یہ بالکل ویسا ہی سوال ہے کہ کیا انسان خود بھی ’انسانی‘ ہے؟ اور یہ سوال شعورِ شعور یا خود آگاہ انسانی شعور سے پیدا ہوتا ہے اور بالکل جائز سوال ہے۔ اگر آش وٹز پر جارجیو آگامبن کی تحریریں دیکھیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ احوالِ ہستی اور تاریخ انسانی میں ایسے اہوال سامنے آتے رہتے ہیں جن سے یہ فیصلہ کرنا قطعی مشکل نہیں ہوتا کہ انسان ’انسانی‘ نہیں رہا اور وہ اپنے انسان ہونے سے دستبردار ہو گیا ہے۔ اکثر اوقات فلسفیانہ مطالعہ مشکل ہوتا ہے تو یہ امر مشاہدے سے بھی قائم ہو جاتا ہے کہ انسان ’انسانی‘ نہیں رہا، اور اس کے لیے غزہ کی شہادت کافی ہے، اور یہ گواہی صرف عصراعیل تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں پورا مغرب بھی شامل ہے۔ جہاں چیزیں sublime اور diabolical کی حدود میں داخل ہو جائیں وہ عقلی اور انسانی نہیں رہتیں۔
عقل اپنی کلیت میں ’عقلی‘ نہیں ہے۔ عقل کچھ مقتضیات، ضروریات اور حاصلات سے عبارت ہے۔ عقل کے مقتضیات وجودی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی حیثیت اصولِ اول کی ہوتی ہے، اور وہ ہرگز، ہرگز عقلی نہیں ہوتے۔ مثلاً طبیعات اور حیاتیات میں عقل اپنے کام کے آغاز سے پہلے ہی مادے اور حیات کے origin کا سوال اٹھاتی ہے، اور یہ سوال ہرگز عقلی نہیں ہے، اور نہ اسے عقلی ذرائع سے عقل پورا کر سکتی ہے۔ اس سوال کا جواب ایک ایسا مفروضہ ہوتا ہے جس کو عقل بس مان لیتی ہے کیونکہ یہ اصول اول کا کام کرتا ہے جو علم کی تحدید قائم کرتا ہے اور علم کے مقاصد کو متعین کر دیتا ہے۔ یعنی علم کی گارگزاری میں عقل جس اصول سے اپنا کام شروع کرتی ہے علم اسی کی توثیق کا طریقۂ کار ہوتا ہے اور اس اولین قضیے کی تفصیل سے آگے سفر نہیں کر سکتا۔ اگر عقل اس امر کو اصول اول کے طور پر مان لے کہ ”کائنات ازخود وجود میں آئی ہے“ اور ”حیات ازخود وجود میں آئی ہے“ تو اس کی تمام عقلی تحقیقات کے بعد جو جواب سامنے آئے گا وہ بس یہی ہو گا کہ ”لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ کائنات ازخود وجود میں آئی ہے“ اور ”لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ حیات ازخود وجود میں آئی ہے“ حالانکہ اس میں ’ثابت‘ ہونے والی کوئی شے نہیں ہوتی۔ کسی چیز کے ’ثابت‘ ہونے کا التباس صرف مادی دائرے تک محدود ہوتا ہے جہاں مادیات اور مجردات کی باہمی نسبتوں کو نظراً اور فعلاً دکھایا جا سکتا ہے اور جسے عام زبان میں ’ثابت‘ کرنا کہتے ہیں۔
اصول اول عقل کی مقتضیات میں سے ہوتا ہے، اس کی نوعیت وجودی ہوتی ہے اور یہ ہمیشہ غیرعقلی ہوتا ہے یعنی عقل خود اس کے عقلی ہونے کا مطالبہ نہیں رکھتی۔ یہ عقل کا قیمتی ترین اثاثہ ہوتا ہے۔ اس کو مذہبی زبان میں ”ایمان“ کہا جا سکتا ہے، یعنی عقل کا وجودی موقف اس کے تمام علم کا محیط ہوتا ہے۔ عقل کا زائیدہ عقلی علم اس محیط سے باہر نہیں جا سکتا۔ عقل کی ضروریات میں ادراک ہے جو حسی اور فطری ہے، اور عقل اس ادراک میں زیادت کر کے اسے علم کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ”عقلی“ ہونے کی شرط صرف عقل کے حاصلات پر لگائی جا سکتی ہے جو ایک طریقۂ کار کے تحت مرتب ہوتے ہیں اور ان میں ایک نظام استدلال کام کر رہا ہوتا ہے۔ دنیا و کائنات میں عقل بہت بڑی چیز ہے لیکن یہ ہرگز ہرگز ہادی نہیں ہے بلکہ اصول اول کی سطح پر خود ہدایت کی محتاج ہے۔ عقل کو ہادی تسلیم کر لینا یا اس کی ناقدری کرنا دونوں ایک ہی طرح کے رویے ہیں۔ مغرب عقل کو ہادی تسلیم کر چکا ہے جبکہ مسلمان عقل دشمنی کو اپنا مایۂ علم سمجھتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جدید انسانیت کتنے بڑے بحران سے دوچار ہے۔
یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ عصر حاضر میں ہماری مذہبیت (religiosity) ہر طرح کے عقلی، اخلاقی، روحانی اور تہذیبی محتویٰ (content) سے خالی ہو چکی ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی دینی اور تہذیبی ذمہ داری کو پورا کرنے کی طرف دھیان کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمنت کیجے