سید احمد انیس ندوی
اطلاعات کے مطابق اس وقت پاکستان کے علمی حلقوں میں ایک بحث زور پکڑے ہوئے ہے۔ وہاں وفاق المدارس العربیۃ کے نام سے ایک بڑا تعلیمی بورڈ ہے۔ منہجِ دیوبند سے وابستہ ہزاروں مدارس اسی وفاق سے ملحق اور منظور شدہ ہیں، یہ غالباً پڑوس ملک میں مدارس اسلامیہ کا سب سے بڑا اور اہم وفاق ہے۔ موجودہ وقت میں اس وفاق کی صدارت عالمی شہرت یافتہ عالم دین حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرما رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں وفاق کی نصاب کمیٹی نے اپنے ملحقہ مدارس کے طلبہ کے لیے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ الله علیه کی معرکہ آرا تصنیف “مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش” داخل نصاب کی ہے۔ یہ کتاب حضرت مولانا علی میاں کی اُن چند کتابوں میں سے ایک ہے جس نے عالمی منظر نامے پر اپنے گہرے نقوش مرتب کیے ہیں۔ فکر اسلامی کے حوالے سے مولانا کی جو چند کتابیں ہر ایک صاحب علم کو بالاستیعاب پڑھنی چاہیے یہ کتاب اُن میں سے ایک ہے۔ نصاب میں اس کتاب کو شامل کیے جانے کی خبر جیسے ہی علمی حلقوں میں عام ہوئی، ویسے ہی سوشل میڈیا پر ذمہ دارانِ وفاق کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع ہو گئ۔
پڑوس ملک کے متعدد حلقے اپنے مسلکی تشدد، تنگ نظری اور فکری جمود کے لیے معروف ہیں، وہاں موقع ملتے ہی “تحزب” اور “تعصب” کا جن بوتل سے باہر نکل پڑتا ہے۔ مذکورہ کتاب پر معترضین کو یہ اشکال ہے کہ اس کتاب میں حضرت مولانا علی میاں نے “خمینیت” اور “مودودیت” کا پرچار کیا ہے۔ اس اعتراض میں کتنی حقیقت ہے اس کو سمجھنے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اس کتاب کو نصاب میں شامل کرنے والے “ندوی” علماء نہیں ہیں، بلکہ وفاق کے وہی ذمہ داران ہیں جو ساری دنیا میں جماعتِ دیوبند کے ترجمان سمجھے جاتے ہیں۔ ویسے یہ دو الفاظ (خصوصا آخر الذکر لفظ) ہمارے بعض حلقوں میں کسی کو بھی مطعون و مردود بنانے کے لیے بہت کافی ہیں۔ پوری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ متعدد صلاحیت مند اہل علم حضرات کو جب اُن کے اپنے ہی اداروں سے کنارے لگانے کا ارادہ کیا گیا تو یہی الزامات اُن کے سروں پر ڈال کر بآسانی ان سے نجات پا لی گئ۔ لوگوں نے تو حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ تک کے بارے میں یہی فتنہ مچایا کہ وہ مولانا مودودی رحمہ اللہ سے متاثر ہیں۔ اب مذکورہ کتاب کے خلاف یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ اس سے باطل نظریات وجود میں آنے کا خطرہ ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ ایسا شور مچانے والوں کی اکثریت نے خود کبھی اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا، بلکہ وہ صرف یہ سن کر شور و غوغا مچانے لگے کہ اس کتاب کو پڑھنے سے فلاں شخصیت کی طرف میلان پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
مجھے اس موقعے پر چند باتیں عرض کرنی ہیں۔
