة، ككلب، وأسد، وذئب. وعبيدهم، براشد ونجيح ونحوهما. معللين بأن أبناءنا لأعدائنا وخدمنا لأنفسنا. (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:۷/۲۹۰۰/باب الفال ولطیرۃ)(وکذافی مظاہر حق: ۵/۳۰۰)

حضرت فاروق اعظم ؓ کے متعلق منقول ہےکہ وہ صحابہ کرام کو باقاعدہ ہدایت فرمایاکرتے تھےکہ لوگوں کے پاس ایسے آدمیوں کوقاصدبناکر بھیجاکرو، جو خوبصورت اور اچھے نام والے ہوں۔ علماء لکھتے ہیں: اس سبب نفسیاتی تھا،اچھے نام اور اچھی صورت کا مخاطب پر اچھا اثر پڑتاہے۔(احیاء علوم الدین:۴/۱۰۶/بیان حقیقۃ النعمۃ)

لہذا جس طرح والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگہداشت و حفاظت کریں، ان کی نشونما اور بہترین تعلیم و تربیت کی فکر کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ والدین بچوں کے لئے اچھے نام تجویز کریں۔

غرض انسان کی شخصیت پرنام کا اثر پڑتا ہے۔ اچھے نامو ں کے اچھے اور برے ناموں کے برے اثرات ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں یہ واقعہ منقول ہے: حضرت عبد الحمید ابن جبیرؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت سعید ابن المسیبؓ کی خدمت میں حاضر تھا ۔انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ،کہ میرے دادا جن کا نام حزن تھا ۔وہ ایک مرتبہ جناب بنی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے ان سے پوچھا تمہارا کیا نام ہے؟ انہوں نے کہا میرا نام حزن(جس کا مطلب ہے سخت اور دشوار گزار زمین)ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا: حزن کوئی اچھا نام نہیں ہے، لہذا میں تمہارا نام تبدیل کر کے حزن کے بجائے سھل رکھ لیتا ہوں۔(سھل کا معنی ہے کہ نرم اور ہموار زمین جہاں انسان کو آرام ملے) اس پر میرے دادا نے کہا کہ میرے باپ نے میرے لئے جو نام رکھا ہے ۔میں اس کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ حضرت سعید ابن المسیبؓ فرماتے ہیں کہ : اس کے بعد سے ہمارے خاندان میں ہمیشہ سختی رہی۔

عن ابن المسيب، عن أبيه: أن أباه جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «ما اسمك» قال: حزن، قال: «أنت سهل» قال: لا أغير اسما سمانيه أبي قال ابن المسيب: «فما زالت الحزونة فينا بعد» (بخاری: ۲/۹۱۴/فی الادب: باب اسم الحزن) (وکذافی سنن ابی داؤد: ۲/۶۷۷ /باب فی تغییرالاسم القبیح)

نام کے اثرانداز ہونے کے متعلق ایک عجیب واقعہ

اس سلسلے میں حضرت فاروق اعظم ؓ کا یہ عجیب و غریب واقعہ بھی ملاحظہ فرمالیں: حضرت فاروق اعظمؓ کی خدمت میں ایک انجان شخص حاضر ہوا ، سلام و دعا اور خیروخبر کے بعد حضرت فاروق اعظمؓ نے اس شخص سے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟اس نے کہا جمرہ(انگارہ)، دریافت کیا کس کے بیٹے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ شھاب(آگ کا شعلہ)، پوچھا کہ کس قبیلہ سے تعلق ہے؟ اس شخص نے کہا حرقہ(سوخت شدہ، جلا شدہ بستی) سے ، آپ نے سوال کیا،آپ کی رہائش کہاں ہے؟ جواب دیا حرۃ النار(آگ کی سرزمین)، آپ نے پھرسوال کیا، کونسی جگہ میں؟ اس آدمی نے کہا: ذات لظی(آگ کے شعلوں سے بھڑکنے والا ٹیلہ) میں، یہ سن کر فاروق اعظم ؓ نے فرمایا: جلدی اپنے گھر والوں کی خبر لو! وہ سب آگ میں جل کر راکھ کاڈھیرہو گئے ہیں۔جب اس نے جاکر دیکھاتوویسے ہی پایا، جیسا کہ فاروق اعظم ؓ نے فرمایا تھا۔

أن عمر بن الخطاب، قال لرجل: «ما اسمك؟» فقال جمرة، فقال: «ابن من؟»، فقال: ابن شهاب: قال: «ممن؟» قال: من الحرقة، قال: «أين مسكنك؟» قال: بحرة النار، قال: «بأيها؟»، قال: بذات لظى، قال عمر: «أدرك أهلك فقد احترقوا»، قال: فكان كما قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه۔(الموطاللامام مالک:۲/۹۷۳/ باب مایکرہ من الاسماء) ( وکذافی مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:۷/۲۹۰۰/باب الفال ولطیرۃ)

