Home » قومی زوال کا ایک سبب
تہذیبی مطالعات سماجیات / فنون وثقافت شخصیات وافکار

قومی زوال کا ایک سبب

قومی شکست صرف سیاسی اقتدار اور معاشی طاقت کے خاتمے سے عبارت نہیں، یہ تو دراصل نتائج ہیں۔
اصل تنزلی پہلے علم و اخلاق میں ہوتی ہے۔علم میں ترقی غور و فکر اور تنقید سے جڑی ہوئی اور اخلاق میں کامیابی ادائے حقوق سے۔
مسلم تہذیبی روایت میں من حیث المجموع ان دونوں پہلووں سے زوال آیا ہے۔۔ یہ اسی زوال کی ایک علامت ہے کہ جب کوئی بڑا مفکر اس قوم کو اپنے رویوں کی اصلاح اور اپنی اسٹریٹجی کی تبدیلی پر غور فکر کی دعوت دیتا ہے، تو اس کی فریاد پر ایک منفی ردعمل اور اس کی شخصیت اور شناخت کو مشکوک بنانے کی مہم چل پڑتی ہے۔
عام مسلمانوں کو باور کروایا جاتا ہے کہ یہ لوگ امت سے مخلص نہیں، یہ تہذیبی طور پر مرعوب ہو چکے ہیں، یہ مسلمانوں کو دوبارہ سر اٹھا کر چلتے نہیں دیکھنا چاہتے۔یہ عالمی طاقتوں کے آلہ کار اور ایجنٹ ہیں۔
قریب عہد میں اس الیمہ کا شکار مسلمانوں کی تینوں بڑی شخصیات ہوئیں۔
پہلی سرسید، دوسری مولانا وحید الدین خان اور تیسری جاوید احمد غامدی۔
ان تینوں شخصیات نے مسلم قوم کو بدلتی ہوئی دنیا کے حالات کی رعایت سے معاملات اور دنیا کے اسٹیج پر اپنی قومی حیثیت کے شعوری ادراک جیسے تلخ حقائق کو باور کروانے کی پوری کوشش کی اور بتایا کہ ہم اب مفتوح ہو چکے ہیں،تاہم اس زوال میں عزت سے آگے بڑھنے کے امکانات اب بھی موجود ہیں، جس کا راستہ ہیجان، کنفرٹیشن اور کشمکش نہیں بلکہ اپنی تعمیر اور امن کا وقفہ ہے۔

یہ تینوں شخصیات بھی انسانی حیثیت میں یہ لائحہ عمل پیش کررہے تھے جن سے اجزا تک میں اختلاف کی گنجایش موجود تھی، لیکن مسلمان قوم نے ان کی اِس فریاد میں اُس درد کو محسوس ہی نہیں کیا جیسے سامنے رکھ کر یہ شخصیات انھیں حقیقت کی دنیا میں لانا چاہتے اور ہلاکت خیر انجام سے بچانا چاہتے تھے۔
چنانچہ جب انھوں نے مسلمانوں کو بتایا کہ عالمی طاقتوں اور ان کے فیصلوں سے لڑ بھڑ کر ہم نے صرف کھویا ہے جبکہ موجودہ دنیا میں فاتحین سے باعزت معاملات اور سمجھوتوں کے باوقار امکانات موجود ہیں تو مسلمان ان سے بھی اپنے قومی مواقف کی تائید میں اسی جذباتیت کا مطالبہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں آج یہ یہاں پہنچے ہیں۔

ان مفکرین میں سے کون ہوگا جو مسلمانوں کا خون بہنے، ان کے شہروں کے مسمار ہونے، ان کے بچوں کی برہنہ لاشوں کے ڈھیروں کو دیکھ کر مطمئن سوتا ہوگا، انھیں بھی اپنی قوم کی زبوں حالی پر اتنا ہی دکھ ہوتا ہوگا، لیکن یہ اپنی قوم کو مظلومیت کے نہاب میں مزید حماقتوں سے روکنے اور اس کے نتیجے میں مزید ہلاکتوں اور شکست سے بچانا چاہتے ہیں۔

اس امت کی بڑی بدقمستی اپنے محسنین کی معرفت سے محرومی ہے۔

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ۔۔۔۔
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں  نے  مجھے

محمد حسن الیاس

محمد حسن الیاس علوم اسلامیہ کے ایک فاضل محقق ہیں۔انھوں نے درس نظامی کی روائتی تعلیم کے ساتھ جامعۃ المدینۃ العالمیۃ سے عربی ادب کی اختصاصی تعلیم حاصل کی۔معروف مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی کے شاگرد اور علمی معاون ہونے کے ساتھ ان کے ادارے میں تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہیں۔

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں