محترم جناب جوھر صاحب نے “کیا عقل عقلی ہے؟” کے موضوع پر ایک اہم تحریر لکھی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ عقل اس لئے عقلی نہیں ہے کہ یہ چند ایسے ماقبل وجودی مفروضات کو بس قبول کرلیتی ہے جنہیں اصول اول یا فرسٹ پرنسپلز (اور متکلمین کی اصطلاح میں بدیہیات یا اولیات عقلیات) کہتے ہیں اور یہ وجودی قضایا عقلی نہیں ہوتے۔ اس بنا پر آپ فرماتے ہیں:
“طبیعات اور حیاتیات میں عقل اپنے کام کے آغاز سے پہلے ہی مادے اور حیات کے origin کا سوال اٹھاتی ہے، اور یہ سوال ہرگز عقلی نہیں ہے، اور نہ اسے عقلی ذرائع سے عقل پورا کرسکتی ہے۔ اس سوال کا جواب ایک ایسا مفروضہ ہوتا ہے جس کو عقل بس مان لیتی ہے کیونکہ یہ اصول اول کا کام کرتا ہے جو علم کی تحدید قائم کرتا ہے اور علم کے مقاصد کو متعین کر دیتا ہے۔ یعنی علم کی گارگزاری میں عقل جس اصول سے اپنا کام شروع کرتی ہے علم اسی کی توثیق کا طریقۂ کار ہوتا ہے اور اس اولین قضیے کی تفصیل سے آگے سفر نہیں کر سکتا۔ اگر عقل اس امر کو اصول اول کے طور پر مان لے کہ ”کائنات ازخود وجود میں آئی ہے“ اور ”حیات ازخود وجود میں آئی ہے“ تو اس کی تمام عقلی تحقیقات کے بعد جو جواب سامنے آئے گا وہ بس یہی ہو گا کہ ”لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ کائنات ازخود وجود میں آئی ہے“ اور ”لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ حیات ازخود وجود میں آئی ہے“ حالانکہ اس میں ’ثابت‘ ہونے والی کوئی شے نہیں ہوتی۔”
عقل کے بارے میں اس موقف میں کچھ تنقیح کی ضرورت ہے۔ جب یہ کہا گیا کہ عقل بس چند قضایا کو ایمان کی طرح مان کر ان کی توثیق پر مامور ہوجاتی ہے تو یہاں عقل اور اولیات عقلیات کو ایک دوسرے سے الگ و ممیز فرض کرلیا گیا ہے: گویا “یہ عقل ہے” اور “یہ ضروری قضایا ہیں” اور اب عقل انہیں قبول کررہی ہے۔ متکلمین عقل پر ایسے بحث نہیں کرتے۔ مثلا امام غزالی احیاء العلوم و دیگر کتب میں بتاتے ہیں کہ عقل کا لفظ متعدد معانی میں استعمال ہوتا ہے، کبھی یہ اولیات عقلیات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کبھی تجرباتی معلومات کے، کبھی اس صلاحیت و ملکہ کے جس سے یہ معلومات حاصل ہوتی ہے اور کبھی مال کار کے لحاظ سے عاقبت اندیشانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کے۔ چنانچہ جسے اولیات عقلیات کو قبول کرنا کہتے ہیں یہ از خود عقلی ہونا ہے، یعنی یہ کسی دعوے کے عقلی ہونے کا پیمانہ ہے۔ جو شخص ان وجودی اولیات کو قبول نہ کرے وہ بے عقل ہے۔ عقل کے بارے میں محترم جوھر صاحب کی تحریر میں جس رائے کا اظہار کیا گیا ہے وہ اس لئے پیدا ہوئی ہے کیونکہ عقل کو اولیات عقلیات کے حاصلات کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