1: کیا ہمارے فضلائے مدارس استعداد و صلاحیت سے اس قدر محروم ہیں کہ ایک کتاب جس میں آپ ہی کے بقول بعض حصوں سے فلاں اور فلاں کی تائید ہوتی ہے، کیا طلبہ صرف اُن چند اقتباسات کو پڑھ کر بہک جائیں گے ؟ کیا آپ سات آٹھ سال میں اپنے فضلا کو ایسی فکری پختگی بھی نہیں دے پائے جو چند سطور ان کے فکر و نظریے میں کوئی تبدیلی نہ لا سکیں۔ اتنے عرصے میں تو طلبہ کو ایسا پختہ ہو جانا چاہیے کہ وہ کسی کی دس کتابیں پڑھ کر بھی متاثر نہ ہوں بلکہ اپنی تحقیق کے مطابق صحیح اور غلط کا موازنہ کر سکیں۔ اگر واقعی ایسا ہے کہ طلبہ کے لیے ایسی چند سطور بھی پُر خطر ہیں تو سب سے پہلے آپ اپنا پورا نصاب بدل ڈالیے، ایسے نصاب کو آٹھ دس سال پڑھنے سے کیا فائدہ جو طلبہ میں فکر اور نظریے کی پختگی بھی پیدا نہ کر سکے۔
اور یاد رکھیے کسی بھی فکر اور نظریے کی جب بھی تردید ہوتی ہے یا اُس پر تنقید کی جاتی ہے تو پہلے اس فکر اور نظریے کو تفصیل کے ساتھ پڑھنا پڑتا ہے تبھی تردید اور تنقید مقبول ہوتی ہے۔ محض نقل آرا کی بنیاد پر اس طرح تنقید کرنا کہ یوں محسوس ہو کہ وہ تنقید خود بیان کرنے والے کے یہاں تحقیق کے مرحلے سے گزری ہوئی ہے یہ بد دیانتی اور جہالت کی بات ہے۔ آج کل کی اکثر تنقیدیں اپنی پسندیدہ شخصیات پر “صم بکم عم ” کی کیفیت کے ساتھ اعتماد کی بنیاد پر ہوتی ہیں جو کم از اہل علم کے تو شایان شان نہیں۔ اگر تحقیق نہ ہو تو آدمی سکوت کو ترجیح دے یا یہ وضاحت کر دے کہ میں نے اس مسئلے میں ابھی صرف یکطرفہ مطالعہ کیا ہے اور اُس کا ما حصل یہ ہے، اصل تحقیقی بات میں دو طرفہ مطالعہ کر کے پیش کروں گا۔ جو لوگ سابقے ،لاحقے اور محض نسبتیں دیکھ کر حق و باطل کا فیصلہ کرتے ہیں وہ دنیا میں بھی بد دیانتی کرتے ہیں اور عند اللہ بھی جواب دہ ہوں گے۔ حق اور باطل کا معیار نسب اور نسبت نہیں ہے، حق اور باطل کا معیار کسی ادارے، جماعت یا تنظیم سے وابستگی بھی نہیں ہے، حق اور باطل کا معیار کتاب و سنت کے واضح اصول ہیں، جو فکر و نظریہ اُس کے مطابق ہے وہ مقبول ہے، اور جو واقعی اُس کے مخالف ہے وہ مردود ہے۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی وہ شخصیت ہیں جن کو عرب و عجم نے اپنا رہبر تسلیم کیا، مگر اس کے باوجود انھوں نے اپنا مسترشدانہ تعلق جماعتِ دیوبند ہی کے ایک عظیم شیخ طریقت سے قائم کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ حضرت مولانا علی میاں رحمہ اللہ ساری زندگی جماعتِ دیوبند کے اکابر سے منسلک رہے اور بعض ندویوں کا یہ شکوہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ندوہ کے نصاب و نظام میں شبلی و سلیمان (رحمھما الله) کی فکر سے جو بے اعتنائی بعد کے ادوار میں پیدا ہوئی وہ اسی خصوصی تعلق کا نتیجہ تھی۔ یہ خصوصی تعلق مختلف جہتوں سے کس قدر مفید رہا یا کس قدر مضر رہا یہاں یہ موضوع زیر بحث نہیں ہے، اللہ نے چاہا تو ان شاء اللہ اگلے کچھ عرصے میں اس تاریخ سے متعلق ایک تفصیلی روداد آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
واقعہ یہی ہے کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے ندوہ اور دیوبند کے روابط بڑے مستحکم اور مضبوط فرما دیے تھے، اور اکابر دیوبند بھی ان کی قدر فرماتے تھے۔ دار العلوم دیوبند کے تاریخ ساز صد سالہ جلسے میں عرب و عجم کے سامنے مولانا کی جو تقاریر ہوئیں وہ شاید اس جلسے کی موثر ترین تقریریں تھیں۔ اس سب کے باوجود مولانا کی ایک کتاب شامل نصاب کیے جانے پر ایسی ہنگامہ آرائی کو سوائے تحزب اور تعصب کے کیا نام دیا جائے ؟
یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب جیسی جہاں دیدہ شخصیت کے ہاتھ میں اس وفاق کی ذمہ داری ہے، مفتی صاحب جیسے صاحب نظر عالم و فقیہ، مفکر و مدبر پورے عالَمِ اسلام میں چند ایک ہیں۔ اس لیے ہم کو امید ہے کہ ذمہ داران وفاق اس قسم کے شور شرابے کو بالکل نظر انداز کریں گے اور نصاب کمیٹی کے اس فیصلے کو نافذ کرنے میں کسی قسم کا تردد نہیں فرمائیں گے۔
اس قسم کے تنگ نظر لوگوں سے ایک سوال اور کرنے کا جی چاہتا ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ آپ نے کبھی درس نظامی کی تاریخ پڑھی ہے ؟ اس نصاب میں شامل تمام کتابوں کے مصنفین کے احوال آپ کو معلوم ہیں ؟ میں طوالت کے خوف سے وہ سب تفصیلات یہاں لکھنا نہیں چاہتا، البتہ ایسے حضرات کو دعوت دیتا ہوں، اُن سے گزارش کرتا ہوں کہ ایک بار مولانا سید مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی کتاب “ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت” کا ضرور مطالعہ فرمائیں، اور درس نظامی میں شامل تمام کتابوں کے مصنفین کے حالات زندگی پڑھیں، شاید کچھ ایسی باتیں آپ کے سامنے آئیں جو آپ کے لیے بالکل نئ ہوں, اور بعض ایسے حقائق سے آپ واقف ہو جائیں جن کی مدد سے آپ کو اپنے اندر وسعت فکری پیدا کرنے کا موقع مل سکے۔
یہ سطور صرف اُن حضرات کو مخاطَب کر کے لکھی گئ ہیں جو اس قسم کی ذہنیت سے متاثر ہیں، یا جن کے اندر تعصب اور تحزب بالکل جڑ پکڑ چکا ہے، جن کو اسلام سے زیادہ اپنا مسلک و منہج عزیز ہوتا ہے۔ ورنہ ہر حلقے میں خیر کا پہلو غالب ہے، ہماری تنگ نظری اور ہمارے جمود نے ہم کو ملت کے مختلف علمی حلقوں کے درمیان وقت گزار کر استفادہ کرنے سے محروم کر دیا ہے، جب کہ یہ بات سچ ہے کہ ہر حلقے میں بعض ایسی خوبیاں ہیں جو لائق تقلید ہیں۔ رہی بات جماعتِ دیوبند کی تو جماعت دیوبند سے بلاواسطہ یا بالواسطہ فیض اٹھانے والوں نے پورے عالَم میں دین کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی بھی صاحب نظر سے مخفی نہیں ہیں۔ اللہ تعالی نے بانیان دار العلوم کے خلوص کو ایسی قبولیت عطا فرمائی ہے کہ دنیا بھر میں دار العلوم کا فیض پہنچا ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک پہنچتا رہے گا۔
میں تمام قارئین سے گزارش کرتا ہوں کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی کی مذکورہ کتاب کا ضرور مطالعہ فرمائیں، اس کے علاوہ مولانا کی تاریخ ساز کتاب “ما ذا خسر العالم بانحطاط المسلمین” اردو ترجمہ : “انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر” اور “سیرت سید احمد شہید” جیسی تصانیف کو بھی مطالعے میں رکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کتابوں میں اصل فکر کیا پیش کی گئ ہے ؟ ہاں سرد جذبات اور پست تمناؤں کے ساتھ آپ اگر یہ کتابیں پڑھیں گے یا اس موضوع کو پڑھیں گے تو شاید آپ بھی اس موضوع پر لکھنے والے ہر مصنف کو اسی طرح مسترد کرتے رہیں گے۔
کمنت کیجے