ان دونوں واقعات میں آپ نے دیکھا کہ برے ناموں نے کیسا برا اثر کر کے دکھایا۔ پہلے واقعہ میں برے نام کی وجہ سے پورے خاندان میں سختی باقی رہی ،جبکہ دوسرے واقعہ میں برے ناموں کی نحوست سے پورا گھرانا جل کر خاکستر ہو گیا۔ کتبِ احادیث میں اس جیسے اور بھی بہت سارے واقعات منقول ہیں۔جن کو طوالت کے خوف سے ترک کیا جاتا ہے۔ علامہ ابن القیم جوزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تحفۃ المودود باحکام المولود اور حافظ علامہ ابن حجر العسقلانیؒ نےالاصابہ فی تمیزالصحابہ میں اس قسم کے کئی واقعات ذکر کئے ہیں۔ باذوق حضرات وہاں دیکھ سکتے ہیں۔

نام کا اثر اور جدید سائنس

شخصیت پر اچھے اور برے ناموں کے اثرات پڑنے کو جدید سائنس نے بھی تسلیم کیا ہے، چنانچہ سنتِ نبوی اور جدید سائنس کے مؤلف جناب محمد طارق محمود چغتائی صاب لکھتے ہیں: جدید سائنس نے اچھے ناموں کو پسند کیا ہے۔ ان کی پسند دراصل ناموں کے الفاظ اور پھر ان کےاثرات کی وجہ سےہے۔پیراسائکالوجی کے ماہر پروفیسر پیرل ماسٹرنے اپنی حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ نام زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں ،حتی کہ نام کے الفاظ کا ترجمہ بھی اپنے فوائد اور اثرات بدل دیتا ہے۔(سنت نبوی اور جدید سائنس۱/۳۰۳)

ناموں کی نفسیات پر تحقیق کرنے والے یونیورسٹی آف ایریزونا کے ماہر نفسیات ڈیوڈزو کہتے ہیں کہ آپ کا نام، آپ کی شناخت سب سے اہم عنصر ہے اور اسی کی مدد سے لوگ آپ سے بات کرتے ہیں تو دو سروں کے ذہنوں میں آپ کی شبیہ بھی اسی کی وجہ سے بنتی ہے۔ (بی بی سی نیوز: 25جولائی2021)

کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک اخبار میں پڑھا کہ حال ہی میں سائنسی ماہرین نے ایک تحقیق پیش کی ہے جس میں ثابت کیا گیا ہے کہ انسانی شخصیت اور ناموں کے درمیان تعلق محض انہیں ایک انفرادی پہچان دینے کی حد تک نہیں ہے ،بلکہ اس اثرات زندگی بھر انسانی شخصیت پر مختلف انداز میں جاری رہتے ہیں ۔ اس تحقیق کے لئے ماہرین نے امریکہ اور کینڈا میں سوشل سیکورٹی کا ریکارڈ جانچ اندازے قائم کئے اورپھر اس مقصد کے لئے لوگوں کے نام، ان کی جائے پیدائش یا جائے رہائش، پیشہ اور دیگر عوامل کے بیچ ممکنہ تعلقات کو جاننے کی کوشش کی گئی ۔ ماہرین نے اس مشاہدے میں یہ بھی دعوی کیا کہ بہت سے لوگ ایسے پیشوں کا انتخاب بھی کرتے ہوئے پائے گئے ،جن کا تعلق ان کے نام سے کسی حد تک قائم کیا جا سکتا ہے۔ مذکورہ بالا احادیثِ طیبہ، مستندواقعات اور سائنسی تحقیقات اور دیگر معتبر تفصیلات سے واضح ہوا کہ اچھے ناموں کے اچھے اور برے ناموں کے ممکنہ برے نتائج پڑ سکتے ہیں۔ اسلئے والدین کو چائیے کہ اس معاملے کی اہمیت اور حساسیت کو جان کر اپنے بچوں کے لئے بامعنی، اچھے اور دلکش ناموں کا انتخاب کرے۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کردوں کہ ناموں میں یہ اثر اللہ تعالی نے رکھا ہے، نام بذاتِ خود نہ کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اسلئے اس کو مؤثر بالذات سمجھنا ہر گز درست نہیں، نیز یہ بھی کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک پر ضروربالضرور نام کے اثرات مرتب ہی ہوں گے۔بلکہ ہو سکتا ہے کسی فرد پر نام کے اثرات مرتب نہ ہو، لیکن عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ نام کے ممکنہ اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔

ناموں کے سلسلے میں ہماری کوتاہی غفلت

ناموں کے متعلق شریعت کی طرف سے اتنی زیادہ تاکید اور ترغیب وترہیب کے باوجود اس وقت مسلم معاشرہ غفلت، زبوں حالی اور جدت پسندی کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ہمارے ننھے منے ،جان سے پیارے بچے بدقسمتی سے صحیح اسلامی ناموں سے محروم ہو جاتے ہیں۔