اس کے بعد ذھن میں سوال آتا ہے کہ ان اولیات کے عقلی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شے کے وجودی احکام تین ہی ہوسکتے ہیں: واجب، محال و ممکن۔ واجب وہ جس کا نہ ہونا ناممکن ہو، یعنی جو صرف ہوتا ہے۔ محال وہ جس کا ہونا ناممکن ہو، یعنی وہ وجود کو قبول نہیں کرتا (جیسے جمع بین النقیضین) اور ممکن وہ جو وجود اور عدم دونوں کو قبول کرے۔ اولیات عقلیات وہ وجودی قضایا ہیں جن کے برعکس حقیقت کا ہونا ہی محال ہے، یعنی “وہ صرف ہوتے ہیں”۔ پس ان اولیات عقلیات کے خلاف بات کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص ایسا دعوی کررہا ہے جو ناممکن ہے، یعنی وہ ایسی بات کے ہونے کا مدعی ہے جو ہو ہی نہیں سکتی اور اس لئے وہ غیر عقلی ہے۔ ان اولیات عقلیات میں سب سے پہلا قضیہ “میں ہوں” اور “شے یا ہوتی ہے اور یا نہیں ہوتی” کا وجودی قضیہ ہے نیز اسی پر یہ بدیہی وجودی قضیہ مبنی ہے کہ “وجود عدم سے نہیں ہوسکتا بلکہ وجود سے ہی ہوسکتا ہے” کیونکہ عدم تو نفی محض (نہ ہونا) ہے اور نہ ہونے سے ہونے کا کوئی مطلب نہیں۔ یہ وجودی حقیقت ہی جمع بین النقیضین کے محال ہونے کی بنیاد ہے کہ شے بیک وقت وجود و عدم نہیں ہوسکتی اور یہی پرنسپل آف کازیلٹی یا اصول علیت کی بنیاد ہے اور اسی لئے کہتے ہیں کہ اگر کائنات حادث (یعنی عدم سے وجود پزیر ہوئی) ہے تو لازما اس کا بنانے والا کوئی وجود ہے کہ کائنات موجود ہے۔ چنانچہ عقل مکابرہ کئے بغیر یہ مان ہی نہیں سکتی کہ حادث کائنات خود بخود وجود میں آگئی اس لئے کہ وہ اس غیر بدیہی بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ عدم سے از خود بھی وجود آسکتا ہے، ایسا کہنا یہ فرض کرلینا ہے کہ وجود ہی عدم اور عدم ہی وجود ہوسکتا ہے جبکہ یہ محال ہے۔ اسی بنا پر انسان جب حوادث کا مطالعہ کرتا ہے تو ان کی اوریجن کا سوال اٹھاتا ہے جیسا کہ طبعیات سمیت ہر تجرباتی علم کا حال ہے۔
پس جو شخص ان لازمی وجودی قضایا کا انکار کرتا ہے وہ دراصل بے عقلی کی بات کرتا ہے اور سفسفہ ذدہ لوگوں کی طرح خود اپنی ہی بات کی نفی کررہا ہوتا ہے۔ میری عقل میں پیوست یہ وجودی قضایا حقیقت کی ساخت کا مظہر ہیں، ایسی ساخت جس کا کچھ اور ہونا ممکن نہیں۔ اس لحاظ سے عقل آخری معنی میں اولیات عقلیہ کو قبول کرنے یعنی لازمی وجودی حقائق کے تابع ہونے اور اس کے ساتھ ھم آھنگ ہونے کا نام ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں۔ اسی لئے عقل کا ایک مطلب وجود و شعور میں ہم آھنگی ہے۔ عقل ان وجودی قضایا کو اس طرح قبول نہیں کرتی کہ وہ ان سے ماسوا بھی کوئی بامعنی کنٹنٹ لانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور پھر وہ ان متعدد بامعنی آپشنز میں سے ایک کو ایمان کی طرح قبول کرلیتی ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ یہ وجودی قضایا اس کا لازمی حال ہیں۔ اسی لئے متکلمین ان اولیات عقلیات کو علم ضروری بھی کہتے ہیں، یعنی حقیقت کا وہ ادراک جس کے سوا حقیقت ممکن نہیں اور اس کا ادراک اضطراری ہے کہ بس یہی ہوسکتا ہے۔
کمنت کیجے