جدت پسندی کا بھوت

آج کل لوگوں کا یہ مزاج بنتا جارہا ہے کہ بچوں کے ناموں میں جدت ہو۔ ایسا نام رکھا جائے جو پڑوس، محلہ اور آس پاس کےآبادی اور اہل قرابت میں سے کسی کا نہ ہو ،خواہ اس کا معنی اور مفہوم کچھ بھی نکلتا ہو۔ چنانچہ بعض اوقات جدت پسندی کے جنون میں لوگ ایسے نئے نئے نام تجویز کرتے ہیں جو یا بےمعنی اور مہمل قسم کے ہوتے ہیں یا غلط معانی کے حامل ہوتے ہیں۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب ؒمعارف القرآن میں رقمطراز ہیں: کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اسلامی نام ہی رکھنا چھوڑدیا ہے، ان کی صورت و سیرت سے پہلے بھی ان کا مسلمان سمجھنا مشکل تھا، ان کے نام سے پتہ چل جاتا تھا، اب نئے انگریزی طرز کےنام رکھے جانے لگے۔ لڑکیوں کے نام خواتین اسلام کے طرز کے خلاف، خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ کے بجائے نسیم، شمیم، شہناز، نجمہ پروین ہونے لگے۔ (معارف القرآن:۴/۱۳۲)

قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کی شرعی حیثیت اور دلچسپ واقعہ

بعض سادہ لوح ناواقف مسلمانوں میں یہ رجحان بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کو خیر و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ اس کا معنی اور مطلب کیا ہے؟

آیا یہ نام مناسب بھی ہے یا نہیں؟ چنانچہ ایک مسجد کے نمازی نے اپنی بچی کا نام ’’لِنتَ‘‘ رکھا۔ مسجد کے امام صاحب نے تبدیل کرنے کا کہا تو جواب ملا کہ بچی کی دادی کو دورانِ تلاوت یہ لفظ پسند آیا تھا، اس لئے رکھا ہے، لہذا دادی کی خوشی کی خاطر اس نام کو تبدیل نہیں کر سکتے۔

حضرت مولانا مفتی مہربان علی بڑوتی صاحب ؒ نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے ،کہ شہر مظفر نگر کے دیہات میں ایک عورت نے جو ذرا قرآن کریم پڑھنا جانتی تھی ۔اس کے یہاں یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اس نے اپنے کو خواندہ سمجھتے ہوئے ،بچیوں کے نام تجویز کرنے کے لئے قرآن کریم سے’’ سورہ کوثر‘‘ کا انتخاب کیا۔ چنانچہ بڑی بچی کا نام ’’کوثر‘‘ رکھا۔دوسری کا نام ’’وانحر‘‘ تجویز کیا۔ اور تیسری کا نام ’’ابتر‘‘ مقرر کیا۔کوثر اور وانحر کے معنی تو بحثیتِ نام کسی حد تک درست بھی ہیں ،لیکن آخری لفظ ’’ابتر‘‘ کا معنی توبالکل غلط ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔

( مسلمانوں کے نام اور ان کے احکام:۱/۱۳)

ایسے لوگوں کو بطور اصلاح کچھ کہا جائے تو سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم سے رکھے ہوئے ناموں کو تبدیل کرنا کون سے مسئلے کی بات ہے۔ حالانکہ قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کی بات علی الاطلاق درست نہیں ہے۔ اسلئے کہ قرآن کریم میں حمار، کلب، خنزیر، بقرہ، فرعون، ہامان، قارون وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ تو ان کے طریقِ استدلال کے مطابق ان الفاظ کے ذریعے بھی نام رکھنا صحیح ہونا چائیے۔

نام اچھا ہونے کا معیار نیز ناول،افسانوں،فلموں اوردیگر غیرشرعی پروگراموں سے نام رکھنے کا حکم لہذا نام کے اچھا یا برا ہونے کا معیار یہ نہیں کہ وہ نام پسند آجائے یا وہ قرآن کریم میں مذکور ہو، بلکہ اچھا ہونے کا معیار یہ ہے کہ شریعت کی نظر میں بھی وہ نام اچھا ہو۔ اسی طرح بعض لوگ اسلامی ہدایات کے برخلاف ناول، افسانوں، فلموں، ڈراموں اور دیگر غیر شرعی پروگراموں سے نام اخذ کر کے رکھتے ہیں، حالانکہ وہ نام یا تو فرضی ہوتے ہیں یا سراسر غیر اسلامی ،بلکہ بسا اوقات اس میں مذاہبِ باطلہ کی آمیزش ہوتی ہے جو انتہائی افسوس کن اور قابلِ اصلاح امر ہے۔

یاد رکھئے! نام کی حیثیت ایک قالب کی سی ہے جس میں انسان ڈھلتا ہے ۔ نام کا انسان کی فطرت پر نفسانی اثر رہتا ہے۔ اچھے نام والا آدمی اپنے نام کا اچھا اثر محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ جب اس سے پکارا جاتا ہےتو وہ اپنے اندر ایک عجیب طرح کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اس کے برخلاف جس کا نام اچھا نہیں ہوتا وہ اپنے نفس کو جھنجوڑتا رہتا ہے۔

 

 

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں